سورۃ البلاد: آیت 16 - أو مسكينا ذا متربة... - اردو

آیت 16 کی تفسیر, سورۃ البلاد

أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ

اردو ترجمہ

یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw miskeenan tha matrabatin

آیت 16 کی تفسیر

اواطعم ............................ ذا متربة (14:90 تا 16) ” یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یاخاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا “۔ مسفبہ کے معنی ہیں بھوک کے۔ قحط کے دنوں میں چونکہ کھانا مہنگا ہوتا ہے ، اس لئے ان دنوں غریبوں کو کھانا کھلانا ، ایمان کے لئے معیار بن جاتا ہے۔ اس وقت کی جاہلی سوسائٹی میں یتیموں کی حالت تو یہ تھی کہ ان کے حقوق ہر طرف پامال ہوتے تھے ، ان کے مال کو غبن کیا جاتا تھا اور اس رطح سے اڑالیا جاتا تھا کہ گویا زمین اسے کھاگئی۔ اگرچہ یتیم قریبی رشتہ دار ہوتا۔ اس لئے کہ اس جاہلی سوسائٹی میں لوگ دولت کے پیچھے کتوں کی طرح ہلکان ہورہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کو یتیم کے مال کی حفاظت کے لئے بار بار وصیت کرنی پڑی ، کیونکہ اس معاشرے میں یتیموں پر حکم عام تھا۔ اس لئے یہ ہدایات قرآن حکیم میں جاری رہیں اور مدنی سورتوں میں یہ دی گئیں۔ مثلاً میراث ، وصیت اور نکاح کے قوانین کے ضمن میں۔ ہم نے سورة بقرہ اور نساء میں اس موضوع پر مفصل بات کی ہے۔ خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔

او مسکینا ذا متربة (16:90) ” اس لئے کہا گیا ہے کہ اپنی بدحالی کی وجہ سے وہ خاک آلود ہے یہاں یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے سے قبل قیدلگا دی۔

فی یوم ذی مسغبة (14:90) ” فاقے کے دن کسی یتیم اور مسکین کو کھانا کھلانا “۔ یہ اس لئے کہ اس گھاٹی کو مشکل گھاٹی کہا گیا ہے اور یہ گھاٹی معیار ہے ایمانی شعور ، رحمدلی ، ایثار اور اسلامی سوسائٹی کے نظام تکافل کے لئے۔ لوگ اللہ کے اہل و عیال ہیں اور اللہ کے عیال کا خیال رکھنا ایمانی تقاضا ہے خصوصاً قحط سالی اور فاقوں کے دنوں میں۔ اور دونوں کام ، غلاموں کو آزاد کرنا اور غریبوں کو کھلانا ، مکہ کی سوسائٹی میں نہایت ہی اہم تھے۔ اگرچہ یہ دونوں کام اسلام کے عمومی مقاصد میں بھی داخل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ان کو ایمان سے بھی مقدم ذکر کیا۔ حالانکہ ایمان لانا ایک بنیادی قاعدہ ہے۔ اس کے بعد پھر عمومی اور بنیادی اصول کا ذکر کیا گیا۔

آیت 16{ اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ۔ } ”یا اس محتاج کو جو مٹی میں رُل رہا ہے۔“ یہ وہ فلسفہ ہے جس پر سورة الحدید کے مطالعہ کے دوران تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ یہ مشکل گھاٹی دراصل ُ حب ِمال کی وہ چٹان ہے جو متعلقہ انسان کے لیے بھلائی کے راستے کو مسدود کیے کھڑی ہے۔ سورة الحدید کی آیت 18 کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے اسے گاڑی کی بریک سے تشبیہہ دی تھی۔ چناچہ مذکورہ گھاٹی کو عبور کرنے یا گاڑی کی بریک کو کھولنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے مال کو اللہ کی رضا کے لیے محتاجوں اور ناداروں کی مدد کرنے اور بھلائی کے دوسروں کاموں پر دل کھول کر خرچ کرے۔ یعنی مال کی محبت کی آلودگی کو دل سے صاف کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے پیارے مال کو اللہ تعالیٰ کی محبت پر قربان کردیا جائے۔ یاد رکھیں ! حب مال کی گندگی کو دل سے نکالے بغیر انسان کو ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوسکتی۔ اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورة الحدید آیات 17 تا 20 کی تشریح۔

آیت 16 - سورۃ البلاد: (أو مسكينا ذا متربة...) - اردو