سورہ اعراف: آیت 29 - قل أمر ربي بالقسط ۖ... - اردو

آیت 29 کی تفسیر, سورہ اعراف

قُلْ أَمَرَ رَبِّى بِٱلْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا۟ وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَٱدْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ

اردو ترجمہ

اے محمدؐ، ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی و انصاف کا حکم دیا ہے، اور اس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اُسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھ کر جس طرح اُس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul amara rabbee bialqisti waaqeemoo wujoohakum AAinda kulli masjidin waodAAoohu mukhliseena lahu alddeena kama badaakum taAAoodoona

آیت 29 کی تفسیر

آیت ” کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ (29) فَرِیْقاً ہَدَی وَفَرِیْقاً حَقَّ عَلَیْْہِمُ الضَّلاَلَۃُ إِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّیَاطِیْنَ أَوْلِیَاء مِن دُونِ اللّہِ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُم مُّہْتَدُونَ (30)

” جس طرح اس نے تمہیں اب پیدا کیا اسی طرح تم پھر پیدا کئے جاؤ گے ۔ ایک گروہ کو تو اس نے سیدھا راستہ دکھایا ہے ‘ مگر دوسرے گروہ پر گمراہی چسپاں ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ انہوں نے خدا کے بجائے شیاطین کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سیدھی راہ پر ہیں ۔ “

یہ آیت ایک خوشنما خوشے کی طرح ہے جس کے اندر اس عظیم سفر انسانیت کا نقطہ آغاز اور نقطہ اختتام دونوں آگئے ہیں۔

آیت ” کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ (29)

” جس طرح اس نے تمہیں اب پیدا کیا اسی طرح تم پھر پیدا کئے جاؤ گے ۔ “

تمہاری زندگی کا آغاز جوڑے کی شکل میں ہوا ‘ آدم اور حوا شیطان اور اس کے حواری ‘ اسی طرح دوبارہ تمہیں پیدا کیا جائے گا ۔ ایک فریق مسلم اور مطیع ہوگا اور یہ آدم اور حوا کے زمرے میں ہوگا اور مومن ہوگا۔ دوسرا گروہ ابلیس کے حواریوں اور متبعین کا ہوگا اور اللہ ان کے ساتھ جہنم کو بھر دے گا ۔ یہ ابلیس کے دوست ہوں گے اور ابلیس ان کا دوست ہوگا اور اسی وجہ سے وہ جہنم میں جائیں گے اگرچہ ان کا خیال یہ ہوگا کہ وہ ہدایت پر ہیں ۔

جس شخص کا دوست اللہ ہو وہ ہدایت پر ہوگا اور جس شخص کا دوست شیطان ہو وہ گمراہ ہوگا اور اس طرح یہ دونوں فریق لوٹ کر آئیں گے ۔ (فریقا ھدی ۔۔۔۔۔۔۔ ) ” ایک گروہ کو تو اس نے سیدھا راستہ بنا لیا ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ سیدھی راہ پر رہیں ۔ “ اسی طرح وہ واپس آرہے ہوں گے ۔ غرض ایک ہی لمحے میں سفر کا آغاز ہوا اور دوسرے میں انجام کی منظر کشی کردی گئی ۔ یہ ہے قرآن کریم کا معجزاہ انداز بیان اور قرآن کے علاوہ آج تک کسی عبارت میں یہ اسلوب نہیں پایا گیا ۔

اب بنی آدم کو دوبارہ پکارا جاتا ہے اور یہ تیسری پکار بھی اسی وقفے میں ہے ۔ آگے انسانیت کا عظیم سفر دوبارہ شروع ہونے والا ہے جو اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق جاری رہے گا ۔

آیت 29 قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بالْقِسْطِقف وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ مسجد اسم ظرف ہے اور یہ ظرف زمان بھی ہے اور ظرف مکان بھی۔ بطور ظرف مکان سجدے کی جگہ مسجد ہے اور بطور ظرف زمان سجدے کا وقت مسجد ہے۔وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ط یعنی اللہ کو پکارنے ‘ اس سے دعا کرنے کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کیا جائے۔ جیسا کہ سورة البقرۃ آیت 186 میں روزے کے احکام اور حکمتوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ کہ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں ‘ اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں ‘ لیکن انہیں بھی تو چاہیے کہ میرا کہنا مانیں۔۔ اور یہ کہنا ماننا یا اطاعت جزوی طور پر قابل قبول نہیں ‘ بلکہ اس کے لیے اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص البقرۃ : 208 کا معیار سامنے رکھنا ہوگا ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں پورے پورے داخل ہونا ہوگا۔ لہٰذا اس حوالے سے یہاں فرمایا گیا کہ اپنی اطاعت کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے اسے پکارو۔ یعنی اس کی اطاعت کے دائرے کے اندر کلی طور پر داخل ہوتے ہوئے اس سے دعا کرو۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں بیشمار اطاعتوں سے سابقہ پڑتا ہے ‘ والدین کی اطاعت ‘ اساتذہ کی اطاعت ‘ الوالامر کی اطاعت وغیرہ۔ تو اس میں بنیادی طور پر جو اصول کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ۔ یعنی مخلوق میں سے کسی کی ایسی اطاعت نہیں کی جائے گی جس میں خالق حقیقی کی معصیت لازم آتی ہو۔ اللہ کی اطاعت سب سے اوپر اور سب سے برتر ہے۔ اس کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے باقی سب اطاعتیں ہوسکتی ہیں ‘ مگر جہاں کسی کی اطاعت میں اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو ایسی اطاعت ناقابل قبول اور حرام ہوگی۔

آیت 29 - سورہ اعراف: (قل أمر ربي بالقسط ۖ وأقيموا وجوهكم عند كل مسجد وادعوه مخلصين له الدين ۚ كما بدأكم تعودون...) - اردو