سورۃ البقرہ: آیت 42 - ولا تلبسوا الحق بالباطل وتكتموا... - اردو

آیت 42 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَلَا تَلْبِسُوا۟ ٱلْحَقَّ بِٱلْبَٰطِلِ وَتَكْتُمُوا۟ ٱلْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala talbisoo alhaqqa bialbatili wataktumoo alhaqqa waantum taAAlamoona

آیت 42 کی تفسیر

اگلے فقرے میں انہیں ان کی دوسری بری خصلت سے روکا جاتا ہے ، ان کی عادت تھی کہ وہ باطل کو حق کا رنگ دے کر پیش کرتے تھے اور سچائی کو چھپاتے تھے ، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کیا کررہے ہیں ، ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اسلامی معاشرے کے اندر فکری انتشار پیدا ہو اور مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کا ایک طوفان کھڑا ہوجائے۔ وَلا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” باطل کا رنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔ “ یہودیوں نے ہر موقع اور ہر مناسبت میں سے حق کو چھپایا ، اس میں باطل کی رنگ آمیزی کی اور جب بھی انہیں موقع ملا انہوں نے انسانیت کو دھوکہ دینے کی پوری کوشش کی ۔ اس لئے قرآن کریم نے بار بار ان کی اس صفت اور عادت کی تفاصیل کو بیان کیا۔ وہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی جماعت میں ہمیشہ فتنے اور اضطرابات پیدا کرتے رہتے تھے۔ خلجان اور انتشار پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے ۔ چناچہ ان کے اس کردار کی کئی مثالیں اسی سورت میں آگے بیان کی گئی ہیں ۔

آیت 42 وَلاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہ بات اچھی طرح نوٹ کر لیجیے کہ مغالطے میں غلط راہ پر پڑجانا ضلالت اور گمراہی ہے ‘ لیکن جانتے بوجھتے حق کو پہچان کر اسے ردّ کرنا اور باطل کی روش اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ اسی سورة البقرۃ میں آگے چل کر آئے گا کہ علماء یہود محمد رسول اللہ ﷺ کو اور قرآن کو اس طرح پہچانتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے : یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ھُمْ ط آیت 146 لیکن اس کے باوجود انہوں نے محض اپنی دنیوی مصلحتوں کے پیش نظر آپ ﷺ اور قرآن کی تکذیب کی۔

بدخو یہودی یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبہہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کردیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپالیا کرتے تھے۔ کبھی باطل کو ظاہر کرتے تھے۔ لہذا انہیں ان ناپاک عادتوں کے چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور حق کو ظاہر کرنے اور اسے کھول کھول کر بیان کرنے کی ہدایت کی حق و باطل سچ جھوٹ کو آپس میں نہ ملاؤ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرو۔ یہودیت و نصرانیت کی بدعات کو اسلام کی تعلیم کے ساتھ نہ ملاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی بابت پیشنگوئیاں جو تمہاری کتابوں میں پاتے ہو انہیں عوام الناس سے نہ چھپاؤ تکتموا مجزوم بھی ہوسکتا ہے اور منصوب بھی یعنی اسے اور اسے جمع نہ کرو۔ ابن مسعود کی قرأت میں تکتمون بھی ہے۔ یہ حال ہوگا اور اس کے بعد کا جملہ بھی حال ہے معین یہ ہوئے کہ حق کو حق جانتے ہوئے ایسی بےحیائی نہ کرو۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ علم کے باوجود اسے چھپانے اور ملاوٹ کرنے کا کیسا عذاب ہوگا۔ اس کا علم ہو کر بھی افسوس کہ تم بدکرداری پر آمادہ نظر آتے ہو۔ پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ حضور ﷺ کے ساتھ نمازیں پڑھو زکوٰۃ دو اور امت محمد ﷺ کے ساتھ رکوع و سجود میں شامل رہا کرو، انہیں میں مل جاؤ اور خود بھی آپ ہی امت بن جاؤ، اطاعت و اخلاص کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں۔ ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں زکوٰۃ دو سو درہم پر۔ پھر اس سے زیادہ رقم پر واجب ہوتی ہے نماز و زکوٰۃ و فرض و واجب ہے۔ اس کے بغیر سبھی اعمال غارت ہیں۔ زکوٰۃ سے بعض لوگوں نے فطرہ بھی مراد لیا ہے۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال میں ایمانداروں کا ساتھ دو اور ان میں بہترین چیز نماز ہے اس آیت سے اکثر علماء نے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر بھی استدلال کیا ہے اور یہاں پر امام قرطبی نے مسائل جماعت کو سبط سے بیان فرمایا ہے۔

آیت 42 - سورۃ البقرہ: (ولا تلبسوا الحق بالباطل وتكتموا الحق وأنتم تعلمون...) - اردو