جو کچھ اس زمین پر ہوا ، وہ یہاں ختم نہیں ہوجاتا کہ جو ہونا تھا بس ہوچکا اور اس کے آثار بھی یہاں ختم ہوگئے۔ اس کے آثار باقی ہوتے ہیں۔ ہر کام کی سزا اور جزاء ہوتی ہے جس کے واقع ہونے پر ہی واقعہ ختم ہوتا ہے۔ اس لئے ان سرکشوں نے اہل ایمان کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا نتیجہ ابھی نکلنے والا ہے۔ اور اللہ قیامت کے دن فیصلہ کرنے والا ہے۔
ان الذین ............................ والمومنت (10:85) ” جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم کیا “۔ اور وہ اپنی گمراہی میں آگے ہی بڑھتے رہے۔ ان کو کوئی شرمندگی لاحق نہ ہوئی۔
ثم لم ........................ الحریق (10:85) ” اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے یقینا ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے جلائے جانے کی سزا ہے “۔ یہاں قرآن کریم نے حریق ، جلانے کی صراحت کی ہے ، معنی تو وہی ہے جو عذاب جہنم کا ہے لیکن لفظ حریق کو اس لئے لایا گیا ہے تاکہ اصحاب الاخدود کو دیئے جانے والی سزا کے بالمقابل یہاں بھی جلنے کا لفظ آجائے کیونکہ اہل ایمان کی سزا کے لئے حریق کا لفظ استعمال ہوا تھا لیکن دنیا کے جلنے اور آخرت کے جلنے میں بڑا فرق ہے۔ دونوں کے جلنے کی شدت اور مدت دونوں میں فرق ہے۔ دنیا میں جلانے والی آگ کو انسان جلاتے ہیں ، جبکہ آخرت کی آگ کو اللہ نے تیار کیا ہے۔ دنیا کی آگ تو چند لمحات تک جلاتی ہے اور پھر ختم ہوجاتی ہے لیکن آخرت کی آگ میں تو لاانتہا زمانوں تک جلتے رہیں گے۔ دنیا کے جلنے میں اللہ کی رضا پنہاں ہے اور اعلیٰ قدروں کی فتح ہے لیکن جب وہ آخرت میں جلیں گے تو اللہ کے دائمی عذاب اور غضب میں ہوں گے اور پستی ، گراوٹ اور مذمت ان کے ساتھ لازم ہوگی۔
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے وہ جنت میں ہوں گے اور وہاں اللہ کے انعامات انہیں میسر ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہوگا۔
آیت 10{ اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا } ”یقینا جن لوگوں نے ظلم و ستم توڑا مومن مردوں اور مومن عورتوں پر پھر انہوں نے توبہ بھی نہیں کی“ اگر ان میں سے کسی نے مرنے سے پہلے توبہ کرلی اور ایمان لے آیا تو اس کا یہ جرم معاف ہوسکتا ہے۔ { فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ۔ } ”تو ان کے لیے ہوگا جہنم کا عذاب اور جلا ڈالنے والا عذاب۔“