سورۃ البقرہ: آیت 267 - يا أيها الذين آمنوا أنفقوا... - اردو

آیت 267 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَنفِقُوا۟ مِن طَيِّبَٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا۟ ٱلْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِـَٔاخِذِيهِ إِلَّآ أَن تُغْمِضُوا۟ فِيهِ ۚ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُس سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo anfiqoo min tayyibati ma kasabtum wamimma akhrajna lakum mina alardi wala tayammamoo alkhabeetha minhu tunfiqoona walastum biakhitheehi illa an tughmidoo feehi waiAAlamoo anna Allaha ghaniyyun hameedun

آیت 267 کی تفسیر

انفاق فی سبیل اللہ کے آداب اور نتائج کے بیان کے بعد اب یہاں سیاق کلام ، انفاق فی سبیل اللہ کے دستور کو لے کر اب مزید آگے بڑھتا ہے ۔ انفاق کی حقیقت ، انفاق کا طریقہ کار اور لوازمات کو بیان کیا جاتا ہے۔

اس آیت سے پہلی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کے لئے جو قواعد اور اساسات متعین کئے گئے تھے اور جن پر اس کی عمارت اٹھانے کا حکم دیا تھا ، ان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں بہترین مال خرچ کیا جائے ۔ اللہ کی راہ میں ردی اور گھٹیا اشیاء خرچ کرنے کا ارادہ ہی نہ کیا جائے جن میں خود مالک کی کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ ایسی اشیاء اگر خود ایسے شخص کو کسی سودے یا بیوپار میں دی جائیں تو وہ ان کے دعوض حقیر قیمت دینے کے لئے بمشکل تیار ہو۔ اللہ غنی بادشاہ ہے ۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ ایسی ردی اشیاء قبول کرے ۔

اللہ کی یہ پکار تمام مسلمانوں کے لئے ہے ۔ وہ جب کبھی ہوئے ہوں اور جہاں کہیں بھی ہوں اور یہ حکم تمام اموال کے لئے ہے جو ان کے ہاتھ آجائیں ۔ وہ تمام اموال جو انہوں نے حلال اور پاکیزہ طریقے سے کمائے ہوں یا وہ اموال ہوں جو ان کے لئے زمین سے پیدا کئے گئے ہوں۔ زرعی اجناس ہوں معدنیات ہوں مثلاپٹرول وغیرہ ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت میں عمومی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ یعنی وہ اموال جو رسول اللہ ﷺ کے وقت موجود تھے یا وہ جو بعد میں پیدا ہوئے ۔ اس لئے آیت کے الفاظ عام ہیں ۔ ان کا اطلاق ان اموال پر بھی ہوتا ہے جو بعد میں پیدا ہوں ۔ ان تمام پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔ ہاں نصاب زکوٰۃ کا تعین سنت نبوی ﷺ نے کردیا ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی پیداوار کو ان اموال پر قیاس کرلیا جائے ۔ جو رسول ﷺ کے وقت موجود تھے ۔ ہر نئی پیداوار کو ان اجناس پر قیاس کرلیا جائے جو رسول ﷺ کے وقت موجود تھیں ، اپنی اپنی نوعیت کے مطابق ۔

بعض روایات میں ، اس آیت کا شان نزول بھی بیان ہوا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں یہاں ان کا تذکرہ غیر موزوں نہ ہوگا ۔ کیونکہ ان روایات کے ذریعہ وہ حالاتدوبارہ سامنے آجاتے ہیں ، جن میں ان آیات کا نزول ہوا ۔ ان روایات سے وہ پست معاشرتی صورتحال بھی مستحضر ہوجاتی ہے جس کی اصلاح قرآن کے پیش نظر تھی اور جس کے معیار کی بلندی کے لئے قرآن کریم جدوجہد کررہا تھا۔

