سورۃ البقرہ: آیت 158 - ۞ إن الصفا والمروة من... - اردو

آیت 158 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

۞ إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ ٱلْبَيْتَ أَوِ ٱعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ

اردو ترجمہ

یقیناً صفا اور مَروہ، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ اِن دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کر لے اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے او ر وہ اس کی قدر کرنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna alssafa waalmarwata min shaAAairi Allahi faman hajja albayta awi iAAtamara fala junaha AAalayhi an yattawwafa bihima waman tatawwaAAa khayran fainna Allaha shakirun AAaleemun

آیت 158 کی تفسیر

اس آیت کی شان نزول میں متعدد روایات منقول ہیں ۔ اسلام نے مہاجرین وانصار کے سابقون الاولون کے دلوں میں جس قسم کا تصور حیات پیدا کیا تھا اس کی نوعیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سب سے زیادہ موضوع اور اس وقت نفیساتی منطق کے مطابق کتب حدیث کی وہ روایت ہے جس میں کہا گیا ہے :” بعض مسلمان حج وعمرہ کے موقع پر صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے سے کراہت محسوس کرتے تھے ۔ کیونکہ جاہلیت کے زمانے میں ان پہاڑیوں کے درمیان وہ اس لئے سعی کرتے تھے کہ یہ مقامات دو بتوں ، اساف ونائلہ کے استھان تھے ۔ اس لئے اسلام آنے کے بعد اب مسلمان اس سعی میں کراہت محسوس کرنے لگے تھے اور اسے زمانہ جاہلیت کا ایک فعل تصور کرنے لگے تھے ۔ “

امام بخاری (رح) نے محمد ابن یوسف ، سفیان ، عاصم بن سلیمان کے سلسلے سے روایت نقل کی ہے ۔ سلیمان کہتے ہیں : میں نے حضرت انس ؓ سے صفاو مروہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا :” ہم سمجھتے تھے کہ یہ دورجاہلیت کی رسومات ہیں ۔ جب اسلام کا ظہور ہوا تو ہم نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا ترک کردی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی یہ آیت نازل فرمائی ” صفا ومروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ “

امام شعبی (رح) فرماتے ہیں کہ اساف بت صفا پر تھا ، اور نائلہ مروہ پر اور وہ انہیں بوسہ دیا کرتے تھے ۔ اس لئے اسلام کے بعد مسلمانوں نے ان کے درمیان سعی کرنے میں کراہت محسوس کی اور اسی پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

روایات میں اس آیت کے نزول کی تاریخ متعین نہیں ہے ، البتہ راجع صورت یہ ہے کہ تحویل قبلہ کے سلسلہ میں جو آیات نازل ہوئیں یہ ان کے بعد نازل ہوئی ہے ۔ اگرچہ اس دور میں مکہ مکرمہ دارالحرب بن گیا تھا ، لیکن اس کے باوجود بعض مسلمان انفرادی طور پر حج اور عمرہ کرسکتے تھے ۔ ایسے ہی لوگوں نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کو جاہلیت کی ایک رسم سمجھا ہوگا۔ ان کے دلوں میں طویل تعلیم و تربیت کے نتیجے میں ایمانی تصور حیات جاگزیں ہوچکا تھا۔ اور اس کی برکت سے وہ جاہلیت کے ہر فعل اور ہر رسم و رواج کو شک اور کراہیت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ وہ جاہلیت کے ہر کام کے بارے میں اس قدر حساس ہوگئے تھے کہ جاہلیت کے دور میں کئے جانے والے ہر فعل کو کرتے ہوئے ڈرتے تھے ، مبادا کہ اسلام نے اسے ترک کرنے کا حکم دیا ہو ۔ مسلمانوں نے مختلف مواقع پر اپنے اس احساس کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔

اسلام کی دعوت نے ان لوگوں کے دلوں کو خوب جھنجھوڑ دیا تھا اور یہ دعوت ان کے دلوں کی گہرائیوں تک اترچکی تھی اور اس دعوت نے ان کے دلوں میں ایک عظیم نفسیاتی اور شعوری انقلاب برپا کردیا تھا ۔ وہ اپنی ہر بات کو کراہیت سے دیکھتے تھے بلکہ وہ ماضی کو ترک کرچکے تھے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ دورجاہلیت ان کی زندگی کا ایک باب تھا جسے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کرچکے ہیں ۔ ان کا ماضی اب ان سے کوئی تعلق ہے ، نہ ان کا ماضی سے کوئی واسطہ ہے ۔ ان کے خیال میں ان کا ماضی ایک قسم کی ناپاکی اور گندگی تھا جسے اب چھونا بھی جائز نہ تھا۔

