سورۃ البیینہ: آیت 4 - وما تفرق الذين أوتوا الكتاب... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ البیینہ

وَمَا تَفَرَّقَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَةُ

اردو ترجمہ

پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی اُن میں تفرقہ برپا نہیں ہوا مگر اِس کے بعد کہ اُن کے پاس (راہ راست) کا بیان واضح آ چکا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama tafarraqa allatheena ootoo alkitaba illa min baAAdi ma jaathumu albayyinatu

آیت 4 کی تفسیر

پہلا اختلاف تو یہودیوں کے درمیان ہوا ، یہ اختلاف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے قبل ہوا۔ یہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور کئی فرقے اور پارٹیاں بن گئے۔ حالانکہ ان کا رسول (علیہ السلام) ایک تھا یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی کتاب بھی ایک تھی ۔ یعنی تورات۔ یہ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ مثلاً صدوتی ، فریسی ، آسین ، غالی اور سامری۔ ان فرقوں میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے عقائد ، خصائص اور اپنا اپنا رخ تھا اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعث ہوئی تو یہودی اور عیسائی تنازعہ شروع ہوگیا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انبیائے بنی اسرائیل میں سے آخری نبی تھے اور آپ نے تورات کی تصدیق فرمائی۔ یہودی اور مسیحی اختلافات اس قدر بڑھے کہ یہ دشمنی اور عداوت کی شکل اختیار کر گئے۔ اور دونوں فریقوں کے درمیان شدید نفرت پیدا ہوگئی اور اس کے نتیجے میں جو قل عام ہوتارہا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ ایسا قتل عام تھا کو جب انسان ان واقعات کو آج بھی پڑھتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

” چھٹی صدی کے آخر میں یہودیوں اور عیسائیوں کی باہمی رقابت اور منافرت اس حد کو پہنچ گئی تھی کہ ان میں سے کوئی دوسرے فریق کو ذلیل کرنے اور اس سے اپنی قوم کا انتقام لینے اور مفتوح کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتا تھا۔ 610 ء میں یہودیوں نے انطلاکیہ میں عیسائیوں کے خلاف بلوہ کیا ، شہنشاہ موت اس نے اس کی سرکوبی کے لئے مشہور فوجی افسر بنو سوس کو بھیجا۔ اس نے پوری پوری آبادی کا اس طرح خاتمہ کیا کہ ہزاروں کو تلوار سے ، سینکڑوں کو دریا میں غرق کرکے آگ میں جلا کر اور درندوں کے سامنے ڈال کر ہلا کردیا “۔ (دنیا اور مسلمانوں کے عروج وزوال کا ائر ، ص 47)

” مقریزی کی کتاب الخطط میں ہے ، فوق اس روم کے شہنشاہ کے زمانے میں ایران کے شہنشاں کسریٰ نے شام اور مصر پر فوج کشی کی۔ اس فوج نے بیت المقدس ، فلسطین اور شاک کے گرجاﺅں کو مسمار کیا اور شام کے تمام عیسائیوں کو قتل کردیا ۔ پھر وہ عیسائیوں کی تلاش میں مصر آیا ، جہاں اس کی فوج نے عیسائیوں کو بہت بڑی تعداد میں قتل کیا اور بےحد و حساب افراد کو قید کرلیا۔ عیسائیوں کے خلاف اس جنگ میں اور گرجاﺅں کو مسمار کرنے میں یہودیوں نے ایرانیوں کی مدد کی اور وہ طربیہ ، جبل ، الجلیل ، قریہ ، ناصرہ ، صور اور بلادقدس سے ایرانیوں کے پاس آئے اور انہوں نے عیسائیوں سے خوب انتقام لیا اور انہیں اذیت رسانی ، اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا۔ قدس میں ان کے دوگرجاﺅں کو مسمار کردیا اور تمام مکانات کو جلاکر خاکستر کردیا۔ مقدس عود صلیب کا ٹکڑا ساتھ لے گئے اور قدس کے پوپ اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو قید کرلیا “۔

