سورۃ البقرہ: آیت 177 - ۞ ليس البر أن تولوا... - اردو

آیت 177 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

۞ لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّۦنَ وَءَاتَى ٱلْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَٰمَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَٰهَدُوا۟ ۖ وَٱلصَّٰبِرِينَ فِى ٱلْبَأْسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلْبَأْسِ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُوا۟ ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُتَّقُونَ

اردو ترجمہ

نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں او رمسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلامو ں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laysa albirra an tuwalloo wujoohakum qibala almashriqi waalmaghribi walakinna albirra man amana biAllahi waalyawmi alakhiri waalmalaikati waalkitabi waalnnabiyyeena waata almala AAala hubbihi thawee alqurba waalyatama waalmasakeena waibna alssabeeli waalssaileena wafee alrriqabi waaqama alssalata waata alzzakata waalmoofoona biAAahdihim itha AAahadoo waalssabireena fee albasai waalddarrai waheena albasi olaika allatheena sadaqoo waolaika humu almuttaqoona

آیت 177 کی تفسیر

سچ بات یہ ہے کہ یہ آیت بھی تحویل قبلہ کے احکام اور ان پر یہودیوں کے طویل اعتراضات وجوابات کے ساتھ مربوط ہیں ۔ تحویل قبلہ کی حکمت کے بارے میں تو ہم اس سے پہلے بیان کر آئے ہیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ ۔ عبادات اور شعائر دین کی ظاہری شکل و صورت کے بارے میں یہودیوں کی ظاہر بینی اور تقشف پرستی کو بےنقاب کرتے ہوئے ، حسن وقبح کا ایک عظیم معیار اور نیکی اور بدی کی اصلی حقیقت بیان کررہے ہیں۔ کیونکہ یہودی ان ظاہری امور کے بارے میں بےحد حساس تھے اور جھگڑتے تھے ۔

تحویل قبلہ یا تمام عبادات میں غرض وغایت یہ نہیں کہ لوگ مشرق کی طرف رخ کریں یا مغرب کی طرف چہرہ کرکے عبادت سر انجام دیں۔ بیت المقدس کی طرف رخ کریں یا مسجد حرام کی طرف ۔ یا یہ کہ عبادات کی موجودہ شکل و صورت ہی عین خیر وبھلائی نہیں ہے ۔ بلکہ ان کے لئے بہت ضروری ہے کہ دل کے اندر محسوس کیا جانے والاتصور اور اسلامی نظریہ حیات کا زندہ شعور ضروری ہے ۔ ان ذہنی امور کے ساتھ ساتھ مخصوص طرز عمل اپنانا بھی ضروری ہے ۔ ورنہ نیکی وبھلائی کے حصول اور حسن وخیر کو بروئے کار لانے کا اصل مقصد پورا نہ ہوسکے گا۔ نیکی دراصل ایک تصور ہے ، ایک شعور ہے ، کچھ اعمال ہیں ، ایک طرز عمل ہے ۔ یہ ایک تصور حیات ہے ۔ جو ایک فرد اور ایک جماعت کے ضمیر پر اثر انداز ہو ، وہ ایک عمل ہے جو فرد وجماعت کی زندگیوں میں پسندیدہ اثرات پیدا کرے ۔ صرف مشرق ومغرب کی طرف سے رخ پھیر دینے سے زندگی میں یہ انقلاب کیونکر آسکتا ہے ۔ منہ کوئی ادھر کرے یا ادھر کرے ، فرق کیا پڑتا ہے ، اصل مقصد تو رجوع قلب ہے ۔ جو اللہ کے احکام مانتا ہے ، منزل پالیتا ہے ۔ یہی معاملہ ہے تمام دینی شعائر کی ظاہری شکل و صورت کا ، جنہیں یہ ادا کرتے ہیں ۔ جو اللہ کے احکام مانتا ہے ، منزل پالیتا ہے ۔ یہی معاملہ ہے تمام دینی شعائر کی ظاہری شکل و صورت کا ، جنہیں یہ ادا کرتے ہیں۔ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ ” بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے ۔ “

یہ ہے بھلائی کا وہ معیار جو تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے ۔ اس معیار میں نیکی کی جو اقدار مقرر کی گئی ہیں وہ بہت ہی وزنی ہیں ۔ اللہ ایمان ، یو آخر پر ایمان اور ملائکہ وکتب اور انبیاء پر ایمان کی قدر و قیمت اسلامی نقطہ نظر سے کیا ہے ؟

اللہ پر ایمان لانا انسانی زندگی میں ایک نقطہ انقلاب ہے ۔ اس کے ذریعے انسان مختلف قوتوں ، مختلف چیزوں اور مختلف پسندیدہ تصورات کی بندگی اور غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ اور صرف ایک بندگی اور غلامی قبول کرلیتا ہے ۔ یوں انسان تمام دوسرے انسانوں کے ساتھ ، ایک ہی صف میں کھڑا ہوکر ، ایک ہی معبود کے سامنے جھک کر ، اخوت و مساوات کا بلند مقام حاصل کرلیتا ہے ۔ ایمان وہ مقام ہے جہاں طوائف الملوکی کی بجائے ایک نظام قائم ہوتا ہے ۔ انتشار کی جگہ یکسوئی اور اختلاف کی جگہ اتحاد قائم ہوجاتا ہے نیز گمراہی کے بجائے ایک اونچا نصب العین سامنے آجاتا ہے ۔ اگر انسان کے دل میں ایک واحد لاشریک خدا پر ایمان نہ ہو تو ، اس دنیا میں اس کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا ، جس پر دلجمعی کے ساتھ اپنی قوتوں کو مرتکز کرسکے اور جس پر مساوات کے ساتھ وہ مجتمع ہوسکے ۔ بعینہ اس طرح جس طرح وجود کائنات ایک نقطہ کے اردگرد مرتکز ہے ۔ اس کے اجزا کا باہمی ربط ہے ۔ اور ان کے مابین واضح نسبت موجود ہے ۔ اور جس کے مختلف اجزاء کے باہمی علائق اور مقاصد بالکل واضح اور معلوم اور مربوط ہیں ۔