اس برگزیدہ قوم کی زندگی کے آخری دور کو ذرا غور سے پڑھا جائے ، تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان پاک نفوس پر اس اسلامی نظریہ حیات کا کیا ہی عجیب اثر ہوگیا تھا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو پکڑ کر جھنجھوڑا اور ان سے ہر قسم کی آلودگی کو جھاڑ دیا ۔ اور ان کے وجود کے ذرات کو جدید طرز پر مرتب کردیا بعینہ اس طرح جس طرح بجلی کا ایک جھٹکا دینے سے کسی مادے کے اجزاء اپنی سابقہ کیمیاوی شکل بدل دیتے ہیں اور ایک بالکل نئی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔

یہ ہے اسلام یعنی جاہلیت سے پوری طرح باہر نکل آنا ، اور جاہلیت کے تمام امور کو پوری طرح حرام اور ناپسندیدہ سمجھنا ۔ ہر اس ناپسندیدہ حرکت سے باہر آنا جو جاہلیت ہوتی تھی ۔ ہر اس شعور کو دل و دماغ سے نکال دینا جو جاہلیت کے دور میں ذہنوں پر حاوی ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ مومن کا جام صبونئے تصور حیات اور اس کے تمام لوازمات کے لئے خالی ہوجائے ۔

تحریک اسلامی کی تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ شعور اچھی طرح رچ بس گیا اور وہ اچھی طرح پختہ کار ہوگئے ، تب اسلام نے دورجاہلیت کے شعائر میں سے ، بعض مناسب شعائر کو باقی رکھنے کا اعلان فرمایا۔ اور اس سے پہلے ان شعائر کا رشتہ دورجاہلیت سے کاٹ دیا اور اس کے اسلام کے نظام میں ، اس طرح پیوست کردیا ، جس طرح نگینہ انگشتری میں پیوست ہوجاتا ہے ۔ اب ان چیدہ شعائر پر ایک مسلمان اس لئے عمل پیرا نہیں ہوتا تھا کہ دور جاہلیت میں وہ ان پر عمل کرتا تھا ، بلکہ وہ انہیں اسلام کا ایک شعار جدید تصور کرتا تھا۔ جس کا اصل اسلام میں ہوتا تھا جس کی جڑیں اسلامی نظام زندگی سے آبیاری حاصل کرتی تھیں ۔

اسلام کے ٹھوس اور عمیق نظام تربیت کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن مجید خاص اس مسئلے کے بارے میں اس طرح بات شروع کرتا ہے کہ وہ صفا ومروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ یقیناً صفا ومروہ اللہ کی نشانیوں میں ہیں ۔ “ گوبتایا جاتا ہے کہ ان کے درمیان جو شخص بھی سعی کرے گا وہ اللہ کے شعائر میں سے ایک فریضہ ادا کرے گا۔ وہ ان کے درمیان جو سعی کرے گا اس سے غرض اطاعت حکم خداوندی ہے ۔ اس سعی اور دور جاہلیت کی سعی کے درمیان اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا ۔ اب اس کا آساف ونائلہ اور جاہلیت کے دوسرے بتوں سے کوئی ربط وعقیدت نہیں ہے ، بلکہ تعلق صرف اللہ اور رسول سے ہے ۔

لہٰذا اب اس طواف وسعی میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ کوئی گناہ کی بات نہیں ہے ، بات وہ پرانی بات نہیں رہی ، نقطہ نظر وہ پرانا نقطہ نظر نہیں رہا ہے فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا ” لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج وعمرہ کرے ، اس کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں ہے کہ وہ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سعی کرے ۔ “

حج میں عرب جن مناسک پر عمل کیا کرتے تھے ان میں سے اکثر کو اسلام نے علی حالہ برقرار رکھا ہے ۔ صرف ان چیزوں کو ترک کروایا جن کی نسبت سے بتوں کی طرف تھی یا جو جاہلیت کے اوہام پر مبنی تھیں اور ان کی کوئی حقیقت نہ تھی ۔ جن شعائر کو بحال رکھا گیا ان کا ربط بھی اسلام کے جدید تصور حیات نے قائم کردیا اور یہ کہا کہ یہ وہ شعائر ہیں جن پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عمل کیا (تفصیلات آئندہ بیان حج میں ملاحظہ ہوں)

