آیت ” نمبر 42 تا 43۔
یہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنی استطاعت کے مطابق عمل کیا (کیونکہ اللہ کی جانب سے صرف وہی فرائض عائد کئے جاتے ہیں جن پر عمل ممکن ہوتا ہے) تو یہ لوگ ان باغوں کی طرف لوٹیں گے جو ان کیلئے تیار کیے گئے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ کے فضل وکرم کی وجہ سے ان جنتوں کے مالک ہوں گے اور اس نے ان لوگوں کو ان جنتوں کا وارث ومالک بنا دیا ہے ۔ اور یہ اس لئے کہ انہوں نے ایمان کے بعد عمل صالح کو اپنایا اور یہ باغات اس بات کا صلہ ہیں کہ انہوں نے رسولوں کا اتباع کیا اور شیطان کے مخالف چلے ۔ انہوں نے اللہ رحیم وکریم کے احکام مانے اور شیطان رجیم کی معصیت کی لیکن یہ سب کچھ اللہ کی رحمت سے ممکن ہوا ۔ اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ان کے لئے یہ سب کچھ ممکن نہ تھا ۔ اور اس مضمون کو حضور ﷺ نے ایک حدیث میں یوں بیان کیا ہے کہ ” تم میں سے کوئی ایک بھی صرف اپنے عمل کی وجہ سے جنت کو نہ جائے گا “ ۔ کہا کہ حضور ﷺ آپ بھی نہ جائیں گے ؟ ” نہیں میں بھی نہیں الا یہ کہ مجھے اللہ کی رحمت اور فضل ڈھانپ لے۔ “ ۔ ؛۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ اس آیت اور حضور ﷺ کے قول مبارک کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے اس لئے کہ حضور ﷺ کے اقوال بھی وحی پر مبنی ہوتے ہیں اور اسلامی فرقوں نے اس موضوع پر جو اختلافی مباحث کیے ہیں وہ غلط فہمی پر مبنی ہیں ۔ یہ اختلاف محض ذاتی خواہشات پر مبنی تھے ۔ اللہ کے علم میں تھا کہ انسان ضعیف کمزور اور عاجز مخلوق ہے ۔ وہ صرف اپنے اعمال کے بل بوتے پر جنت کے استحقاق کے مقام تک نہیں پہنچ سکتی اور نہ وہ دنیا میں کسی ایک نعمت کے استحقاق پر جنت میں داخل ہو سکتی ہے ۔ اس لئے اللہ نے اپنے اوپر یہ فرض کرلیا کہ وہ رحیم وکریم ہوگا اور انسانوں کی جانب سے تھوڑے بہت اچھے اعمال بھی قبول کرلے گا ۔ اور ان تھوڑے بہت اعمال ہی کی بناء پر ان کے نام جنت لکھ دے گا مگر یہ محض اس کا فضل وکرم ہوگا ۔ پس وہ اپنے عمل ہی کی وجہ سے جنت کے مستحق قرار پائیں گے لیکن ان تھوڑے اعمال پر استحقاق کی عطاء محض رحمت الہی کی وجہ سے ہوگی ۔
ایک طرف یہ مفتری ‘ جھوٹے ‘ مجرم ‘ ظالم کافر اور مشرک اہل جہنم ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے ‘ باہم جھگڑیں گے ‘ ان کے دل کینہ پروری اور دشمنی سے جوش ماریں گے ‘ حالانکہ دنیا میں وہ ہم نشین اور دوست تھے ۔ دوسری جانب وہ لوگ جو ایمان لائے تھے ‘ نیک عمل والے تھے وہ جنت میں بھائی بھائی محبت کرنے والے دوست ‘ اولیائے باصفا اور ہم نشنیاں دلسوز ہوں گے اور ان پر محبت کا سایہ ہوگا۔
آیت ” وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُورِہِم مِّنْ غِلٍّ “۔ (7 : 43)
” ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے ۔ “
بہرحال ایمان والے انسان ہی تو تھے ‘ انسانوں کی حیثیت سے انہوں نے زندگی بسر کی ۔ بارہا ایسا ہوا کہ وہ ایک دوسرے پر دنیا میں خفا ہوئے مگر انہوں نے اس خفگی کو چھپایا اور انکے دل میں ایک دوسرے کی خلاف کدورت پیدا ہوئی مگر انہوں نے اس کدورت غلبہ پایا البتہ کچھ اثرات آخر تک ان کے دلوں میں موجود رہے ۔
قرطبی اپنی تفسیر احکام القرآن میں کہتے ہیں : ” حضور ﷺ نے فرمایا کہ غل (کدورت) جنت کے دروازوں کے باہر پڑی ہوگی جس طرح اونٹوں کی مینگنیاں ۔ اللہ نے مومنین کے دلوں سے اس کو نکال پھینکا ہوگا۔ “ اور حضرت علی ؓ سے روایت ہے ۔ انہوں نے فرمایا ” میں امید کرتا ہوں کہ میں ” عثمان ‘ طلحہ ‘ اور زبیررضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں فرمایا (ونزعنا) ” ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے ۔ “
اہل جہنم جب ہر طرف سے آگ میں گھرے ہوئے ہوں گے تو دوسری جانب اہل جنت میں جن باغات میں ہوں گے ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور انکی وجہ سے پوری فضا پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا جاری ہوگی ۔
آیت ” تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمُ الأَنْہَارُ “۔ (7 : 43)
” ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی “ ایک طرف اہل جہنم ایکدوسرے کو کوس رہے ہوں گے اور دست دگریبان ہوں گے اور دوسری جانب اہل جنت اللہ کی تعریف اس کے احسانات کو اعتراف کررہے ہوں گے ۔
آیت ” وَقَالُواْ الْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہَـذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلا أَنْ ہَدَانَا اللّہُ لَقَدْ جَاء تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ “۔ (7 : 43)
” اور وہ کہیں گے کہ ” تعریف خدا ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا ‘ ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا ‘ ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول حق ہی لے کر آئے تھے۔ “