ابن جریر نے حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت کی ہے ، فرماتے ہیں ” یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ، جب کھجوریں توڑنے کا وقت قریب آتا تو وہ اپنے باغوں سے کھجوروں کے ایسے کو شے توڑ لاتے جن کے رنگ پیلے ہوجاتے تھے ، لیکن ابھی پکے نہ ہوتے تھے اور وہ انہیں مسجد نبوی کے دوستونوں کے درمیان لٹکادیتے تھے ، تو فقراء مہاجرین ان سے کھاتے تھے ۔ بعض لوگ ردی قسم کی کھجوریں بھی لاکر ان میں لٹکا دیتے ۔ وہ یہ سمجھتے کہ یہ جائز ہے ۔ جو لوگ یہ کام کرتے تھے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ ................ ” اور خبیث کا ارادہ نہ کرو کہ اس میں سے تم خرچ کرو۔ “ اس حدیث کو براء سے حاکم نے بھی روایت کیا ہے ۔ اور یہ کہا ہے کہ یہ حدیث اگرچہ بخاری اور مسلم کی شرائط کی صحت کے مطابق ہے ۔ لیکن بخاری ومسلم نے اسے روایت نہیں کیا ۔ ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت براء ؓ سے روایت کی ہے ۔ کہتے ہیں یہ ہمارے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ ہم کھجوروں کے مالک تھے تو ہر شخص تھوڑی بہت کھجوریں لایا کرتا تھا ، بعض لوگ ناپختہ لاتے تھے اور مسجد میں لٹکاتے تھے ۔ اہل صفہ کے طعام و قیام کا بندوبست کوئی نہ تھا ۔ ان میں سے جو بھی بھوکا ہوجاتا ، وہ آتا اور اپنی لاٹھی کو ان لٹکی ہوئی کھجوروں پر مارتا اور نیم پختہ اور پوری پختہ کھجوروں میں سے جو کچھ گرتا ، وہ کھالیتا۔

لوگوں میں سے بعض ایسے بھی تھے جو مائل بخیر نہ تھے ، وہ ناپختہ اور ردی قسم کی کھجوریں لے آتے ۔ وہ خصوصاً ایساخوشہ لاتے جو ٹوٹ چکا ہوتا تھا اور جس کے دانے ناپختہ ہوتے تھے ، اسے لٹکادیتے تو یہ آیت نازل ہوئی وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ................ ” ایسانہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لئے بری سی بری چیز چھاٹنے کی کوشش کرنے لگو ، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کروگے ۔ الا یہ کہ اسے قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔ “ فرمایا : کہ اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہر چیز ہدایہ دے جو وہ خود دے رہا ہے ، تو وہ اسے ہرگز نہ لے ۔ الا یہ کہ اغماض برتے یا حیاچشمی سے کام لے ۔ چناچہ اس کے بعد ہم سے ہر شخص کے بعد جو کچھ ہوتا ، اس میں سے اچھی چیز لاتا۔