آخرت پر ایمان کا مقصد یہ ہے کہ انسان جزا وسزا میں اللہ تعالیٰ کی عدالت کو یقین کے ساتھ تسلیم کرے ۔ یہ جانے کہ اس کرہ ارض پر انسان کو یونہی بےمقصد نہیں پیدا کیا گیا ۔ وہ غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اسے حساب دینا ہوگا اگر کوئی بھلائی کرے تو وہ ختم نہیں ہوسکتی اگرچہ اس کی جزا اس دنیا میں نہ ملے ۔ ملائکہ پر ایمان بھی غیب پر ایمان کا ایک حصہ ہے ۔ انسانی فہم وادراک اور ایک حیوان کے فہم وادراک میں یہی فرق ہے ۔ انسانی تصور حیات اور حیوانی تصور حیات میں یہی فرق ہے کہ انسان محسوسات سے آگے کی بھی بعض چیزوں پر ایمان لاتا ہے اور ان کا ادراک کرسکتا ہے ۔ جبکہ حیوان کا احساس صرف محسوسات کے دائرے میں محدود ہوتا ہے کتاب اور نبیوں پر ایمان کا مقصدیہ ہے کہ انسان تمام رسولوں پر ایمان لائے بلاتفریق ۔ یعنی انسانیت بھی ایک ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے ۔ اس کا خدا بھی ایک ہے ۔ اس کے لئے دین اور نظام زندگی بھی ایک ہے ۔ اس طرح مومن انبیاء ورسل کے اعلیٰ خیالات کا وارث ہوجاتا ہے ۔ لہٰذ اکتب ورسل پر ایمان ایک مومن کو بہت قیمتی شعور عطا کرتا ہے۔

مال کے ساتھ انسان کو بڑی محبت ہے لیکن مال قربان کرنے کی بھی بڑی اہمیت ہے ۔ غریب رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں اور گردن چھڑانے اور غلامی سے نجات دلانے کے لئے مال خرچ کرنا یہ سبھی کام انسان کو بلند مرتبہ بناتے ہیں ۔

انفاق فی سبیل اللہ کا یہ اثر ہوتا ہے کہ انسان لالچ ، خود غرضی اور بخل کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ مال کی محبت ہاتھوں کو انفاق سے کھینچ لیتی ہے ۔ انسان بلند ہمتی ، اولوالعزمی ، جودوسخا اور دادوہش کے مقام بلند سے گرجاتا ہے اور روح انسانی میں کشادگی نہیں رہتی ۔ اسلامی نظام میں انفاق کا ایک روحانی مقام ہے ۔ اس لئے یہ ان مسلمانوں کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ مال کی محبت کے باوجود اپنا محبوب ترین اور پسندیدہ ترین مال کو دل وجان کی آمادگی اور کشادگی کے ساتھ خرچ کریں ۔ اس کی بڑی روحانی اہمیت ہے اور اس طریقہ سے مومن اپنے آپ کو دولت کی پوجا اور دولت کی غلامی سے چھڑالے گا ۔ دولت کی پوجا سے انسان بالیقین ذلیل ہوجاتا ہے۔ سرفرازی کی بجائے سرنگوں ہوتا ہے اور انفاق سے وہ لالچ اور حرص کی غلامی سے آزاد ہوجائے گا ۔ اسلامی نقطہ نظر سے سرنگوں ہونے کے بجائے وہ گردن فراز ہوجائے گا لیکن اگر وہ انفاق نہ کرے توذلیل ہوگا ۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بہت بڑی قدر و قیمت ہے ۔ کیونکہ اسلامی نظام کی غایت یہ ہے کہ انسان کو سب سے پہلے نفسیاتی پریشانیوں ، اخلاقی کمزوریوں اور طمع و لالچ سے نجات دلائے ۔ یہ کام انسان کے لئے معاشرتی آزادی سے بھی پہلے کیا جاتا ہے ۔ شخصی وسیاسی آزادی سے بھی پہلے کیوں ؟ اس لئے کہ جو شخص اپنے نفس کا غلام ہو وہ بسہولت طاغوت کی غلامی کے لئے بھی تیار ہوتا ہے۔ لیکن جو شخص خواہشات نفسانیہ کے قید وبند سے آزاد ہوجاتا ہے وہ اپنے معاشرے اور سوسائٹی میں بھی آزاد ہوتا ہے ۔ کسی کی غلامی کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ انسانی معاشرے میں انفاق فی سبیل اللہ کی ایک معاشرتی قدر و قیمت بھی ہے ۔ اقربا سے صلہ رحمی کی وجہ سے نفس انسانی میں مروت پیدا ہوتی ہے ، خاندان میں شرافت کا چلن فروغ پاتا ہے اور اقرباء کے درمیان تعلقات زیادہ قوی ہوجاتے ہیں ۔ اسلامی معاشرے کی اساس خاندان پر ہے اس لئے یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ خاندانی نظام کو مضبوط کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔ پھر یتیموں کی مالی امداد کا حکم ہے ۔ اس کا مقصد اصل معاشرہ میں امیر و غریب ، طاقتور اور کمزور کے درمیان نظام کفالت کا قیام ہے ۔ یتامی مادری اور پدری شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ ان کے لئے ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ ان کے احساس محرومیت کی تلافی کی جائے ۔ پھر اس تکافل کے نتیجے میں پوری سوسائٹی کو ان خودرو شتر بےمہار اور غیر تربیت یافتہ افراد کی کثرت سے بھی بچایا گیا ہے۔ جو معاشرے کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں ۔ اس کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں اور فتنہ سامانیوں کا موجب بنتے ہیں ۔ ایسے لوگ آگے جاکر معاشرے کی لاپرواہی اور بےمروتی کا خوب انتقام لیتے ہیں ۔ مساکین پر انفاق جن کے پاس وسائل زندگی نہیں ہیں ۔ پھر بھی وہ خاموش بیٹھے ہیں ۔ عزت نفس رکھتے ہیں اور سوال نہیں کرتے ۔ یہ انفاق ان کی عزت نفس کے لئے محافظ ہے ۔ انہیں تباہی سے بچاتا ہے ۔ نظام انفاق سے اسلامی معاشرے میں ، ایسے حضرات کے دلوں میں اجتماعی کفالت اور ضمانت کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ اسلامی معاشرہ تو ہوتا ہی وہ ہے جس میں کسی فرد کو بےیارومددگار نہ چھوڑاجائے اور اس کے کسی عضو کو ضائع ہونے نہ دیا جائے ۔ ابن سبیل (مسافر) جو اپنے خاندان سے دور ہو ، جن کے پاس وسائل موجود نہ ہوں ، اچانک مصیبت میں گرفتار ہوجائے ۔ خاندان کے افراد اس سے دور ہوں ، ایسے حالات میں یہ مسافر بھی مصیبت زدہ ہے ۔

