آیت ” نمبر 38 تا 39۔
آیت ” قَالَ ادْخُلُواْ فِیْ أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِکُم مِّن الْجِنِّ وَالإِنسِ فِیْ النَّارِ “۔ (7 : 38)
” اللہ فرمائے گا جاؤ ‘ تم بھی اسی جہنم میں چلے جاؤ جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہ جن وانس جا چکے ہیں ۔ “
یعنی اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا ملو ‘ انسانوں اور جنوں میں تمہارے جو دوست ہیں ان میں شامل ہوجاؤ ‘ لیکن جہنم میں ۔ کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ کہ ابلیس نے اپنے رب کی نافرمانی کی تھی ؟ کیا اس نے آدم اور اس کی بیوی کو جنت سے نہ نکلوایا تھا ؟ کیا شیطان نے اولاد آدم کو گمراہ نہ کیا تھا کیا اللہ نے اسی شیطان کو دھمکی نہ دی تھی کہ وہ اور اس کے تمام متبعین جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ؟ لہذا اب تم سب جہنم میں خوشی سے داخل ہوجاؤ‘ کچھ پہلے جاؤ اور کچھ ان کے پیچھے ان کا اتباع کرو ‘ تم سب ایک دوسرے کے دوست ہو اور سب کے سب برابری کی بنیاد پر اس کے مستحق ہو۔ ۔
یہ تمام امتیں اور یہ تمام اقوام اور جماعتیں باہم دگر اس طرح دوست ‘ حلیف اور پیوست تھیں کہ ان میں سے آخری قوم سب سے پہلی قوم کی متبع تھی اور ان میں سے تابع جماعت اپنی متبوع جماعت سے ہدایات لیتی تھی لیکن آج صورت حالات یہ ہے کہ ان کے درمیان دشمنی ہوگئی ہے اور وہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہی ہیں۔
آیت ” کُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّۃٌ لَّعَنَتْ أُخْتَہَا “۔ (7 : 38)
” ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہوگا “ ‘۔ ملاحظہ کیجئے کہ بیٹا باپ پر لعنت بھیج رہا ہوگا کس قدر برا ہے یہ انجام ۔ دوست دوست کو کوس رہا ہوگا ۔ پیچھلے لوگ اگلوں سے مل جائیں گے اور دور اور قریب والے سب ایک جگہ ہوں گے تو انکے درمیان اب جدل وجدال یوں شروع ہوگا۔
آیت ” حَتَّی إِذَا ادَّارَکُواْ فِیْہَا جَمِیْعاً قَالَتْ أُخْرَاہُمْ لأُولاَہُمْ رَبَّنَا ہَـؤُلاء أَضَلُّونَا فَآتِہِمْ عَذَاباً ضِعْفاً مِّنَ النَّار “ (7 : 38)
” حتی کہ جب سب وہاں جمع ہوجائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے رب ‘ یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا ‘ لہذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے ۔ “
یوں ان لوگوں کے مصائب کا آغاز ہوتا ہے ۔ اس منظر میں دوست اور یار بھی سامنے آتے ہیں ‘ یہ لوگ ایکدوسرے کو کو ستے ہیں ‘ اب یہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں ۔ ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ایک دوسرے کے خلاف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں سخت عذاب دیا جائے ۔ حالانکہ وہ ” رب “ پر دنیا میں افتراء باندھتے تھے اور اس کی آیات کو جھٹلاتے تھے ۔ اب اسی کو ” ربنا “ کہتے ہیں ۔ اب تو وہ صرف اسی کی طرف لوٹ رہے ہیں ۔ اور صرف اسی کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں لیکن اللہ کی جانب سے ان کو جو جواب دیا جاتا ہے اور ان کی دعا جس طرح قبول ہوتی ہے وہ یہ ہے ۔
آیت ” ِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـکِن لاَّ تَعْلَمُونَ (38)
” جواب میں ارشاد ہوگا ۔ ہر ایک کے لئے دوہرا عذاب ہی ہے مگر تم جانتے نہیں ہوں ۔ “ تمہارے اور ان سب کے لئے دوگنا عذاب ہے ۔
جب ان لوگوں نے یہ فیصلہ سنا تو جنکے خلاف یہ شکایت کی گئی تھی انہوں نے دعا کرنے والوں کا خوب مذاق اڑایا اور انکی طرف متوجہ ہو کہ کہا کہ ہم سب برابر کے مجرم ہیں۔
