سورۃ البقرہ: آیت 44 - ۞ أتأمرون الناس بالبر وتنسون... - اردو

آیت 44 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

۞ أَتَأْمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ ٱلْكِتَٰبَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

اردو ترجمہ

تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Atamuroona alnnasa bialbirri watansawna anfusakum waantum tatloona alkitaba afala taAAqiloona

آیت 44 کی تفسیر

“ اس کے بعد یہودیوں کو عموماً اور ان کے مذہبی پیشواؤں کو خصوصاً اس بات کی تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ مشرکین اہل عرب میں اپنے آپ کو ایمان کا داعی کہتے ہیں اور اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے وہ ایسے ہیں بھی ، اس لئے کہ وہ مشرکین کے مقابلے میں اہل توحید ہیں ، لیکن اس کے باوجود ، خود اپنی قوم کو ، اللہ کے اس دین پر ایمان لانے سے روکتے ہو ، جو تمام سابق ادیان کی تصدیق کرتا ہے۔ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلا تَعْقِلُونَ تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو ، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ۔ “ اگرچہ ابتداء میں یہ آیت اس وقت بنی اسرائیل کے اندر موجود کمزوریوں کی عکاسی کررہی ہے ، تاہم یہ نفس انسانی اور بالخصوص ہر مذہب وملت کے دینی پیشواؤں کے لئے سرمہ بصیرت ہے ۔ کسی قوم اور ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ نہ کسی خاص فعل اور زمانے تک محدود ہے ۔

جب کوئی دین ایک زندہ اور موجزن نظریہ حیات کے بجائے محض ایک پیشہ اور کاروبار بن جاتا ہے تو دین کے پیشواؤں کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی زبانوں سے جو

کچھ کہتے ہیں ، وہ ان کے دل میں نہیں ہوتا ! وہ بھلائی کا وعظ کرتے ہیں اور خود کار دیگر میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ لوگوں کو بر اور تقویٰ کی دعوت دیتے ہیں ، لیکن بر وتقویٰ جس چیز کا نام ہے ، وہ خود انہیں چھوکر بھی نہیں گزری ہوتی۔ وہ سیدھی بات کو غلط معنی پہناکر بتنگڑ بناتے ہیں ، نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے قطعی نصوص میں تاویلات کرتے ہیں ۔ وہ ایسی ایسی حسین تاویلات اور ایسے ایسے مدلل فتوے میدان میں لاڈالتے ہیں جو بظاہر آیات ونصوص کے ظاہر مفہوم سے بالکل موافق ہوتے ہیں لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے دین کی حقیقت اور اصلیت سے کوسوں دور ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ یہ لوگ اپنے مفادات اور دلی خواہشات کے لئے کرتے ہیں اور ان لوگوں کی خاطر جو یا تو مالدار ہوتے ہیں یا اہل اقتدار ۔ یہودیوں کے مذہبی پیشوا یہی کام کرتے تھے ۔

لوگوں کو بھلائی کی طرف دعوت دینا ، اور پھر اپنی عملی زندگی میں خود ، اس کے خلاف چلنا ، ایک ایسا مرض ہے اور ایک ایسی وبا ہے جو نہ صرف یہ کہ خود داعیوں کے دلوں میں شبہات وشکوک پیدا کردیتی ہے ، بلکہ دعوت بھی اس سے مشکوک ہوجاتی ہے ۔ قول وفعل کے اس تضاد کی وجہ سے لوگوں کے دلوں اور ان کے افکار میں انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ لوگ کانوں سے تو بہترین بات سنتے ہیں لیکن آنکھوں سے قبیح ترین افعال دیکھتے ہیں ۔ قول وفعل کا یہ تضاد دیکھ کر وہ بےچارے حیران رہ جاتے ہیں ۔ ان کے ایمان نے یہ دعوت ووعظ سن کر جو دیا ان کی روحانی دنیا میں روشن کیا تھا ، وہ بجھ جاتا ہے ، دلوں سے ایمان کی روشنی ختم ہوجاتی ہے اور جب انہیں مذہبی پیشواؤں میں سے کوئی عقیدت نہیں رہتی ، تو اس کے نتیجہ میں پھر خود دین سے ان کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔

