سورۃ البلاد: آیت 4 - لقد خلقنا الإنسان في كبد... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ البلاد

لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ فِى كَبَدٍ

اردو ترجمہ

درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad khalaqna alinsana fee kabadin

آیت 4 کی تفسیر

اور اس قسم کا جواب کیا ہے ، کس حقیقت کے اظہار کے لئے یہ قسم اٹھالی گئی۔

لقد ................ فی کبد (4:90) ” درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے “۔ سخت جدوجہد اور مشقت میں سخت کشمکش اور مصائب کے مقابلے کی حالت میں پیدا کیا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔

یایھا ................................ فملقیہ (6:84) ” اے انسان تو سخت مشقت کرتا ہوا اپنے رب کی طرف جارہا ہے اور آخرکار تو اس سے ملنے والا ہے “۔

رحم کے اندر جب ایک خلیہ قرار پکڑتا ہے تو وہ پہلے دن ہی سے جہد ومشقت شروع کردیتا ہے کہ اپنے لئے غذا فراہم کرے اور آنے والی زندگی کے لئے اچھے حالات فراہم کرے ، یہ تمام کام وہ رب تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق کرتا ہے۔ رحم کے اندر یہ اسی طرح جدوجہد میں ہوتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے نکلنے کا وقت آتا ہے تو اپنی ماں کی طرح یہ بھی درد زہ کی تکالیف سہتا ہے ، اس پر رحم مادر سے نکلتے وقت سخت دباﺅ پڑتا ہے ، پھر جب نکلتا ہے اور روشنی دیکھتا ہے تو بھی اس پر دباﺅ ہوتا ہے۔

باہر آتے ہی ایک نئی جدوجہد شروع ہوتی ہے ، جب یہ ہوا کھینچتا ہے اور سانس لینے کا عمل شروع کرتا ہے اور پہلی مرتبہ وہ منہ کھولتا ہے ، تو اس کے پھیپھڑے کام شروع کرتے ہیں تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے اور وہ چلانے لگتا ہے ، اس کا خون دوران شروع کرتا ہے۔ پھر اس کا نظام ہضم کام شروع کرتا ہے اور یہ سب اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا وہ عادی نہیں ہوتا ، اس کی انتڑیاں فضلات خارج کرنے کی عادی نہیں ہوتیں۔ غرض اس کے بعد اس کا ہر قدم مشقت میں اٹھتا ہے ، ہر حرکت مشقت ہوتی ہے۔ ذرا دیکھئے اب یہ گھٹنوں کے بل چل رہا ہے ، پھر یہ پاﺅں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے اور چلتا ہے ، یہ سب مشقتیں ہیں اور ہر مرحلے پر جدوجہد کرتی ہیں۔

پھر جب دانت نکلتے ہیں تو مشقت ، سیدھا کھڑے ہونے میں مشقت اور جم کر چلنے میں مشقت ، تعلیم حاصل کرنے میں مشقت ، غوروفکر کرنے میں مشقت ، غرض جو جدید تجربہ وہ کرتا ہے ، جس طرح گھٹنوں کے بل چلنے کا تجربہ اس نے کیا یہ سب مشقت اور جدوجہد ہے۔

اب ذرا آگے پڑھئے ، اب ان مشقتوں کی شاخیں نکل آتی ہیں۔ یہ دیکھو ، اپنے عضلات سے مزدوری کرنے کی مشقت کرتا ہے۔ دوسرا اپنی فکر سے مشقت کرتا ہے ، یہ روح کے ساتھ محنت کررہا ہے ، یہ دیکھو ایک لقمہ جویں کے لئے مشقت کررہا ہے ، یہ دوسرے کیڑے کے لئے جدوجہد کررہا ہے ، اور یہ دوسرا ہزار کو دو ہزار بنارہا ہے۔ پھر دس ہزار اور آگے ، یہ دیکھو ایک حکومت اور مرتبے کے لئے جدوجہد کررہا ہے ، ان میں ایک دیکھو اللہ کے راستے میں جدوجہد کررہا ہے ، بعض عیاشیوں اور خواہشات کے بندے ہیں ، بعض جہنم کے لئے محنت کررہے ہیں اور ان کے مقابلے دوسرے جنت کے لئے جدوجہد کررہے ہیں ، ہر شخص اپنا بوجھ اٹھائے ہوئے جارہا ہے اور بڑی مشقت کے ساتھ رب کے قریب ہورہا ہے ، اور جب میدان حشر میں اللہ کے سامنے سب کھڑے ہوں گے تو پھر بدبختوں کو دائمی مشقت اور مصیبت میں گرفتار ہونا ہوگا اور نیکوکاروں اور نیک بختوں کو عظیم نعمت اور آرام سے ملے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی ایک مشقت ہی ہے ، لیکن اس کی مشقت کی شکلیں مختلف ہیں ، نوعیت کے اختلاف کے باوجود اصل میں یہ زندگی کی مشقت ہی ہے۔ لیکن عظیم خسارہ اٹھانے والا شخص وہ ہے جو اس دنیا کی پوری مشقت اور مسلسل تکلیفات اٹھا کر نہایت ہی دائمی ، تلخ مشقت تک جا پہنچتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے اور اس جدوجہد میں سب سے زیادہ کامیاب وہ شخص ہوتا ہے جو نہایت ہی تکلیف دہ انداز میں اپنے رب کی طرف بڑھتا ہے اور ایسی کمائی کرکے اس دنیا کی زندگی کا بوجھ اپنے کاندھوں سے اتارتا ہے اور آخر کار دائمی کامیابی حاصل کرتا ہے اور دائمی راحت پاتا ہے۔

