سورۃ البقرہ: آیت 45 - واستعينوا بالصبر والصلاة ۚ وإنها... - اردو

آیت 45 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَٱسْتَعِينُوا۟ بِٱلصَّبْرِ وَٱلصَّلَوٰةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلْخَٰشِعِينَ

اردو ترجمہ

صبر اور نماز سے مدد لو، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaistaAAeenoo bialssabri waalssalati wainnaha lakabeeratun illa AAala alkhashiAAeena

آیت 45 کی تفسیر

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ (45) الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

بیشک نماز اور صبر سے مدد لو ، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے ، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لئے مشکل نہیں ہے ، جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ “

میں سمجھا ہوں کہ انہا کی ضمیر شان ہے (یعنی کسی فرد کی طرف اشارہ نہیں بلکہ صورت حال کی طرف اشارہ ہے) یعنی صورت حال یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو اعتراف حق کی دعوت دینا ، جب کہ اس کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی ہوں ، بڑامشکل اور جاں گسل کام ہے ، یہ صرف ان بزرگوں کے لئے آسان ہے جو اپنے دلوں میں اللہ کی خشیت رکھتے ہوں اور اس کے مطیع فرمان ہو۔ جنہیں اللہ کی خشیت اور اس کے تقویٰ کا اچھی طرح شعور ہو ، اور جنہیں پورا یقین ہو کہ انہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ صبر وثبات سے مددلینے کی اشد ضرورت انسان کو بار بار پیش آتی ہے ۔ یہ ہر مصیبت اور مشقت کا درماں ہے ۔ یہ ہر مشکل کا حل ہے اور انسان کے لئے مشکل ترین کام یہ ہے کہ قیادت اور سیاست کے منصب سے نیچے اترآئے ، حق وسچائی کی خاطر اپنے مفادات اور کسب وکمائی پر لات ماردے اور سب چیزوں سے بےنیاز ہوکر حق کا اعتراف کرے اور اس کے تابع ہوجائے ۔

سوال یہ ہے کہ انسان اس کام میں نماز سے کس طرح مددلے ؟

نماز درحقیقت بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک خاص ملاقات ہے ۔ اس سے دل غذا لیتا ہے اور روح ایک خاص تعلق کا احساس کرتی ہے ۔ اس کے اندر نفس انسانی کے لئے وہ سروسامان ہے ، جو دنیا کے تمام مال ومتاع سے زیادہ قیمتی ہے ۔ نبی ﷺ کی حالت یہ تھی کہ جب کوئی معاملہ انہیں پریشان کرتا تو آپ نماز کی طرف لپکتے تھے ، حالانکہ آپ ﷺ کا حال یہ تھا اپنے رب سے ، آپ ﷺ ہر وقت جڑے رہتے تھے ، آپ کی روح ہر وقت وحی اور الہام سے مربوط تھی ۔ سرچشمہ خیر و برکت اب بھی ہر مومن کی دسترس میں ہے ، جسے زاد راہ کی طلب ہو ، جو سخت گرمی میں شراب بارد کا خواہاں ہو ، جو ایسے حال میں مدد کا طلب گار ہو ، جب ہر قسم کی مدد منقطع ہوگئی ہو اسے زاد راہ کی ضرورت ایسے حال میں پیش آئے جبکہ اس کا توشہ دان خالی ہو۔

اللہ کی طرف پلٹ کر جانے کا یقین (قرآن کریم میں بارہا ظن اور اس کے مشتقات یقین کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ نیز عربی زبان میں بھی علم العموم ظن کا استعمال یقین میں ہوتا ہے) اور ہر معاملے میں پلٹ کر اس کی طرف جانے کا یقین ہی انسان کے اندر صبرواستقلال پیدا کرتا ہے ۔ تقویٰ اور بھلائی کی حس اسی پر موقوف ہے ۔ دنیاوی اقدار اور اخروی اقتدار کے درمیان صحیح توازن اسی یقین کا مرہون منت ہے ۔ ان اقدار کا توازن جب درست ہوجاتا ہے ۔ ترازو کی ڈنڈی جب سیدھی ہوجاتی ہے تو پھر انسان کو یہ تمام دنیا ، متاع قلیل اور ایک حقیر چیزنظر آتی ہے ۔ تب جاکر آخرت صحیح نظر آتی ہے اور پھر کوئی عقلمند آدمی اسے ترجیح دینے اور اختیار کرنے میں ایک لمحہ بھر تردد نہیں کرتا۔

جب انسان اس نہج پر قرآن کریم میں غوروفکر کرتا ہے تو یہ ہدایات جو ابتدا میں بنی اسرائیل کو دی گئی تھیں ، سب کے لئے دائمی ہدایات بن جاتی ہیں ۔

