سورۃ البلاد: آیت 11 - فلا اقتحم العقبة... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورۃ البلاد

فَلَا ٱقْتَحَمَ ٱلْعَقَبَةَ

اردو ترجمہ

مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala iqtahama alAAaqabata

آیت 11 کی تفسیر

پھر اللہ نے انسان کو یہ ہدایت دی کہ وہ خیروشر کو سمجھے اور یہ سمجھے کہ جنت کا راستہ کون سا ہے اور جہنم کا راستہ ہے اور اللہ نے اگلی آیات میں اس مشکل گھاٹی کی توضیح فرمادی ہے :

فلا اقتحم ................................ المیمنة

یہ ہے وہ دشوار گزار کھائی جس کو عبور کرنے کی ہمت انسان نہیں کرتا ، الایہ کہ جو لوگ اپنے پختہ ایمان سے مدد لیں۔ یہ گھاٹی انسان اور جنت کے درمیان حائل ہے ، اگر انسان اسے عبور کرلے تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوجائے ۔ یہاں قرآن کریم اس کی تصویر کشی اس طرح کرتا ہے کہ انسان کے دل میں اسے عبور کرنے کا جوش پیدا ہو ، اور یہ تحریک ہو کہ وہ اسے عبور کرلے ، ایک جست لگائے اور اس پار ہو ، اس کی پوری طرح وضاحت کی گئی اور یہ یقین دلادیا گیا کہ یہی تمہارے اور جنت کے درمیان حائل ہے۔

فلا اقتحم العقبة (11:90) ” مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی “۔ لفظ اقتحام استعمال کرکے اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ آگے بڑھو ، ایک جست لگا کر اسے عبور کرو ، گھس جاﺅ۔