حج اور عمرہ کے مناسک ایک ہی ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرہ میں عرفہ پر وقوف فرض نہیں ہے ، نیز حج کے لئے جو میقات (وہ مقامات جن سے آگے بغیر نیت نہیں جاسکتا) مقرر ہیں وہ عمرہ کے لئے نہیں ہیں ، لیکن حج اور عمرہ دونوں میں سعی بین الصفا والمروۃ ضروری ہے ۔ اور شعائر اللہ میں سے ہے۔

آیت کا اختتام اس فقرے پر ہوتا ہے کہ جو شخص بھی برضا ورغبت مطلقاً نیکی کا کوئی بھی کام کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے :

وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ” اور جو شخص بھی برضا ورغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا ، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے ۔ “

اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سعی بھی دراصل بھلائی ہے ۔ اس اشارے سے دلی کراہیت دور ہوجاتی ہے ، دل ان کی ادائیگی پر آمادہ ہوجاتا ہے ، اس امر پر مطمئن ہوجاتا ہے کہ اللہ تو اس سعی کا شمار نیکی میں کرے گا۔

پھر اس نیکی پر جزائے خیر بھی دیتا ہے اور وہ نیتوں کا مالک ہے اور قلب کی ہر شعوری حرکت سے باخبر ہے ۔

اب ذرا رکیے ! اور اس حکیمانہ انداز بیان پر دوبارہ ایک نگاہ ڈالئے فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ ” اللہ قدر کرنے والا ہے۔ “ مقصد یہ ہے کہ اللہ بھلائی سے راضی ہوتا ہے ۔ اس کا اجر دیتا ہے ، ثواب دیتا ہے ۔ لفظ ” شاکر “ سے صرف ایک خاص مفہوم ہی نہیں نکلتا بلکہ وہ ایک خاص سایہ عاطفت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے ۔ یہ لفظ رضائے کامل کا پرتو ہے ۔ گویا ذات باری بندے کے نیک اعمال کی قدر کرتی ہے ، تو پھر اب بندے کا فرض کیا ہے کہ وہ بارگاہ خداوند میں شکربجالائے ؟ اس کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی مہربانی کے جواب میں مزید شکر ادا کرے ۔ اس کی بےحد تعریف کرے ، قرآن کے طرز تعبیر کا یہ ایک خاص اسلوب ہے ، جو انسانی شعور واحساس کو شبنم کے تازہ قطروں کی طرح تازگی ، حسن اور ملائمت عطا کرتا ہے۔

صفا ومروہ کے درمیان سعی کی فرضیت کے بعد اب ان لوگوں کی مذمت ہے جو اللہ کی نازل کردہ تعلیمات وہدایات کو چھپاتے ہیں ۔ یہ وہ یہودی ہیں جن کے بارے میں اس سورت میں طویل بحث ، اس سے پہلے ہوچکی ہے ۔ یہاں دوبارہ اس بحث کے چھیڑنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ اور فرضیت حج کے سلسلے میں انہوں نے بحث و تکرار شروع کررکھی تھی ۔ ابھی تک وہ ختم نہیں ہوئی ۔