چناچہ بنی اسرائیل کو دوبارہ پکارتے ہوئے ، دوبارہ انہیں اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے اور آنے والی تفصیلات سے پہلے ، اجمالاً انہیں آنے والی گھڑی سے ڈرتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ انہیں اس طرح خطاب کرتے ہیں ۔

آیت 45 وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط“ یہاں پر صبر کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ علماء سوء کیوں وجود میں آتے ہیں ؟ جب وہ صبر اور قناعت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں تو حب مال ان کے دل میں گھر کرلیتی ہے اور وہ دنیا کے کتے بن جاتے ہیں۔ پھر وہ دین کو بدنام کرنے والے ہوتے ہیں۔ بظاہر دینی مراسم کے پابند نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان کے پردے میں دنیاداری کا معاملہ ہوتا ہے۔ چناچہ انہیں صبر کی تاکید کی جا رہی ہے۔ سورة المائدۃ میں یہود کے علماء و مشائخ پر بایں الفاظ تنقید کی گئی ہے : لَوْلاَ یَنْہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَ ط المائدۃ : 63 ”کیوں نہیں روکتے انہیں ان کے علماء اور صوفیاء جھوٹ بولنے سے اور حرام کھانے سے ؟“ اگر کوئی عالم یا پیر اپنے ارادت مندوں کو ان چیزوں سے روکے گا تو پھر اس کو نذرانے تو نہیں ملیں گے ‘ اس کی خدمتیں تو نہیں ہوں گی۔ چناچہ اگر تو دنیا میں صبر اختیار کرنا ہے ‘ تب تو آپ حق بات کہہ سکتے ہیں ‘ اور اگر دنیوی خواہشات ambitions مقدم ہیں تو پھر آپ کو کہیں نہ کہیں سمجھوتا compromise کرنا پڑے گا۔ صبر کے ساتھ جس دوسری شے کی تاکید کی گئی وہ نماز ہے۔ علماء یہود وضوح حق کے باوجود جو محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لاتے تھے اس کی بڑی وجہ حب مال اور حب جاہ تھی۔ یہاں دونوں کا علاج بتادیا گیا کہ حب مال کا مداوا صبر سے ہوگا ‘ جبکہ نماز سے عبودیت و تذلل پیدا ہوگا اور حب جاہ کا خاتمہ ہوگا۔ّ َ وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ ”عام طور پر یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اِنَّہَا کی ضمیر صرف صلوٰۃ کے لیے ہے۔ یعنی نماز بہت بھاری اور مشکل کام ہے۔ لیکن ایک رائے یہ ہے کہ یہ درحقیقت اس پورے طرز عمل کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کے شدائد اور ابتلاء ات کا مقابلہ صبر اور نماز کی مدد سے کیا جائے۔ مطلوب طرز عمل یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے متعلقات میں کم سے کم پر قانع ہوجاؤ اور حق کا بول بالا کرنے کے لیے میدان میں آجاؤ۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز کو اپنے معمولات حیات کا محور بناؤ ‘ جو کہ عماد الدّین ہے۔ فرمایا کہ یہ روش یقیناً بہت بھاری ہے ‘ اور نماز بھی بہت بھاری ہے۔ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ”“ ان خشوع رکھنے والوں پر ‘ ان ڈرنے والوں پر یہ روش بھاری نہیں ہے جن کے دل اللہ کے آگے جھک گئے ہیں۔

