سورہ اعراف: آیت 2 - كتاب أنزل إليك فلا يكن... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ اعراف

كِتَٰبٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِى صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِۦ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

اردو ترجمہ

یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے محمدؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kitabun onzila ilayka fala yakun fee sadrika harajun minhu litunthira bihi wathikra lilmumineena

آیت 2 کی تفسیر

آیت ” نمبر 1 تا 2۔

یہ کتاب تمہاری جانب اتاری گئی ہے تاکہ تم لوگوں کو بھلایا ہوا سبق یاد دلاؤ اور انجام بد سے ڈراؤ ۔ اس میں جو سچائی ہے اسے صاف صاف لوگوں کے سامنے بیان کردیں اور اس بات کا خیال نہ کریں کہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں یا نہیں ۔ یہ کتاب آئی ہی اس لئے ہے کہ لوگوں کے سامنے وہ حقائق پیش کرے جسے وہ پسند نہیں کرتے ‘ یہ آئی ہی اس لئے ہے کہ غلط عقائد ‘ رسومات اور غلط تعلقات کو ختم کرے اور باطل نظامہائے حکومت ‘ باطل قوانین اور باطل معاشروں کا مقابلہ کرے ۔ لہذا اس کتاب کی راہ میں مشکلات بہت ہیں ‘ اس کتاب کا پیغام لے کر جو بھی آئے گا ‘ اے مشکلات کو انگیز کرنا ہوگا ۔ اس کتاب کے اس پہلو کا ادراک وہی شخص کرسکتا ہے ‘ جیسا کہ ہم نے سورة پر تبصرے کے وقت کہا ‘ جو اس کے پیغام کو لے کر اٹھے ۔ اس کتاب کے نظریات کا اعلان ببانگ دہل کردے اور اس راہ میں جو مشکلات پیش ہوں انہیں برداشت کرے ۔ اس حقیقت کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے لئے اہداف طے کرے اور وہ جاہلی معاشرے کو جڑوں سے ‘ اس کے تنے اور شاخوں سمیت اکھاڑ پھینکنے اور اس کی جگہ مکمل تغیر اور انقلاب لانے کا داعیہ اپنے اندر رکھتا ہو ‘ جس طرح اس کتاب کے حامل اول حضرت محمد ﷺ نے اسے لے کر دنیا میں انقلاب برپا کیا تھا اور طاغوت اور جاہلیت کا مقابلہ کیا اور پہلے جزیرۃ العرب میں اور پھر پوری دنیا کی کایا پلٹ دی تھی ۔

اس کتاب کے ساتھ یہ طرز عمل اس وقت جزیرۃ العرب اور اس کے اردگرد کے ماحوال میں لائے جانے والے انقلاب تک ہی موقوف ومخصوص نہ تھا ‘ کیونکہ اسلام کوئی حادثہ یا تاریخ نہیں ہے کہ ایک وقفہ تاریخ میں واقعہ ہوگیا اور اس کے بعد لوگوں نے اسے تاریخ میں لکھنا شروع کردیا ۔ اسلام تو انسانیت کے بالمقابل ایک دائمی تحریک ہے اور یہ تحریک قیامت تک رہے گی ۔ اسلام لوگوں کے لئے وہی پیغام ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھا ۔ جب بھی انسانیت صراط مستقیم سے انحراف کرے ‘ اسلام اسے روکتا ہے اور واپس اسے جادہ مستیقم پر ڈال دیتا ہے اس لئے کہ تاریخی عوامل کے تحت انسانیت بار بار جاہلیت کی طرف لوٹ جاتی ہے ۔ یہ اس کی پسماندگی اور رجعت ہوتی ہے لیکن اسلامی تحریک اس مرحلے پر آگے بڑھتی ہے ‘ دوبارہ اسلام کی تجدید ہوجاتی ہے اور اس کمزوری کے بعد اسلام دوبارہ ایک قوت بن کر اٹھتا ہے اور دوبارہ انسانیت کو ترقی اور تہذیب و تمدن کی راہ پر ڈال دیتا ہے ہر دور میں اس تحریک کے قائدین کو وہ مشکلات پیش آتی ہیں جو داعی اول کو پیش آئیں ‘ اس لئے کہ جب انسانیت جاہلیت کے گندے کیچڑ میں لت پت ہوتی ہے تو انہیں اس پوری انسانیت کو کھینچ کر واپس لانا ہوتا ہے ‘ کیونکہ جاہلیت میں انسانیت فکری گمراہی میں مبتلا ہوتی ہے ۔ اس کے تصورات تاریک ہوجاتے ہیں ‘ وہ نفسیاتی خواہشات کی تاریکیوں میں گرفتار ہوتی ہے ‘ وہ ظلم اور ذلت ‘ غلامی اور ذاتی خواہشات ‘ مفادات واغراض کا شکار ہوتی ہے اور جو شخص انسانیت کو اس جاہلیت اور گندگی سے نکالنا چاہتا ہے ‘ اسے اس قسم کی مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ اس جہان کو ان گندگیوں سے پاک کرنے کے لئے تحریک چلاتا ہے اور اس تحریک میں وہ اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کو خوب سمجھ سکتا ہے ۔