آیت 158 اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ج۔ یہ آیت اصل سلسلۂ بحث یعنی قبلہ کی بحث سے متعلق ہے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ حج کے مناسک میں یہ جو صفا اور مروہ کی سعی ہے تو اس کی کیا حقیقت ہے ؟ فرمایا کہ یہ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ شعائر ‘ شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو شعور بخشے ‘ جو کسی حقیقت کا احساس دلانے والی اور اس کا مظہر اور نشان ہو۔ چناچہ وہ مظاہر جن کے ساتھ اولوالعزم پیغمبروں یا اولوالعزم اولیاء اللہ کے حالات و واقعات کا کوئی ذہنی سلسلہ قائم ہوتا ہو اور جو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے بطور ایک نشان اور علامت مقرر کیے گئے ہوں شعائر کہلاتے ہیں۔ وہ گویا بعض معنوی حقائق کا شعور دلانے والے اور ذہن کو اللہ کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بیت اللہ ‘ حجر اسود ‘ جمرات اور صفا ومروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں۔ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ط۔ صفا ومروہ کے طواف سے مراد وہ سعی ہے جو ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکروں کی صورت میں کی جاتی ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ شاکر آیا ہے۔ لفظ شکر کی نسبت جب بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی شکر گزاری اور احسان مندی کے ہوتے ہیں ‘ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کے معنی قدر دانی اور قبول کرنے کے ہوجاتے ہیں۔ شاکر کے ساتھ دوسری صفت علیم آئی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ چاہے کسی اور کو پتا نہ لگے اسے تو خوب معلوم ہے۔ اگر تم نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے کسی کو کوئی مالی مدد دی ہے ‘ اس حال میں کہ داہنے ہاتھ نے جو کچھ دیا ہے اس کی بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہونے دی ‘ کجا یہ کہ کسی اور انسان کے سامنے اس کا تذکرہ ہو ‘ تو یہ اللہ کے تو علم میں ہے ‘ چناچہ اگر اللہ سے اجر وثواب چاہتے ہو تو اپنی نیکیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ‘ لیکن اگر تم نے یہ سب کچھ لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا تھا تو گویا وہ شرک ہوگیا۔

