سورۃ البلاد: آیت 12 - وما أدراك ما العقبة... - اردو

آیت 12 کی تفسیر, سورۃ البلاد

وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا ٱلْعَقَبَةُ

اردو ترجمہ

اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama adraka ma alAAaqabatu

آیت 12 کی تفسیر

پھر اس گھاٹی کی عظمت اور بڑائی بیان کرنے کے لئے سوال

وما ادرک ما العقبة (12:90) ” تم کیا جانو کہ وہ دشوار گزار گھاٹی کیا ہے “۔ یہ سوال اس لئے نہیں ہے کہ وہ گھاٹی کوئی بہت ضخیم ہے اور ناقابل عبور ہے ، مطلب یہ ہے کہ یہ بہت اہم ہے۔ اللہ کے نزدیک اس کو عبور کرنا ضروری ہے تاکہ انسان جرات کرکے گھس جائے اور جست لگادے۔ اگرچہ اس کی راہ میں مشکلات حائل ہوں ، کیونکہ محنت اور مشقت کے بغیر تو کوئی کام بھی نہیں ہوتا اور اگر کوئی یہ مشقت برداشت کرے گا تو اسے ضرور اس کا ثمرہ مل جائے گا اور اس کی تکالیف کا صلہ اس کے سامنے ہوگا ، اور اس کا کوئی عمل ضائع نہ ہوگا اور یہ کام ہر حال میں ہونے والا ہے۔

یہ دشوارگزار گھاٹی کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی مکہ کی سوسائٹی کو بےحد ضرورت تھی ، جہاں تحریک اسلامی دعوت کا کام کررہی تھی۔ ان غلاموں کو آزادی دلانا جو اس سوسائٹی میں نہایت ہی برے حالات کار میں کام کررہے تھے ، اس خود غرض سوسائٹی میں لوگ نہایت ہی خود غرضی سے مفادات کے پیچھے دوڑ رہے تھے اور نادار لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ اس میں لوگوں کے لئے ابتدائی انسانی ضروریات فراہم کرنا ، یہ باتیں تو مکہ کی سوسائٹی کے پس منظر میں تھیں ، باقی بعض ایسی باتیں جن کا تعلق کسی زمان ومکان سے نہیں ہے اور جن کا تعلق تمام انسانوں کے ساتھ ہے اور جو نجات کے لئے ہمیشہ دشوار گزار گھاٹی کی طرح رہے ہیں مثلاً

ثم کان ............................ بالمرحمة (17:90) ” پھر وہ آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی “۔ روایات میں ہے کہ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانے کا مقصد یہ ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنے میں شرکت کرنا ، اور لغوی لحاظ سے عتق کے معنی ہیں کسی کو مکمل آزاد کردینا یعنی ایک شخص کسی کو آزاد کردے۔ کوئی کسی کی آزادی میں شریک ہو یا کسی کو پورا آزاد کردے ، حاصل دونوں کا ایک ہی ہے۔

جب یہ آیات نازل ہوئیں تو مکہ میں لوگوں نے اسلام کو ہر طرف سے گھیررکھا تھا۔ اسلامی حکومت قائم نہ تھی کہ وہ آزادی غلاماں کا قانون پاس کردیتی۔ غلامی جزیرة العرب اور اس کے علاوہ پوری دنیا میں عام تھی اور پوری دنیا میں عورتوں کے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا ، جب بعض غلام مسلمان ہوگئے ، مثلاً عمار ابن یاسر ان کا خاندان ، بلال ابن رباح ، صہیب ؓ وغیرہ۔ تو ان غلاموں کے مالکان نے ان پر سخت تشدد شروع کردیا۔ اور ان پر ایسا تشدد شروع کردیا جو ناقابل برداشت تھا ، مسلمان اس نتیجے پر پہنچے کہ ماسوائے آزادی کے اور کسی طریقے سے ان کی جان نہیں چھوٹ سکتی اور آزادی کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ ان لوگوں کو ، ان کے شقی القلب اور سنگدل مالکان سے خریدا جائے۔ اس میدان میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ مرد اول رہے ، جیسا کہ ان کی عادت تھی کہ وہاسلام کے ہر معاملے میں سب سے پہلے لبیک کہتے ، اور نہایت ثابت قدمی سے اور اطمینان سے اور استقامت سے اس راہ پر آگے بڑھتے۔

ابن اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال ، اس سے پہلے بنی جمح کے پیدائشی غلام تھے ، یہ نہایت سچے مسلمان تھے ، نہایت پاک دل تھے۔ امیہ ابن حلف ابن وہب ابن خذافہ ابن جمح تپتی دوپہر میں انہیں نکالتا ، وادی مکہ میں زمین پر پیٹھ کے بل لٹاتا اور حکم دیتا کہ ان کے سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا جائے اور ان سے کہتا کہ ” تم اسی طرح رہو گے جب تک تم مر نہیں جاتے یا محمد (ﷺ) کی نبوت کا انکار نہیں کردیتے اور لات وعزیٰ کی عبادت نہیں کرتے ؟ “ اس مصیبت کی حالت میں وہ صرف یہی کہتے “ احد .... احد “۔

