سورۃ البقرہ: آیت 243 - ۞ ألم تر إلى الذين... - اردو

آیت 243 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ خَرَجُوا۟ مِن دِيَٰرِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ ٱلْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ ٱللَّهُ مُوتُوا۟ ثُمَّ أَحْيَٰهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلنَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

اردو ترجمہ

تم نے اُن لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا: مر جاؤ پھر اُس نے اُن کو دوبارہ زندگی بخشی حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara ila allatheena kharajoo min diyarihim wahum oloofun hathara almawti faqala lahumu Allahu mootoo thumma ahyahum inna Allaha lathoo fadlin AAala alnnasi walakinna akthara alnnasi la yashkuroona

آیت 243 کی تفسیر

درس 16 ایک نظر میں

اس سبق کی اہمیت اور اس میں امم سابقہ کے جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کی صحیح قدروقیمت تب ہی ذہن میں بیٹھ سکتی ہے ، جب ہم پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ قرآن امت مسلمہ کی ایک زندہ کتاب ہے ، یہ کتاب اس کے لئے ایک رہنما ئے ناصح ہے ۔ یہ اس کی مرشد ہے ۔ یہ اس کا مدرسہ ہے جہاں وہ امن سے زندگی کا سبق حاصل کرتی ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی اسلامی جماعت کے لئے اس کتاب کو ضابطہ ترتیب قرار دیا ۔ جس نے اپنے وقت پر اس کتاب کی روشنی میں اسلامی نظام قائم کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا اور یہ کہ پہلی اسلامی جماعت کو اس منصب پر اس وقت فائز کیا گیا ، جب اس کتاب کے مطابق اسے اچھی تیار کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے لئے یہ مقام متعین کیا ہے کہ وہ تحریک اسلامی کا ایک زندہ راہنما ہوگی اور یہ کہ رسول ﷺ کی وفات کے بعد اس تحریک کی آنے والی نسلوں کے لئے یہ کتاب زندہ قائد کا کام سرانجام دے گی ۔ ان آنے والی نسلوں کی تربیت کرے گی اور انہیں اس قائدانہ رول کے لئے تیار کرے گی ، جس کے لئے اس کتاب نے اس تحریک کی ہرنسل کے ساتھ پختہ وعدہ کررکھا ہے کہ جب بھی تحریک اسلامی اس کتاب کو اپنا ہادی اور راہنما تسلیم کرے گی ، جب بھی اس کی ہدایت کو اپنائے گی ، جب بھی تحریک اپنا یہ عہد پورا کرے گی کہ وہ مطیع فرمان ہے اور اپنا نظام زندگی اس کتاب سے اخذ کرے گی ، اس کتاب کو باعث عزت سمجھے گی ، اور تمام نظاموں پر اس کو غالب کرے گی تو تحریک اسلامی دنیا میں اعلیٰ مقام پائے گی ۔ سب سے برتر ہوگی اور یہ اللہ کا وعدہ ہے ، یہ اس کتاب کا وعدہ ہے ۔

یاد رکھو ! قرآن مجید محض ایک کتاب تلاوت ہی نہیں ہے یہ تو ایک مکمل دستور حیات ہے ۔ یہ تو دستور ترتیب ہے ۔ یہ تودستور عمل ہے اور پوری زندگی کے لئے راہ عمل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں امم سابقہ کے تجربے اور ان کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں تاکہ ان سے جماعت مسلمہ عبرت حاصل کرے ، اس لئے یہ کتاب نازل ہی اس لئے ہوئی کہ اس سے اس جماعت کی ترتیب ہو ۔ اس کتاب میں آدم (علیہ السلام) سے لے کر رسول اللہ ﷺ کے دور تک تمام کرہ ارض پر ان تمام ایمانی دعوتوں کے تجربات بیان کئے گئے ہیں ۔ یہ تمام دعوتی تجربات امت مسلمہ کے لئے تا قیامت زاد راہ ہیں ۔ نفس انسانی کے تجربات اور حیات انسانی کے مختلف واقعاتی تجربات اس کتاب میں ضبط ہیں تاکہ امت مسلمہ اپنی راہ ورسم سے باخبر ہوجائے ، اپنے لئے زاد راہ کا ساز و سامان تیار کرے اور اس راہ میں ان متنوع تجربات کا ذخیرہ اس کے لئے مشعل راہ ہو۔

