سورۃ البقرہ: آیت 104 - يا أيها الذين آمنوا لا... - اردو

آیت 104 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَقُولُوا۟ رَٰعِنَا وَقُولُوا۟ ٱنظُرْنَا وَٱسْمَعُوا۟ ۗ وَلِلْكَٰفِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو: رَاعِناَ نہ کہا کرو، بلکہ اُنظرنَا کہو اور توجہ سے بات کو سنو، یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la taqooloo raAAina waqooloo onthurna waismaAAoo walilkafireena AAathabun aleemun

آیت 104 کی تفسیر

درس 6 تشریح آیات (104 تا 123)

اس سبق کے شروع میں روئے سخن ” ان لوگوں کی طرف ہے جو ایمان لاچکے ہیں۔ “ مقصد یہ کہ دوسرے لوگوں سے ان مابہ الامتیاز کی صفت ایمان ہے ۔ یہی صفت ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو وہ اپنے نبی سے مربوط ہیں اور دوسری طرف اپنے پروردگار سے منسلک ہیں ۔ اور یہی صفت ہے کہ جس کے ساتھ اگر انہیں پکاراجائے تو اس کی وجہ سے ان کے دل متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ اور وہ ہر پکار پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔

اس صفت سے انہیں پکار کر اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دیتے ہیں کہ وہ نبی ﷺ سے مخاطب ہوتے وقت ” راعنا “ کا لفظ استعمال نہ کریں۔ بلکہ ” انظرنا “ (ہماری طرف رعایت کیجئے) کے بھی وہی معنی ہیں ۔ صفت ایمان کے ساتھ اپیل کرتے ہوئے قرآن کریم انہیں سمع اور طاعت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور کافروں کے برے ٹھکانے اور برے انجام یعنی عذاب الیم سے انہیں ڈراتا ہے۔

لفظ ” راعنا “ کے استعمال سے ممانعت کا سبب مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ بعض احمق یہودی اس لفظ کو یوں ادا کرتے تھے کہ یہ مصدر ” رعایت “ کے بجائے ” رعونت “ کا مشتق معلوم ہوتا تھا۔ یہ لوگ یوں نبی کریم ﷺ کی توہین کرکے اور آپ کی شان میں گستاخی کرکے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ان میں یہ جراءت تو تھی نہیں کہ اعلانیہ کھل کر نبی کریم ﷺ کو کچھ کہہ سکیں ۔ اس لئے یہودیوں کے بعض کمینے اور ذلیل لوگ یوں لفظی ہیر پھیر سے آپ کے حق میں بدزبانی کرنے کی سعی کرتے تھے ۔ اس لئے مؤمنین کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ سرے سے وہ الفاظ استعمال نہ کریں ، جسے یہودی اس ذلیل مقصد کے لئے استعمال کررہے تھے تاکہ ان کی کمینگی کا دروازہ ہی بند ہوجائے۔

نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کے لئے یہودیوں کی جانب سے ایسے ذلیلانہ ہتھکنڈوں کا استعمال اس امر کو اچھی طرح ظاہر کردیتا ہے کہ ان بدبختوں کو نبی کریم ﷺ اور آپ کی تحریک سے کس قدر بغض تھا ۔ اور کس طرح وہ آپ کے خلاف ہر گھٹیا حربہ استعمال کررہے کرنے کے لئے تیار رہتے تھے ۔ اور اس سلسلے میں کسی موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔ نیز ایسے موقع پر وحی الٰہی کے ذریعے ایسے الفاظ کے استعمال کی ممانعت کردینے سے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اپنے نبی اور تحریک اسلامی کے نگہبان تھے اور ان کے مکار دشمنوں کی سازشوں اور مکاریوں کا دفیعہ فرمادیتے تھے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے دلوں مسلمانوں کے خلاف کس قدر بغض وکینہ بھرا ہوا ہے ۔ کیونکر یہ ہر وقت مسلمانوں کی عداوت اور ایذا رسانی پر کمر بستہ ہیں ۔ یہ سب کچھ وہ محض اس لئے کررہے ہیں کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے اس مخصوص فضل وکرم سے نوازا۔ یہ تفصیلات اللہ تعالیٰ نے اس لئے بیان کیں کہ مسلمان اپنے دشمنوں سے محتاط ہوجائیں اور جس ایمان کی وجہ سے ان کے دشمنوں کے دل جل اٹھے ہیں ، اس پر اور جم جائیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان پر جو خصوصی فضل فرمایا ہے اس کا شکریہ ادا کریں۔ اس کی حفاظت کریں۔

آیت 104 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ط قبل ازیں منافقین بنی اسرائیل کا ذکر ہوا تھا ‘ جن کا قول تھا : سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۔ اب یہاں ان منافقین کا طرز عمل بیان ہو رہا ہے جو مسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے اور یہود کے زیر اثر تھے۔ یہودی اور ان کے زیر اثر منافقین جب رسول اللہ ﷺ کی محفل میں بیٹھتے تھے تو اگر آپ ﷺ ‘ کی کوئی بات انہیں سنائی نہ دیتی یا سمجھ میں نہ آتی تو وہ راعِنَا کہتے تھے ‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور ﷺ ! ذرا ہماری رعایت کیجیے ‘ بات کو دوبارہ دہرا دیجیے ‘ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اہل ایمان بھی یہ لفظ استعمال کرنے لگے تھے۔ لیکن یہود اور منافقین اپنے خبث باطن کا اظہار اس طرح کرتے کہ اس لفظ کو زبان دباکر کہتے تو راعِیْنَا ہوجاتا یعنی اے ہمارے چرواہے ! اس پر دل ہی دل میں خوش ہوتے اور اس طرح اپنی خباثت نفس کو غذا مہیاّ کرتے۔ اگر کوئی ان کو ٹوک دیتا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو تو جواب میں کہتے ہم نے تو راعِنَا کہا تھا ‘ معلوم ہوتا ہے آپ کی سماعت میں کوئی خلل پیدا ہوچکا ہے۔ چناچہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم اس لفظ ہی کو چھوڑ دو ‘ اس کی جگہ کہا کرو : اُنْظُرْنَا۔ یعنی اے نبی ﷺ ہماری طرف توجہ فرمایئے ! یا ہمیں مہلت دیجیے کہ ہم بات کو سمجھ لیں۔ اور دوسرے یہ کہ توجہ سے بات کو سنا کرو تاکہ دوبارہ پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