یہی مصنف قدس مفتوح ہونے کا ذکر یوں کرتا ہے : ” اس اثنا میں یہودیوں نے صور کے شہر میں بغاوت کردی۔ انہوں نے اپنے نمائندوں کو دوسرے شہروں میں بھیجا۔ چناچہ یہودیوں نے عیسائیوں پر شدید حملہ کرنے اور انہیں قتل کر ڈالنے کے عہد وپیماں کیے۔ اس کے بعد دونوں فریقوں میں جنگ چھڑ گئی۔ یہودی بیس ہزار کی تعداد میں مجتمع ہوکر حملہ آور ہوئے اور انہوں نے صور کے باہر کے گرجاﺅں کو مسمار کردیا۔ اس پر عیسائیوں نے کثیر تعداد میں جمع ہوکر یہودیوں پر حملہ کیا۔ یہودیوں کو شکست فاش ہوئی اور ان کی بہت بڑی تعداد مقتول ہوئی۔ اس زمانے میں ہرقل قسطنطنیہ میں روم فرماں روا ہوا۔ اس نے ایک تدبیر سے جو اس نے شاہ ایران کے خلاف کی ایرانیوں کو شکست دے دی اور وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ اس فتح کے بعد ہرقل قسطنطنیہ سے روانہ ہوا تاکہ شام اور مصر کا نظم حکومت درست کرے۔ اور ایرانیوں نے جن مقامات کو تباہ وبرباد کیا ہے ، ان کی تعمیرنو کرے۔ یہودی طربیہ سے آکر ہر قل کے پاس حاضر ہوئے ، اس گراں قدر تحفے دیئے اور اس سے حلفیہ امان طلب کی ۔ ہر قل نے انہیں حلفیہ امان دے دی۔ اس کے بعد ہرقل بیت المقدس پہنچا۔ عیسائیوں نے انجیلوں ، صلیبوں ، بخور اور جلتی ہوئی مشعلوں سے اس کا استقبال کیا۔ ہرقل نے شہر اور اس کے گرجاﺅں کو برباد پایا ، جس سے اسے شدید صدمہ ہوا۔

عیسائیوں نے ہر قل کو بتایا کہ کس طرح یہودی ایرانیوں کے ساتھ مل کر عیسائیوں کے خلاف حملہ آور ہوئے۔ انہیں قتل کیا اور ان کے گرجاﺅں کو مسمار کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قتل و غارت گری میں وہ ایرانیوں سے بھی بدتر تھے اور انہوں نے عیسائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کمی نہ کی۔ عیسائیوں نے ہرقل کو ابھرا کہ وہ یہودیوں کو بیخ کنی کرے اور اس کے اچھے پہلو اس کے سامنے واضح کیے۔ ہرقل نے معذوری ظاہر کی اور کہا کہ وہ انہیں امان دے چکا ہے اور اس نے ان سے حلفیہ وعدہ کیا ہے۔ عیسائیوں کے پادریوں ، پوپوں اور مشائخ نے فتویٰ دیا کہ یہودیوں کو قتل کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ہر قل سے یہ امان دھوکہ دے کر حاصل کی ہے ، اس لئے کہ ہرقل کو یہ نہیں بتایا گیا کہ عیسائیوں پر کیا کیا مظالم ہوئے۔ انہوں نے کہا وہ ہر قل کے کفارے کے طور پر یہ سال ایک جمعہ کو روزہ رکھا کریں گے۔ یہ روزہ لازمی ہوگا۔ اور تمام عیسائیوں کو اس کا پابند بنائیں گے۔ تب ہر قل نے ان کی بات مان لی اور یہودیوں پر شدید حملہ کیا اور انہیں نیست ونابود کردیا۔ چناچہ مصر وشام کی رومی سلطنت میں کوئی یہودی زندہ نہ بچا۔ سوائے ان کے جو بھاگ کر کہیں چھپ گئے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں قومیں یہودونصاریٰ سنگدل ، انسانی خون بہانے کی ہوس اور دشمن کو تباہ کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اسی معاملے میں یہ کس حد پر جاکر نہیں رکتے “۔ ماذا حسر العالم استاد ندوی ص 9 تا 11، طبع اول)