داعی بےعمل کی بات بےجان ہوتی ہے ۔ یہ ایک ایسی چنگاری ہوتی ہے جو دوسروں تک پہنچتے پہنچتے بجھ جاتی ہے ۔ ایسے داعیوں کی بات بےاثر ہوتی ہے ۔ اگرچہ وہ بات مقفع ومسجع ، چکنی چپڑی اور جوش و خروش سے پر ہو ، کیونکہ یہ بات ایسے دل سے نکلی ہی نہیں جو اس پر یقین رکھتا ہو۔ اثر تو اسی بات میں ہوتا ہے جو دل سے نکلتی ہے ۔ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔ ایک داعی اپنی بات کا صحیح مومن اسیوقت ہوسکتا ہے ، جب وہ اپنے کردار کے اعتبار سے اس بات کی تفسیر اور ترجمہ ہو ، جو دعوت وہ دے رہا ہے ، وہ خود اس کی زندگی کی صورت میں عملاً مجسم ہو۔ جب کوئی انسان اس معیار تک پہنچ جاتا ہے ، تو پھر لوگ اس پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس پر یقین کرتے ہیں ۔ اگرچہ اس کی باتیں چکنی چپڑی نہ ہوں اور اس کی تقریر ، دھواں دھار نہ ہو کیونکہ اس صورت میں اس بات کے اندر اس کی چرب لسانی سے نہیں بلکہ اس کی واقعیت اور حقیقت پسندی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس وقت کلام کی صداقت ہی اس کا حسن ہوتا ہے ۔ چرب لسانی سے زور کلام پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود قول وفعل میں تطابق ، ایمان وعمل کے درمیان ہم آہنگی کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہ کوئی آسان طریقہ نہیں ہے جسے بسہولت اختیار کرلیا جائے ۔ اسے حاصل کرنے کے لئے سخت ریاضت اور جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے تعلق باللہ ، اللہ کی اعانت وتوفیق اور اس کی ہدایت سے مدد لینے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ عملی زندگی کے مختلف احوال ، اس کی ضرورت اور اس کی مجبوریاں ، انسان کو اپنے دلی معتقدات سے یا ان باتوں سے جن کی طرف اسے دوسرے لوگ بلا رہے ہوتے ہیں ، دور پھینک دیتی ہیں یہ انسان ، خواہ کسی عظیم قوت کا مالک کیوں نہ ہو ، جب تک مالک الملک اور قادر مطلق ہستی کا دامن نہیں تھامے گا ، کمزور اور ناتواں ہی رہے گا ، کیونکہ شر ، فساد اور انسان کے لئے گمراہ کن شیطانی قوتیں ہر طرف جال بچھائے ہوئے ہیں ۔ اگرچہ انسان بسا اوقات اور بار بار ان پر غالب آسکتا ہے ۔ لیکن جوں ہی کسی لمحہ وہ کمزوری دکھاتا ہے ، تو گرجاتا ہے ، ذلیل ہوجاتا ہے ، اپنے ماضی ، حال اور مستقبل سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے ۔ لیکن جب انسان کا اعتماد اس ازلی اور ابدی طاقت پر ہوتا ہے ، تو پھر اس کی قوت کے کیا کہنے ، وہ ہر چیز پر غالب آجاتا ہے ۔ وہ اپنی کمزوریوں اور اپنی خواہشات نفس تک کو مغلوب کرلیتا ہے ۔ وہ اپنی ضروریات اور اپنی مجبوریوں پر بھی غالب آجاتا ہے ۔ وہ ان تمام قوتوں پر غالب آجاتا ہے جو اس کا سامنا کرتی ہیں۔

اس لئے قرآن کریم یہاں پہلے تو یہود کو اس طرف متوجہ کرتا ہے ، کیونکہ روئے سخن ان کی طرف ہے اور پھر ان کے بعد پوری دنیا کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ اس مشکل کام اور کٹھن معرکے کو سر کرنے کے لئے صبر وثبات اور نماز ونیاز سے مددحاصل کریں ۔ یہودیوں سے مطلوب یہ تھا کہ مذہبی خدمات ، یا پوری دنیا کا مال ومتاع جو انہیں حاصل تھا ، اسے متاع قلیل سمجھیں اور اس کے مقابلے میں حق کو ترجیح دیں ۔ کیونکہ مدینہ میں اپنی مذہبی حیثیت اور مذہبی معلومات کی وجہ سے وہ اس سچائی وصد اقت کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اس لئے ان کا فرض ہے کہ جلد قافلہ ٔ ایمان کے ہمرکاب ہوجائیں کیو ن کہ وہ پہلے سے لوگوں کو ایمان کی طرف بلا رہے ہیں ۔ چونکہ یہودیوں کی طرف سے کوئی ایسا فیصلہ کرنے کے لئے قوت و شجاعت کی ایک بڑی مقدار کی ضرورت تھی ، اس لئے انہیں حکم دیا گیا کہ وہ صبر وثبات اور نیاز و نماز سے مدد لیں ۔

