سورۃ البقرہ: آیت 154 - ولا تقولوا لمن يقتل في... - اردو

آیت 154 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ ۚ بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

اردو ترجمہ

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala taqooloo liman yuqtalu fee sabeeli Allahi amwatun bal ahyaon walakin la tashAAuroona

آیت 154 کی تفسیر

معرکہ حق و باطل میں کچھ لوگ کام آئیں گے ، راہ حق میں جان دیں گے ۔ کچھ عزیز ومحبوب مارے جائیں گے ، کچھ شرفاء اور دین دار بھی شہید ہوں گے ، تو جو لوگ اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں اور جو لوگ معرکہ خیر وشر میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ، وہ بالعموم پاک نیت اور صاف دل اور صیقل شدہ روح کے مالک ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ اگر اللہ کی راہ میں مارے جائیں تو وہ مردہ نہیں ہیں ۔ درحقیقت وہ زندہ ہیں ۔ یہ جائز نہیں کہ انہیں مردہ کہو ، نہ تو اپنے احساس اور شعور میں انہیں مردہ سمجھو اور نہ ہی زبان سے انہیں مردہ پکارو ۔ وہ تو زندہ ہیں اور اللہ اس پر گواہ ہے ۔ وہ زندہ ہیں یقیناً وہ زندہ !

چشم ظاہر بیں ، دیکھتی ہے کہ بظاہر وہ مرچکے ہیں ۔ کیا یہ سطحی نظر موت وحیات کی حقیقت کا فیصلہ کرسکتی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ زندگی عمل ، ارتقاء اور تسلسل کا نام ہے ۔ موت بےکاری ، جمود اور انقطاع سے عبارت ہے ۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کا عمل جاری رہتا ہے ، ان کی شہادت معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہتی ہے ۔ ان کا خون اس نظریہ حیات کو پہنچتا ہے اور اس سے نظریہ حیات نشوونما پاتا ہے ۔ دوسرے افراد اس شہادت سے متاثر ہوتے رہتے ہیں اور یہ تاثر لگاتار قائم رہتا ہے ۔ شہادت کے بعد بھی شہداء فعال اور موثر ہوتے ہیں ۔ ان کا خون پورے معاشرے کی زندگی میں ایک رنگ پیدا کرتا رہتا ہے ۔ اور یہ تسلسل تاقیامت رہتا ہے ۔ یہ ہے زندگی ، بلکہ حیات جاوداں ۔ اس اعتبار سے تو لوگوں کی اس دنیا میں بھی وہ زندہ ہیں ۔

لیکن وہ اپنے رب کے ہاں بھی زندہ ہیں اور وہاں بھی اس طرح زندہ ہیں جیسے یہاں زندہ ہیں۔ رب کے ہاں ان کی زندگی کی کیا کیفیت ہے ؟ اسی طرح ہے جیسے یہاں ہے یا یہ کہ ہمیں اس کیفیت کا پورا شعور نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَدراصل وہ زندہ ہیں ، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ۔ “ ہمارے علم کا دائرہ محدود ہے ۔ اور یہ ایسی زندگی ہے جسے ہم نہیں سمجھ سکتے ۔ لیکن بہرحال وہ ہیں زندہ !

وہ زندہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عام مردوں کی طرح انہیں غسل نہیں دیا جاتا ۔ انہیں ان کے انہی کپڑوں میں دفن کیا جاتا ہے جن میں وہ شہادت پاتے ہیں ۔ غسل سے غرض وغایت یہ ہوتی ہے کہ مردے کا جسم پاک ہوجائے لیکن شہداء پہلے سے پاک ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان کے بدن میں روح ہوتی ہے ۔ دنیا میں جو کپڑے انہوں نے پہنے ہوئے تھے قبر میں بھی وہی پہنیں گے کیونکہ بہرحال وہ زندہ ہیں ۔

وہ زندہ ہیں ۔ ان کے خاندان میں اس قتل پر ماتم نہیں ہے۔ ان کے یاروں دوستوں پر یہ جدائی گراں نہیں ہے۔ وہ اس طرح زندہ ہیں کہ اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کے امور حیات میں شریک ہیں ۔ وہ زندہ ہیں ۔ اسی لئے تو پیچھے رہنے والوں پر ان کی جدائی گراں نہیں ہوتی ۔ یہ عظیم واقعہ ، یہ عظیم قربانی نہ انہیں خائف کرتی ہے ، نہ ان کے لئے بوجھ بنتی ہے ۔ وہ زندہ ہیں تو پھر ؟ وہ اپنے رب کے ہاں باعزت طور پر رہ رہے ہیں ۔ ان کو بلند ترین اعزاز دیا جاتا ہے اور ان کی اس قربانی کا پورا پورا بدلہ چکا دیا جاتا ہے ، بلکہ فضل عظیم اس پر مزید ہوتا ہے۔

