سورۃ البیینہ: آیت 1 - لم يكن الذين كفروا من... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ البیینہ

لَمْ يَكُنِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ وَٱلْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ ٱلْبَيِّنَةُ

اردو ترجمہ

اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے (وہ اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس دلیل روشن نہ آ جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lam yakuni allatheena kafaroo min ahli alkitabi waalmushrikeena munfakkeena hatta tatiyahumu albayyinatu

آیت 1 کی تفسیر

حقیقت یہ ہے کہ زمین کو ایک جدید رسالت کی ضرورت تھی۔ اس زمین میں ہر طرف شروفساد وعام ہوگیا تھا اور مذاہب عالم کا حال تھا کہ ان کی اصلاح ممکن ہی نہ رہی تھی۔ ایک جدید دین اور جدید رسالت کی ضرورت تھی۔ ایک نئی تحریک اور نئے نظام کی ضرورت تھی۔ اہل زمین کے عقائد ونظریات میں کفر سرایت کرچکا تھا ، چاہے وہ اہل کتاب ہوں جن کو صحیح سماوی دین دیئے گئے تھے مگر انہوں نے جاننے کے بعد انہیں بھلادیا تھا اور دین میں مکمل تحریف کردی تھی ، چاہے وہ جزیرة العرب کے مشرک ہوں اور اس سے باہر کے مشرک ہوں۔ دونوں کفر کی حالت میں داخل ہوگئے تھے۔

یہ کفر اور تحریف کے جس مقام پر پہنچ چکے تھے ، وہاں سے ان کی واپس ممکن نہ تھی ، ان کی اصلاح صرف ایک جدید دین ہی کے ذریعہ ہوسکتی تھی ، صرف ایک ایسے رسول کے ذریعہ جو بذات خود ایک بین دلیل ہو ، اور اس کے پاس اپنی کتاب ہو جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہو۔

آیت 1{ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ۔ } ”نہیں تھے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اہل کتاب میں سے اور مشرکین میں سے الگ ہونے والے یا باز آنے والے جب تک کہ ان کے پاس البیّنہنہ آجاتی۔“ ظاہر ہے وہ لوگ سیدھے راستے سے بھٹک کر گمراہی میں مبتلا ہوچکے تھے۔ اب جب تک ان کے سامنے کوئی بین واضح دلیل نہ آجاتی جس سے انہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ گمراہ ہیں یا انہیں بہت واضح انداز میں بتا نہ دیا جاتا کہ وہ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ راہ ہدایت نہیں ‘ اس وقت تک انہیں رشد و ہدایت کی راہ پر چلنے والوں سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کا مفہوم یوں بھی ہوسکتا ہے کہ جب تک ان لوگوں کے پاس البینہ نہ آجاتی وہ اپنے کفر سے باز آنے والے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔ مُنْفَکِّیْنَ : اِنْفِکاک فَکَّسے باب اِنْفعال سے ہے ‘ جس کا مفہوم ہے کسی چیز کا کسی چیز سے الگ ہوجانا ‘ جدا ہوجانا۔ وہ البیِّنہ کیا ہے ؟ اس کی وضاحت اگلی آیات میں کی جا رہی ہے :

پاک و شفاف اوراق کی زینت قرآن حکیم :اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور مشرکین سے مراد بت پوجنے والے عرب اور آتش پرست عجمی ہیں فرماتا ہے کہ یہ لوگ بغیر دلیل حاصل کیے باز رہنے والے نہ تھے پھر بتایا کہ وہ دلیل اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ جو پاک صحیفے یعنی قرآن کریم پڑھ سناتے ہیں جو اعلیٰ فرشتوں نے پاک اوراق میں لکھا ہوا ہے جیسے اور جگہ ہے فی صحف مکرمتہ، الخ کہ وہ نامی گرامی بلندو بالا پاک صاف اوراق میں پاک باز نیکو کار بزرگ فرشتوں کے ہاتھوں لکھے ہوئے ہیں پھر فرمایا کہ ان پاک صحیفوں میں اللہ کی لکھی ہوئی باتیں عدل و استقامت والی موجود ہیں جن کے اللہ کی جانب سے ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں نہ ان میں کوئی خطا اور غلطی ہوئی ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ وہ رسول ﷺ عمدگی کے ساتھ قرآنی وعظ کہتے ہیں اور اس کی اچھی تعریفیں بیان کرتے ہیں ابن زید فرماتے ہیں ان صحیفوں میں کتابیں ہیں استقامت اور عدل و انصاف والی پھر فرمایا کہ اگلی کتابوں والے اللہ کی حجتیں قائم ہو چکنے اور دلیلیں پانے کے بعد اللہ کے کلام کے مطالب میں اختالف کرنے لگے اور جدا جدا راہوں میں بٹ گئے جیسے کہ اس حدیث میں ہے جو مختلف طریقوں سے مروی ہے کہ یہودیوں کے اکہتر فرقے ہوگئے اور نصرانیوں کے بہتر اور اس امت کے تہتر فرقے ہوجائیں گے سو ایک کے سب جہنم میں جائیں گے لوگوں نے پوچھا وہ ایک کون ہے فرمایا وہ جو اس پر ہو جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں پھر فرمایا کہ انہیں صرف اتنا ہی حکم تھا کہ خلوص اور اخلاص کے ساتھ صرف اپنے سچے معبود کی عبادت میں لگے رہیں جیسے اور جگہ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25؀) 21۔ الأنبیاء :25) ، یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے جتنے رسول بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو اسی لیے ہاں بھی فرمایا کہ یکسو ہو کر یعنی شرک سے دور اور توحید میں مشغول ہو کر جیسے اور جگہ ہے (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ 36؀) 16۔ النحل :36) ، یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے بچو حنیف کی پوری تفسیر سورة انعام میں گذر چکی ہے جسے لوٹانے کی اب ضرورت نہیں۔ پھر فرمایا نمازوں کو قائم کریں جو کہ بدن کی تمام عبادتوں میں سب سے اعلی عبادت ہے اور زکوٰۃ دیتے رہیں یعنی فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ سلوک کرتے رہیں یہی دین مضبوط سیدھا درست عدل والا اور عمدگی والا ہوے بہت سے ائمہ کرام نے جیسے امام زہری، امام شافعی، وغیرہ نے اس آیت سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں کیونکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی خلوص اور یکسوئی کے ساتھ کی عبادت اور نماز و زکوٰۃ کو دین فرمایا گیا ہے۔

آیت 1 - سورۃ البیینہ: (لم يكن الذين كفروا من أهل الكتاب والمشركين منفكين حتى تأتيهم البينة...) - اردو