یہی وہ مقاصد ہیں جن کی خاطر قرآن مجید میں بکثرت قصص بیان ہوئے ، یہ قصے مختلف نوعیت رکھتے ہیں اور ہر قصے میں امت کے لئے واضح اشارات پائے جاتے ہیں ۔ قرآن مجید نے اور اقوام کی نسبت ، بنی اسرائیل کے قصے زیادہ تعداد میں نقل کئے ہیں ، جس کی متعدد وجوہات ہیں ۔ ان میں سے کچھ وجوہات ہم نے فی ظلال القرآن پارہ اول کی تفسیر میں ، آغاز ذکر بنی اسرائیل کے موقع پر بیان کئے ہیں ۔ کچھ وجوہات اس بارے میں مختلف مقامات پر ہم نے بیان کی ہیں ۔ بعض وجوہات یہاں کی مناسبت سے پیش خدمت ہیں ۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ امت مسلمہ کی بعض آنے والی نسلیں ان حالات سے گزریں گی ، جن سے بنی اسرائیل گزرے ۔ مسلمان اپنے دین اور اپنے نظریہ حیات کے معاملے میں وہی موقف اختیار کریں گے جو بنی اسرائیل نے اختیار کیا ۔ اس لئے قرآن مجید نے درحقیقت سرد لبراں ، قصص بنی اسرائیل کی صورت میں بیان کیا ہے تاکہ مسلمانوں کی آنے والی نسلیں ان سے نصیحت حاصل کریں اور عبرت پکڑیں ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آنے والی نسلوں کے ہاتھ میں ایک صاف آئینہ تھما دیا تاکہ وہ ہر وقت اس میں اپنی شکل دیکھ سکیں ، اور زندگی کی گزرگاہوں میں ، جو نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ، ان کے بارے میں پیشگی ہدایات ان کے پاس ہوں۔

امت مسلمہ کی تمام نسلوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس کتاب الٰہی کو خوب سمجھ بوجھ کر پڑھیں ۔ وہ اس کی ہدایات پر اس طرح غور کریں کہ گویا یہ ہدایات آج اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہورہی ہیں ، تاکہ آج کے مسائل کو ان کی روشنی میں حل کیا جائے اور انسانیت کے لئے آج کے سفر میں ، اس کے مستقبل کی تاریکیاں روشن کرے ۔ اس کتاب کو محض کلام جمیل سمجھ کر اور نہایت ہی حسن قرأت سے پڑھ کر ہی نہ بیٹھ جاؤیا اسے یہ سمجھ کر نہ پڑھو کہ یہ ایک رفتہ وگزشتہ حقیقت کی محض ایک روئیداد ہے ۔ اور اس حقیقت کو اس کرہ ارض پر اب دوبارہ نہیں دہرایا جاتا۔

ہم اس قرآن مجید سے اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھاسکتے جب تک اس میں ہم روزمرہ کی واقعاتی زندگی کے حقائق کے بارے میں ہدایات تلاش نہ کریں ۔ آج کے مسائل کا حل اور کل کے مسائل کی منصوبہ بندی ، بعینہ اسی طرح جس طرح پہلی جماعت اسلامی اس کتاب کو اس طرح لیتی تھی ۔ وہ اپنے تمام موجودہ مسائل کا حل اس کتاب میں تلاش کرتی تھی ۔ جب بھی ہم قرآن مجید کو ، اس فہم و تدبر کے ساتھ پڑھیں گے ، ہمیں جس چیز کی تلاش ہوگی وہ ہمیں اس میں ملے گی ۔ بلکہ ہم اس میں ایسی عجیب ہدایات پائیں گے ، جن تک کسی ایسے شخص کا ذہن نہیں پہنچ سکتا ، جو اس کتاب کو غفلت سے پڑھتا ہے ، ہمیں اس کا ہر کلمہ ، اس کا ہر لفظ ، اس کی ہر عبارت اور اس کی ہر ہدایت زندہ جاوید نظر آئے گی ۔ چلتی پھرتی نظر آئے گی ، زندہ ومتحرک نظر آئے گی اور صاف صاف اشارہ کرتی نظر آئے گی وہ ہے تمہاری راہ ! وہ ہے نشان راہ ! یہ کتاب کہے گی یہ کرو اور اس سے بچو ، وہ کہے گی : یہ تمہارا دوست ہے اور یہ دشمن ہے ۔ وہ کہے گی : یہ احتیاط کرو اور یہ تیاری کرو ۔ غرض یہ کتاب ہماری زندگی کے ہر حال کے بارے میں ہم سے طویل اور مفصل گفتگو کرے گی اگر ہم اس انداز سے قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو یقیناً ہمیں اس میں زندگی بھی ملے گی اور زندگی کا سازوسامان بھی ملے گا۔ اور تب ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو صحیح طرح سمجھ سکیں گے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، جب اللہ اور رسول تمہیں اس بات کی طرف بلائیں ، جو تمہیں زندہ کرتی ہے ، تو اس پر لبیک کہیں۔ “ قرآن کریم دراصل زندگی کی طرف دعوت ہے ۔ دائمی زندگی اور تازہ بتازہ زندگی کی دعوت ہے ۔ وہ تمہیں ایسی زندگی کی طرف دعوت نہیں دیتا جو گزرچکی ہے اور جو صفحات تاریخ کا ایک ورق بن چکی ہے۔

اب اس تمہید کی روشنی میں ذرا اس پورے سبق پر ایک نظر دوڑائیں ۔ اس سبق میں امم سابقہ کے تجربات میں سے دوتجربے پیش کئے گئے ہیں ۔ امت مسلمہ جن عملی تجربات سے گزری ، ان دوتجربات کو بھی اس ذخیرہ میں شامل کیا جارہا ہے ۔ امت کے سامنے یہ تجربات رکھ کر اسے ، ان حالات کے لئے تیار کیا جارہا ہے جو اس کی زندگی میں پیش آنے والے ہیں ۔ اس لئے کہ وہی ایمانی نظریہ حیات کی وارث ہے اور امم سابقہ کے تجربات کے اس ، سرسبز کھیت کی دہقانی اب اس امت کے حصے میں ہے اور اسے میدان میں ایک اہم رول ادا کرنا ہے۔

