سورہ اعراف: آیت 4 - وكم من قرية أهلكناها فجاءها... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَكَم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَٰهَا فَجَآءَهَا بَأْسُنَا بَيَٰتًا أَوْ هُمْ قَآئِلُونَ

اردو ترجمہ

کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا اُن پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا، یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جب وہ آرام کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakam min qaryatin ahlaknaha fajaaha basuna bayatan aw hum qailoona

آیت 4 کی تفسیر

آیت ” نمبر 4 تا 9۔

اقوام سابقہ کا انجام سبق آموز ہوتا ہے ۔ وہ نہایت ہی اونچا ڈراوا ہوتا ہے ۔ قرآن کریم اقوام سابقہ کے عبرت آموز حصوں کو نہایت ہی موثر انداز میں لاتا ہے جس سے انسان خواب غفلت سے جاگ اٹھتا ہے ۔ اور دل پر سے غفلت کے پردے ہٹ جاتے ہیں۔

بیشمار ایسی بستیاں ہیں جو غفلت کی وجہ سے اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہریں ۔ ان پر جب ہلاکت آئی تو وہ خواب غفلت میں مدہوش تھیں۔ یہ عذاب ان پر رات کے وقت آیا یا دن کے وقت وہ سوتے میں مارے گئے ۔ بالعموم لوگ دوپہر کے وقت آرام کرتے ہیں اور اس وقت ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ امن وامان سے رہیں۔

آیت ” وَکَم مِّن قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا فَجَاء ہَا بَأْسُنَا بَیَاتاً أَوْ ہُمْ قَآئِلُونَ (4)

” کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا ۔ ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا ‘ یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جبکہ وہ آرام کر رہے تھے۔ “

یہ دونوں حالتیں یعنی قیلولہ کی حالت اور رات کی وقت سونے کی حالت ایسی ہوتی ہے جس میں انسان بےپرواہ ‘ پرامن اور غفلت کی حالت میں ہوتا ہے اور ایسی حالت میں کسی کا پکڑا جانا اور عذاب میں مبتلا ہونا نہایت ہی خوفناک اور زیادہ موثر ہوتا ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں ڈر ‘ نصیحت آموزی ‘ احتیاط وتقوی ‘ زیادہ سہولت کے ساتھ حاصل ہو سکتا ہے ۔

ایسے حالات میں جب یہ مجرمین پکڑے گئے اور ان پر عذاب آیا تو ان کا ردعمل کیا تھا اعتراف اور مطلق اعتراف جرم ۔ ماسوائے اقرار کے ان کے پاس اور کوئی بہانہ نہ رہا۔

آیت 4 وَکَمْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا فَجَآءَہَا بَاْسُنَآ بَیَاتًا اَوْ ہُمْ قَآءِلُوْنَ۔۔ چو ن کہ اس سورة مبارکہ کے موضوع کا عمود التّذکیر بِاَیَّام اللّٰہ ہے ‘ لہٰذا شروع میں ہی اقوام گزشتہ پر عذاب اور ان کی بستیوں کی تباہی کا تذکرہ آگیا ہے۔ یہ قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم ہود علیہ السلام ‘ قوم صالح علیہ السلام علیہ السلام اور قوم شعیب علیہ السلام کی بستیوں اور عامورہ اور سدوم کے شہروں کی طرف اشارہ ہے۔