صفا اور مروہ کا طواف حضرت عائشہ ؓ سے حضرت عروہ دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طواف نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے تم صحیح نہیں سمجھے اگر یہ بیان مد نظر ہوتا تو ان لا یطوف بھما ہوتا۔ سنو آیت شریف کا شان نزول یہ ہے کہ مثلل (ایک جگہ کا نام ہے) کے پاس مناۃ بت تھا اسلام سے پہلے انصار اسے پوجتے تھے اور جو اس کے نام لبیک پکار لیتا وہ صفا مروہ کے طواف کرنے میں حرج سمجھتا تھا، اب بعد از اسلام ان لوگوں نے حضور ﷺ سے صفا مروہ کے طواف کے حرج کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اتری کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی کے بعدحضور ﷺ نے صفا مروہ کا طواف کیا اس لئے مسنون ہوگیا اور کسی کو اس کے ترک کرنے کا جواز نہ رہا (بخاری مسلم) ابوبکر بن عبدالرحمن نے جب یہ روایت سنی تو وہ کہنے لگے کہ بیشک یہ علمی بات ہے میں نے تو اس سے پہلے سنی ہی نہ تھی بعض اہل علم فرمایا کرتے تھے کہ انصار نے کہا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم ہے صفا مروہ کے طواف کو جاہلیت کا کام جانتے تھے اور اسلام کی حالت میں اس سے بچتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی، ابن عباس سے مروی ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان بہت سے بت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور ﷺ سے یہاں کے طواف کی بابت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور ﷺ سے یہاں کے طواف کی بابت مسئلہ دریافت کیا جس پر یہ آیت اتری " اساف " بت صفا پر تھا اور " نائلہ " مروہ پر، مشرک لوگ انہیں چھوتے اور چومتے تھے اسلام کے بعد لوگ اس سے الگ ہوگئے لیکن یہ آیت اتری جس سے یہاں کا طواف ثابت ہوا، سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ " اساف " اور " نائلہ " دو مردو عورت تھے ان بدکاروں نے کعبہ میں زنا کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں پتھر بنادیا، قریش نے انہیں کعبہ کے باہر رکھ دیا تاکہ لوگوں کو عبرت ہو لیکن کچھ زمانہ کے بعد ان کی عبادت شروع ہوگئی اور صفا مروہ پر لا کر نصب کر دئے گئے اور ان کا طواف شروع ہوگیا، صحیح مسلم کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جب بیت اللہ شریف کا طواف کرچکے تو رکن کو چھو کر باب الصفا سے نکلے اور آیت تلاوت فرما رہے تھے پھر فرمایا میں بھی شروع کروں گا اس سے جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم شروع کرو اس سے جس سے اللہ نے شروع کیا یعنی صفا سے چل کر مروہ جاؤ۔ حضرت حبیبہ بنت تجزاۃ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ صفا مروہ کا طواف کرتے تھے لوگ آپ کے آگے آگے تھے اور آپ ان کے پیچھے تھے آپ قدرے دوڑ لگا رہے تھے اور اس کی وجہ سے آپ کا تہمبند آپ کے ٹخنوں کے درمیان ادھر اھر ہو رہا تھا اور زبان سے فرماتے جاتے تھے لوگوں دوڑ کر چلو اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی لکھ دی ہے (مسند احمد) اسی کی ہم معنی ایک روایت اور بھی ہے۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو صفا مروہ کی سعی کو حج کا رکن جانتے ہیں جیسے حضرت امام شافعی اور ان کے موافقین کا مذہب ہے، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے، بعض اسے واجب تو کہتے ہیں لیکن حج کا رکن نہیں کہتے اگر عمداً یا سہواً یا کوئی شخص اسے چھوڑ دے تو ایک جانور ذبح کرنا پڑے گا۔ امام احمد سے ایک روایت اسی طرح مروی ہے اور ایک اور جماعت بھی یہی کہتی ہے اور ایک قول میں یہ مستحب ہے۔ امام ابو حنیفہ، ثوری، شعبی، ابن سیرین یہی کہتے ہیں۔ حضرت انس ابن عمر اور ابن عباس سے یہی مروی ہے امام مالک سے عتیبہ کی بھی روایت ہے، ان کی دلیل آیت (فمن تطوع خیرا) ہے، لیکن پہلا قول ہی زیادہ راجح ہے اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے کوہ صفا مروہ کا طواف کیا اور فرمایا احکام حج مجھ سے لو، پس آپ نے اپنے اس حج میں جو کچھ کیا وہ واجب ہوگیا اس کا کرنا ضروری ہے، اگر کوئی کام کسی خاص دلیل سے وجوب سے ہٹ جائے تو اور بات ہے واللہ اعلم۔ علاوہ ازیں حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پرسعی لکھ دی یعنی فرض کردی۔ غرض یہاں بیان ہو رہا ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام میں سے ہے جنہیں حضرت ابراہیم کو بجا آوری حج کے لیے سکھائے تھے یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس کی اصل حضرت ہاجرہ کا یہاں سات پھیرے کرنا ہے جبکہ حضرت ابراہیم نے انہیں ان کے چھوٹے بچے سمیت یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ان کے پاس کھانا پینا ختم ہوچکا تھا اور بچے کی جان پر آ بنی تھی تب ام اسماعیل ؑ نہایت بےقراری، بےبسی، ڈر، خوف اور اضطراب کے ساتھ ان پہاڑوں کے درمیان اپنا دامن پھیلائے اللہ سے بھیک مانگتی پھر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ آپ کا غم و ہم، رنج و کرب، تکلیف اور دکھ دور ہوا۔ یہاں سے پھیرے کرنے والے حاجی کو بھی چاہئے کہ نہایت ذلت و مسکنت خضوع و خشوع سے یہاں پھیرے کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنے دل کی صلاحیت اور اپنے مال کی ہدایت اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور نقائص اور عیبوں سے پاکیزگی اور نافرمانیوں سے نفرت چاہے اور ثابت قدمی نیکی فلاح اور بہبودی کی دعا مانگے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرے کہ گناہوں اور برائیوں کی تنگی کی راہ سے ہٹا کر کمال و غفران اور نیکی کی توفیق بخشے جیسے کہ حضرت ہاجرہ کے حال کو اس مالک نے ادھر سے ادھر کردیا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی خوشی نیکی میں زیادتی کرے یعنی بجائے سات پھیروں کے آٹھ نو کرے نفلی حج و عمرے میں بھی صفا ومروہ کا طواف کرے اور بعض نے اسے عام رکھا ہے یعنی ہر نیکی میں زیادتی کرے واللہ اعلم پھر فرمایا اللہ تعالیٰ قدر دان اور علم والا ہے، یعنی تھوڑے سے کام پر بڑا ثواب دیتا ہے اور جزا کی صحیح مقدار کو جانتا ہے نہ تو وہ کسی کے ثواب کو کم کرے نہ کسی پر ذرہ برابر ظلم کرے، ہاں نیکیوں کا ثواب بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اپنے پاس عظیم عنایت فرماتا ہے فالحمد والشکر للہ

آیت 158 - سورۃ البقرہ: (۞ إن الصفا والمروة من شعائر الله ۖ فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما ۚ...) - اردو