یہاں اللہ کی پکڑ کو اس لئے شدید کہا گیا کہ اس زیر بحث واقعہ میں ان سرکشوں نے اہل ایمان کو جو سزا دی وہ ان کے خیال میں شدید سزا تھی۔ لوگوں کے خیال میں بھی شدید تھی لیکن یہاں کہا جاتا ہے کہ حقیقی پکڑ کر اللہ جبار وقہار کی پکڑ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے ، ان لوگوں کی سزا کیا سزا ہوگی جو زمین سے ایک ٹکڑے پر ایک محدود سا اقتدار رکھتے ہوں اور جو خود بھی ضعیف اور حقیر ہیں اور ان کا اقتدار بھی محدود وقت کے لئے ہے۔
یہ بات یہاں نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ قائل رب تعالیٰ اور مخاطب حضرت محمد ﷺ کے درمیان تعلق کے اظہار کے لئے (ربک) کا لفظ لایا گیا ہے۔ یہ تمہارا رب ہے جس کی ربوبیت کی طرف آپ کی نسبت ہے اور جس کی امداد اور نصرت پر آپ کو بھروسہ ہے۔ اور جب فساق وفجار اہل ایمان پر تشدد کررہے ہوں تو ایسے حالات میں اللہ کے ساتھ تعلق ہی اہم سازوسامان ہوتا ہے۔
آیت 12{ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔ } ”یقینا تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔“ اللہ تعالیٰ حلیم بھی ہے ‘ وہ انسان کو ڈھیل بھی دیتا ہے اور اس کی رسّی دراز بھی کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ذکر اگلی سورت میں آئے گا لیکن جب وہ کسی فرد یا قوم کی گرفت کرتا ہے تو اس کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے۔