سورۃ البیینہ: آیت 3 - فيها كتب قيمة... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورۃ البیینہ

فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ

اردو ترجمہ

جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Feeha kutubun qayyimatun

آیت 3 کی تفسیر

فیھا کتب قیمة (3:98) ” جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں “۔ ” کتاب “ کا لفظ موضوع اور مضمون پر بھی بولا جاتا ہے۔ مثلاً کتاب الطہارہ ، کتاب الصلوٰة اور کتاب القدر ۔ کتاب القیامہ ، صحف مطہرہ سے مراد یہ قرآن ہے۔ جس میں راست اور درست کتابیں ہیں یعنی موضوعات ومسائل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رسالت اور یہ رسول نہایت وقت پر آئے۔ اور یہ صحیفے یہ سورتیں اور یہ موضوعات سخن اور مسائل آئے تاکہ زمین کے اندر ایسی انقلابی اصلاح کریں جس کے سوا اصلاح کی کوئی اور ٹورت ممکن ہی نہ تھی۔ اس دور میں دنیا کو اس رسول اور اس پیغام اور اس کتاب کی ضرورت کیونکر تھی ؟ اس کا جواب میں ایک عظیم اسلامی مفکر سید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ” انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر “ کے ایک اقتباس سے دوں گا۔ یہ اقتباس نہایت مختصر اور موضوع پر واضح ہے۔ وہ باب اول کے فصل اول میں لکھتے ہیں :

چھٹی صدی عیسوی بلااختلاف تاریخ انسانی کا تاریک ترین اور پست ترین دور تھا ، صدیوں سے انسانیت جس پستی اور نشیب کی طرف جارہی تھی ۔ وہ اپنے آخری نقطے تک پہنچ چکی تھی اور رﺅئے زمین پر اس وقت کوئی طاقت نہ تھی جو گرتی ہوئی انسانیت کا ہاتھ پکڑ سکے اور ہلاکت کے غار میں گرنے سے اسے روک سکے۔ انسانیت کی حالت یہ تھی کہ نشیب کی طرف جاتے ہوئے روز بروز اس کی رفتار تیز ہورہی تھی۔ انسان اس صدی میں خدا فراموش ہوکر ، کامل طور پر خود فراموش بن چکا تھا۔ وہ اپنے انجام سے بالکل بےفکر اور بیخبر اور برے بھلے کی تمیز سے قطعاً محروم ہوچکا تھا۔ پیغمبروں کی دعوت کی آواز ، عرصہ ہوا ، دب چکی تھی۔ جن چراغوں کو یہ حضرات روشن کرگئے تھے وہ ہواﺅں کے طوفان میں یا تو بجھ چکے تھے۔ یا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس طرح ٹمٹما رہے تھے جن سے چند خدا شناس دل ہی روشن تھے۔ جہ شہروں کو تو کیا روشن کرتے ، چند گھروں کو بھی پوری طرح روشن نہ کرسکتے تھے۔ دیندار اشخاص دین کی امانت کو اپنے سینے سے لگا کر زندگی کے میدان سے کنارہ کش ہوکر دیر وکلیسا اور صحراﺅں اور غاروں میں تنہائیاں اختیار کرچکے تھے اور زندگی کی کشمکش اس کے مطالبات ، اور اس کی خشک اور تلخ حقیقتوں سے دامن بچا کر دین وسیاست اور روحانیت اور مادیت کے معرکہ میں شکت کھا کر ، اپنے فرائض قیادت سے دسکش ہوگئے تھے اور جو زندگی کے اس طوفان میں رہ گئے تھے ، انہوں نے بادشاہوں اور اہل دنیا سے باز باز کرلی تھی ، اور ان کی ناجائز خواہشات اور ظالمانہ نظام سلطنت اور ظالمانہ نظام معیشت ان کے معاون ہوگئے تھے اور لوگوں کے مال کھانے اور ان کی قوت اور دولت سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں ان دنیا داروں کے شریک وسہیم ہوگئے تھے۔ “

” اس دور میں بڑے بڑے مذاہب بازیچہ اطفال بن گئے تھے اور منافقین کے لئے یہ مذاہب تختہ مشق بنے ہوئے تھے۔ ان مذاہب کی ظاہری صورت اور معنوی حقیقتوں کو اس حد تک مسخ کردیا گیا تھا کہ اگر ان کے بانیاں اور داعیان کے لئے اس صدی میں آممکن ہوتا اور دیکھ سکتے کہ ان کے مذاہب کا کیا حشر ہوا ہے تو وہ ہرگز ان مذاہب کو پہچان ہی نہ سکتے۔ تہذیب و تمدن کے گہواروں میں خوسری ، بےراہ روی اور اخلاقی گراوٹ پیدا ہوگئی تھی ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ تمام اقوام اپنے اندرونی اختلافات ومسائل میں الجھ کر رہ گئی تھیں۔ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے نہ ان کے پاس کوئی پیغام تھا اور نہ انسانیت کے لئے کوئی دعوت تھی۔ درحقیقت یہ اقوام اور مذاہب اندر سے پوری طرح کھوکھلے اور بودے ہوچکے تھے۔ ان کی زندگی کے سوتے خشک ہوچکتے تھے۔ ان کے پاس نہ دینی ہدایات اور تعلیمات تھیں اور نہ نظام حکومت کے لئے کوئی معقول اصول تھے “۔ (کتاب مذکور ، ص 38'37 وص 40'39)