اس کے بعد عیسائیوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونے شروع ہوگئے ، حالانکہ ان کی کتاب بھی ایک تھی ، نبی بھی ایک تھا ، سب سے پہلے ان کے اختلافات بنیادی عقائد میں پیدا ہوئے۔ اس کے بعد وہ فرقے فرقے بن گئے۔ یہ فرقے ایک دوسرے سے سخت نفرت کرتے ، ایک دوسرے کو سخت دشمن بن گئے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ذات اور ماہیت کے بارے میں اختلافات پیدا ہوئے کہ ان کی ماہیت لا ہوتی ہے یا ناسوتی۔ پھر ان کی ماں کی ماہیت کے بارے میں اختلافات رونما ہوئے۔ پھر ٹریینٹی یعنی تثلیث کے مسئلہ پر اختلافات ہوئے۔ ان کے خیال میں خدا تینوں کا ایک تھا۔ قرآن کریم نے ان کے ان عقائد کو نقل کرکے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ لوگ کافر ہوگئے ہیں۔

لقد کفر ............................ ابن مریم (72:5) ” یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تو یہی مسیح ابن مریم ہیں “۔

لقد کفر ............................ ثلثة (مائدہ :73) ’ دیقینا وہ لوگ کافر ہوئے جنہوں کہا کہ اللہ تین کا تیسرا ہے “۔

واذقال .................................... دون اللہ (مائدہ :116) ” اور اس بات کو یاد کرو جب اللہ قیامت کے دن عیسیٰ ابن مریم سے کہے گا ، کیا تم نے لوگوں سے کیا تھا کہ مجھے اور میری ماں اللہ کے سوا خدا بنالو “۔

ان اختلافات کے نتیجے میں وہ شدید ترین تنازعہ پیدا ہوا جو شام کے عیسائیوں اور روم اور مصر کے عیسائیوں کے درمیان پیدا ہوا۔ اس کا ایک فریق روم اور شام کے ملکانی عیسائی تھے اور دوسرا فریق مصر کا منوفنشی فرقہ تھا۔ ملکانی عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ حضرت مسیح کی فطرت کے جو اجزاء ہیں ایک ملکوتی اور دسرا ناسوتی جبکہ مصر کے منوفینشی عیسائی کہتے تھے کہ ان کی ایک ہی فطرت ہے جو اس طرح فنا ہوگئی جس طرح سر کے کا ایک قطرہ سمندر میں گر کر فنا ہوجاتا ہے۔ چھٹی اور ساتویں صدی میں یہ اختلاف ان دو فرقوں کے درمیان بہت شدت اختیار کر گیا “۔ اور یوں نظر آنے لگا کہ یہ دو فرقے نہیں بلکہ دو الگ الگ دین و مذہب ہیں۔ جس طرح یہودی اور عیسائی دو الگ الگ اہل مذہب ہیں اور ہر ایک دوسرے کے بارے میں یہ تصور کرتا ہے کہ اس کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں ہے “۔ (مسلمانوں کا عروج وزوال ، ابو الحسن علی ندوی)