ہاں یہ ہے کہ بعض اوقات اس دنیا کی مشقتوں کا بعض انعام اس دنیا میں بھی مل جاتا ہے ، کیونکہ جو شخص کسی اعلیٰ مقصد کے لئے جدوجہد کرتا ہے ، وہ اس شخص کی طرح نہیں ہوتا جو کسی حقیر سے کام کے لئے محنت کرتا ہے ۔ ایک اعلیٰ مقاصد کے لئے جان ومال خرچ کرتا ہے اور دوسرا حقیر مقاصد کے لئے ، دونوں کی خوشی ، اطمینان اور روحانی مسرت یکساں نہیں ہوسکتی۔ جو شخص محنت اور جدوجہد کرتا ہے ، اور اس کے پیش نظر کوئی مادی مقصد نہیں ہے ، یا وہ اس مادیت سے نکلنے کی جدوجہد کررہا ہے ۔ وہ اس شخص کی طرح نہیں ہوتا جو اس مادیت کے لئے اس طرح ہلکان ہوتا جس طرح کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض پیٹ بھرنے کے لئے مشقت کرتے ہیں۔ جو شخص اقامت دین کی جدوجہد کرتا ہے۔ وہ اس شخص کی طرح نہیں ہوتا جو کسی دنیاوی خواہش کے پیچھے مرتا ہے ، دونوں کی مشقت ، شعور احساس برابر نہیں ہوتے۔ زندگی کی حقیقت واضح کرنے کے بعد انسان کے بعض مزعومات ، تصورات اور بعض دعوﺅں اور بعض تصرفات پر ناقدانہ تبصرہ کیا جاتا ہے !

آیت 4{ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔ } ”بیشک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقت میں کیا ہے۔“ سورة الانشقاق میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ۔ } ”اے انسان ! تو مشقت پر مشقت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف ‘ پھر تو اس سے ملنے والا ہے“۔ انسانی زندگی کے بارے میں یہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس دنیا میں کوئی انسان جیسا ہے جہاں ہے ‘ غریب ہے ‘ امیر ہے ‘ صاحب اقتدار ہے ‘ فقیر ہے ‘ کلفت ‘ مشقت ‘ کو فت ‘ پریشانی اس کا مقدر ہے۔ کوئی انسان جسمانی محنت کے ہاتھوں بےحال ہے تو کوئی ذہنی مشقت کی وجہ سے پریشان۔ کوئی جذباتی اذیت سے دوچار ہے تو کوئی نفسیاتی خلفشار کا شکار ہے۔ کوئی کوڑی کوڑی کا محتاج ہے تو کسی کے لیے دولت کے انبار وبال جان ہیں ‘ کسی کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تو کوئی مخملی گدیلوں پر لیٹا نیند کو ترستا ہے۔ غرض مختلف انسانوں کی مشقت کی کیفیت ‘ نوعیت اور شدت تو مختلف ہوسکتی ہے مگر مشقت اور پریشانی سے چھٹکارا جیتے جی کسی کو بھی نہیں ہے۔ بقول غالب ؎قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں !بظاہر تو یہ صورت حال بھی بہت گھمبیر محسوس ہوتی ہے ‘ لیکن انسان کی اصل مشکل اس سے کہیں بڑی ہے اور وہ مشکل یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی میں پیش آنے والی یہ تمام پریشانیاں اور سختیاں بھی سہنی ہیں اور اس کے بعد اپنے ربّ کے حضور پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب بھی دینا ہے۔ سورة الانشقاق کی مذکورہ آیت میں اسی ”ملاقات“ کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے انسان کی قسمت کا حتمی فیصلہ تو اسی ملاقات میں ہونا ہے۔ اس ساری صورتحال میں انسان کی اصل مشقت ‘ اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی کا اندازہ لگانا ہو تو ایک ایسے انسان کا تصور کریں جو زندگی بھر ”دنیا“ حاصل کرنے کے جنون میں کو لہو کا بیل بن کر محنت و مشقت کی چکی ّمیں ِپستا اور طرح طرح کی ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کی آگ میں جلتا رہا۔ پھر مشقتوں پر مشقتیں برداشت کرتا اور تکلیفوں پر تکلیفیں جھیلتا یہ انسان جب اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوا تو اس کا دامن مطلوبہ معیار و مقدار کی نیکیوں سے خالی تھا۔ چنانچہ اس عدالت سے اسے دائمی سزا کا حکم ہوا : { وَیَصْلٰی سَعِیْرًا۔ } الانشقاق اور اس کے بعدا سے جہنم میں جھونک دیا گیا۔۔۔۔ ہمیشہ ہمیش کے لیے ! یہ ہے انسان کی اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی جس کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ چناچہ ہر انسان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ : اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟

آیت 4 - سورۃ البلاد: (لقد خلقنا الإنسان في كبد...) - اردو