پہلا تجربہ ایسے لوگوں کا ہے جس کا نام قرآن مجید نے نہیں لیا ۔ یہ واقعہ قرآن مجید نے پورے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے ، لیکن جس مقصد کے لئے اسے لایا گیا ہے وہ اچھی طرح پورا ہوجاتا ہے ۔ یہ ایسے لوگوں کا تجربہ ہے جو أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ” موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کرنکلے تھے اور ہزاروں کی تعدد میں تھے ۔ “ لیکن انہیں خروج وفرار اور اس خوف وہراس نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور وہ جس انجام سے ڈر کے بھاگ رہے تھے اور جو اللہ نے ان کے لئے مقدر کررکھا تھا ، اس نے انہیں آلیا۔ ان سے اللہ نے کہا : مُوتُوا مرجاؤ۔ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ” پھر اس نے ان کو زندگی بخشی “ نہ ان کی جدوجہد انہیں موت سے بچاسکی اور نہ دوبارہ زندگی حاصل کرنے کے لئے ان کو کچھ جدوجہد کرنی پڑی ۔ دونوں حالات میں اللہ کی مشیئت نے فیصلہ کیا۔

اس تجربہ کی روشنی میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے متوجہ ہوتے ہیں اور انہیں قتال فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دیتے ہیں ۔ اس لئے کہ زندگی دینے والا بھی وہ ہے اور مال دینے والابھی وہ ہے ۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ زندگی قبض کرے اور مال واپس لے لے ۔

دوسرا تجربہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ، تاریخ بنی اسرائیل سے لیا گیا ہے ۔ اس دور میں ان کی مملکت تباہ ہوچکی تھی ۔ ان کے مقدسات لوٹ لئے گئے تھے ۔ وہ دشمنوں کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئے تھے ۔ انہوں نے اپنے نبی کی تعلیمات اور اپنے رب کی ہدایات کو پس پشت ڈال دیا تھا ۔ اور اس وجہ سے وہ ذلت اور خواری میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ لیکن اس گراوٹ کے بعد وہ پھر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے اپنے کپڑے جھاڑے اور نئے سرے سے تیار ہوئے اور ان کے دلوں میں نظریہ حیات پھر سے زندہ ہوگیا اور ان کے دلوں میں اپنے نظریہ حیات کے لئے پھر سے ولولہ جہاد پیدا ہوا اور اپنے نبی سے کہنے لگے : ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ” ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں۔ “

قرآن مجید جس الہامی انداز میں اس تجربے کا بیان کرتا ہے ، اس سے تمام حقائق کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور اس میں دور اول کی تحریک اسلامی کے لئے جس طرح واضح اشارات پائے جاتے ہیں ، اسی طرح ہر دور کی اسلامی جماعت کے لئے واضح ہدایات موجود ہیں ۔

اس قصے سے جو عام عبرت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مومنین کی ایک مٹھی بھر تعداد نے ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور اس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو ایک عظیم کامیابی نصیب ہوئی ، اگرچہ اس پورے واقعہ میں لشکر اسلام کو بار بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس مہم میں کئی نقائص تھے جو سامنے آئے ، متعدد کمزوریاں بار بار سامنے آتی رہیں ۔ لشکر کشی کے مختلف مراحل میں ، فوج در فوج لوگ الگ ہوتے رہے اور نافرمانیاں کرتے رہے ، لیکن ان سب کمزوریوں کے باجود بنی اسرائیل کا یہ اٹھنا ، آلودگیاں جھاڑ کر اٹھنا اور نظریہ حیات کو لے کر اٹھنا ، مٹھی بھر ثابت قدم مومنین کی وجہ سے کامیاب رہا ۔ اس کامیابی کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو نصرت ، عزت اور استقرار حاصل ہوا ، حالانکہ اس سے پہلے وہ شکست فاش کھاچکے تھے ۔ انتہائی ذلت کی زندگی بسر کررہے تھے ، طویل عرصہ تک جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے تھے اور ان پر دوسری اقوام مسلط تھیں ۔ اس کامیابی کے نتیجے میں بنی اسرائیل میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کی حکومت قائم ہوئی ، جن کے دور میں بنی اسرائیل کی حکومت اپنے عروج کو پہنچی اور ان حضرات کا دور ان کی تاریخ کا سنہرا دور قرار پایا ۔ جس کے بارے میں بنی اسرائیل فخریہ انداز میں بات کرتے ہیں اور اس مقام تک بنی اسرائیل اپنی نبوت کبریٰ کے دور میں بھی نہ پہنچے تھے ۔ یہ تمام کامیابی نتیجہ ہے اس نظریاتی قیام کا ، جبکہ انہوں نے نظریہ حیات کو جاہلیت کے ڈھیروں کے نیچے سے نکالا اور ایک قلیل جماعت اس نظریہ کو لے کر اس ثابت قدمی سے اٹھی اور جالوت کی عظیم افواج سے ٹکراگئی اور کامیاب رہی۔