آیت 44 اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ ان آیات کے اصل مخاطب علماء یہود ہیں ‘ جو لوگوں کو تقویٰ اور پارسائی کی تعلیم دیتے تھے لیکن ان کا اپنا کردار اس کے برعکس تھا۔ ہمارے ہاں بھی علماء اور واعظین کا حال اکثر و بیشتر یہی ہے کہ اونچے سے اونچا وعظ کہیں گے ‘ اعلیٰ سے اعلیٰ بات کہیں گے ‘ لیکن ان کے اپنے کردار کو اس بات سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہوتی جس کی وہ لوگوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی درحقیقت علماء یہود کا کردار بن چکا تھا۔ چناچہ ان سے کہا گیا کہ ”کیا تم لوگوں کو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟“وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط ”تم یہ کچھ کر رہے ہو اس حال میں کہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو۔ یعنی تورات پڑھتے ہو ‘ تم صاحب تورات ہو۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے علماء کا ‘ جنہیں ہم علماء سوء کہتے ہیں ‘ یہی حال ہوچکا ہے۔ بقول اقبال : ؂خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بےتوفیق !قرآن حکیم کے ترجمے میں ‘ اس کے مفہوم میں ‘ اس کی تفسیر میں بڑی بڑی تحریفیں موجود ہیں۔ الحمد للہ کہ اس کا متن بچا ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ”

دوغلاپن اور یہودی یعنی اہل کتاب اس علم کے باوجود جو کہے اور نہ کرے " اس پر کتنا عذاب نازل ہوتا ہے پھر تم خود ایسا کرنے لگے ہو ؟ جیسا دوسروں کو تقویٰ طہارت اور پاکیزگی سکھاتے ہو خود بھی تو اس کے عامل بن جاؤ لوگوں کو روزے نماز کا حکم دینا اور خود اس کے پابند نہ ہونا یہ تو بڑی شرم کی بات ہے دوسروں کو کہنے سے پہلے انسان کو خود عامل ہونا ضروری ہے اپنی کتاب کے ساتھ کفر کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو لیکن اللہ کے اس نبی کو جھٹلا کر تم خود اپنی ہی کتاب کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو ؟ یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کو اس دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے کہتے ہو مگر دنیاوی ڈر خوف سے خود قبول نہیں کرتے۔ حضرت ابو الدردا ؓ فرماتے ہیں اور اپنے نفس کا ان سے بھی زیادہ۔ ان لوگوں کو اگر رشوت وغیرہ نہ ملتی تو حق بتا دیتے لیکن خود عامل نہ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی۔ مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت٭٭ یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہئے جیسے حضرت شعیب ؑ نے فرمایا تھا آیت (وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا باللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ) 11۔ ہود :88) یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں وہ خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے پس نیک کاموں کے کرنے کے لئے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہئے۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہوگا ایک کے ترک پر اکہرا۔ طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے یہ حدیث غریب ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی زبانیں اور ہونٹ دونوں کاٹے جا رہے تھے یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں موجود ہے۔ ابو وائل فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضرت اسامہ سے کہا گیا کہ آپ حضرت عثمان سے کچھ نہیں کہتے آپ نے جواب دیا کہ تمہیں سنا کر ہی کہوں تو ہی کہنا ہوگا میں تو انہیں پوشیدہ طور پر ہر وقت کہتا رہتا ہوں لیکن میں کسی بات کو پھیلانا نہیں چاہتا اللہ کی قسم میں کسی شخص کو سب سے افضل نہیں کہوں گا اس لئے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ اس کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا جہنمی جمع ہو کر اس سے پوچھیں گے کہ حضرت آپ تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے ؟ وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا (مسند احمد) بخاری مسلم میں بھی یہ روایت ہے مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں سے اتنا درگزر کرے گا جتنا جاننے والوں سے نہیں کرے گا بعض آثار میں یہ بھی وارد ہے کہ عالم کو ایک دفعہ بخشا جائے تو عام آدمی کو ستر دفعہ بخشا جاتا ہے عالم جاہل یکساں نہیں ہوسکتے قرآن کریم میں ہے آیت (هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ) 39۔ الزمر :9) جاننے والے اور انجان برابر نہیں نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کرسکتے ہیں ابن عساکر میں ہےحضور ﷺ نے فرمایا۔ جنتی لوگ جہنمیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ تمہاری نصیحتیں سن سن کر ہم تو جنتی بن گئے مگر تم جہنم میں کیوں آپڑے وہ کہیں گے افسوس ہم تمہیں کہتے تھے لیکن خود نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس سے ایک شخص نے کہا حضرت میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو ؟ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہوگئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا ایک تو آیت (اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ) 2۔ البقرۃ :44) کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو ؟ دوسری آیت آیت (لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ) 61۔ الصف :23) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے ؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو۔ تیسری آیت حضرت شعیب ؑ کا فرمان آیت (وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا باللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ) 11۔ ہود :88) یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے کہو تم ان تینوں آیتوں سے بےخوف ہو ؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو۔ (تفسیر مردویہ) ایک ضعیف حدیث طبرانی میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو لوگوں کو کسی قول فعل کی طرف بلائے اور خود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ خود آپ عمل کرنے لگ جائے۔ حضرت ابراہیم نخعی نے بھی حضرت ابن عباس والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا۔

آیت 44 - سورۃ البقرہ: (۞ أتأمرون الناس بالبر وتنسون أنفسكم وأنتم تتلون الكتاب ۚ أفلا تعقلون...) - اردو