یہ تیزرفتار جھلک ، بعثت محمدی سے قبل دنیا کے ادیان کی حالت کی نہایت ہی اچھی اور مختصر تصویر دکھاتی ہے۔ اہل کتاب اور مشرکین جن نکات کی وجہ سے کفر کی سرحدوں میں داخل ہوگئے تھے۔ قرآن کریم نے ان کی طرف بار بار اشارہ کیا ہے ، مثلاً یہودیوں اور نصاریٰ کے بارے میں قرآن نے یہ تصریح کی ہے۔

وقالت ............................ ابن اللہ (30:9) ” یہود نے کہا عزیز اللہ کا بیٹا ہے عیسائیوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے “۔ اور دوسرے مقام پر ہے۔

وقالت الیھود ............................ شی ئ (112:2) ” یہود نے کہا نصاریٰ کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے اور نصاریٰ نے کہا یہودیوں کی کوئی دینی بنیاد نہیں ہے “۔

اور یہودیوں کے بارے میں سورة مائدہ آیت 64 میں یہ ہے۔

وقالت ............................ یشائ (64:5) ” یہود کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، ان کے ہاتھ بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب ان پر لعنت ہو ، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ وہ خرچ کرتا ہے جس طرح چاہتا ہے “۔ اور مائدہ 72 میں ہے :

لقد کفر ........................ ابن مریم (72:5) ” یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہے “ اور

لقد کفر ................................ ثلثة (مائدہ :73) ” یقینا کافر ہوئے وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ تین کا تیسرا ہے “۔

اور مشرکین کے بارے سورة الکافرون میں ہے :

قل یایھا ................................ ولی دین (1:109 تا 6) ” کہہ دو اے کافرو ، میں ان کی عبادت نہیں کرتا ، جن کی عبادت تم کرتے ہو ، اور نہ تم عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ، اور نہ میں عبادت کرنے والا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو ، اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے “۔ یہ اور دوسری آیات جن میں مشرکین اور دوسرے کفار کی طرف اشارہ ہے۔

اور اس کفر کے نتیجے میں دنیا کے اطراف واکناف میں شروفساد اور تخریب وزوال عام تھا۔ مولانا ندوی کے الفاظ میں : ” خلاصہ یہ کہ ساتویں صدی عیسوی میں روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نظر نہ آئی تھی جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جاسکے اور نہ ایس کوئی سوسائٹی تھی جو شرافت اور اخلاق کی اعلیٰ قدروں کی حامل ہو ، نہ ایسی کوئی حکومت تھی جس کی بنیاد عدل اور انصاف اور رحم پر ہو ، اور نہ کوئی ایسی قیادت تھی جس کے پاس کوئی علم و حکمت ہو ، نہ دنیا میں کوئی ایسا دین تھا جسے صحیح دین انبیاء کہا جاسکتا ہو ، اور ان کی تعلیمات اور خصوصیات کا حامل ہو “۔

یہ وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ایک ایسا رسول بھیجے ، جو پاکیزہ صحیفے پڑھے ، جن کے اندر نہایت ہی راست اور درست تعلیمات ہوں۔ حقیقت یہ کہ مشرکین اور اہل کتاب کے کفار ، ایک ایسی نئی رسالت اور ایسے دن کے سوا کسی صورت میں بھی اس شروفساد اور اس زوال وگراوٹ سے نکل نہ سکتے تھے۔

یہاں قرآن مجید اس بات کی وضاحت کردیتا ہے کہ اہل کتاب نے جو انحراف کی راہ لی یا باہم اختلافات کیے تو یہ جہالت کی وجہ سے نہ تھے۔ یا اس وجہ سے نہ تھے کہ دین سماوی کی تعلیمات میں کچھ پیچیدگی یا اجمالی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحیح علم ان کے پاس آچکا تھا ، حق کے دلائل ان کے پاس موجود تھے اور اس کے باوجود انہوں نے باہم اختلاف کیا :

آیت 3{ فِیْہَا کُتُبٌ قَـیِّمَۃٌ۔ } ”ان میں بڑے مضبوط احکام تحریر ہیں۔“ لفظ ”کتاب“ کے بارے میں قبل ازیں بھی متعدد بار واضح کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ عام طور پر احکامِ شریعت کے لیے آتا ہے۔ تو پتا چلا کہ اللہ کے رسول ﷺ اور اللہ کی کتاب کا اکٹھا نام البیِّنہ ہے۔ یہ وہی بات ہے جو قبل ازیں ہم لفظ ”ذِکْرًا“ کے حوالے سے سورة الطلاق میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ وہاں اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے : { قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَـیْکُمْ ذِکْرًا - رَّسُوْلًا یَّـتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُـبَـیِّنٰتٍ …} ”اللہ نے تمہاری طرف ذکر نازل کردیا ہے۔ ایک رسول ﷺ جو اللہ کی آیات بینات تم لوگوں کو پڑھ کر سنا رہاہے…“ گویا تعبیر اور تعریف definition کے اعتبار سے اَلْبَـیِّنَہ اور ذِکْرًا ہم معنی اصطلاحات ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے واضح احکام کتاب کی صورت میں نازل کیے اور اس کتاب کی تفہیم وتعلیم کے لیے رسول ﷺ کو بھی مبعوث فرمایا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے وہ تمام احکام اس انداز میں کھول کر بیان فرما دیے کہ اب اس کے بعد ان مخاطبین کے پاس کفر و شرک کے ساتھ چمٹے رہنے اور ضلالت و گمراہی سے باز نہ آنے کا کوئی جو ازباقی نہیں رہا۔

آیت 3 - سورۃ البیینہ: (فيها كتب قيمة...) - اردو