سورۃ البلاد: آیت 1 - لا أقسم بهذا البلد... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ البلاد

لَآ أُقْسِمُ بِهَٰذَا ٱلْبَلَدِ

اردو ترجمہ

نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اِس شہر کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La oqsimu bihatha albaladi

آیت 1 کی تفسیر

لا اقسم .................................... فی کبد

شہر سے مراد مکہ ہے ، جہاں بیت الحرام واقع ہے ، یہ پہلا وہ گھر ہے ، جو صرف اللہ کی عبادت کے لئے اس زمین پر بنایا گیا ہے ، تاکہ یہاں لوگ آزادی سے آجاسکیں اور امن سے رہ سکیں۔ جہاں آکر ، یہ اسلحہ پھینک دیں ، اپنے ذاتی جھگڑے ایک طرف رکھ دیں ، عداوتوں کو بھلادیں اور اس میں نہایت امن سے ملیں۔ جہاں کسی کا کسی پر اسلحہ اٹھانا حرام ہو ، انسان میں نہیں بلکہ یہاں کے پرندوں اور درختوں کو چھیڑنا اور نقصان پہنچانا بھی حرام ہو۔ پھر یہ شہر ابراہیم (علیہ السلام) کا گھر ہے ، جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے والد محترم ہیں اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) عربوں کے والد اور مسلمانوں کے پیشوا ہیں۔

اللہ نبی ﷺ کو یوں عزت افزائی فرماتا ہے کہ سا شہر کی قسم اس حال میں اٹھاتا ہے کہ آپ اس میں مقیم ہیں ، مطلب یہ کہ آپ کی یہاں موجودگی کی وجہ سے گویا اس شہر کی عزت واحترام میں اور شرف مقام میں اور عظمت واحتشام میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ اشارہ اس مقام پر گہرے اثرات کا حامل ہے ، انحالات میں کہ مشرکین اس گھر کی حرمت کو ان دنوں پامال کررہے تھے ، اس شہر میں جہاں نباتات وحیوانات بھی پرامن تھے مسلمانوں کو اذیت دی جاتی تھی۔ حالانکہ یہ گھر محترم تھا اور نبی کریم کی موجودگی کی وجہ سے اور محترم ہوگیا تھا اور جب اللہ نے اس شہر اور اس میں مقیم شخصیت کی وجہ سے قسم اٹھائی تو اس کی حرمت ، عظمت اور مرتبہ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس لئے مشرکین مکہ کا یہ موقف کہ وہ اس گھر کے خدمت گار ہیں ، اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں ، ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں ، بالکل غلط ، متضاد اور جھوٹا موقف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اگلی قسم ۔

ووالد وما ولد (3:90) ” اور قسم ہے باپ کی اولاد کی “۔ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کی طرف خاص اشارہ ہے اور مکہ کی قسم ، اس میں مقیم نبی آخر الزمان کی قسم اور پھر مکہ کے بانیوں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قسم ایک مناسبت رکھتی ہیں ، لیکن اس اشارے اور مناسبت کے باوجود والد اور ولد سے مراد مطلق والد اور مولود بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ اس آیت میں قسم انسانی پیدائش اور انسان کی نشوونما پر کھالی گئی ہے۔ اس طرح یہ قسم تمہید ہوگی۔ سورت کے اصل موضوع کے لئے جو انسان کی حقیقت ہے۔

استاد محمد عبدہ نے اس مقام پر ایک خاص تفسیر کی ہے اور ایک لطیف نکتہ بیان کی ہے جو ظلال القرآن کی روح سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔ وہ فرماتے ہیں :

اس کے بعد اللہ نے والد اور مولود کی قسم اٹھائی کہ اس کائنات کے مظاہر میں سے انسانیت کی پیدائش اور نشوونما کا مظہر بہت ہی اہم ہے یعنی نظام تولید اور اس کے اندر جو گہری حکمت پنہاں ہے اور انسان نے حضرت انسان کو کس قدر خوبصورت بنایا۔ پھر یہ کہ والد اور مولود دونوں پیدا ہونے والے کی تکمیل میں کس قدر مشقت اٹھاتے ہیں اور کتنی مشقتوں اور محنتوں سے یہ مولود اپنے مقررہ کمال تک پہنچتا ہے “۔