آیت ” المص (1) کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ (2) (7 : 1۔ 2)

” ا ‘ ل ‘ م ‘ ص۔ یہ ایک تاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ‘ پس اے محمد ﷺ تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو ۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان والوں کو نصیحت ہو ۔ ‘

ایک مومن اپنے معاشرے کے حالات سے یہ اندازہ کرلیتا ہے کہ مومن کون ہیں جنہیں نصیحت کی جاتی ہے اور غیر مومن کون ہیں جن کے لئے اندار کا حکم ہے ۔ اس تحریکی کارکن کے لئے یہ قرآن ایک زندہ کتاب ہوتی ہے جسے پڑھتے ہوئے وہ محسوس کرتا ہے کہ گویا یہ کتاب ابھی نازل ہو رہی ہے ۔ یہ کتاب اس شخص کے لئے تازہ پیغام ہوتی ہے جب وہ اسے بطور پیغام لے کر پوری دنیا کے خلاف جدوجہد شروع کردے ۔

اس وقت پوری انسانیت کی حالت ویسی ہی ہے جس طرح اس وقت تھی جب یہ کتاب حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی تھی ۔ اس وقت حضور ﷺ کو حکم تھا کہ آپ تذکیر اور انذار کا فریضہ سرانجام دیں اور جب آپ جاہلیت کے مقابلے میں اٹھیں تو آپ کے دل میں کوئی جھجک نہیں ہونا چاہئے ۔ آپ کے اندر یہ داعیہ ہونا چاہئے کہ آپ نے جاہلیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے ۔

آج گردش دوران نے حالات کو اسی مقام پر لا کر کھڑا کردیا ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے نزول قرآن کے وقت تھے ۔ اس وقت دنیا مکمل طور پر جاہلیت کی طرف لوٹ گئی ہے ۔ اس نے اصول و فروع دونوں میں جاہلیت کو اپنا لیا ہے ‘ اس کا ظاہر و باطن اور اس کی سطح اور گہرائی سب کی سب جاہلیت میں ہے ۔

اس وقت انسانیت کے تمام تصورات ونظریات جاہلی ہیں ۔ یہاں تک کہ جن کے آباؤ اجداد مومن تھے اور مومنین مخلصین تھے انہوں نے بھی پوری طرح جاہلی افکار کو اپنا لیا ہے ۔ ان کے تصورات وخیالات میں دین اسلام کا وہ مفہوم باقی نہیں رہا جو حقیقت میں ہے ۔ انہوں نے اسلامی نظام کا مفہوم ہی بدل دیا ہے ۔

یہ دین تو اس دنیا میں اس لئے آیا تھا کہ وہ اس کرہ ارض کے خدوخال ہی بدل دے اور اس کی جگہ اسے ایک نیا روپ دے ۔ یہاں صرف اللہ کا اقتدار اعلی قائم کرے اور طاغوت کے اقتدار کا خاتمہ کردے ۔ یہ دنیا ایک دنیا ہو جس میں صرف اللہ کی مکمل بندگی ہو ‘ اور اللہ کے علاوہ انسانوں میں سے کوئی اپنی بندگی نہ کرائے ۔ ایک ایسی دنیا ہو جس میں لوگ آزادی کے ساتھ انسانوں کی بندگی سے باہر نکل آئیں ۔ اس دنیا میں آزاد ‘ شریف اور پاکدامن انسان پیدا ہوں ‘ وہ خود اپنی شہوات سفلیہ سے بھی آزاد ہوں اور دوسرے لوگوں کی غلامی سے بھی آزاد ہوں ۔