اس تجربے کے دوران بعض جزوی مسائل کے بارے میں بھی ہدایات دی گئی ہیں ، جن کی اس دور میں اسلامی جماعت کو بہت ضرورت تھی اور اس کے لئے بہت اہم تھیں ۔ مثلاً یہ کہ اجتماعی جوش و خروش بعض اوقات قائد کو دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ اگر وہ محض ظاہر بینی سے کام لے اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہ کرے ۔ اس لئے قائدین کا فرض ہے کہ وہ کارکنان کو کسی سخت معرکے میں ڈالنے سے پہلے انہیں آزمائے ۔ اس واقعہ میں بنی اسرائیل کے اصحاب رائے ، نبی وقت کے پاس گئے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ کوئی بادشاہ مقرر کردیں ، جس کی قیادت میں وہ اپنے دین کے دشمنوں سے لڑیں ، اس لئے کہ ان دشمنوں نے ان سے حکومت چھین لی ہے ، ان کی دولت پر قابض ہوگئے ہیں ، وہ ان مقدسات سے بھی محروم کردیئے گئے ہیں جو آل موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون کے عہد میں ان کے پاس محفوظ تھے ۔ جب نبی وقت نے ان سے ، ان کے اس ارادے کے بارے میں تسلی چاہی اور ان سے کہا : قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلا تُقَاتِلُوا ” کہیں ایسا تو نہ ہوگا کہ تم کو لڑائی کا حکم دیا جائے اور تم پھر نہ لڑو۔ “ انہوں نے نبی کے اس سوال اور طلب یقین دہانی کو اچھا نہ سمجھا ۔ یہ بات ان پر ناگوار گزری اور ان کا جوش و خروش انتہا کو پہنچ گیا اور کہنے لگے قَالُوا وَمَا لَنَا أَلا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ” بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم راہ اللہ میں نہ لڑیں ، جبکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے ۔ اور ہمارے بال بچے ہم سے جدا کردئیے گئے ہیں ؟ “ لیکن اس جوش و خروش کی آگ جلد ہی بجھ گئی ۔ جذبات کا طوفان ختم ہوگا ۔ اور اس راہ کے مختلف مراحل میں وہ بیٹھتے گئے ۔ جیسا کہ اس واقعہ میں تفصیلات آئی ہیں یا سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلا قَلِيلا مِنْهُمْ ” مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ایک قلیل تعداد کے سوا ، وہ سب پیٹھ موڑ گئے ۔ “ بنی اسرائیل کی تو یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں ، اپنے عہد سے پھرجاتے ہیں اور اپنے ساتھی کو آدھی راہ میں چھوڑ دیتے ہیں ، لیکن ایسے واقعات انسانی جماعتوں میں بہرحال پائے جاتے ہیں اور خصوصاً ان جماعتوں میں جو اپنے ایمان ویقین کے اعتبار سے ، اور اپنی اعلیٰ تربیت کے اعتبار سے ابھی اعلیٰ معیار تک نہ پہنچی ہوں ۔ اس لئے جماعتی زندگی کا یہ منظر بھی ، ہر دور کی جماعت مسلمہ کے سامنے پیش کیا جانا ضروری تھا ، تاکہ ہر دور کی مسلم جماعت بنی اسرائیل کے اس تجربے سے فائدہ اٹھائے۔

اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے ظاہری جوش و خروش ، جذباتی اور فوری اقدام کی آزمائش صرف ایک مرتبہ ہی نہ ہو بلکہ بار بار کارکنوں کو آزمانا چاہئے ۔ جب بنی اسرائیل کے اپنے مطالبے پر قتال فرض ہوئی تو ان کی اکثریت نے پیٹھ پھیرلی ۔ وہی قلیل تعداد رہی جس نے اپنے نبی کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو قائم رکھا ۔ اور یہ وہی لوگ تھے جو پہلے تو نبی وقت کے طالوت کی سربراہی پر لڑتے رہے کہ وہ بادشاہت کے قابل ہی نہیں ہے ۔ لیکن جس وقت اس کی بادشاہی کی علامت ظاہر ہوگئی اور نبی اسرائیل کو اس کی قیادت میں وہ مقدسات واپس مل گئے جو دشمنوں کے قبضے میں چلے گئے تھے اور جنہیں فرشتوں نے اٹھاکر واپس کیا ، تب بنی اسرائیل قیادت پر تو راضی ہوئے لیکن ان کی اکثریت پہلے مرحلے ہی میں جہاد سے مکر گئی ۔ اور وہ پہلی آزمائش ہی میں ، جو ان کے قائد نے قائم کی ، ناکام ہوگئے۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلا قَلِيلا مِنْهُمْ ” پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا ، تو اس نے کہا :” ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے ۔ جو اس کا پانی پئے گا وہ میرا ساتھی نہیں ۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے ، جو اس سے پیاس نہ بجھائے ، ہاں ایک آدھ چلو کوئی پی لے ، مگر ایک گروہ قلیل کے سوا سب ہی دریا سے سیراب ہوئے ۔ “ لیکن یہ قلیل تعداد بھی آخر تک ثابت قدم نہ رہ سکی ۔ یہ قلیل تعداد ایک زندہ خطرہ کے مقابلے میں آئی ، جب انہوں نے دشمن کی کثرت اور ان کی قوت کو دیکھا تو حوصلے پست ہوگئے ۔ دل متزلزل ہوگئے فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ” پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کرکے آگے بڑھے تو انہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ۔ “ اس شرمناک موقف کے مقابلے میں صرف چنے ہوئے مٹھی بھر لوگ ڈٹ گئے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کیا ۔ اور اس پر یقین کیا اور انہوں نے کہا : كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ” بارہا ایسا ہوا کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے ۔ “ یہ تھا وہ قلیل گروہ جس نے پلڑا بھاری کردیا ۔ اور اللہ کی امداد آگئی اور بنی اسرائیل عزت اور استقرار کے مالک بن گئے۔

اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک صالح ، دانشمند اور مومن قیادت کی شان کیا ہوتی ہے ؟ طالوت کی قیادت میں یہ تمام صفات موجود ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طالوت لوگوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے ۔ انہوں نے بنی اسرائیل کا ظاہری جوش و خروش دیکھ کر دھوکہ نہ کھایا ۔ پھر انہوں نے صرف ایک ہی تجربہ پر اکتفا نہ کیا ۔ انہوں نے اپنے فوجیوں کے عزم اور اطاعت امر کا ، اصل معرکہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی امتحان لیا ۔ جو لوگ ان آزمائشوں میں ناپختہ پائے گئے انہیں جدا کرکے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ پھر اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری ۔ ایک ایک تجربہ کے بعد ان کی فوج گھٹتی ہی رہی لیکن وہ بڑھتے چلے گئے اور ہمت نہ ہاری ۔ آخر کار ان کے ساتھ مٹھی بھر لوگ ہی جمے رہے لیکن چنے ہوئے لوگ منتخب مجاہد تھے ۔ اب وہ خالص قوت ایمان اور اللہ کے بھروسہ کے بل بوتے پر معرکے میں کود پڑے اور اللہ کا وعدہ تو ایمان والوں سے سچا ہوتا ہی ہے ۔

اس معرکہ میں جو آخری عبرت ہے وہ یہ ہے کہ جو انسان اللہ سے لو لگالیتا ہے تو اس کی اقدار بدل جاتی ہیں ، اس کے تصورات کے پیمانے بدل جاتے ہیں ، کیونکہ اس کی نظر صرف اس دنیا کے اس محدود دائرے پر ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ اس دنیا سے بہت ہی آگے ، ایک وسیع دائرے میں جاکر سوچتا ہے ۔ جو تمام معاملات کا اصل الاصول ہے ۔ یہ مٹھی بھر اہل ایمان جو ثابت قدم رہے جو معرکے میں کود پڑے ، اور جنہوں نے اللہ کی نصرت حاصل کی ، وہ بھی تو اپنی قلت دیکھ رہے تھے کہ ان کی تعداد کم ہے ۔ اور ان کے دشمن تعداد میں بہت ہی زیادہ ہیں اور جنہیں دیکھ کر ان کے دوسرے بھائی یہ پکار چکے قَالُوا لا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ” ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں ۔ “ لیکن اس مٹھی بھر ایماندار جماعت نے اس صورت حال کے بارے میں وہ فیصلہ نہ کیا ۔ اس نے بہت ہی مختلف فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ” بارہا ایسا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ “ اس کے بعد یہ گروہ مٹھی بھر ایمانداروں کا گروہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے : رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ” اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کا فیضان کر ۔ ہمارے قدم جمادے اور کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر۔ “ یہ جماعت محسوس کرتی تھی کہ قوتوں کا ترازو کافروں کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ وہ تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے اس گروہ نے اللہ سے نصرت طلب کی اور اس نے وہ امداد اس ہاتھ سے وصول کرلی جس کا وہ ہاتھ مالک تھا ، اور جس کو وہ ہاتھ عطا کرسکتا تھا۔ جب اہل ایمان اللہ تک پہنچ جاتے ہیں تو ان کے پیمانے بدل جاتے ہیں ، ان کی اقدار بدل جاتی ہیں اور جب دل میں صحیح ایمان پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ دل کی دنیا میں اللہ کے ساتھ معاملہ کرنا زیادہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ ہم اس ظاہری اور جھوٹی دنیا کے معیاروں کے مطابق کوئی معاملہ کریں ۔

اس سطور میں ہم نے ان تمام اشارات کا احاطہ نہیں کرلیا ، جو اس قصے میں پائے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ قرآنی اشارات اور حکمتوں کا القاء ہر اس شخص پر اس کے حالات کے مطابق ہوتا ہے اور نیز اس مقدار کے مطابق ہوتا ہے جس قدر اس کو ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ہر شخص اپنا حصہ لے لیتا ہے ، پھر بھی اشارات اور حکم کا بڑ احصہ محفوظ ہوتا ہے اور مختلف حالات میں اپنی اپنی مقسوم کے مطابق ، ان اشارات کا انکشاف ہوتا رہتا ہے ۔