” 628 ء میں ہرقل نے ایرانیوں پر فتح پائی ، اس کے بعد اس نے عیسائیوں کے باہم برسرپیکار اور متحارک مسلکوں کو جمع کرنے اور ان کے اندر موافقت اور مصالحت پیدا کرنے کی سعی کی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ لوگ حضرت مسیح کی فطرت کے موضوع پر بحث کرنے سے پرہیز کریں ، کہ ان کی فطرت ایک تھی یا دو تھیں۔ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ کا ارادہ اور فیصلہ ایک ہی ہے۔ 631 ء کے اوائل میں یہ بات طے ہوگئی کہ مینوتھیلین مذہب ہی حکومت اور کلیسا دونوں کا سرکاری مذہب ہوگا۔ ہر قل نے مختلف فرقوں کو ختم کرکے ایک مسلک پر ہونے کی سعی کی اور اس کے لئے ہر حربہ استعمال کیا ، مگر مصر کے قبطیوں نے اس بدعت اور تحریف سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور شدید مخالفت کی ، اور اپنے پرانے عقیدے کو جاری رکھنے کے لئے جان کی بازی لگادی۔ یہ لوگ اس کے دشمن ہوگئے۔ ہر قل نے دوبارہ مختلف فرقوں کو ایک کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ لوگ صرف اس پر متحد ہوجائیں کہ اللہ کا ارادہ ایک ہے۔ رہا یہ کہ اللہ کا ارادہ نافذ کس طرح ہوتا ہے۔ اس پر بحث نہ کی جائے۔ اس نے حکم دیا کہ اس موضوع پر کوئی مناظرہ نہ کیا جائے۔ ایک سرکاری پیغام مرتب کرکے مشرق کے اطراف واکناف میں پھیلایا۔ اس سے بھی مصر کا مذہبی طوفان نہ روک سکا۔ اس پر اسے غصہ آیا اور دس سال تک وہ مصر کے لوگوں پر شدید ترین ظلم اور ستم کرتارہا۔ اس نے جو مظالم کیے ان کی روئید اوپڑھ کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو اذیت ناک سزا دی جاتی ، پھر انہیں دریا میں غرق کردیا جتا۔ مشعل جلا کر ان کے جسموں پربچھائی جاتی۔ یہاں تک کہ بندن کی چربی پگھل کر زمین پر گرتی۔ ریت کے بوروں میں قیدیوں کو بند کرکے دریا برد کردیا جاتا اور اس طرح کی دوسری لرزہ خیز سزائیں دی جاتیں “۔ (ماذا اخسرالعالم ابوالحسن ندوی ، ص 3 تا 5)

اہل کتاب کے درمیان یہ اختلافات اور یہ عداوتیں اس کے بعد تھیں کہ ان کے پاس دلائل آچکے تھے۔

من بعد .................... البینة (4:98) لیکن یہ علم اور یہ دلائل ان کے لئے مفید نہ تھے ، خواہش نفس اور گمراہی ان کو حق سے دور کرتی چلی جارہی تھی۔ حالانکہ دین اپنی اصلی اور ابتدائی شکل میں بالکل واضح تھا اور دینی عقائد بالکل واضح اور صاف تھے۔

آیت 4{ وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَـیِّنَۃُ۔ } ”اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی انہوں نے تفرقہ نہیں کیا تھا مگر اس کے بعد جبکہ ان کے پاس البیِّنہ آچکی تھی۔“ یعنی اسی طرح اس سے پہلے بنی اسرائیل کے پاس بھی البیِّنہ اللہ کا رسول ﷺ اور اس کی کتاب آئی تھی ‘ مگر وہ لوگ اس کے بعد بھی راہ راست پر آنے کے بجائے تفرقہ بازی میں پڑگئے۔ ان میں سے کچھ لوگ یہودی بن گئے اور کچھ نصاریٰ۔ بعد میں نصاریٰ مزید کئی فرقوں میں بٹتے چلے گئے۔ چناچہ البَیِّنہ کے آجانے کے بعد بھی راہ راست پر نہ آنے کے جرم کی پاداش میں وہ لوگ شدید ترین سزا کے مستحق ہوچکے ہیں۔

آیت 4 - سورۃ البیینہ: (وما تفرق الذين أوتوا الكتاب إلا من بعد ما جاءتهم البينة...) - اردو