دونوں روایات قریب المفہوم ہیں ۔ دونوں مدینہ طیبہ میں فی الواقع موجود صورتحال کا نقشہ کھینچ رہی ہیں ۔ یہ دونوں احادیث تاریخ کے ایک ورق کے بالمقابل ایک دوسرا ورق دکھاتی ہیں ، جس کے اوپر انصار مدینہ فیاضانہ دادوہش کے انمٹ نشان چھوڑدیتے ہیں ۔ نیز یہ احادیث بتاتی ہیں کہ ایک ہی جماعت کے اندر بعض افراد نہایت ہی عجیب اور بلند مقام کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دوسرے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی تربیت اور تہذیب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں درجہ بلند کے راستے پر ڈالا جائے ، جس طرح بعض انصار کے معاملے میں یہ ضرورت پیش آئی ، انہیں اللہ کے راستے میں ردی اموال کو خرچ کرنے سے منع کیا جائے ۔ ایسے اموال کہ خود اگر انہیں پیش کئے جائیں تو وہ انہیں قبول نہ کریں ۔ الا یہ کہ رد کرنے میں حیا مانع ہو اور اگر کوئی لین دین ہو تو اس میں وہ اغماض برت جائیں ۔ یعنی قیمت میں کمی کرنے کے معاملے میں ۔ حالانکہ وہ جس ذات باری کے سامنے ہدیہ پیش کررہے ہیں وہ باری تعالیٰ ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ آیت کا خاتمہ اس فقرے پر ہوتا ہے ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ................ ” تمہیں جان لینا چاہئے کہ اللہ بےنیاز ہے اور بہترین اوصاف سے متصف ہے ۔ “ یعنی وہ اس بات سے مطلقاً بےنیاز ہے کہ اس کی راہ میں کوئی دیتا ہے یا نہیں دیتا۔ اگر کوئی اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو خود اپنے مفاد کے لئے کرتا ہے ۔ تو بس اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ بہترین چیز خرچ کرے اور بطیب خاطر کرے نیز وہ حمید ہے ۔ وہ پاکیزہ چیزیں قبول کرتا ہے اور ان کی تعریف کرتا ہے ۔ ان پر جزا دیتا ہے اور اچھی جزا۔ غرض اس مقام پر یہ ان دونوں صفات کے ذکر سے انسانی دل اس طرح دہل جاتے ہیں ، جس طرح انصار کے دل دہل گئے تھے جن کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، جو مال تم نے کمائے ہیں ، ان میں سے بہترین حصہ راہ اللہ میں خرچ کرو ۔ “ ورنہ اللہ کو اس ردی چیز کی ضرورت نہیں جس کو تم چھانٹ کر بطور صدقہ خرچ کرتے ہو ، حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جو تمہاری تعریف اس صورت میں کرتا ہے کہ تم اس کی راہ میں پاکیزہ چیزیں خرچ کرو اور اس رضامندی کی وجہ سے وہ پھر تمہیں اچھی جزا بھی دیتا ہے ۔ درآں حالیکہ یہ مال اسی نے تمہیں دیا ہے ۔ اصل داتا تو وہی ہے وہ تو بطور اعزاز تمہیں اس فیاضی پر جزا دیتا ہے ، اس لئے کہ تم جو کچھ دیتے ہو وہ اسی نے تو تمہیں عطا کیا ہے ۔ کس قدر شاندار تفہیم ہے یہ ! کیا عجب انداز ترغیب ہے ! یہ ایک عجیب اسلوب تربیت ہے جو قرآن کریم نے اختیار کیا ہے ۔

حقیقت یہ تھی اور ہے کہ اللہ کی راہ میں انفاق نہ کرنا ، یا ردی اور بےکار چیز بارگاہ الٰہی میں پیش کرنا ، اپنے اندر بعض برے تصورات لئے ہوتے ہیں ۔ ایسے شخص کو دراصل ان اعمال پر اللہ تعالیٰ کے ہاں جو اجر مقرر ہے اس پر پورا یقین نہیں ہوتا یا ایسے شخص کو تنگ دستی کا خوف لاحق ہوتا ہے ، جو کبھی بھی ان لوگوں کو لاحق نہیں ہوتا جن کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے ، جن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ ہوتا ہے ۔ انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہر چیز کا انجام آخرکار اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان کے مقابلے میں ان تصورات کی حقیقت کھول کر رکھ دی ، یہ بات عیاں کردی اور اچھی طرح سمجھادیا کہ نفس انسانی کے اندر یہ تصورات کہاں سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور انسانی دلوں میں ان کو بار بار جگانے والی وہ قوت کون سی ہے ؟ چناچہ بتایا جاتا ہے کہ وہ قوت شیطانی قوت ہے۔