آیت ” وَقَالَتْ أُولاَہُمْ لأُخْرَاہُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْْنَا مِن فَضْلٍ فَذُوقُواْ الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْسِبُونَ (39)
” اور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گا کہ (اگر ہم قابل الزام تھے تو) تمہی کو ہم پر کون سی فضیلت حاصل تھی ‘ اب اپنی کمائی کے نتیجے میں عذاب کا مزا چکھو۔ “
اب یہاں یہ المناک منظر ختم ہوجاتا ہے اور اسکے بعد ان لوگوں کے اس انجام کو ایک منطقی انجام ثابت کرنے کے لئے تبصرہ آتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے ۔ یہ تبصرہ اس منظر سے پہلے آتا ہے جو مومنین صادقین کا منظر ہے اور اس المناک منظر کے بالکل برعکس ہے ۔
آیت 38 قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ ط یعنی ایک ایک قوم کا حساب ہوتا جائے گا اور مجرمین جہنم کے اندر جھونکے جاتے رہیں گے۔ پہلی نسل کے بعد دوسری نسل ‘ پھر تیسری نسل و علیٰ ٰہذا القیاس۔ اب وہاں ان میں مکالمہ ہوگا۔ بعد میں آنے والی ہر نسل کے مقابلے میں پہلی نسل کے لوگ بڑے مجرم ہوں گے ‘ کیونکہ جو لوگ بدعات اور غلط عقائد کے موجد ہوتے ہیں اصل اور بڑے مجرم تو وہی ہوتے ہیں ‘ ان ہی کی وجہ سے بعد میں آنے والی نسلیں بھی گمراہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا قرآن مجید میں اہل جہنم کے جو مکالمات مذکور ہیں ان کے مطابق بعد میں آنے والے لوگ اپنے پہلے والوں پر لعنت کریں گے اور کہیں گے کہ تمہاری وجہ سے ہی ہم گمراہ ہوئے ‘ لہٰذا تم لوگوں کو تو دو گنا عذاب ملنا چاہیے۔ اس طریقے سے وہ آپس میں ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے اور جھگڑیں گے۔کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَہَا ط حَتّٰیٓ اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْہَا جَمِیْعًالا قالَتْ اُخْرٰٹہُمْ لِاُوْلٰٹہُمْ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا دنیا میں تو یہ لوگ اپنی نسلوں کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ ہمارے آباء و اَجداد تھے ‘ ہمارے قابل احترام اسلاف تھے۔ یہ طور طریقے انہی کی ریتیں ہیں ‘ انہی کی روایتیں ہیں اور ان کی ان روایتوں کو ہم کیسے چھوڑ سکتے ہیں ؟ لیکن وہاں جہنم میں اپنے انہیں آباء واجداد کے بارے میں وہ علی الاعلان کہہ دیں گے کہ اے اللہ ! یہی ہیں وہ بد بخت جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔فَاٰتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ط قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَعْلَمُوْنَ جیسے یہ لوگ تمہیں گمراہ کر کے آئے تھے ویسے ہی تم بھی اپنے بعد والوں کو گمراہ کر کے آئے ہو اور یہ سلسلہ دنیا میں اسی طرح چلتا رہا۔ یہ تو ہر ایک کو اس وقت چاہیے تھا کہ اپنی عقل سے کام لیتا۔ میں نے تم سب کو عقل دی تھی ‘ دیکھنے اور سننے کی صلاحیتیں دی تھیں ‘ نیکی اور بدی کا شعور دیا تھا۔ تمہیں چاہیے تھا کہ ان صلاحیتوں سے کام لے کر برے بھلے کا خود تجزیہ کرتے اور اپنے آباء و اَجداد اور لیڈروں کی اندھی تقلید نہ کرتے۔ لہٰذا تم میں سے ہر شخص اپنی تباہی و بربادی کا خود ذمہ دار ہے۔