یہ انفاق اس کے لئے ایک قسم کی ہنگامی امداد ہے ۔ اس امداد سے اسے یہ شعور دیا جاتا ہے کہ پوری انسانیت اس کا خاندان ہے ۔ ہر ملک اس کا ملک ہے ، ہر جگہ اس کا خاندان موجود ہے ، مسلمان اس کے اہل خاندان ہیں ۔ ہر جگہ اس کے اپنے مال کے بدلے اس کے لئے مال موجود ہے ۔ اس کے لئے صلہ رحمی موجود ہے ۔ اور اس کے لئے آرام کا سامان فراہم ہوسکتا ہے ۔ سائلین پر انفاق ضروری ہے تاکہ ان کی ضرورت پوری ہو ، وہ آئندہ سوال کرنا چھوڑدیں ۔ اسلام بھیک مانگنے کو ناپسند کرتا ہے ۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جس کے پاس بقدر کفالت موجود ہو اس کے لئے سوال کرنا جائز نہیں ہے ۔ جو کام کاج کرسکتا ہے ، اس کے لئے بھی سوال جائز نہیں ہے ۔ ایسے شخص کے لئے خدا کا حکم یہ ہے کہ وہ مزدوری کرے ، بھیک نہ مانگے یا قناعت کرے ، دست سوال دراز نہ کرے ، بھیک مانگنا تب جائز ہے جب کام نہ ہو ، مال نہ ہو ، اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو ۔

غلامی سے چھڑانے میں انفاق بھی ایک مد ہے ۔ جو بدقسمت اپنی بدعملی کی وجہ سے غلام ہوگیا ، اس نے اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی ۔ جنگ کے نتیجے میں اس کی آزادی ختم ہوگئی ۔ اسے عارضی طور پر معاشرے میں مقام شرافت سے محروم کردیا گیا۔ اس پر انفاق یوں ہوگا کہ اس کو خرید کر آزاد کردیا جائے یا غلام اپنے آقا سے معاہدہ آزادی کرے اور اسے رقم معاہدہ ادا کرنے کا پابند ہو ۔ اسلام نے غلاموں کے لئے یہ قانون بنایا تھا کہ غلام جس وقت چاہتا مالک کے ساتھ ایک معاہدہ آزادی کرتا اور آزاد ہوجاتا۔ اس معاہدے کے مطابق اسے وہ رقم ادا کرنی ہوتی ہے جو طے پاجائے ۔ (ایسے معاہدہ کے بعد غلام ) اپنے کام کی اجرت وصول کرنے کا مستحق ہوجاتا ہے جو معاہدے کی رقم میں کٹتی رہتی ہے ۔ علاوہ ازیں وہ مستحق زکوٰۃ ہوجاتا ۔ اسی طرح وہ انفاق فی سبیل اللہ کی تمام مدات میں سے اس کی امداد کی جاسکتی تھی تاکہ وہ جلد از جلد رقم معاہدہ ادا کرکے آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوجائے۔

اقامت صلوٰۃ

نیکی کے اس معیار میں نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ اور اقامت صلوٰۃ صرف مشرق ومغرب کی طرف چہرہ کرکے کھڑے ہوجانے سے اقامت کا مفہوم ادا نہیں ہوجاتا۔ یہ نقطہ وسیع تر مفہوم رکھتا ہے۔ جو یہ ہے کہ انسان کا ظاہر و باطن اور اس کی عقل وروح سب پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجائیں ۔ نماز نہ تو محض جسمانی ورزش کا نام ہے اور نہ ہی صرف صوفیانہ درودوظائف کا نام ہے۔ نماز دراصل اسلام کی بنیادی فکر ونظر کی عکاس ہے۔ اسلام اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ انسان اس ایک وجود میں جسم ، روح اور عقل تین چیزوں کا اجتماع ہے ۔ اسلام اس بات کا بھی قائل نہیں ہے کہ ان تین طاقتوں کی سرگرمیوں اور دائرہ عمل میں باہمی کوئی تضاد پایا جاتا ہے ۔ وہ جسم کو فناکرکے روح کو آزاد کرنا جائز نہیں سمجھتا ۔ کیونکہ روحانی آزادی کے لئے جسمانی فنا یا جسم کو مارنا لازمی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ، اپنی سب سے اہم اور بڑی عبادت یعنی نماز میں ان تین طاقتوں کی سرگرمی کو ہم آہنگ کردیا ہے ۔ نماز میں تینوں قوتیں مکمل نظم کے ساتھ اپنے خالق کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں ۔ قیام ، رکوع اور سجدہ وجسمانی حرکات ہیں جو روح کو رجوع الی اللہ کی طرف راغب کرتی ہیں ۔ قرآن کی تلاوت ، اس میں غوروفکر اور مفہوم کو سمجھنا عقل کا کام ہے اور اس پورے عرصے میں عقل انسانی اس کام میں مصروف ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عزت توجہ اور مکمل تسلیم ورضا اور عجز و انکسار روح کا کام ہے اور اس طرح یہ تینوں قوتیں ایک ہی وقت میں مصروف کار ہوتی ہیں ۔ غرض اس معنی میں اقامت صلوٰۃ پوری اسلامی طرز فکر کی نمائندہ ہے ۔ اور وہ چشم بینا کو یہ سبق یاد دلاتی ہے کہ پوری زندگی کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے ؟ ہر نماز اور ہر نماز کی حرکت میں ہم یہ سبق دہراتے ہیں ۔

زکوٰۃ کی ادائیگی

یہ اسلامی نظام میں غرباء و مساکین کے لئے اغنیاء اور اہل ثروت کی دولت پر عائد کردہ ، ایک اسلامی ٹیکس ہے ۔ یہ ٹیکس اللہ تعالیٰ نے عائد کیا ہے ۔ دراصل اللہ تعالیٰ ہی دولت کا حقیقی مالک ہے ۔ بندے کو اس کا مجازاً مالک بنایا گیا ہے ۔ اور اس لئے اسلامی نقطہ نظر سے اس پر کچھ شرائط عائد کی گئی ہیں اور ان میں سے اہم اور لازمی شرط ادائیگی زکوٰۃ ہے ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا ذکر عام انفاق فی سبیل اللہ کے عام حکم کے بعد کیا گیا ہے جس کا ذکر اوپر ہوگیا ہے کہ دولت محبت کے باوجود اقرباء وغیرہ پر صرف کی جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ مذکورہ بالا تمام صرف مال اور انفاق فی سبیل اللہ سے علیحدہ ایک مستقل مد ہے ۔ یہ لازمی ٹیکس اور منصوص فرض ہے ۔ جب کہ عام انفاق فی سبیل اللہ صرف ترغیب ہے ۔ لیکن نیکی کا یہ مجموعی معیار جس کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے ، اس وقت تک مکمل نہ ہوگا جبب تک ان دونوں مدات پر حسب حساب وحسب توفیق عمل نہ کیا جائے ۔ یہ دونوں مدیں اسلام کی بنیادی عناصر ترکیبی ہیں ۔ لیکن ہر انسان کی زندگی میں دونوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔ ایک پر عمل کرنے سے دوسرا ہرگز ساقط نہیں ہوسکتا۔