آیت 267 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا ہے ‘ اللہ کے نام پر دینا ہے تو جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے اچھی چیز ‘ پاکیزہ چیز ‘ بہتر چیز نکالو۔ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ظاہر بات ہے کہ زمین سے جو بھی نباتات باہر آرہی ہیں ان کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ چاہے کوئی چراگاہ ہے تو اس کے اندر جو ہریاول ہے وہ اللہ ہی نے پیدا کی ہے۔ کھیت کے اندر آپ نے محنت کی ہے ‘ ہل چلایا ہے ‘ بیج ڈالے ہیں ‘ لیکن فصل کا اگانا تو آپ کے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ع پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟ چناچہ فرمایا کہ جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو !وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ ایسا نہ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ردّی اور ناکارہ مال چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو۔ مثلاً بھیڑ بکریوں کا گلہ ہے ‘ اس میں سے تمہیں زکوٰۃ کے لیے بھیڑیں اور بکریاں نکالنی ہیں تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ جو کمزور ہیں ‘ ذرا لاغر ہیں ‘ بیمار ہیں ‘ نقص والی ہیں انہیں نکال کر گنتی پوری کر دو۔ اسی طرح عشر نکالنا ہے تو ایسا نہ کرو کہ گندم کے جس حصے پر بارش پڑگئی تھی وہ نکال دو۔ تیمم کے معنی قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں۔وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ ط ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ تم محتاج ہوجاؤ اور تمہیں ضرورت پڑجائے ‘ پھر اگر تمہیں کوئی ایسی چیز دے گا تو تم قبول نہیں کرو گے ‘ اِلاّ یہ کہ چشم پوشی کرنے پر مجبور ہوجاؤ۔ احتیاج اس درجے کی ہو کہ نفیس یا خبیث جو شے بھی مل جائے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے قبول کرلو۔ ورنہ آدمی اپنے طیب خاطر کے ساتھ ردّی شے قبول نہیں کرسکتا۔وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ یہاں غنی کا لفظ دوبارہ آیا ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ تم کسی محتاج اور ضرورت مند کو دے رہے ہو ‘ بلکہ یوں سمجھو کہ اللہ کو دے رہے ہو ‘ جو غنی ہے ‘ سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے اور حمید ہے ‘ یعنی اپنی ذات میں خود محمود ہے۔ ایک تو کسی شے کی اچھائی یا حسن یا کمال ایسا ہوتا ہے کہ جسے ظاہر کیا جائے کہ بھئی دیکھو اس میں یہ خوبصورتی ہے۔ اور ایک وہ خوبصورتی ہوتی ہے جو ازخود ظاہر ہو۔ ع حاجت مشاطہّ نیست روئے دل آرام را ! تو اللہ تعالیٰ اتنا ستودہ صفات ہے کہ وہ اپنی ذات میں از خود محمود ہے ‘ اسے کسی حمد کی حاجت نہیں ہے۔