ایک طرف اہل جہنم کو بطور تحقیر وطنز اور برائے شرمساری یہ کہا جائے گا ۔
آیت ” قَالَ ادْخُلُواْ فِیْ أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِکُم مِّن الْجِنِّ وَالإِنسِ فِیْ النَّار “۔ (7 : 38)
” تم بھی اسی جہنم میں چلے جاؤ جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہ جن وانس جا چکے ہیں ۔ “
آیت ” وَنُودُواْ أَن تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ أُورِثْتُمُوہَا بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ (43)
” اس وقت ندا آئے گی کہ ” یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں ان اعمال کے بدلے مین ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے ۔ “
اسی طرح اہل جنت اور اہل جہنم کے درمیان مکمل تقابل ان آیات میں دے دیا گیا ہے ۔ غرض یہ مناظر مزید آگے بڑھتے ہیں ۔ اب ہمارے سامنے ایک نیا منظر ہے ۔ اہل جنت جنت میں اترچکے ہیں اور مطمئن ہیں اور اہل جہنم کو بھی یقین ہوچکا ہے کہ اب یہی ان کا دائمی انجام ہے۔ چناچہ اہل جنت اب ان پر یہ آوازہ کستے ہیں اور وہ بھی بےبسی میں یہ جواب دیتے ہیں ۔
آیت 42 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لاَ نُکَلِّفُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَآز اولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ یہ مضمون سورة البقرۃ کی آخری آیت میں بھی آچکا ہے۔ اب یہاں پھر دہرایا گیا ہے کہ آخرت کا محاسبہ انفرادی طور پر ہوگا اور ہر فرد کی صلاحیتوں اور اس کو ودیعت کی گئی نعمتوں کے عین مطابق ہوگا۔ کسی کی استطاعت سے زیادہ کی ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل انسانی بس میں ہے ! اوپر گنہگاروں کا ذکر ہوا یہاں اب نیک بختوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ جن کے دل میں ایمان ہے اور جو اپنے جسم سے قرآن و حدیث کے مطابق کام کرتے ہیں بخلاف بدکاروں کے کہ وہ دل میں کفر رکھتے ہیں اور عمل سے دور بھاگتے ہیں۔ پھر فرمان ہے کہ ایمان اور نیکیاں انسان کے بس میں ہیں اللہ کے احکام انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہیں۔ ایسے لوگ جنتی ہیں اور ہمیشہ جنت میں ہی رہیں گے۔ ان کے دلوں میں سے آپس کی کدورتیں حد بغض دور کردیئے جائیں گے۔ چناچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ مومن آگ سے چھٹکارا حاصل کر کے جنت و دوزخ کے درمیان ایک ہی پل پر روک دیئے جائیں گے وہاں ان کے آپس کے مظالم کا بدلہ ہوجائے گا اور پاک ہو کر جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے۔ واللہ وہ لوگ اپنے اپنے درجوں کو اور مکانوں کو اس طرح پہچان لیں گے جیسے دنیا میں جان لیتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ سدی ؒ سے مروی ہے کہ اہل جنت دروازہ جنت پر ایک درخت دیکھیں گے جس کی جڑوں کے پاس سے دو نہریں بہ رہی ہوں گی یہ ان میں سے ایک کا پانی پئیں گے جس سے دلوں کی کدورتیں دھل جائیں گی یہ شراب طہور ہے پھر دوسری نہر میں غسل کریں گے جس سے چہروں پر تروتازگی آجائے گی پھر نہ تو بال بکھریں نہ سرمہ لگانے اور سنگھار کرنے کی ضرورت پڑے۔ حضرت علی بن ابو طالب ؓ سے بھی اسی جیسا قول مروی ہے جو آیت (وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِيْنَ 73) 39۔ الزمر) کی تفسیر میں آئے گا ان شاء اللہ۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ انشاء اللہ میں اور عثمان اور طلحہ اور زبیر ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے دل اللہ تعالیٰ صاف کر دے گا۔ فرماتے ہیں کہ ہم اہل بدر کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہر جنتی کو اپنا جہنم کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ وہ اور بھی شکر کرے اور وہ کہے گا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت عنایت فرمائی اور ہر جہنمی کو اس کا جنت کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ اس کی حسرت بڑھے اس وقت وہ کہے گا کاش کہ میں بھی راہ یافتہ ہوتا۔ پھر جنتیوں کو جنت کی جگہیں دے دی جائیں گی اور ایک منادی ندا کرے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کے تم بہ سبب اپنی نیکیوں کے وارث بنا دیئے گئے یعنی تمہارے اعمال کی وجہ سے تمہیں رحمت رب ملی اور رحمت رب سے تم داخل جنت ہوئے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا یاد رکھو ! تم میں سے کوئی بھی صرف اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جاسکتا لوگوں نے پوچھا آپ بھی نہیں ؟ فرمایا ہاں میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت و فضل میں ڈھانپ لے۔