صدقات اور اعمال صالحہ جہنم سے نجات کے ضامن ہیں :حضرت ابن عمر فرماتے ہیں عقبہ جہنم کے ایک پھسلنے پہاڑ کا نام ہے حضرت کعب احبار فرماتے ہیں اس کے جہنم میں ستر درجے ہیں قتادہ فرماتے ہیں کہ یہ داخلے کی سخت گھاٹی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے داخل ہوجاؤ پھر اسکا داخلہ بتایا یہ کہہ کر کہ تمہیں کس نے بتایا کہ یہ گھاٹی کیا ہے ؟ تو فرمایا غلام آزاد کرنا اور اللہ کے نام کھانا دینا ابن زید فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ نجات اور خیر کی راہوں میں کیوں نہ چلا ؟ پھر ہمیں تنبیہ کی اور فرمایا تم کیا جانو عقبہ کیا ہے ؟ آزادگی گردن یا صدقہ طعام فک رقبتہ جو اضافت کے ساتھ ہے اسے فک رقبتہ بھی پڑھا گیا یعنی فلع فاعل دونوں قرأتوں کا مطلب قریبا ایک ہی ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جو کسی مسلمان کی گردن چھڑوائے اللہ تعالیٰ اس کا ہر ایک عضو اس کے ہر عضو کے بدلے جہنم سے آزاد کردیتا ہے یہاں تک کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں اور شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ حضرت علی بن حسین یعنی امام زید العابدین نے جب یہ حدیث سنی تو سعید بن مرجانہ راوی حدیث سے پوچھا کہ کیا تم نے خود حضرت ابوہریرہ کی زبانی یہ حدیث سنی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تو آپ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ مطرف کو بلا لو جب وہ سامنے آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ تم اللہ کے نام پر آزاد ہو بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ یہ غلام دس ہزار درہم کا خریدا ہوا تھا اور حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اس کی ایک ایک ہڈی کے بدلے اس کی ایک ایک ہڈی جہنم سے آزاد ہوجاتی ہے (ابن جریر) مسند میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے اور جو مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے اور اسے جہنم سے آزاد کردیتا ہے جو شخص اسلام میں بوڑھا ہو اسے قیامت کے دن نور ملے گا۔ اور روایت میں یہ بھی ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے خواہ وہ لگے یا نہ لگے اسے اولاد اسماعیل میں سے ایک غلام کے آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور حدیث میں ہے جس مسلمان کے تین بچے بلوغت سے پہلے مرجائیں اسے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل کریگا اور جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑے دے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دے گا جس سے چاہے چلا جائے ان تمام احادیث کی سندیں نہایت عمدہ ہیں۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے حضرت واثلہ بن اسقع سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جس میں کوئی کمی زیادتی نہ ہو تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے تم میں سے کوئی پڑھے اور اس کا قرآن شریف اس کے گھر میں ہو تو کیا وہ کمی زیادتی کرتا ہے ؟ ہم نے کہا حضرت ہمارا مطلب یہ نہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی حدیث ہمیں سناؤ، آپ نے فرمایا ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے ایک ساتھی کے بارے میں حاضر ہوئے جس نے قتل کی وجہ سے اپنے اوپر جہنم واجب کرلی تھی تو آپ نے فرمایا اس کی طرف سے غلام آزاد کرو، اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا، یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے، اور حدیث میں ہے جو شخص کسی کی گردن آزاد کرائے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے۔ ایسی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں، مسند احمد میں ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا حضور ﷺ کوئی ایسا کام بتادیجئے جس سے میں جنت میں جا سکوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تھوڑے سے الفاظ میں بہت ساری باتیں تو پوچھ بیٹھا۔ نسمہ آزاد کر، رقبتہ چھڑا، اس نے کہا حضرت کیا یہ دونوں ایک چیز نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں نسمہ کی آزادی کے معنی تو ہیں اکیلا ایک غلام آزاد کرے اور فک رقبۃٍکے معنی ہیں کہ تھوڑی بہت مدد کرے دودھ والا جانور دودھ پینے کے لیے کسی مسکین کو دینا، ظالم رشتہ دار سے نیک سلوک کرنا، یہ جنت کے کام ہیں، اگر اس کی تجھے طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھلا، پیاسے کو پلا، نیکیوں کا حکم کر، برائیوں سے روک، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سوائے بھلائی کے اور نیک بات کے اور کوئی کلمہ زبان سے نہ نکال۔ ذی مسغبۃٍ کے معنی ہیں بھوک والا، جبکہ کھانے کی اشتہا ہو، غرض بھوک کے وقت کا کھلانا اور وہ بھی اسے جو نادان بچہ ہے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے اور اس کا رشتہ دار بھی ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مسکین کو صدقہ دینا اکہرا ثواب رکھتا ہے، اور رشتے ادر کو دینا دوہرا اجر دلواتا ہے، (مسند احمد) یا ایسے مسکین کو دینا جو خاک آلود ہو، راستے میں پڑا ہوا ہو گھر ورنہ ہو، بربستر نہ ہو، بھوک کی وجہ سے پیٹھ زمین دوز ہو رہی ہو، اپنے گھر سے دور ہو، مسافرت میں ہو، فقیر، مسکین، محتاج، مقروض، مفلس ہو کوئی پرسان حال بھی نہ ہو، اہل و عیال والا ہو، یہ سب معنی قریب قریب ایک ہی ہیں، پھر یہ شخص باوجود ان نیک کاموں کے دل میں ایمان رکھتا ہو ان نیکیوں پر اللہ سے اجر کا طالب ہو جیسے اور جگہ ہے من ارادالاٰخرۃ الخ جو شخص آخرت کا ارادہ رکھے اور اس کے لیے کوشش کرے اور ہو بھی بایمان تو ان کی کوشش اللہ کے ہاں مشکور ہے اور جگہ ہے۔ من عمل صالحا من ذکر اوانثی الخ، ایمان والوں میں سے جو مرد عورت مطابق سنت عمل کرے یہ جنت میں جائیں گے اور وہاں بےحساب روزیاں پائیں گے پھر ان کا وصف بیان ہو رہا ہے کہ لوگوں کے صدمات سہنے اور ان پر رحم و کرم کرنے کی یہ آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمان بھی رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا اور حدیث میں ہے جو رحم نہ کرے اس پر رحم نہیں کیا جاتا، ابو داؤد میں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حق کو نہ سمجھے وہ ہم میں سے نہیں، پھر فرمایا کہ یہ لوگ وہ ہیں جن کے داہنے ہاتھ میں اعمالنامہ دیا جائے گا اور ہماری آیتوں کے جھٹلانے والوں کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا، اور سر بند تہہ بہ تہہ آگ میں جائیں گے، جس سے نہ کبھی چھٹکارا ملے گا نہ نجات نہ راحت نہ آرام، اس آگ کے دروازے ان پر بند رہیں گے مزید بیان اس کا سورة ویل لکل الخ، میں آئے گا انشاء اللہ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں روشنی ہوگی نہ سوراخ ہوگا نہ کبھی وہاں سے نکلنا ملے گا، حضرت ابو عمران جوئی فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا اللہ حکم دے گا اور ہر سرکش کو، ہر ایک شیطان کو اور ہر اس شخص کو جس کی شرارت سے لوگ دنیا میں ڈرتے رہتے تھے۔ لوہے کی زنجیروں سے مضبوط باندھ دیا جائے گا، پھر جہنم میں جھونک دیا جائے گا پھر جہنم بند کردی جائے گی۔ اللہ کی قسم کبھی ان کے قدم ٹکیں گے ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی آسمان کی صورت ہی دکھائی نہ دے گی اللہ کی قسم کبھی آرام سے ان کی آنکھ لگے گی ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی کوئی مزے کی چیز کھانے پینے کو ملے گی ہی نہیں (ابن ابی حاتم) سورة بلد کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد اللہ۔

آیت 11 - سورۃ البلاد: (فلا اقتحم العقبة...) - اردو