مسلمانو کافروں کی صورت لباس اور زبان میں مشابہت سے بچو ! اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں کی بول چال اور ان کے کاموں کی مشابہت سے روک رہا ہے یہودی بعض الفاظ زبان دبا کر بولتے تھے اور مطلب برا لیتے تھے جب انہیں یہ کہنا ہوتا کہ ہماری سنئے تو کہتے تھے راعنا اور مراد اس سے رعونت اور سرکشی لیتے تھے جیسے اور جگہ بیان ہے آیت (من الذین ھادوا) یعنی یہودیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو باتوں کو اصلیت سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں اپنی زبانوں کو موڑ توڑ کر اس دین میں طعنہ زنی کے لئے راعنا کہتے ہیں اگر یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا ہماری بات سنئے اور ہماری طرف توجہ کیجئے تو یہ ان کے لئے بہتر اور مناسب ہوتا لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہے اس میں ایمان بہت ہی کم ہے احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب یہ لوگ سلام کرتے ہیں تو السام علیکم کہتے ہیں اور سام کے معنی موت کے ہیں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو ہماری دعا ان کے حق میں قبول ہوگی اور ان کی بد دعا ہمارے حق میں مقبول نہیں ہوگی الغرض قول و فعل میں ان سے مشابہت کرنا منع ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں میری روزی حق تعالیٰ نے میرے نیزے تلے لکھی ہے اس کے لئے ذلت اور پستی ہے مگر جو میرے احکام کے خلاف چلے کرے اور جو شخص کسی (غیر مسلم) قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔ ابو داؤد میں بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے اس آیت اور حدیث سے ثابت ہوا کہ کفار کے اقوال و افعال لباس عید اور عبادت میں ان کی مشابہت کرنا جو ہمارے لئے مشروع اور مقرر نہیں سخت منع ہے ایسا کرنے والوں کو شریعت میں عذاب کی دھمکی سخت ڈراوا اور حرمت کی اطلاع دی گئی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب تم قرآن کریم میں آیت (یا ایھا الذین امنوا) سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہوجایا کرو کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہوگا یا کسی برائی سے ممانعت ہوگی حضرت خیثلہ فرماتے ہیں توراۃ میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یا ایھا المساکین فرمایا ہے لیکن امت محمد ﷺ کو آیت (یا ایھا الذین امنوا) کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے راعنا کے معنی ہماری طرف کان لگانے کے ہیں بروزن عاطنا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے معنی خلاف کے بھی ہیں یعنی خلاف نہ کہا کرو اس سے یہ بھی مروی ہے کہ مطلب یہ کہ آپ ہماری سنئے اور ہم آپ کی سنیں۔ انصار نے بھی یہی لفظ حضور ﷺ کے سامنے کہنا شروع کردیا تھا جس سے قرآن پاک نے انہیں روک دیا حسن فرماتے ہیں راعن کہتے ہیں (راعن مذاق کی بات کو کہتے ہیں) یعنی تم حضور ﷺ کی باتوں اور اسلام سے مذاق نہ کیا کرو۔ ابو صخر کہتے ہیں جب حضور ﷺ جانے لگتے تو جنہیں کوئی بات کہنی ہوتی وہ کہتے اپنا کان ادھر کیجئے اللہ تعالیٰ نے اس بےادبی کے کلمہ سے روک دیا اور اپنے نبی کی عزت کرنے کی تعلیم فرمائی۔ سدی کہتے ہیں رفاعہ بن زید یہودی حضرت ﷺ سے باتیں کرتے ہوئے یہ لفظ کہا کرتا تھا مسلمانوں نے بھی یہ خیال کر کے یہ لفظ ادب کے ہیں یہی لفظ استعمال کرنے شروع کردیئے جس پر انہیں روک دیا گیا جیسے سورة نساء میں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کلمہ کو اللہ نے برا جانا اور اس کے استعمال سے مسلمانوں کو روک دیا جیسے حدیث میں آیا ہے کہ انگور کو کرم اور غلام کو عبد نہ کہو وغیرہ اب اللہ تعالیٰ ان بد باطن لوگوں کے حسد و بغض کو بیان فرماتا ہے کہ اے مسلمانو ! تمہیں جو اس کامل نبی ﷺ کے ذریعہ کامل شریعت ملی ہے اس سے یہ تو جل بھن رہے ہیں ان سے کہ دو کہ یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمائے وہ بڑے ہی فضل و کرم والا ہے۔

آیت 104 - سورۃ البقرہ: (يا أيها الذين آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعوا ۗ وللكافرين عذاب أليم...) - اردو