غرض اس عمومی تبصرے کے بعد اب مناسب ہے کہ آیات پر تفصیلاً بحث کی جائے۔

یہ لوگ کون تھے ؟ جو ہزاروں میں تھے اور جو موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکلے ۔ یہ کس سرزمین کے باشندے تھے ؟ تاریخ کے کس دور میں نکلے یہ لوگ ان کے بارے میں تاویلات وتوجیہات کے انبار میں اپنے آپ کو گم نہیں کرنا چاہتا ۔ اگر اللہ تعالیٰ کو ان کے بارے میں کچھ بتانامقصود ہوتا تو وہ ضرور بتا دیتا ۔ جیسا کہ قرآن مجید کے بعض دوسرے متعین قسم کے قصص کے سلسلے میں کیا گیا ہے ۔ یہاں مطلب صرف عبرت کا حصول اور مسلمانوں کو نصیحت کرنا ہے ۔ مقصد یہ نہیں کہ قصہ بذات خود مطلوب ہے تاکہ اس کے اشخاص ، مقام واقعہ اور زمان واقعہ کی تفصیلات دی جائیں ۔ یہاں اگر مکان وزمان کا تعین بھی کرلیا جائے تو بھی اس سے معنی ومطلب میں نہ اضافہ ہوتا ہے اور نہ کمی ۔ یعنی واقعہ سے عبرت لینا۔

یہاں مقصود صرف یہ ہے کہ موت وحیات کے ظاہری اسباب اور ان اسباب سے بھی آگے اس کی اصل حقیقت کے بارے میں مسلمانوں کے نقطہ نظر کو درست کردیا جائے ۔ اور یہ بتادیا جائے کہ موت وحیات کا فیصلہ اس دنیا میں نہیں ہوتا ۔ یہ فیصلے قادرمطلق اور مدبر الکون کرتا ہے۔ اور یہ کہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کے نوشتہ پر مکمل اطمینان کرلینا چاہئے ۔ اور اس دنیا میں انسان کو بغیر کسی خوف وخطر اور بغیر کسی جزع وفزع کے اپنے فرائض سر انجام دینے چاہئیں ۔ تقدیریں لکھنے والا موجود ہے اور زندگی اور موت کا آخری فیصلہ صرف اس کے ہاتھ میں ہے ۔

یہاں مقصدیہ کہنا ہے کہ موت کے ڈر سے موت ٹل نہیں جاتی اور جزع وفزع کرنے سے ، چیخنے پکارنے سے ، زندگی میں اضافہ نہیں ہوجاتا ، نہ ان سے قضائے الٰہی ٹل سکتی ہے ۔ نہ اجل ان سے ذرا بھی موخر ہوسکتی ہے۔ اللہ ہی ہے جو زندگی عطا کرتا ہے ۔ وہی زندگی کی بخشش کرتا ہے اور وہی ہے جو زندگی واپس لے لیتا ہے۔ دونوں حالات میں اس کا فضل انسان کے شامل حال ہوتا ہے ۔ لیتا ہے پھر اس کا فضل ہے اور اگر دیتا ہے پھر فضل ہے ۔ زندگی دینے کے پس منظر میں اور زندگی نہ دینے کے پس منظر میں دونوں حالات میں اس کی عظیم حکمت عملی کارفرماہوتی ہے ۔ ان دونوں حالات میں لوگوں کی مصلحت ہے ۔ دونوں صورتوں میں لینے اور دینے میں اللہ کا فضل ہمارے شامل حال ہوتا ہے : إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَشْكُرُونَ (243) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ “

ان لوگوں کا جمع ہونا ، پھر ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونا ، پھر اپنے گھروں سے نکل پڑنا اور موت کے ڈر سے نکل پڑنا ، لازماً ایسے حالات میں جزع وفزع ، ہائے ہو کا عالم ہوگا۔ ان کا یہ بھاگنا کسی جنگجو دشمن کے ڈر سے ہو یا کسی سخت وبائی بیماری کے پھوٹ پڑنے کی وجہ سے ہو ، چاہے وجہ جو بھی ہو ، اس سے موت کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ” اللہ نے فرمایا : مرجاؤ۔ “

اللہ تعالیٰ نے کس طرح انہیں کہا ؟ وہ کس طرح مرگئے ؟ کیا وہ اسی مصیبت کی وجہ سے مرگئے ، جس کی وجہ سے نکلے تھے یا وہ کسی دوسرے ایسے سبب کی وجہ سے مرگئے جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا۔ اس کی کوئی تفصیل قرآن مجید نے نہیں دی ہے ۔ کیونکہ ان تفصیلات کی اس مقصد کے لئے کوئی ضرورت نہ تھی یعنی عبرت انگیزی ۔ بتانا یہ ہے کہ جزع وفزع اور خوف وہراس کی وجہ سے وہ اس چیز سے بچ نہ سکے جس کی وجہ سے وہ بھاگ رہے تھے ۔ وہ موت سے بچ نہ سکے اور اللہ کے فیصلے کو رد کرنے کی کوئی سبیل نہ تھی ۔ اگر وہ اللہ کی طرف لوٹ آتے اور صبر وثبات اور سنجیدہ رویہ اختیار کرتے تو یہ زیادہ بھلا ہوتا ۔

ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ” پھر اس نے ان کو دوبارہ زندگی بخشی۔ “ کسی طرح اس نے ان لوگوں کو زندہ کردیا ؟ کیا انہی لوگوں کی موت کے بعد معجزانہ طور پر زندہ کردیا گیا۔ یا ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا کئے جو طاقتور اور بہادر تھے اور آباء و اجداد کی طرح آہ وبکا کرنے والے نہ تھے ۔ ان باتوں کی تفصیل بھی قرآن مجید نے پیش نہیں فرمائی ۔ اس لئے ہمیں بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم اس کی تشریح میں طرح طرح کی تاویلات شروع کردیں اور بےسند روایات کے انباروں میں خوامخواہ اپنے آپ کو گم کردیں ، جیسا کہ بعض تفاسیر میں ذکر ہوا ہے ۔ جو کچھ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ، بغیر کسی جدوجہد ومشقت کے ان کو دوبارہ زندگی دے دی ، حالانکہ انہوں نے موت سے بچنے کے لئے جو آہ وبکا کیا تھا ، اس سے ان کی موت رک نہ سکی۔

خلاصہ یہ ہے کہ آہ وبکا اللہ کے فیصلے کو روک نہیں سکتی ۔ جزع وفزع سے زندگی محفوظ نہیں ہوجاتی ۔ زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ ایک شخص کو اس کی اپنی جدوجہد کے بغیر ہی دی جاتی ہے ۔ اگر یہ ہے حقیقت تو پھر بزدلو ! تمہاری آنکھیں نیند کے لئے ترس جائیں اور تمہیں کبھی چین نہ ملے :

اب جو دو رکوع زیر مطالعہ آ رہے ہیں یہ اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں اس جنگ کا تذکرہ ہے جس کی حیثیت گویا تاریخ بنی اسرائیل کے غزوۂ بدر کی ہے۔ قبل ازیں یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل نے یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد و قتال کیا تو فلسطین فتح ہوگیا۔ لیکن انہوں نے ایک مستحکم حکومت قائم کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی بارہ حکومتیں بنا لیں اور آپس میں لڑتے بھی رہے۔ لیکن تین سو برس کے بعد پھر یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ جب ان کے اوپر دنیا تنگ ہوگئی اور آس پاس کی کافر اور مشرک قوموں نے انہیں دبا لیا اور بہت سوں کو ان کے گھروں اور ان کے ملکوں سے نکال دیا تو پھر تنگ آکر انہوں نے اس وقت کے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے کوئی بادشاہ ‘ یعنی سپہ سالار مقرر کردیجیے ‘ اب ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے۔ چناچہ وہ جو جنگ ہوئی ہے طالوت اور جالوت کی ‘ اس کے بعد گویا بنی اسرائیل کا دور خلافت راشدہ شروع ہوا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کا یہ دور جسے میں خلافت راشدہ سے تعبیر کر رہا ہوں ‘ ان کے رسول علیہ السلام کے انتقال کے تین سو برس بعد شروع ہوا ‘ جبکہ اس امت مسلمہ کی خلافت راشدہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے ساتھّ متصل ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رض نے جانیں دیں ‘ خون دیا ‘ قربانیاں دیں اور اس کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں دین غالب ہوگیا اور اسلامی ریاست قائم ہوگئی۔ نتیجتاً آپ ﷺ کے انتقال کے بعد خلافت کا دور شروع ہوگیا ‘ لیکن وہاں تین سو برس گزرنے کے بعد ان کا دور خلافت آیا ہے۔ اس میں بھی تین خلافتیں تو متفق علیہ ہیں۔ یعنی حضرت طالوت ‘ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی خلافت۔ لیکن چوتھی خلافت پر آکر تقسیم ہوگئی۔ جیسے حضرت علی رض خلیفۂ رابع کے زمانے میں عالم اسلام منقسم ہوگیا کہ مصر اور شام نے حضرت علی رض کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی طرح فلسطین کی مملکت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوگئی ‘ اور اسرائیل اور یہودیہ کے نام سے دو ریاستیں وجود میں آگئیں۔ قرآن حکیم میں اس مقام پر طالوت اور جالوت کی اس جنگ کا تذکرہ آ رہا ہے جس کے بعد تاریخ بنی اسرائیل میں اسلام کے غلبے اور خلافت راشدہ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ درحقیقت صحابہ کرام رض کو ایک آئینہ دکھایا جا رہا ہے کہ اب یہی مرحلہ تمہیں درپیش ہے ‘ غزوۂ بدر پیش آیا چاہتا ہے۔ آیت 243 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ یعنی جب کفار اور مشرکین نے ان پر غلبہ کرلیا اور یہ دہشت زدہ ہو کر ‘ اپنے ملک چھوڑ کر ‘ اپنے گھروں سے نکل بھاگے۔فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْاقف ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ط یہاں موت سے مراد خوف اور بزدلی کی موت بھی ہوسکتی ہے جو ان پر بیس برس طاری رہی ‘ پھر سیموئیل نبی کی اصلاح و تجدید کی کوششوں سے ان کی نشأۃِ ثانیہ ہوئی اور اللہ نے ان کے اندر ایک جذبہ پیدا کردیا۔ گویا یہاں پر موت اور احیاء سے مراد معنوی اور روحانی و اخلاقی موت اور احیاء ہے۔ لیکن بالفعل جسدی موت اور احیاء بھی اللہ کے اختیار سے باہر نہیں ‘ اس کی قدرت میں ہے ‘ وہ سب کو مار کر بھی دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ اکثر لوگ شکر گزاری کی روش اختیار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ناقدری کرتے ہیں۔اب سابقہ امت مسلمہ کے غزوۂ بدر کا حال بیان کرنے سے پہلے مسلمانوں سے گفتگو ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ ان کی ہدایت کے لیے بیان ہو رہا ہے ‘ تاریخ بیان کرنا قرآن کا مقصد نہیں ہے۔ یہ توٌ رسول اللہ ﷺ کی انقلابیّ جدوجہدُ کی تحریک جس مرحلے سے گزر رہی تھی اور انقلابی عمل جس سٹیج پر پہنچ چکا تھا اس کی مناسبت سے سابقہ امت مسلمہ کی تاریخ سے واقعات بھی لائے جا رہے ہیں اور اسی کی مناسبت سے احکام بھی دیے جا رہے ہیں۔