خراب اور حرام مال کی خیرات مسترد اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے کہ مال تجارت جو اللہ جل شانہ نے تمہیں دیا ہے سونا چاندی اور پھل اناج وغیرہ جو اس نے تمہیں زمین سے نکال کر دئیے ہیں، اس میں سے بہترین مرغوب طبع اور پسند خاطر عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں دو۔ ردی، واہیات، سڑی گلی، گری پڑی، بےکار، فضول اور خراب چیزیں راہ اللہ نہ دو ، اللہ خود طیب ہے وہ خبیث کو قبول نہیں کرتا، ہم اس کے نام پر یعنی گویا اسے وہ خراب چیز دینا چاہتے ہو جسے اگر تمہیں دی جاتی تو نہ قبول کرتے پھر اللہ کیسے لے لے گا ؟ ہاں مال جاتا دیکھ کر اپنے حق کے بدلے کوئی گری پڑی چیز بھی مجبور ہو کرلے لو تو اور کوئی بات ہے لیکن اللہ ایسا مجبور بھی نہیں وہ کسی حالت میں ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتا، یہ بھی مطلب ہے کہ حلال چیز کو چھوڑ حرام چیز یا حرام مال سے خیرات نہ کرو، مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دئیے ہیں، دنیا تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے دشمنوں کو بھی، ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان مسلمان نہ ہوجائے، کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےخوف نہ ہوجائیں، لوگوں کے سوال پر آپ نے فرمایا ایذاء سے مراد دھوکہ بازی اور ظلم و ستم ہے، جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کرجاتا ہے وہ سب اس کیلئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے، اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو اچھائی سے دفع کرتا ہے، خباثت خباثت سے نہیں مٹتی، پس دو قول ہوئے۔ ایک تو ردی چیزیں دوسرا حرام مال۔ اس آیت میں پہلا قول مراد لیناہی اچھا معلوم ہوتا ہے، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کھجوروں کے موسم میں انصار اپنی اپنی وسعت کے مطابق کھجوروں کے خوشے لا کر دوستوں کے درمیان ایک رسی کے ساتھ لٹکا دیتے، جسے اصحاب صفہ اور مسکین مہاجر بھوک کے وقت کھالیتے، کسی نے جسے صدقہ کی رغبت کم تھی اس میں ردی کھجور کا ایک خوشہ لٹکا دیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر تمہیں ایسی ہی چیزیں ہدیہ میں دی جائیں تو ہرگز نہ لو گے۔ ہاں اگر شرم ولحاظ سے بادل ناخواستہ لے لو تو اور بات ہے، اس کے نازل ہونے کے بعد ہم میں کا ہر شخص بہتر ہے بہتر چیز لاتا تھا (ابن جریر) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلکی قسم کی کھجوریں اور واہی پھل لوگ خیرات میں نکالتے جس پر یہ آیت اتری اور حضور ﷺ نے ان چیزوں سے صدقہ دینا منع فرمایا، حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں مومن کی کمائی کبھی خبیث نہیں ہوتی، مراد یہ ہے کہ بیکار چیز صدقہ میں نہ دو ، مسند میں حدیث ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے گوہ کا گوشت لایا گیا، آپ نے نہ کھایا نہ کسی کو کھانے سے منع فرمایا تو حضرت عائشہ نے کہا کسی مسکین کو دے دیں ؟ آپ نے فرمایا جو تمہیں پسند نہیں اور جسے تم کھانا پسند نہیں کرتیں اسے کسی اور کو کیا دو گی ؟ حضرت براء فرماتے ہیں جب تمہارا حق کسی پر ہو اور وہ تمہیں وہ چیز دے جو بےقدر و قیمت ہو تو تم اسے نہ لو گے مگر اس وقت جب تمہیں اپنے حق کی بربادی دکھائی دیتی ہو تو تم چشم پوشی کرکے اسی کو لو گے، ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم نے کسی کو اچھا مال دیا اور ادائیگی کے وقت وہ ناقص مال لے کر آیا تو تم ہرگز نہ لوگے اور اگر لو گے بھی تو اس کی قیمت گھٹا کر، تو تم جس چیز کو اپنے حق میں لینا پسند نہیں کرتے اسے اللہ کے حق کے عوض کیوں دیتے ہو ؟ پس بہترین اور مرغوب مال اس کی راہ میں خرچ کرو اور یہی معنی ہیں آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) 3۔ آل عمران :92) کے بھی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا اور عمدہ چیز دینے کا۔ کہیں اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ محتاج ہے، نہیں نہیں وہ تو بےنیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو، یہ حکم صرف اس لئے ہے کہ غرباء بھی دنیا کی نعمتوں سے محروم نہ رہیں گے، جیسے اور جگہ قربانی کے حکم کے بعد فرمایا آیت (لَنْ يَّنَال اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ) 22۔ الحج :37) اللہ تعالیٰ نہ اس کا خون لے نہ گوشت، وہ تو تمہارے تقوے کی آزمائش کرتا ہے۔ وہ کشادہ فضل والا ہے، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں، صدقہ اپنے چہیتے حلال مال سے نکال کر اللہ کے فضل اس کے بخشش اس کے کرم اور اس کی سخاوت پر نظریں رکھو، وہ اس کا بدلہ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر تمہیں عطا فرمائے گا وہ مفلس نہیں وہ ظالم نہیں، وہ حمید ہے تمام اقوال افعال تقدیر شریعت سب میں اس کی تعریفیں ہی کی جاتی ہیں، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، وہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، وہ ہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش نہیں کرتا۔ حدیث میں ہے کہ ایک چوکا شیطان مارتا ہے اور ایک توفیق کی رہبری فرشتہ کرتا ہے۔ شیطان تو شرارت پر آمادہ کرتا ہے اور حق کے جھٹلانے پر اور فرشتہ نیکی پر اور حق کی تصدیق پر جس کے دل میں یہ خیال آئے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جس کے دل میں وہ وسوسہ پیدا ہو وہ آعوذ پڑھے، پھر حضور ﷺ نے (آیت الشیطان الخ) کی تلاوت فرمائی (ترمذی) یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے موقوف بھی مروی ہے، مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے شیطان روکتا ہے اور دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس طرح ہم فقیر ہوجائیں گے، اس نیک کام سے روک کر پھر بےحیائیوں اور بدکاریوں کی رغبت دلاتا ہے، گناہوں پر نافرمانیوں پر حرام کاریوں پر اور مخالفت پر اکساتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے برخلاف حکم دیتا ہے کہ خرچ فی سبیل اللہ کے ہاتھ نہ روکو اور شیطان کی دھمکی کے خلاف وہ فرماتا ہے کہ اس صدمہ کے باعث میں تمہاری خطاؤں کو بھی معاف کر دوں گا اور وہ جو تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے میں اس کے مقابلہ میں تمہیں اپنے فضل کا یقین دلاتا ہوں، مجھ سے بڑھ کر رحم و کرم، فضل و لطف کس کا زیادہ وسیع ہوگا ؟ اور انجام کار کا علم بھی مجھ سے زیادہ اچھا کسے حاصل ہوسکتا ہے ؟ حکمت سے مراد یہاں پر قرآن کریم اور حدیث شریف کی پوری مہارت ہے جس سے ناسخ منسوخ محکم متشابہ مقدم موخر حلال حرام کی اور مثالوں کی معرفت حاصل ہوجائے، پڑھنے کو تو اسے ہر برا بھلا پڑھتا ہے لیکن اس کی تفسیر اور اس کی سمجھ وہ حکمت ہے جسے اللہ چاہے عنایت فرماتا ہے کہ وہ اصل مطلب کو پالے اور بات کی تہہ تک پہنچ جائے اور زبان سے اس کے صحیح مطلب ادا ہوں، سچا علم صحیح سمجھ اسے عطا ہو، اللہ کا ڈر اس کے دل میں ہو، چناچہ ایک مرفوع حدیث بھی ہے کہ حکمت کا راز اللہ کا ڈر ہے، ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو دنیا کے علم کے بڑے ماہر ہیں، ہر امر دنیوی کو عقلمندی سمجھ لیتے ہیں لیکن دین میں بالکل اندھے ہیں، اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ دنیوی علم میں کمزور ہوں لیکن علوم شرعی میں بڑے ماہر ہیں۔ پس یہ ہے وہ حکمت جسے اللہ نے اسے دی اور اسے اس سے محروم رکھا، سدی کہتے ہیں یہاں حکمت سے مراد نبوۃ ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ حکمت کا لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے اور نبوۃ بھی اس کا اعلیٰ اور بہترین حصہ ہے اور اس سے بالکل خاص چیز ہے جو انبیاء کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں، ان کے تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی طرف سے محرومی نہیں، سچی اور اچھی سمجھ کی دولت یہ بھی مالا مال ہوتے ہیں، بعض احادیث میں ہے جس نے قرآن کریم کو حفظ کرلیا اس کے دونوں بازوؤں کے درمیان نبوت چڑھ گئی، وہ صاحب وحی نہیں، لیکن دوسرے طریق سے کہ وہ ضعیف ہے منقول ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو کا اپنا قول ہے مسند کی حدیث میں ہے کہ قابل رشک صرف دو شخص ہیں جسے اللہ نے مال دیا اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی اور جسے اللہ نے حکمت دی اور ساتھ ہی اس کے فیصلے کرنے اور اس کی تعلیم دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔ وعظ و نصیحت اسی کو نفع پہنچاتی ہے جو عقل سے کام لے، سمجھ رکھتا ہو، بات کو یاد رکھے اور مطلب پر نظریں رکھے۔

آیت 267 - سورۃ البقرہ: (يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من الأرض ۖ ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون...) - اردو