ایک دن حضرت ابوبکر صدیق ؓ پاس سے گزرے اور یہ لوگ اس وقت ان پر اس طرح تشدد کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ کا گھر محلہ بنی جمح میں تھا ۔ آپ نے امیہ ابن خلف سے کہا : ” کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کب تک تم یہ ظلم کرتے رہو گے ؟ “ اس نے جواب دیا : ” تم ہی نے تو اسے برباد کیا ہے لہٰذا اس عذاب سے تمہی اسے چھڑاﺅ گے “۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا ” اچھا میں کرتا ہوں۔ میرے پاس ایک سیاہ فام غلام ہے اس سے زیادہ قوی اور مضبوط اور وہ تمہارے دین پر ہے۔ میں اسے اس کے بدلے تمہیں دیتا ہوں “۔ امیہ ابن خلف نے کہا : ” میں نے قبول کیا “۔ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسے اپنے غلام کے بدلے خرید لیا اور آزاد کردیا۔

” مدینہ کو ہجرت کرنے سے پہلے ، ان کے ساتھ اور چھ غلام بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آزاد کرائے ، بلال ساتویں تھے۔ عامر ابن فہیرہ ؓ جو بدر میں شریک ہوئے اور ہئر معمونہ میں شہید ہوئے۔ ام عبیں ، زنیرہ ، جب ان کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آزاد کرایا تو ان کی بصارت چلی گئی۔ قریش نے کہا اس سے لات اور عزیٰ کے سوا کسی اور نے نظر نہیں چھین لی۔ اس پر اس نے یہ تبصرہ لیا : ” وہ جھوٹ بولتے ہیں ، بیت اللہ کی قسم لات اور عزیٰ نہ نقصان پہنچاسکتے اور نہ نفع “۔ اس کے بعداللہ نے اس کی نظر کو لوٹا دیا۔ نہدیہ اور اس کی بیٹی ، یہ دونوں بنی عبدالدار کی ایک عورت کی لونڈیاں تھیں۔ اس نے ان کو آٹا دے کر بھیجا اور ساتھ ہی یہ کہا خدا کی قسم میں تمہیں کبھی بھی آزادانہ کروں گی۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ پاس ہی سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے کہا : ام فلاں ، اس قسم کا کفارہ ادا کرکے اس سے نکل آﺅ، اس نے جواب دیا تم اس کا کفارہادا کرو ، تم ہی نے تو ان کو خراب کیا ہے۔ لہٰذا تم ہی انہیں آزاد کرو ، تو حضرت نے فرمایا ، بتاﺅ قیمت ، اس نے کہا یہ ہے قیمت ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا بس میں نے خرید لیا اور یہ آزاد ہوئیں۔ اس کا آٹا اسے لوٹا دو ، انہوں نے کہا ، مناسب نہیں کہ ہم اس سے فارغ ہوجائیں اور پھر اسے لوٹا دیں۔ تو انہوں نے کہا جس طرح تم چاہو۔

اسی طرح ایک بار ایک لونڈی کے پاس سے گزرے ، یہ بنی عدی قبیلے کی شاخ بنی مومل سے تھی اور مسلمان تھی۔ عمرو ابن مہیب اسے سخت سزا دیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اسلام چھوڑ دو ، اس وقت حضرت عمر ؓ مشرک تھے ، اسے یہ مار رہے تھے۔ جب وہ تھک گئے تو کہا میں معذرت کرتا ہوں کہ میں نے تمہیں محض اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ میں تھک گیا ہوں ورنہ اور ماتا اور وہ کہتی ، اسی طرح اللہ تیرے ساتھ کرے۔ اسے بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خریدا اور آزاد کردیا “۔

ابن اسحاق کہتے ہیں ، محمد ابن عبداللہ ابن ابو عتیق نے بیان کیا ، عامر ابن عبداللہ سے انہوں نے ابن زبیر سے ، انہوں نے ان کے خاندان والوں سے یہ کہ ابو قحافہ نے کہا : ” بیٹے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ضعیف غلاموں کو آزاد کررہے ہو ، اگر تم یہ کام کرتے ہی ہو جو کررہے ہو تو پھر تمہیں چاہیے کہ مضبوط لوگوں کو آزاد کرو ، جو تمہارے حامی ہوں اور جب تم پر مصیبت آئے تو تمہارے آگے کھڑے ہوں “۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا : ” اے باپ ، میں جو چاہتا ہوں وہ صرف رضائے الٰہی کے لئے چاہتا ہوں “۔

یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے جو اس مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کے لئے گھس رہے تھے ، اور وہ ایسے مصیبت زدہ جن پر تشدد ہورہا تھا ، اور سوسائٹی ایسی تھی جس میں ایسا اقدام نہایت ابتدائی جست شمار ہوتا اور نہایت انقلابی اقدام ہوتا تھا۔ یوں جس طرح کوئی مشکل ترین گھاٹی کو عبور کرے۔

آیت 12 - سورۃ البلاد: (وما أدراك ما العقبة...) - اردو