صحیح مسلم میں روایت ہے ” شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں ، جنت میں جہاں چاہیں اڑتی پھرتی ہیں ، پھر وہ عرش کے نیچے معلق قندیلوں میں آکر بسیرا کرتی ہیں ۔ “ اس کی اطلاع تو رب ذوالجلال کو ہوتی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” تم کیا چاہتے ہو ؟ “ وہ کہتے ہیں ! ہمارے رب ہمیں اور کیا چاہئے ۔ آپ نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو آپ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا ؟ اللہ تعالیٰ پھر وہی سوال فرماتے ہیں ۔ جب انہیں علم ہوجاتا ہے کہ جب تک وہ کچھ مانگیں گے نہیں جان نہ چھوٹے گی ۔ تب وہ کہتے ہیں ! ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں دوبارہ دنیا میں لوٹادیں ، ہم آپ کی راہ میں لڑیں ، ایک بار پھر مارے جائیں ۔ اس لئے کہ شہادت کا اجر تو وہ خود دیکھ ہی رہے ہیں ۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں !” میں نے لکھ دیا ہے شہداء پھر دنیا میں نہ لوٹائے جائیں۔ “

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں ” رسول ﷺ نے فرمایا ! کوئی شخص ایسا نہیں جو ایک بار جنت میں داخل ہوجائے اور پھر وہاں سے نکلنے کی تمنا کرے ۔ اگرچہ اسے تمام دنیا بخش دی جائے ۔ ہاں صرف شہید اس بات کی تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا کو لوٹایا جائے اور ایک مرتبہ پھر اللہ کی راہ میں قتل ہو ، کیونکہ اسے نظر آتا ہے کہ شہید کی کیا قدر ہے۔ “ (مسلم ، بخاری)

یہ شہداء کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑیں۔ صرف اللہ کی راہ میں ۔ اس میں کوئی دوسرا نعرہ ، کوئی دوسرا مقصد اور کوئی دوسرا نظریہ شریک نہ ہو ، صرف اس سچائی کے لئے لڑ رہے ہوں ، جسے اللہ نے نازل فرمایا۔ صرف اس نظام زندگی کے لئے جو اس نے وضع فرمایا۔ صرف اس دین کی راہ میں جسے اللہ نے واجب کردیا ہے ۔ صرف اس کی راہ میں ۔ کسی اور راہ میں نہیں ۔ کسی اور جھنڈے تلے نہیں ، نہ کسی اور شعار اور کسی مقصد کی شراکت میں ۔ قرآن وسنت نے اس خلوص نیت پر بہت زور دیا ہے ، یہاں تک کہ مجاہد کے نفس میں کوئی شبہ نہ رہے ، غیر اللہ کا کوئی شائبہ نہ رہے ۔ وہ صرف اللہ ہی کا ہو۔

حضرت موسیٰ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ! رسول ﷺ سے ، ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا ، جو نمائش شجاعت کے لئے یا اظہار حمیت کے لئے یاریا کے لئے لڑتا ہے آیا ان میں سے کون فی سبیل اللہ ہے ۔ رسول ﷺ نے فرمایا ! فی سبیل اللہ صرف وہ ہے جو محض اس لئے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ “

حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ! رسول ﷺ سے ، ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا ، جو نمائش شجاعت کے لئے یا اظہار حمیت کے لئے بار بار لڑتا ہے آیا ان میں سے کون فی سبیل اللہ ہے ۔ رسول ﷺ نے فرمایا ! فی سبیل اللہ صرف وہ ہے جو محض اس لئے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ “ (مالک ، امام بخاری ، امام مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ایک شخص جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتا ہے ، لیکن اس کے ساتھ اس کی دنیاوی غرض بھی وابستہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا !” اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔ “ اس شخص نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا۔ اور ہر مرتبہ رسول ﷺ نے فرمایا !” اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ۔ “ (ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا ! جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتا ہے اور اس جہاد کے لئے وہ صرف اس لئے نکلتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لایا ہے ، رسولوں کی تصدیق کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو ضمانت دی ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کریں گے یا وہ جس مسکن سے جہاد کے لئے نکلتا ہے اسے وہاں واپس کردے گا اور اپنے ساتھ اجر وثواب اور مال غنیمت کا ایک حظہ وافر لے جائے گا ۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ۔ اللہ کی راہ میں اسے جو زخم آئے ، قیامت کے دن یہ مجاہد اسی زخمی حالت میں اٹھایا جائے گا ۔ زخم کا رنگ خون کے رنگ جیسا ہوگا اور اس کی بو ، مشک کی طرح ہوگی ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ۔ اگر مسلمانوں کے لئے یہ بات مشقت نہ بنتی تو میں کبھی اس دستے سے پیچھے نہ رہتا جو اللہ کی راہ میں لڑائی کے لئے نکلتا ہے ۔ لیکن نہ میرے پاس اس قدر گنجائش ہوتی ہے کہ میں تمام لوگوں کے لئے سواری کا بندوبست کروں اور نہ ان میں طاقت طاقت ہوتی ہے کہ وہ میرے پیچھے آسکیں ۔ اور یہ بات ان کے لئے قابل برداشت نہ ہو کہ میں چلا جاؤں اور وہ پیچھے رہیں ۔ اس ذات کی قسم ، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ میری یہ خواہش ہے کہ میں راہ اللہ میں مارا جاؤں ۔ پھر جنگ کروں اور مارا جاؤں ۔ پھر جنگ کروں اور مارا جاؤں۔ (مالک ، بخاری ، مسلم)