کفار کی گردنوں میں طوق اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکوں کو جو اللہ پر افتراء باندھتے تھے، اس کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے، فرمائے گا کہ تم بھی اپنے جیسوں کے ساتھ جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں خواہ وہ جنات میں سے ہوں خواہ انسانوں میں سے جہنم میں جاؤ۔ (فی النار یا تو فی امم) کا بدل ہے یا (فی امم) میں (فی) معنی میں (مع) کے ہے۔ ہر گروہ اپنے ساتھ کے اپنے جیسے گروہ پر لعنت کرے گا جیسے کہ خلیل اللہ ؑ نے فرمایا ہے کہ تم ایک دوسرے سے اس روز کفر کرو گے اور آیت میں ہے (اذ تبرا) یعنی وہ ایسا برا وقت ہوگا کہ گرو اپنے چیلوں سے دست بردار ہوجائیں گے، عذابوں کو دیکھتے ہی آپس کے سارے تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ مرید لوگ اس وقت کہیں گے کہ اگر ہمیں بھی یہاں سے پھر واپس دنیا میں جانا مل جائے تو جیسے یہ لوگ آج ہم سے بیزار ہوگئے ہیں ہم بھی ان سے بالکل ہی دست بردار ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ اسی طرح ان کے کرتوت ان کے سامنے لائے گا جو ان کیلئے سر تا سر موجب حسرت ہوں گے اور یہ دوزخ سے کبھی آزاد نہ ہوں گے۔ یہاں فرماتا ہے کہ جب یہ سارے کے سارے جہنم میں جا چکیں گے تو پچھلے یعنی تابعدار مرید اور تقلید کرنے والے اگلوں سے یعنی جن کی وہ مانتے رہے ان کی بابت اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے اس سے ظاہر ہے کہ یہ گمراہ کرنے والے ان سے پہلے ہی جہنم میں موجود ہوں کیونکہ ان کا گناہ بھی بڑھا ہوا تھا کہیں گے کہ یا اللہ انہیں دگنا عذاب کر چناچہ اور آیت میں ہے (يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَ 66) 33۔ الأحزاب) جبکہ ان کے چہرے آتش جہنم میں ادھر سے ادھر جھلسے جاتے ہوں گے۔ اس وقت حسرت و افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ کاش کہ ہم اللہ رسول کے مطیع ہوتے۔ یا اللہ ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی تابعداری کی جنہوں نے ہمیں گمراہ کردیا۔ یا اللہ انہیں دگنا عذاب کر۔ انہیں جواب ملا کہ ہر ایک کیلئے دگنا ہے۔ یعنی ہر ایک کو اس کی برائیوں کا پورا پورا بدلہ مل چکا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت (اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يُفْسِدُوْن 88) 16۔ النحل) جنہوں نے کفر کیا اور راہ رب سے روکا ان کا ہم عذاب اور زیادہ کریں گے اور آیت میں ہے آیت (وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ 13) 29۔ العنکبوت) یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور آیت میں ہے ان کے بوجھ ان پر لادے جائیں گے جن کو انہوں نے بےعلمی سے گمراہ کیا۔ اب وہ جن کی مانی جاتی رہی اپنے ماننے والوں سے کہیں گے کہ جیسے ہم گمراہ تھے تم بھی گمراہ ہوئے اب اپنے کرتوت کا بدلہ اٹھاؤ اور آیت میں ہے ولو تری اذالظالمون موقوفون عندربھم کاش کہ تو دیکھتا جب کہ یہ گنہگار اللہ کے سامنے کھڑے ہوئے ہوں گے ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہوں گے۔ ضعیف لوگ متکبروں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن بن جاتے۔ وہ جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا ؟ وہ تو تمہارے سامنے کھلی ہوئی موجود تھی بات یہ ہے کہ تم خود ہی گنہگار بد کردار تھے۔ یہ پھر کہیں گے کہ نہیں نہیں تمہاری دن رات کی چالاکیوں نے اور تمہاری اس تعلیم نے (کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک ٹھہرائیں) ہمیں گم کردہ راہ بنادیا۔ بات یہ ہے کہ سب کے سب اس وقت سخت نادم ہوں گے لیکن ندامت کو دبانے کی کوشش میں ہوں گے۔ کفار کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ ضرور دیا جائے گا نہ کم نہ زیادہ (پورا پورا)