” یہی صورت ایک بیج کے اگنے اور نشوونما کے ساتھ تمام ادوار سے گزرنے میں بھی پیش آتی ہے۔ اس بیج اور پودے کو فضا کے عوامل کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور یہ پودا مشقت کے ساتھ اپنے ماحول سے اپنے لیے مختلف عناصر اخذ کرتا ہے ، یہاں تک کہ وہ آخر کار ایک درخت بن جاتا ہے۔ جس کا ایک تنا اور ٹہنیاں ہوتی ہیں۔ اور پھر یہ درخت اور مکمل پودا مزید بیج پیدا کرتا ہے اور یہ بیج آگے اپنا کردار ادا کرتے ہیں ، اس طرح یہ زمین ان نباتات کی وجہ سے خوبصورت بنتی ہے۔ اگر تم ان سب امور کو ذہن میں رکھو اور پھر اس سے ذرا اوپر حیوانات پر غور کرو ، تو تمہیں معلوم ہوگا کہ والد اور مولود کی حیاتیات میں جو عجوبے ہیں وہ بہت بڑے ہیں ، اور والد اور مولود دونوں اس نشوونما کے عمل میں جن مشقتوں سے گزرتے ہیں اور جس طرح اس ذریعہ سے بقائے نوع کا انتظام کیا جاتا ہے اور ان کے ذریعے جس طرح اس کائنات کے حسن کو دوبالا کیا جاتا ہے ۔ تو اس عمل میں نہایت بلند اور اہم مظاہر قدرت ہیں “۔

آیت 1{ لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ۔ } ”نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔“ اس آیت میں بھی لَآ اُقْسِمُکا مفہوم بالکل وہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورة القیامہ کی پہلی اور دوسری آیات یا سورة الانشقاق کی آیت 16 میں پڑھ چکے ہیں۔ یعنی ان آیات میں لَا نافیہ نہیں ہے بلکہ مخاطبین کے خیالاتِ باطلہ کے ابطال کے لیے ہے۔ چناچہ سورة القیامہ کی پہلی آیت { لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ } کا اگر ہم انگریزی ترجمہ کریں تو ہم کہیں گے : Nay , - swear by the Day of Judgement ! دراصل انگریزی میں تو Nay کے بعد کو ما , آجانے سے مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے ‘ لیکن عربی میں چونکہ ”کو ما“ وغیرہ کا استعمال نہیں ہوتا اس لیے سننے یا پڑھنے والا لَآ اُقْسِمُ کا مفہوم یوں بھی سمجھ سکتا ہے کہ ”میں قسم نہیں کھاتا“۔ بہرحال اس آیت کا مفہوم یہی ہے کہ جو کچھ تم لوگ کہہ رہے ہو وہ درست نہیں ‘ بلکہ میں اس شہر یعنی مکہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہوں کہ تمہارے خیالات و نظریات باطل ہیں۔ آگے چل کر واضح ہوجائے گا کہ یہاں مکہ مکرمہ کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے۔