وفائے عہد

یہ اسلام کی وہ علامت ہے جس کی حفاظت میں اسلام بےحد کوشش کرتا ہے ۔ قرآن کریم میں بار بار اس کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ اسے ایمان کی نشانی گردانا گیا ہے ۔ اسے احسان اور آدمیت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور یوں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ ایک انسان اور انسان کے تعلقات میں ایک فرد اور جماعت کے تعلقات میں ، ایک قوم اور دوسری قوم کے تعلقات میں اعتماد اور اطمینان پیدا کرنے کے لئے وفائے عہدنہایت ہی ضروری ہے ۔ وفائے عہد کی خشیت اول خود ذات باری تعالیٰ سے اپنے عہد کی وفا ہے۔ اگر ایک مستحق اپنے مالک کا وفادار نہ ہو تو ہمیشہ پریشان اور غیر مطمئن رہے گا اور کوئی عہد پورانہ کرسکے گا ۔ وہ کسی میثاق پر جم نہ سکے گا ۔ کسی انسان پر اعتماد نہ کرے گا ۔

دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ ، وفائے عہد میں اسلام اس مقام بلند تک پہنچا ہے کہ جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی ۔ کوئی قوم ، کوئی امت بھی اس مقام بلند تک نہیں پہنچ سکی ۔ یہ مقام انسانیت کو اسلام کے سایہ اور اسلامی نظریہ حیات کی روشنی ہی میں معلوم ہوا۔

حق اور باطل کی کشمکش میں صبر

صبر وہ وصف ہے جو انسان کو مصائب برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے ۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ کوئی مشکل مرحلہ آئے تو انسان بہت ہمت سے اس کا مقابلہ کرے ۔ مصیبت کے وقت آہیں بھرناشروع نہ کردے۔ سختیوں میں جزع وفزع شروع نہ کردے ۔ صبر اور مصابرت اور تحمل وثبات اسی کا نام ہے ۔ صبر مضبوطی سے حق کو پکڑلینے کا نام ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مصائب کے بادل چھٹ جاتے ہیں ۔ مصیبت دور ہوجاتی ہے اور مشکلات کے بعد آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ یہ اللہ کی مرضی کو قبول کرنا ہے ، اس سے پر امید ہونا ، اس پر اعتماد کرنا ہے ۔ وہ امت جسے پوری انسانیت کی امامت اور نگرانی کا مقام دیا گیا ہو ، جسے دنیا میں عدل قائم کرنا ہے اور پوری انسانیت کی اصلاح کا فرض ادا کرنا ہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دولت صبر سے مالا مال ہو۔ مشکلات درپیش ہوں ، اس کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی ہوں۔ اسے تنگیوں ، مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے ۔ باطل کے ساتھ کشمکش برپا ہو اور شدید سے شدید ترحالات پیش آئیں تو صبر و استقامت ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہو۔ مصیبت اور غربت میں صبر ، جسمانی ضعف اور بیماری میں صبر افراد کی قلت اور کمزوری پر صبر ، محاصرے اور مجاہدے میں صبر ، غرض ہر حال میں صبر اور ہر آن میں صبر ۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس میں یہ امت اپنا عظیم فرض منصبی ادا کرسکتی ہے ۔ وہ اپنے منصوبے کو پورا کرسکتی ہے ۔ بصورت دیگر اسے کامیابی حاصل نہ ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تنگی ومصیبت کے اور حق و باطل کی کشمکش میں صبر کرنے والوں کو لفظ الصابرین (حالت نصبی) سے مخاطب کیا ہے ۔ جس سے لفظ ” خاص کر “ کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے جن صفات کا ذکر ہوا ہے وہ حالت رفعی (مستقل جملوں) میں ہیں لیکن اس صفت کو حالت منصبی (مفعول ہے اور فعل محذوف ہے) میں ذکر کیا ہے۔ مطلب ہے (میں صابرین کو مخصوص طور پر بیان کرتا ہوں ، نیکی اور بھلائی کی صفات کے ذکر کے ضمن میں یہ ایک خاص اشارہ ہے اور اس کا اپنا ایک مخصوص وزن اور ایک خاص اہمیت ہے ، یعنی اللہ پر ایمان فرشتوں پر ایمان ، کتابوں پر ایمان ، نبیوں پر ایمان ، مال کا خرچ کرنا ، نماز کا قائم کرنا ، زکوٰۃ کا ادا کرنا ۔ اور وفائے عہد کی تمام صفات میں سے صفت صبر اور اس کے حاملین الصابرین کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ، اللہ کے ہاں ان کی سب سے زیادہ قدر ہے ۔ صابرین کا مقام سب سے زیادہ برتر وبلند ہے ۔ صابرین کے اس مقام بلند کو دیکھ کر تمام لوگوں کی نگاہیں اس طرف اٹھ جاتی ہیں ۔

ذرا دیکھئے ایک ہی آیت میں نظریہ و عقیدہ کے اصول ، جسمانی فرائض اور مالی ذمہ داریاں اور دولت کے واجبات کو بیان کردیا گیا ہے ۔ نظریہ و حقیقت کو ایک کردیا گیا ہے ۔ ایسی اکائی کی صورت میں جس کو ٹکڑے نہ کیا جاسکتا ہو ، جس کے اجزاء ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہوسکیں اور زندگی کے ان مختلف شعبوں کا عنوان صرف ایک ہے (نیکی) بعض احادیث میں نیکی کو عین ایمان کہا گیا ہے ۔ غرض یہ آیت اسلامی تصور حیات کا مکمل خلاصہ ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کے اصول اس میں یکجا ہوگئے ہیں ۔ یہ سب ضروری اصول ہیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں ۔ اور ان کے بغیر اسلامی نظام کا قیام ہرگز نہیں ہوسکتا۔

جن لوگوں کی صفات یہ ہوں ، ان کا مقام بھی یہاں آخر میں بطور نتیجہ بیان کردیا جاتا ہے۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (177) ” یہ ہیں راست باز لوگ اور یہ ہیں متقی۔ “

یہی لوگ ہیں جنہوں نے اسلام میں ، اپنے رب کے ساتھ بالکل سچ کہا ۔ وہ ایمان و اعتقاد میں بھی سچے ہیں اور اپنے ایمان و اعتقاد کو اپنی زندگی میں عملی شکل دینے میں بھی بالکل وہ سچے ہیں ۔ یہی لوگ دراصل متقی ہیں جو اپنے رب کے ساتھ جڑ جاتے ہیں ، اس سے ڈرتے ہیں ۔ وہ احساس ذمہ داری اور شعور کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔

ان آیات کے درمیان سے ذرا جھانک کر دیکھیں ، ہمیں ایک بلند افق نظر آئے گا ۔ ایک بلند مقام عزت نظر آئے گا ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ ، انسانیت کو اپنے تجویز کردہ اعلیٰ ترین نظام حیات کے ذریعے سرفراز کرنا چاہتا ہے ۔ اور پھر ہم ذرا لوگوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں ، تو وہ اس نظام سے دور بھاگتے ہیں ۔ اس سے پہلو تہی کرتے ہیں ۔ اس کا مقابلہ کرتے ہیں ، بلکہ اس کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں ۔ اور اس کے ماننے والوں کے جانی دشمن ہوجاتے ہیں ۔ جب ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہیں تو ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی طرح کہنا پڑتا ہے ۔ یا حسرۃ علی العباد

اور پھر ہم نصب العین کے اس افق بلند پر دوبارہ نظر ڈالتے ہیں ۔ یاس و حسرت کی یہ کیفیت فوراً رفو ہوجاتی ہے ۔ امید کی کرن نظر آتی ہے ۔ اللہ پر یقین پختہ ہوجاتا ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کی قوت اور برتری پر غیر متزلزل یقین پیدا ہوجاتا ہے اور جب اپنے مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو افق پر امید کی کرن موجود پاتے ہیں ۔ وہ روشن تر اور واضح تر ہے ۔ ضروری ہے کہ اس طویل تھکاوٹ اور مصائب نے ایک بار پھر اسلامی نظام زندگی پر ان کا یقین پختہ کردیا ہو۔ امید ہے اس اعلیٰ وارفع نظام کی طرف انسانیت ایک بار پھر بڑھے گی اور یہ مان لے گی کہ اللہ ہی مستعان ہے وہی معین و مددگار ہے ۔

