سورۃ البلاد: آیت 10 - وهديناه النجدين... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورۃ البلاد

وَهَدَيْنَٰهُ ٱلنَّجْدَيْنِ

اردو ترجمہ

اور دونوں نمایاں راستے اُسے (نہیں) دکھا دیے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahadaynahu alnnajdayni

آیت 10 کی تفسیر

وھدینہ النجدین (10:90) ” اور دونوں راستے اسے دکھائے “۔ کہ نیکی وبدی میں سے وہ جس راستے کو چاہے اختیار کرے۔ اس کو ایسی طاقت دی کہ وہ نیکی اور بدی میں سے جس کو چاہے ، اپنائے اور انسان کی تخلیق میں یہ دوہری قوت رکھی گئی اور یہی اللہ کی حکمت تخلیق تھی۔ پھر اللہ نے ہر چیز کو خلقت بخشی اور اس کائنات میں اس کے لئے اس کا فریضہ منصبی آسان کردیا۔

یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ انسان کی فطرت کیا ہے اور سورة شمس میں اس کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔

ونفس وما سواھا ................................ دسھا (7:90 تا 10) ” قسم ہے نفس انسانی کی اور اس کی ساخت کی۔ اور پھر اسے بتایا کہ فجور کیا ہے اور تقویٰ کیا ہے۔ بیشک کامیاب ہوا وہ شخص جس نے نفس کو پاک کیا اور ناکام ہوا۔ وہ شخص جس نے اسے برباد کیا “۔ ان آیات میں نفس کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر بیان کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات سورة شمس میں بیان کریں گے۔

یہ اللہ کی نعمتیں ہیں جو اللہ نے بنی نوع انسان کو عطا کی ہیں اور ہر انسان کے نفس میں یہ نعمتیں رکھ دی گئی ہیں ، ان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ہدایت قبول کرے ، اس کی آنکھوں کا یہ فرض ہے کہ یہ کائنات میں قدرت الٰہیہ کے دلائل مشاہدہ کریں اور اشارات ایمان تلاش کریں اور دلائل قدرت اور اشارات ایمان اس کائنات میں ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔ پھر انسان کی زبان اور اس کے ہونٹ کلام اور بیان کے ذرائع ہیں۔ اور ان دونوں کی وجہ سے انسان اس کرہ ارض پر بہت کچھ کرتا ہے ، بعض اوقات ایک لفظ توار اور بم کا کام کرتا ہے اور کبھی وہ اس کے تلفظ کرنے والے کو آگ میں گرادیا ہے۔ غرض یہ الفاظ ہی ہیں جو انسان کو اٹھاتے اور گراتے ہیں ، یعنی اس آگ میں : ” حضرت معاذ ابن جبل ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک دن میں آپ کے قریب آگیا اور ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔ تو میں نے حضور اکرم سے پوچھا اے رسول خدا ! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور دوزخ سے بچائے۔ آپ نے فرمایا تو نے تو بہت بڑی بات پوچھی ، مگر یہ بڑی بات ان لوگوں کے لئے آسان ہے جن کے لئے اللہ آسان کردے۔ وہ یہ کہ تم اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، نماز قائم کرو ، زکوٰة ادا کرو ، رمضان شریف کے روزے رکھو ، بیت اللہ کا حج کرو ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتادوں کہ خیر کے دروازے کیا ہیں ؟ تو میں نے کہا ضرور۔ تو فرمایا : روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے اور رات کے نصف آخر میں نماز نیک لوگوں کا شعار وعلامت ہے۔ اور آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :

تتجافی ........................ المضاجع ” ان کے پہلو رات کو بستروں سے جدا ہوجاتے ہیں “۔ پھر فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاﺅں کہ اس معاملہ (دین) کا سرا کیا ہے ؟ اس کا ستون کیا ہے ؟ اور اس کی بلند ترین چوٹی کیا ہے ؟ تو حضرت معاذ ؓ نے کہا اللہ کے رسول ضرور بتائیے۔ تو فرمایا اس معاملے کا سرا اسلام ہے ، ستون نماز ہے ، اور بلند ترین چوٹی جہاد ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاﺅں کہ ان سب چیزوں کا دارومدار کس چیز پر ہے تو میں نے کہا اللہ کے رسول ضرور بتائیے ، تو فرمایا اس پر (زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) قابو رکھو ، تو میں نے کہا ، اے رسول خدا جو کچھ ہم بولتے ہیں اس پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا ، آپ نے فرمایا : تمہاری ماں تمہیں روئے کہ لوگ اپنی زبان کی کاٹی ہوئی فصل کی وجہ سے منہ کے بل یا فرمایا ناک کے بل جہنم میں گرائے جاتے ہیں “۔ (احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ)

آیت 10{ وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ۔ } ”اور ہم نے اس کو راہ دکھلا دی دو گھاٹیوں کی۔“ عام مفسرین کے نزدیک دو گھاٹیوں سے مراد نیکی اور بدی کے دو راستے ہیں۔ البتہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے ماں کی دو چھاتیاں مراد ہیں۔ نجد کے لغوی معنی ابھری ہوئی چیز کے ہیں۔ بلند سطح پر جو راستہ ہو اس کو بھی نجد کہتے ہیں۔ چناچہ ”النَّجْدین“ کے معنی ”دو بلند واضح راستے“ بھی ہوسکتے ہیں اور ”دواُبھار“ بھی۔ اور مجھے موخر الذکر رائے زیادہ پسند ہے۔ انسان کی زبان ‘ اس کے دو ہونٹوں اور پھر ماں کی چھاتیوں کے ذکر کے حوالے سے دراصل یہاں انسان کی اس جبلی اور پیدائشی ہدایت کا ذکر مقصود ہے جس کے بارے میں ہم سورة الاعلیٰ کی آیت { وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی۔ } میں پڑھ آئے ہیں۔ ظاہر ہے ایک بچہ اپنی پیدائش کے فوراً بعد نہ صرف ماں کے دودھ کی تلاش شروع کردیتا ہے بلکہ جونہی اس کی رسائی ماں کی چھاتیوں تک ہوتی ہے تو وہ دودھ چوسنے بھی لگتا ہے۔ اس نومولود کو آخر اپنی غذا کی تلاش کا یہ شعور کس نے دیا ہے ؟ اور اس مرحلے پر زبان اور ہونٹوں کے اس خاص استعمال کا طریقہ اسے کس نے سکھایا ہے ؟ ظاہر ہے یہ شعور ‘ یہ آگہی اور یہ ہدایت اس کی اس فطرت اور جبلت کا حصہ ہے جو اسے اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اور اس اعتبار سے بچے کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

آیت 10 - سورۃ البلاد: (وهديناه النجدين...) - اردو