مکہ مکرمہ کی قسم :اللہ تبارک وتعالیٰ مکہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہے درآں حالیکہ وہ آباد ہے اس میں لوگ بستے ہیں اور وہ بھی امن چین میں ہیں لا سے ان پر رد کیا پھر قسم کھائی اور فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! تیرے لیے یہاں ایک مرتبہ لڑائی حلال ہونے والی ہے، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہ ہوگا اور اس میں جو ملے وہ حلال ہوگا صرف اسی وقت کے لیے یہ حکم ہے صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس بابرکت شہر مکہ کو پروردگار عالم نے اول دن سے ہی حرمت والا بنایا ہے اور قیامت تک اس کی یہ حرمت و عزت باقی رہنے والی ہے اس کا درخت نہکاٹا جائے اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں میرے لیے بھی صرف ایک دن ہی کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی جیسے کل تھی ہر حاضر کو چاہیے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے ایک روایت میں ہے کہ اگر یہاں کے جنگ وجدال کے جواز کی دلیل میں کوئی میری لڑائی پیش کرے تو کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمہیں نہیں دی پھر قسم کھاتا ہے باپ کی اور اولاد کی بعض نے تو کہا ہے کہ ماولد میں مانافیہ ہے یعنی قسم ہے اس کی جو اولاد والا ہے اور قسم ہے اس کی جو بےاولاد ہے یعنی عیادلدار اور بانجھ ما کو موصولہ مانا جائے تو معنی یہ ہوئے کہ باپ کی اور اولاد کی قسم، باپ سے مراد حضرت آدم اور اولاد سے مراد کل انسان، زیادہ قوی اور بہتر بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے قسم ہے مکہ کی جو تمام زمین اور کل بستیوں کی ماں ہے تو اس کے بعد اس کے رہنے والوں کی قسم کھائی اور رہنے والوں یعنی انسان کے اصل اور اس کی جڑ یعنی حضرت آدم کی پھر ان کی اولاد کی قسم کھائی ابو عمران فرماتے ہیں مراد حضرت ابراہیم اور آپ کی اولاد ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں عام ہے یعنی ہر باپ اور ہر اولاد پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو بالکل درست قامت جچے تلے اعضاء والاٹھیک ٹھاک پیدا کیا ہے اس کی ماں کے پیٹ میں ہی اسے یہ پاکیزہ ترتیب اور عمدہ ترکیب دے دی جاتی ہے جیسے فرمایا الذی خلقک فسوک الخ یعنی اس اللہ نے تجھے پیدا کیا درست کیا ٹھیک ٹھاک بنایا اور پھر جس صورت میں چاہا ترکیب دی اور جگہ ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ہم نے انسان کو بہترین صورت پر بنایا ہے ابن عباس سے مروی ہے کہ قوت طاقت والا پیدا کیا ہے خود اسے دیکھو اس کی پیدائش کی طرف غور کرو اس کے دانتوں کا نکلنا دیکھو وغیرہ حضرت مجاد فرماتے ہیں پہلے نطفہ پھر خون بستہ پھر گوشت کا لوتھڑا غرض اپنی پیدائش میں خوب مشقتیں برداشت کی بلکہ دودھ پلانے میں بھی مشقت اور معیشت میں بھی تکلیف حضرت قتادہ فرماتے ہیں سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے عکرمہ فرماتے ہیں شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے قتادہ فرماتے ہیں سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے عکرمہ فرماتے ہیں شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے قتادہ فرماتے ہیں مشقت میں یہ بھی مروی ہے اعتدال اور قیام میں دنیا اور آخرت میں سختیاں سہنی پڑتی ہیں حضرت آدم چونکہ آسمان میں پیدا ہوئے تھے اس لیے یہ کہا گیا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال کے لینے پر کوئی قادر نہیں اس پر کسی کا بس نہیں کیا وہ نہ پوچھا جائے گا کہ کہاں سے مال لایا اور کہاں خرچ کیا ؟ یقینا اس پر اللہ کا بس ہے اور وہ پوری طرح اس پر قادر ہے پھر فرماتا ہے کہ میں نے بڑے وارے نیارے کیے ہزاروں لاکھوں خرد کر ڈالے کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ؟ یعنی اللہ کی نظروں سے وہ اپنے آپ کو غائب سمجھتا ہے کیا ہم نے اس انسان کو دیکھنے والی آنکھیں نہیں دیں ؟ اور دل کی باتوں کے اظہار کے لیے زبان عطا نہیں فرمائی ؟ اور دو ہونٹ نہیں دئیے ؟ جن سے کلام کرنے میں مدد ملے کھانا کھانے میں مدد ملے اور چہرے کی خوبصورتی بھی ہو اور منہ کی بھی ابن عساکر میں ہے نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میں نے بڑی بڑی بیحد نعمتیں تجھ پر انعام کیں جنہیں تو گن بھی نہیں سکتا نہ اس کے شکر کی تجھ میں طاقت ہے میری ہی یہ نعمت بھی ہے کہ میں نے تجھے دیکھنے کو دو آنکھیں دیں پھر میں نے ان پر پلکوں کا غلاف بنادیا ہے پس ان آنکھوں سے میری حلال کردہ چیزیں دیکھ اگر حرام چیزیں تیرے سامنے آئیں تو ان دونوں کو بند کرلے میں نے تجھے زبان دی ہے اور اس کا غلاف بھی عنایت فرمایا ہے میری مرضی کی باتیں زبان سے نکال اور میری منع کی ہوئی باتوں سے زبان بند کرلے میں نے تجھے شرمگاہ دی ہے اور اس کا پردہ بھی عطا فرمایا ہے حلال جگہ تو بیشک استعمال کر لیکن حرام جگہ پردہ ڈال لے ایے ابن آدم تو میری ناراضگی نہیں اٹھا سکتا اور میرے عذاب کے سہنے کی طاقت نہیں رکھتا پھر فرمایا کہ ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے بھلائی کا اور برائی کا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دو راستے ہیں پھر تمہیں برائی کا راستہ بھلائی کے راستے سے زیادہ اچھا کیوں لگتا ہے ؟ یہ حدیث بہت ضعیف ہے یہ حدیث مرسل طریقے سے بھی مروی ہے ابن عباس فرماتے ہیں مراد اس سے دونوں دودھ ہیں اور مفسرین نے بھی یہی کہا ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے انا خلقنا الانسان من نطفۃ الخ یعنی ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے سنتا دیکھتا کیا ہم نے اس کی رہبری کی اور راستہ دکھا دیا پس یا تو شکر گذار ہے یا ناشکرا۔

آیت 1 - سورۃ البلاد: (لا أقسم بهذا البلد...) - اردو