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘ اس سورة مبارکہ میں کئی ایسی عظیم آیات آئی ہیں جو حجم کے اعتبار سے بھی اور معنی و حکمت کے اعتبار سے بھی بہت عظیم ہیں ‘ جیسے دو ‘ رکوع پہلے آیت الآیات گزر چکی ہے۔ اسی طرح سے اب یہ آیت البر آرہی ہے ‘ جس میں نیکی کی حقیقت واضح کی گئی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں نیکی کے مختلف تصوّرات ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جس کا نیکی کا تصور یہ ہے کہ بس سچ بولنا چاہیے ‘ کسی کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے ‘ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے ‘ یہ نیکی ہے ‘ باقی کوئی نماز روزہ کی پابندی کرے یا نہ کرے ‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ! ایک طبقہ وہ ہے جس میں چورّ اُچکے ‘ گرہ کٹ ‘ ڈاکو اور بدمعاش شامل ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کرتے ہیں اور یہ کام ان کے ہاں نیکی شمار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جسم فروش خواتین بھی اپنے ہاں نیکی کا ایک تصور رکھتی ہیں ‘ وہ خیرات بھی کرتی ہیں اور مسجدیں بھی تعمیر کراتی ہیں۔ ہمارے ہاں مذہبی طبقات میں ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب کے ظاہر کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کی روح سے ناآشنا ہوتا ہے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ مچھر چھانتے ہیں اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہیں۔ ان کے اختلافات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ رفع یدین کے بغیر نماز ہوئی یا نہیں ؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس ہیں ؟ باقی یہ کہ سودی کاروبار تم بھی کرو اور ہم بھی ‘ اس سے کسی کی حنفیتّ یا اہل حدیثیّت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ نیکی کے یہ سارے تصورات مسخ شدہ perverted ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اندھوں نے ایک ہاتھی کو دیکھ کر اندازہ کرنا چاہا تھا کہ وہ کیسا ہے۔ کسی نے اس کے پیر کو ٹٹول کر کہا کہ یہ تو ستون کی مانند ہے ‘ جس کا ہاتھ اس کے کان پر پڑگیا اس نے کہا یہ چھاج کی طرح ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں نیکی کا تصور تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ بقول اقبال : ؂اڑائے کچھ ورق لالے نے ‘ کچھ نرگس نے کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری !یہ آیت اس اعتبار سے قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے کہ نیکی کی حقیقت کیا ہے ‘ اس کی جڑ بنیاد کیا ہے ‘ اس کی روح کیا ہے ‘ اس کے مظاہر کیا ہیں ؟ پھر ان مظاہر میں اہم ترین کون سے ہیں اور ثانوی حیثیت کن کی ہے ؟ چناچہ اس ایک آیت کی روشنی میں قرآن کے علم الاخلاق پر ایک جامع کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ گویا اخلاقیات قرآنی Quranic Ethics کے لیے یہ آیت جڑ اور بنیاد ہے۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ یہ آیت یہاں کیونکر آئی ہے۔ اس کے پس منظر میں بھی وہی تحویل قبلہ ہے۔ تحویل قبلہ کے بارے میں چار رکوع 15 تا 18 تو مسلسل ہیں۔ اس سے پہلے چودھویں رکوع میں آیت آئی ہے : وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ط آیت 115 ادھر بھی اٹھارہویں رکوع کے بعد اتنی آیتیں چھوڑ کر یہ آیت آرہی ہے۔ فرمایا :آیت 177 لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اس عمل کے نیکی ہونے کی نفی نہیں کی گئی۔ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے۔ یہ بھی نیکی ہے۔ نیکی کا جو ظاہر ہے وہ بھی نیکی ہے ‘ لیکن اصل شے اس کا باطن ہے۔ اگر باطن صحیح ہے تو حقیقت میں نیکی نیکی ہے ‘ ورنہ نہیں۔ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَآٰءِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج۔ سب سے پہلے نیکی کی جڑ بنیاد بیان کردی گئی کہ یہ ایمان ہے ‘ تاکہ تصحیح نیت ہوجائے۔ ایمانیات میں سب سے پہلے اللہ پر ایمان ہے۔ یعنی جو نیکی کر رہا ہے وہ صرف اللہ سے اجر کا طالب ہے۔ پھر قیامت کے دن پر ایمان کا ذکر ہوا کہ اس نیکی کا اجر دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں مطلوب ہے۔ ورنہ تو یہ سوداگری ہوگئی۔ اور آدمی اگر سوداگری اور دکانداری کرے تو دنیا کی چیزیں بیچے ‘ دین تو نہ بیچے۔ دین کا کام کر رہا ہے تو اس کے لیے سوائے اخروی نجات کے اور اللہ کی رضا کے کوئی اور شے مقصود نہ ہو۔ یوم آخرت کے بعد فرشتوں ‘ کتابوں اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان کا ذکر کیا گیا۔ یہ تینوں مل کر ایک یونٹ بنتے ہیں۔ فرشتہ وحی کی صورت میں کتاب لے کر آیا ‘ جو انبیاء کرام علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ ایمان بالرسالت کا تعلق نیکی کے ساتھ یہ ہے کہ نیکی کا ایکّ مجسمہ ‘ ایک ماڈل ‘ ایک آئیڈیل اسوۂ رسول ﷺ ‘ کی صورت میں انسانوں کے سامنے رہے۔ ایسا نہ ہو کہ اونچ نیچ ہوجائے۔ نیکیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جذبات میں ایک طرف کو نکل گیا اور کوئی دوسری طرف کو نکل گیا۔ اس گمراہی سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے کہ ایک مکمل اسوہ سامنے رہے ‘ جس میں تمام چیزیں معتدل ہوں اور وہ اسوہ ہمارے لیے ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت ہے۔ نیکی کے ظاہر کے لیے ہم آپ ﷺ ہی کو معیار سمجھیں گے۔ جو شے جتنی آپ ﷺ ‘ کی سیرت میں ہے ‘ اس سے زیادہ نہ ہو اور اس سے کم نہ ہو۔ کوشش یہ ہو کہ انسان بالکل رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ کاملہ کی پیروی کرے۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ یعنی مال کی محبت کے علی الرغم۔ عَلٰی حُبِّہٖ میں ضمیر متصلّ اللہ کے لیے نہیں ہے بلکہ مال کے لیے ہے۔ مال اگرچہ محبوب ہے ‘ پھر بھی وہ خرچ کر رہا ہے۔ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِلا والسَّآءِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج۔ گویا نیکی کے مظاہر میں اوّلین مظہر انسانی ہمدردی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو نیکی کا وجود نہیں ہے۔ عبادات کے انبار لگے ہوں مگر دل میں شقاوت ہو ‘ انسان کو حاجت میں دیکھ کر دل نہ پسیجے ‘ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تجوری کی طرف ہاتھ نہ بڑھے ‘ حالانکہ تجوری میں مال موجود ہو ‘ تو یہ طرز عمل دین کی روح سے بالکل خالی ہے۔ سورة آل عمران آیت 92 میں الفاظ آئے ہیں : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط تم نیکی کے مقام کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ خرچ نہ کرو اس میں سے جو تمہیں محبوب ہے۔ یہ نہیں کہ جس شے سے طبیعت اکتا گئی ہو ‘ جو کپڑے بوسیدہ ہوگئے ہوں وہ کسی کو دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی جائے۔ جو شے خود کو پسند ہو ‘ عزیز ہو ‘ اگر اس میں سے نہیں دیتے تو تم نیکی کو پہنچ ہی نہیں سکتے۔ وَاَقَام الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ج اور قائم کرے نماز اور ادا کرے زکوٰۃ۔ حکمت دین ملاحظہ کیجیے کہ نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد آیا ہے۔ اس لیے کہ روح دین ایمان ہے اور نیکی کے مظاہر میں سے مظہر اوّل انسانی ہمدردی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجیے کہ یہاں زکوٰۃ کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے ‘ جبکہ اس سے قبل ایتائے مال کا ذکر ہوچکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکَاۃِ 20یقیناً مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔یعنی اگر کچھ لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ بس ہم نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو پورا حق ادا ہوگیا ‘ تو یہ ان کی خام خیالی ہے ‘ مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔ اور آپ ﷺ نے یہی مذکورہ بالا آیت پڑھی۔ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ایمان کو تروتازہ رکھنے کے لیے نماز ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ طٰہٰ نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ اور انسانی ہمدردی میں مال خرچ کرنے کے جذبے کو پروان چڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے زکوٰۃ ہے کہ اتنا تو کم سے کم دینا ہوگا ‘ تاکہ بوتل کا منہ تو کھلے۔ اگر بوتل کا کارک نکل جائے گا تو امید ہے کہ اس میں سے کوئی شربت اور بھی نکل آئے گا۔ چناچہ اڑھائی فیصد تو فرض زکوٰۃ ہے۔ جو یہ بھی نہیں دیتا وہ مزید کیا دے گا ؟ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا ج۔ انسان نے سب سے بڑا عہد اپنے پروردگار سے کیا تھا جو عہد الست کہلاتا ہے ‘ پھر شریعت کا عہد ہے جو ہم نے اللہ کے ساتھ کر رکھا ہے۔ پھر آپس میں جو بھی معاہدے ہوں ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ معاملات انسانی سارے کے سارے معاہدات کی شکل میں ہیں۔ شادی بھی شوہر اور بیوی کے مابین ایک سماجی معاہدہ social contract ہے۔ شوہر کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں اور بیوی کی بھی کچھّ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں ‘ بیوی کے شوہر پر حقوق ہیں۔ پھر آجر اور مستأجر کا جو باہمی تعلق ہے وہ بھی ایک معاہدہ ہے۔ تمام بڑے بڑے کاروبار معاہدوں پر ہی چلتے ہیں۔ پھر ہمارا جو سیاسی نظام ہے وہ بھی معاہدوں پر مبنی ہے۔ تو اگر لوگوں میں ایک چیز پیدا ہوجائے کہ جو عہد کرلیا ہے اسے پورا کرنا ہے تو تمام معاملات سدھر جائیں گے ‘ ان کی stream lining ہوجائے گی۔ وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط۔ یہ نیکی بدھ مت کے بھکشوؤں کی نیکی سے مختلف ہے۔ یہ نیکی باطل کو چیلنج کرتی ہے۔ یہ نیکی خانقاہوں تک محدود نہیں ہوتی ‘ صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتی ‘ بلکہ اللہ کو جو نیکی مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ۔ اور جب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ گے تو خود بھی تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی۔ اس راہ میں صحابہ کرام رض کو بھی تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور جانیں دینی پڑی ہیں۔ اللہ کا کلمہ سربلند کرنے کے لیے سینکڑوں صحابہ کرام رض نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ دنیا کے ہر نظام اخلاق میں خیراعلیٰ summum bonumکا ایک تصوّر ہوتا ہے کہ سب سے اونچی نیکی کیا ہے ! قرآن کی رو سے سب سے اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ حق کے غلبے کے لیے ‘ صداقت ‘ دیانت اور امانت کی بالادستی کے لیے اپنی گردن کٹا دی جائے۔ وہ آیت یاد کر لیجیے جو چند رکوع پہلے ہم پڑھ چکے ہیں : وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ اور جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں جام شہادت نوش کرلیں انہیں مردہ مت کہو ‘ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعورحاصل نہیں ہے۔ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط۔ راست بازی اور نیکوکاری کا دعویٰ تو بہت سوں کو ہے ‘ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دعوے میں سچے ‘ ہیں۔ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ۔ ہمارے ذہنوں میں نیکی اور تقویٰ کے کچھ اور نقشے بیٹھے ہوئے ہیں کہ شاید تقویٰ کسی مخصوص لباس اور خاص وضع قطع کا نام ہے۔ یہاں قرآن حکیم نے نیکی اور تقویٰ کی حامل انسانی شخصیت کا ایک ہیولا اور اس کے کردار کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ اس کے باطن میں روح ایمان موجود ہے اور خارج میں اس ترتیب کے ساتھ دین کے یہ تقاضے اور نیکی کے یہ مظاہر موجود ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ آمین یا رب العالمیناس کے بعد وہی جو انسانی معاملات ہیں ان پر بحث چلے گی۔ سورة البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کے بارے میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ یہ گویا چار لڑیوں پر مشتمل ہیں ‘ جن میں سے دو لڑیاں عبادات اور احکام و شرائع کی ہیں۔