سابقہ باغیوں کی بستیوں کے کھنڈرات باعث عبرت ہیں ان لوگوں کو جو ہمارے رسولوں کی مخالفت کرتے تھے انہیں جھٹلاتے تھے تم سے پہلے ہم ہلاک کرچکے ہیں۔ دنیا اور آخرت کی ذلت ان پر برس پڑی، جیسے فرمان ہے تجھ سے اگلے رسولوں سے بھی مذاق کیا گیا، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ مذاق نے انہیں تہو بالا کردیا، ایک اور آیت میں ہے، بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے غارت کردیا جو اب تک الٹی پڑی ہیں اور جگہ ارشاد ہے بہت سے اتراتے ہوئے لوگوں کے شہر ہم نے ویران کردیئے دیکھ لو کہ اب تک ان کے کھنڈرات تمہارے سامنے ہیں جو بہت کم آباد ہوئے۔ حقیقتاً وارث ومالک ہم ہی ہیں ایسے ظالموں کے پاس ہمارے عذاب اچانک آگئے اور وہ اپنی غفلتوں اور عیاشیوں میں مشغول تھے کہیں دن کو دوپہر کے آرام کے وقت، کہیں رات کے سونے کے وقت، چناچہ ایک آیت میں ہے (افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا وھم نائمون اوامن اھل القری ان یاتیھم باسنا ضحی وھم یلعبون) یعنی لوگ اس سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ان کے سوتے ہوئے راتوں رات اچانک ہمارا عذاب آجائے ؟ یا انہیں ڈر نہیں کہ دن دیہاڑے دوپہر کو ان کے آرام کے وقت ان پر ہمارا عذاب آجائیں ؟ اور آیت میں ہے کہ مکاریوں کی وجہ سے ہماری نافرمانیاں کرنے والے اس بات سے نڈر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے ؟ یا ان کے پاس عذاب الٰہی اس طرح آجائے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے یا اللہ انہیں ان کی بیخبر ی میں آرام کی گھڑیوں میں ہی پکڑ لے کوئی نہیں جو اللہ کو عاجز کرسکے، یہ تو رب کی رحمت ورافت ہے جو گنہگار زمین پر چلتے پھرتے ہیں، عذاب رب آجانے کے بعد تو یہ خود اپنی زبانوں سے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیں گے لیکن اس وقت کیا نفع ؟ اسی مضمون کو آیت (وکم قصمنا) میں بیان فرمایا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کردیتا انہیں عذاب نہیں کرتا، عبدالملک سے جب یہ حدیث میں آیا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کردیتا انہیں عذاب نہیں کرتا تو آپ نے یہ آیت (فما کان دعوھم) الخ، پڑھ سنائی پھر فرمایا امتوں سے بھی، ان کے رسولوں سے بھی یعنی سب سے قیامت کے دن سوال ہوگا، جیسے فرمان ہے (وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِيْنَ 65) 28۔ القصص) یعنی اس دن ندا کی جائے گی اور دریافت کیا جائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟ اس آیت میں امتوں سے سوال کیا جانا بیان کیا گیا ہے اور آیت میں ہے (يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ 109) 5۔ المآئدہ) ، رسولوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں غیب کا جاننے والا تو ہی ہے پس امت سے رسولوں کی قبولیت کی بابت اور رسولوں سے تبلیغ کی بابت قیامت کے دن سوال ہوگا، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک با اختیار ہے اور اپنے زیر اختیار لوگوں کی بابت اس سے سوال کیا جانے والا ہے۔ بادشاہ سے اسکی رعایا کا ہر آدمی سے اس کی اہل و عیال کا، ہر عورت سے اس کے خاوند کے گھر کا، ہر غلام سے اس کے آقا کے مال کا سوال ہوگا۔ راوی حدیث حضرت طاؤس نے اس حدیث کو بیان فرما کر پھر آیت کی تلاوت کی۔ اس زیادتی کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم کی نکالی ہوئی بھی ہے اور زیادتی ابن مردویہ نے نقل کی ہے، قیامت کے دن اعمال نامے رکھے جائیں گے اور سارے اعمال ظاہر ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی جائے گی۔ اللہ ہر شخص کے اعمال سے باخبر ہے اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ نہ وہ کسی چیز سے غافل ہے۔ آنکھوں کی خیانت سے سینوں کی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے۔ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے۔ زمین کی اندھیریوں میں جو دانہ ہوتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے۔ تر و خشک چیز اس کے پاس کھلی کتاب میں موجود ہے۔

آیت 4 - سورہ اعراف: (وكم من قرية أهلكناها فجاءها بأسنا بياتا أو هم قائلون...) - اردو