یہ ہیں شہداء وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتے ہیں ۔ لیکن سوائے اس کے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں ، سوائے اس کے کہ وہ تمام رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں اور سوائے ، اس کے کہ وہ ایمان کے نتیجے میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتے ہیں ، ان کے دل میں کوئی اور داعیہ نہ ہو۔

ایک موقع پر رسول ﷺ نے ایک فارسی مجاہد کو اس بات سے روکا کہ وہ جہاد کے موقع پر اپنی فارسیت کا ذکر کرے یا اپنی قومیت پر کسی قسم کا فخر کرے ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ابن ابوعقبہ سے روایت ہے ، وہ اپنے باپ سے روایت فرماتے ہیں (یہ اہل فارس کے آزاد کردہ غلام تھے ) فرماتے ہیں میں جنگ احد میں رسول ﷺ کے ساتھ شریک ہوا ۔ میں نے مشرکین کے ایک آدمی پر ضرب لگائی اور کہا : یہ لو ، اور میں ایک فارسی الاصل غلام ہوں ۔ “ اس پر رسول ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ! تم نے یہ کیوں نہ کہا ! اور میں انصاری غلام ہوں میں ان کی بہن کا بیٹا ہوں اور ان کا آزاد کردہ غلام ہوں۔ “ (ابوداؤد)

رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا کہ وہ آپ کی نصرت کے علاوہ کسی اور صفت پر فخر کرے ، یا وہ اس دین کی حمایت ونصرت کے علاوہ کسی اور جھنڈے یا کسی اور نعرے کے لئے جنگ کرے ۔

یہ ہے اسلامی جہاد اور صرف اس جہاد کے نتیجے میں انسان مرتبہ شہادت پر فائز ہوتا ہے ۔ اور اسے وہ زندگی نصیب ہوتی ہے جس پر شہداء فائز ہوتے ہیں ۔

آیت 154 وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ اب پہلے ہی قدم پر اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی بات آگئی ع شرطِ اوّل قدم ایں است کہ مجنوں باشی ! ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ جانیں دینے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں ان کو جنت میں داخلہ کے لیے یوم آخرت تک انتظار نہیں کرنا ہوگا ‘ شہداء کو تو اسی وقت براہ راست جنت میں داخلہ ملتا ہے ‘ لہٰذا وہ تو زندہ ہیں۔ یہی مضمون سورة آل عمران میں اور زیادہ نکھر کر سامنے آئے گا۔

پھر فرمایا کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ ایسی زندگی میں ہیں جسے تم نہیں سمجھ سکتے انہیں حیات برزخی حاصل ہے اور وہاں وہ خوردو نوش پا رہے ہیں، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جس جگہ چاہیں چرتی چگتی اڑتی پھرتی ہیں پھر ان قندیلوں میں آ کر بیٹھ جاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں ان کے رب نے ایک مرتبہ انہیں دیکھا اور ان سے دریافت کیا کہ اب تم کیا چاہتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا اللہ ہمیں تو تو نے وہ وہ دے رکھا ہے جو کسی کو نہیں دیا پھر ہمیں کس چیز کی ضرورت ہوگی ؟ ان سے پھر یہی سوال ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب ہمیں کوئی جواب دینا ہی ہوگا تو کہا اللہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج ہم تیری راہ میں پھر جنگ کریں پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں اور شہادت کا دگنا درجہ پائیں، رب جل جلالہ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا یہ تو میں لکھ چکا ہوں کہ کوئی بھی مرنے کے بعد دنیا کی طرف پلٹ کر نہیں جائے گا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ مومن کی روح ایک پرندے میں ہے جو جنتی درختوں پر رہتی ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کی روح وہاں زندہ ہے لیکن شہیدوں کی روح کو ایک طرح کی امتیازی شرافت کرامت عزت اور عظمت حاصل ہے۔

آیت 154 - سورۃ البقرہ: (ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أموات ۚ بل أحياء ولكن لا تشعرون...) - اردو