صبر کا مفہوم اس آیت میں حکم فرمایا جاتا ہے کہ تم دنیا اور آخرت کے کاموں پر نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کیا کرو، فرائض بجا لاؤ اور نماز کو ادا کرتے رہو روزہ رکھنا بھی صبر کرنا ہے اور اسی لئے رمضان کا صبر کا مہینہ کہا گیا ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں روزہ آدھا صبر ہے صبر سے مراد گناہوں سے رک جانا بھی ہے۔ اس آیت میں اگر صبر سے یہ مراد لی جائے تو برائیوں سے رکنا اور نیکیاں کرنا دونوں کا بیان ہوگیا، نیکیوں میں سب سے اعلیٰ چیز نماز ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں صبر کی دو قسمیں ہیں مصیبت کے وقت صبر اور گناہوں کے ارتکاب سے صبر اور یہ صبر پہلے سے زیادہ اچھا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں انسان کا ہر چیز کا اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا۔ ثواب کا طلب کرنا اللہ کے پاس مصیبتوں کے اجر کا ذخیرہ سمجھنا یہ صبر ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کام پر صبر کرو اور اسے بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سمجھو نیکیوں کے کاموں پر نماز سے بڑی مدد ملتی ہے خود قرآن میں ہے آیت (الصَّلٰوةَ ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۭ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ) 29۔ العنکبوت :45)۔ نماز کو قائم رکھ یہ تمام برائیوں اور بدیوں سے روکنے والی ہے اور یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ نماز پڑھا کرتے فوراً نماز میں لگ جاتے۔ چناچہ جنگ خندق کے موقع پر رات کے وقت جب حضرت حذیفہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں، تو آپ ﷺ کو نماز میں پاتے ہیں۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کی رات میں نے دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے مگر اللہ کے رسول (اللھم صلی وسلم علیہ) ساری رات نماز میں مشغول رہے صبح تک نماز میں اور دعا میں لگے رہے۔ ابن جریر میں ہے نبی ﷺ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو دیکھا کہ بھوک کے مارے پیٹ کے درد سے بیتاب ہو رہے ہیں آپ نے ان سے (فارسی زبان میں) دریافت فرمایا کہ درد شکم داری ؟ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اٹھو نماز شروع کردو اس میں شفا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو سفر میں اپنے بھائی حضرت قثم کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو آپ آیت (انا للہ) الخ پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہٹ کر اونٹ بٹھا کر نماز شروع کردیتے ہیں اور بہت لمبی نماز ادا کرتے ہیں پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہیں اور اس آیت کو پڑھتے ہیں غرض ان دونوں چیزوں صبرو صلوٰت سے اللہ کی رحمت میسر آتی ہے ان کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے تو صلوٰۃ یعنی نماز کو کہا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مدلول کلام یعنی وصیت اس کا مرجع ہے جیسے قارون کے قصہ میں ولا یلقاھا کی ضمیر اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے کے حکم میں وما یلقھا کی ضمیر۔ مطلب یہ ہے کہ صبرو صلوٰۃ ہر شخص کے بس کی چیز نہیں یہ حصہ اللہ کا خوف رکھنے والی جماعت کا ہے یعنی قرآن کے ماننے والے سچے مومن کانپنے والے متواضع اطاعت کی طرف جھکنے والے وعدے وعید کو سچا ماننے والے ہیں اس وصف سے موصوف ہوتے ہیں جیسے حدیث میں ایک سائل کے سوال پر حضور ﷺ نے فرمایا تھا یہ بری چیز ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہو اس پر آسان ہے، ابن جریرنے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے اسے بھی یہودیوں سے ہی خطاب قرار دیا ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ گو یہ بیان انہی کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے۔ واللہ اعلم۔ آگے چل کر خاشعین کی صفت ہے اس میں ظن معنی میں یقین کے ہے گو ظن شک کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کہ سدفہ اتدھیرے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روشنی کے معنی میں بھی اور صارخ کا لفظ بھی فریاد رس اور فریاد کن دونوں کے لئے بولا جاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے نام ہیں جو ایسی دو مختلف چیزوں پر بولے جاتے ہیں۔ ظن یقین کے معنی میں عرب شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے خود قرآن کریم میں آیت (وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا) 18۔ الکہف :53) یعنی گنہگار جہنم کو دیکھ کر یقین کرلیں گے کہ اب ہم اس میں جھونک دئیے جائیں گے یہاں بھی ظن یقین کے معنی میں ہے بلکہ حضرت مجاہد فرماتے ہیں قرآن میں ایسی جگہ ظن کا لفظ یقین اور علم کے معنی میں ہے ابو العالیہ بھی یہاں ظن کے معنی یقین کرتے ہیں۔ حضرت مجاہد، سدی ربیع بن انس اور قتادہ کا بھی یہی قول ہے۔ ابن جریج بھی یہی فرماتے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ ہے آیت (اِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ) 69۔ الحاقہ :20) یعنی مجھے یقین تھا کہ مجھے حساب سے دو چار ہونا ہے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک گنہگار بندے سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دئیے تھے ؟ کیا تجھ پر طرح طرح کے اکرام نہیں کئے تھے ؟ کیا تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے ؟ کیا تجھے راحت و آرام کھانا پینا میں نے نہیں دیا تھا ؟ یہ کہے گا ہاں پروردگار یہ سب کچھ دیا تھا۔ پھر کیا تیرا علم و یقین اس بات پر نہ تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ اسے نہیں مانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بس تو جس طرح مجھے بھول گیا تھا آج میں بھی تجھے بھلا دوں گا اس حدیث میں بھی لفظ ظن کا ہے اور معنی میں یقین کے ہیں اس کی مزید تحقیق و تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آیت (نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰـىهُمْ اَنْفُسَهُمْ) 59۔ الحشر :19) کی تفسیر میں آگے آئے گی۔

آیت 45 - سورۃ البقرہ: (واستعينوا بالصبر والصلاة ۚ وإنها لكبيرة إلا على الخاشعين...) - اردو