ایمان کا ایک پہلو اس پاک آیت میں صحیح عقیدے اور راہ مستقیم کی تعلیم ہو رہی ہے حضرت ابوذر ؓ نے جب حضور ﷺ سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ تو حضور ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی، انہوں نے پھر سوال کیا حضور نے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی پھر یہی سوال کیا آپ نے فرمایا سنو نیکی سے محبت اور برائی سے عداوت ایمان ہے (ابن ابی حاتم) لیکن اس روایت کی سند منقطع ہے، مجاہد حضرت ابوذر سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں حالانکہ ان کی ملاقات ثابت نہیں ہوئی۔ ایک شخص نے حضرت ابوذر سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے ؟ تو آپ نے یہی آیت تلاوت فرما دی اس نے کہا حضرت میں آپ سے بھلائی کے بارے میں سوال نہیں کرتا میرا سوال ایمان کے بارے میں ہے تو آپ نے فرمایا سن ایک شخص نے یہی سوال حضور سے کیا آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما دی وہ بھی تمہاری طرح راضی نہ ہوا تو آپ نے فرمایا مومن جب نیک کام کرتا ہے تو اس کا جی خوش ہوجاتا ہے اور اسے ثواب کی امید ہوتی ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو اس کا دل غمیگین ہوجاتا ہے اور وہ عذاب سے ڈرنے لگتا ہے (ابن مردویہ) یہ روایت بھی منقطع ہے اب اس آیت کی تفسیر سنئے۔ مومنوں کو پہلے تو حکم ہوا کہ وہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں پھر انہیں کعبہ کی طرف گھما دیا گیا جو اہل کتاب پر اور بعض ایمان والوں پر بھی شاق گزرا پس اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا اصل مقصد اطاعت فرمان اللہ ہے وہ جدھر منہ کرنے کو کہے کرلو، اہل تقویٰ اصل بھلائی اور کامل ایمان یہی ہے کہ مالک کے زیر فرمان رہو، اگر کوئی مشرق کیطرف منہ کرے یا مغرب کی طرف منہ پھیر لے اور اللہ کا حکم نہ ہو تو وہ اس توجہ سے ایماندار نہیں ہوجائے گا بلکہ حقیقت میں باایمان وہ ہے جس میں وہ اوصاف ہوں جو اس آیت میں بیان ہوئے، قرآن کریم نے ایک اور جگہ فرمایا ہے آیت (لَنْ يَّنَال اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ) 22۔ الحج :37) یعنی تمہاری قربانیوں کے گوشت اور لہو اللہ کو نہیں پہنچتے بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تم نمازیں پڑھو اور دوسرے اعمال نہ کرو یہ کوئی بھلائی نہیں۔ یہ حکم اس وقت تھا جب مکہ سے مدینہ کی طرف لوٹے تھے لیکن پھر اس کے بعد اور فرائض اور احکام نازل ہوئے اور ان پر عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا، مشرق و مغرب کو اس کے لئے خاص کیا گیا کہ یہود مغرب کی طرف اور نصاریٰ مشرق کی طرف منہ کیا کرتے تھے، پس غرض یہ ہے کہ یہ تو صرف لفظی ایمان ہے ایمان کی حقیقت تو عمل ہے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں بھلائی یہ ہے کہ اطاعت کا مادہ دل میں پیدا ہوجائے، فرائض پابندی کے ساتھ ادا ہوں، تمام بھلائیوں کا عامل ہو، حق تو یہ ہے کہ جس نے اس آیت پر عمل کرلیا اس نے کامل اسلام پا لیا اور دل کھول کر بھلائی سمیٹ لی، اس کا ذات باری پر ایمان ہے یہ وہ جانتا ہے کہ معبود برحق وہی ہے فرشتوں کے وجود کو اور اس بات کو کہ وہ اللہ کا پیغام اللہ کے مخصوص بندوں پر لاتے ہیں یہ مانتا ہے، کل آسمانی کتابوں کو برحق جانتا ہے اور سب سے آخری کتاب قرآن کریم کو جو کہ تمام اگلی کتابوں کو سچا کہنے والی تمام بھلائیوں کی جامع اور دین و دنیا کی سعادت پر مشتمل ہے وہ مانتا ہے، اسی طرح اول سے آخر تک کے تمام انبیاء پر بھی اس کا ایمان ہے، بالخصوص خاتم الانبیاء رسول اللہ ﷺ پر بھی۔ مال کو باوجود مال کی محبت کے راہ اللہ میں خرچ کرتا ہے، صحیح حدیث شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں افضل صدقہ یہ ہے کہ تو اپنی صحت اور مال کی محبت کی حالت میں اللہ کے نام دے باوجودیکہ مال کی کمی کا اندیشہ ہو اور زیادتی کی رغبت بھی ہو (بخاری ومسلم) مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت (وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ۚ وَاَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا) 2۔ البقرۃ :177) پڑھ کر فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے تم صحت میں اور مال کی چاہت کی حالت میں فقیری سے ڈرتے ہوئے اور امیری کی خواہش رکھتے ہوئے صدقہ کرو، لیکن اس روایت کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے، اصل میں یہ فرمان حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا ہے، قرآن کریم میں سورة دھر میں فرمایا آیت (وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا) 76۔ الانسان :8) مسلمان باوجود کھانے کی چاہت کے مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں اللہ کی خوشنودی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے اس کا بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ اور جگہ فرمایا آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) 3۔ آل عمران :92) جب تک تم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام نہ دو تم حقیقی بھلائی نہیں پاسکتے۔ اور جگہ فرمایا آیت (وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ) 59۔ الحشر :9) یعنی باوجود اپنی حاجت اور ضرورت کے بھی وہ دوسروں کو اپنے نفس پر مقدم کرتے ہیں پس یہ لوگ بڑے پایہ کے ہیں کیونکہ پہلی قسم کے لوگوں نے تو اپنی پسندیدہ چیز باوجود اس کی محبت کے دوسروں کو دی لیکن ان بزرگوں نے اپنی چاہت کی وہ چیز جس کے وہ خود محتاج تھے دوسروں کو دے دی اور اپنی حاجت مندی کا خیال بھی نہ کیا۔ ذوی القربی انہیں کہتے ہیں جو رشتہ دار ہوں صدقہ دیتے وقت یہ دوسروں سے زیادہ مقدم ہیں۔ حدیث میں ہے مسکین کو دینا اکہرا ثواب ہے اور قرابت دار مسکین کو دینا دوہرا ثواب ہے، ایک ثواب صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا۔ تمہاری بخشش اور خیراتوں کے زیادہ مستحق یہ ہیں، قرآن کریم میں ان کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم کئی جگہ ہے۔ یتیم سے مراد وہ چھوٹے بچے ہیں جن کے والد مرگئے ہوں اور ان کا کمانے والا کوئی نہ ہو نہ خود انہیں اپنی روزی حاصل کرنے کی قوت وطاقت ہو، حدیث شریف میں ہے بلوغت کے بعد یتیمی نہیں رہتی مساکین وہ ہیں جن کے پاس اتنا ہو جو ان کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کا کافی ہو سکے، ان کے ساتھ بھی سلوک کیا جائے جس سے ان کی حاجت پوری ہو اور فقر و فاقہ اور قلت وذلت کی حالت سے بچ سکیں، بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو مانگتے پھرتے ہوں اور ایک ایک دو دو کھجوریں یا ایک ایک دو دو لقمے روٹی کے لے جاتے ہوں بلکہ مسکین وہ بھی ہیں جن کے پاس اتنا نہ ہو کہ ان کے سب کام نکل جائیں نہ وہ اپنی حالت ایسی بنائیں جس سے لوگوں کو علم ہوجائے اور انہیں کوئی کچھ دے دے۔ ابن السبیل مسافر کو کہتے ہیں، اسی طرح وہ شخص بھی جو اطاعت اللہ میں سفر کر رہا ہو اسے جانے آنے کا خرچ دینا، مہمان بھی اسی حکم میں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ مہمان کو بھی ابن السبیل میں داخل کرتے ہیں اور دوسرے بزرگ سلف بھی۔ سائلین وہ لوگ ہیں جو اپنی حاجت ظاہر کر کے لوگوں سے کچھ مانگیں، انہیں بھی صدقہ زکوٰۃ دینا چاہئے، حضور ﷺ فرماتے ہیں سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آئے (ابوداؤد) آیت (فی الرقاب) سے مراد غلاموں کو آزادی دلانا ہے خواہ یہ وہ غلام ہوں جنہوں نے اپنے مالکوں کو مقررہ قیمت کی ادائیگی کا لکھ دیا ہو کہ اتنی رقم ہم تمہیں ادا کردیں گے تو ہم آزاد ہیں لیکن اب ان بیچاروں سے ادا نہیں ہوسکی تو ان کی امداد کر کے انہیں آزاد کرانا، ان تمام قسموں کی اور دوسرے اسی قسم کے لوگوں کی پوری تفسیر سورة برات میں آیت (انما الصدقات) کی تفسیر میں بیان ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ ، حضرت فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مال میں زکوٰۃ کے سوا کچھ اور بھی اللہ تعالیٰ کا حق ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی، اس حدیث کا ایک راوی ابو حمزہ میمون اعور ضعیف ہے۔ پھر فرمایا نماز کو وقت پر پورے رکوع سجدے اطمینان اور آرام خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرے جس طرح ادائیگی کا شریعت کا حکم ہے اور زکوٰۃ کو بھی ادا کرے یا یہ معنی کہ اپنے نفس کو بےمعنی باتوں اور رذیل اخلاقوں سے پاک کرے جیسے فرمایا آیت (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا) 91۔ الشمس :9) یعنی اپنے نفس کو پاک کرنے والا فلاح پا گیا اور اسے گندگی میں لتھیڑنے (لت پت کرنے والا) تباہ ہوگیا موسیٰ ؑ نے فرعون سے ہی فرمایا تھا کہ آیت (ھل لک الی ان تزکی) الخ اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت (وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ ۙ الَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ ۙ) 41۔ فصلت :6) یعنی ان مشرکوں کو ویل ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے یا یہ کہ جو اپنے آپ کو شرک سے پاک نہیں کرتے، پس یہاں مندرجہ بالا آیت زکوٰۃ سے مراد زکوٰۃ نفس یعنی اپنے آپ کو گندگیوں اور شرک وکفر سے پاک کرنا ہے، اور ممکن ہے مال کی زکوٰۃ مراد ہو تو اور احکام نفلی صدقہ سے متعلق سمجھے جائیں گے جیسے اوپر حدیث بیان ہوئی کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور حق بھی ہیں۔ پھر فرمایا وعدے پورے کرنے والے جیسے اور جگہ ہے آیت (يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ) 13۔ الرعد :20) یہ لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور وعدے نہیں توڑتے، وعدے توڑنا نفاق کی خصلت ہے، جیسے حدیث میں ہے منافق کی تین نشانیاں ہیں، بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، ایک اور حدیث میں ہے جھگڑے کے وقت گالیاں بکنا۔ پھر فرمایا فقر و فقہ میں مال کی کمی کے وقت بدن کی بیماری کے وقت لڑائی کے موقعہ پر دشمنان دین کے سامنے میدان جنگ میں جہاد کے وقت صبر و ثابت قدم رہنے والے اور فولادی چٹان کی طرح جم جانے والے۔ صابرین کا نصب بطور مدح کے ہے ان سختیوں اور مصیبتوں کے وقت صبر کی تعلیم اور تلقین ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے ہمارا بھروسہ اسی پر ہے۔ پھر فرمایا ان اوصاف والے لوگ ہی سچے ایمان والے ہیں ان کا ظاہر باطن قول فعل یکساں ہے اور متقی بھی یہی لوگ ہیں کیونکہ اطاعت گزار ہیں اور نافرمانیوں سے دور ہیں۔

آیت 177 - سورۃ البقرہ: (۞ ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين وآتى...) - اردو