موت اور زندگی : ابن عباس فرماتے ہیں یہ لوگ چار ہزار تھے اور روایت میں ہے کہ آٹھ ہزار تھے، بعض تو ہزار کہتے ہیں، بعض چالیس ہزار بتاتے ہیں، بعض تیس ہزار سے کچھ اوپر بتاتے ہیں، یہ لوگ ذرو روان نامی بستی کے تھے جو واسط کی طرف ہے، بعض کہتے ہیں اس بستی کا نام اذرعات تھا، یہ لوگ طاعون کے مارے اپنے شہر کو چھوڑ کر بھاگے تھے، ایک بستی میں جب پہنچے وہیں اللہ کے حکم سے سب مرگئے، اتفاق سے ایک نبی اللہ کا وہاں سے گزرا، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر دوبارہ زندہ کردیا، بعض لوگ کہتے ہیں ایک چٹیل صاف ہوادار کھلے پر فضا میدان میں ٹھہرے تھے اور دو فرشتوں کی چیخ سے ہلاک کئے گئے تھے جب ایک لمبی مدت گزر چکی ان کی ہڈیوں کا بھی چونا ہوگیا، اسی جگہ بستی بس گئی تب خرقیل نامی ایک نبی وہاں سے نکلے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حکم دیا کہ تم کہو کہ اے بوسیدہ ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم سب جمع ہوجاؤ، چناچہ ہر ہر جسم کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا پھر اللہ کا حکم ہوا ندا کرو کہ اے ہڈیو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گوشت پوست رگیں پٹھے بھی جوڑ لو، چناچہ اس نبی کے دیکھتے ہوئے یہ بھی ہوگیا، پھر آواز آئی کہ اے روحو اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ ہر روح اپنے اپنے قدیم جسم میں آجائے چناچہ یہ سب جس طرح ایک ساتھ مرے تھے اسی طرح ایک ساتھ جی اٹھے اور بےساختہ انکی زبان سے نکلا (سبحانک لا الہ الا انت) اے اللہ تو پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، یہ دلیل ہے قیامت کے دن اسی جسم کے ساتھ دوبارہ جی اٹھنے کی۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا بھاری فضل و کرم ہے کہ وہ زبردست ٹھوس نشانیاں اپنی قدرت قاہرہ کی دکھا رہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ناقدرے اور بےشکرے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جگہ بچاؤ اور پناہ نہیں یہ لوگ وبا سے بھاگے تھے اور زندگی کے حریص تھے تو اس کے خلاف عذاب آیا اور فوراً ہلاک ہوگئے، مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف چلے اور سرنح میں پہنچے تو ابو عبیدہ بن جراح وغیرہ سرداران لشکر ملے اور خبر دی کہ شام میں آج کل وبا ہے چناچہ اس میں اختلاف ہوا کہ اب وہاں جائیں یا نہ جائیں، بالآخر عبدالرحمن بن عوف جب آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جب وبا کسی جگہ آئے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے اس کے ڈر سے مت بھاگو، اور جب تم کسی جگہ وبا کی خبر سن لو تو وہاں مت جاؤ۔ حضرت عمر فاروق نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر وہاں سے واپس چلے گئے (بخاری مسلم) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو اگلی امتوں پر ڈالا گیا تھا۔

آیت 243 - سورۃ البقرہ: (۞ ألم تر إلى الذين خرجوا من ديارهم وهم ألوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم أحياهم ۚ إن...) - اردو