یہ دین اس لئے آیا تھا کہ دنیا میں یہ اصول قائم کرے ۔ (لا الہ الا اللہ) یعنی اللہ کے سوا کوئی حاکم اور مقتدر اعلی نہیں ہے ۔ انسانی تاریخ میں تمام انبیاء یہی دعوت لے کر آتے ہیں ۔ یہ سورة اور قرآن کریم کی دوسری نصوص وآیات اس بات کی صراحت کرتی ہیں ۔ کہ (لا الہ الا اللہ) کا مفہوم صرف یہی ہے کہ اقتدار اعلی اللہ کے سوا کسی اور کا نہیں ہے اور جس طرح اللہ اس کائنات کے اوپر حاکم ہے ‘ اسی طرح وہ انسان کی زندگی کے اوپر بھی حاکم ہے ۔ وہ اپنے نظام قضا وقدر کے ذریعے اس کائنات اور خود انسان کی طبیعی زندگی پر حکمران ہے لہذا وہ انسانوں کے قانونی اور ذاتی نظام کے متعلق امور پر بھی حاکم ہے ۔ اس اصول کے تحت جب طرح ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس جہاں کی تکوینی زندگی میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ۔ صرف وہی متصرف ہے اور ایک مسلمان بندگی کے مراسم جس طرح صرف اللہ کے سامنے بجا لاتا ہے اسی طرح دستور و قانون میں بھی وہ صرف اسی اللہ کا مطیع ہے ۔ وہ اپنی اقدار اور حسن وقبح کے پیمانے بھی اسی سے اخذ کرتا ہے ۔ عقائد ونظریات بھی اللہ سے اخذ کرتا ہے اور وہ ہرگز کسی طاغوت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اللہ کے اس اقتدار اعلی کا کوئی حصہ اپنے لیے مختص کرلے یا اللہ کے ساتھ شریک ہوجائے ۔

غرض اعتقاد ونظریے کے اعتبار سے یہ اس دین کا بنیادی اصول ہے ۔ اس اصول کی روشنی میں اگر ہم آج دنیا پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا نے اس اساسی اصول کو ترک کردیا ہے ۔ اس دنیا میں فرقے فرقے ہیں اور یہ سب فرقے جاہلیت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔

ایک گروہ ملحدین کا گروہ ہے اور یہ لوگ سرے سے وجود باری تعالیٰ کے منکر ہیں ‘ ان پر کسی تبصرے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ایک گروہ بت پرستوں کا ہے ‘ جو ایک الہ کے وجود کے تو قائل ہیں لیکن وہ اس خدا کے ساتھ دوسرے خداؤں کو شریک کرتے ہیں اور انہوں نے کئی رب بنا رکھے ہیں ۔ مثلا ہند اور وسطی افریقہ اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی ایسے لوگ ہیں ۔

ایک گروہ اہل کتاب کا ہے یعنی یہود ونصاری کا ۔ یہ لوگ اللہ کے بیٹے کے قائل ہیں اور بیٹے کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور اپنے احبار اور رہبان کو ایسا سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے احبارو رہبان کی حاکمیت اعلی اور حق قانون سازی کو تسلیم کرلیا ہے اگرچہ یہ انکی نماز نہیں پڑھتے اور انکے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتے اور انہ ان کے سامنے جھکتے ہیں ۔ آج کے دور میں عیسائیوں نے اپنی زندگی سے اللہ کے اقتدار کو خارج کردیا ہے اور انہوں نے اپنے لئے نظامہائے زندگی تجویز کر لئے ہیں جنہیں وہ سرمایہ داری ‘ اشتراکیت اور دوسرے ناموں سے پکارتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے لئے نظامہائے حکومت بھی تجویز کرلئے ہیں جسے وہ جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے اللہ کے اصول ودستور کو کلیتا ترک کردیا ہے ۔ جیسا کہ یونانی اور رومی جاہلیت نے اللہ کے اقتدار اعلی کو ترک کرکے اپنا نظام زندگی اور نظام حکومت خود گھڑ لیا تھا ۔

ایک گروہ وہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن اپنی زندگی میں وہ اہل کتاب کے نظام کا مطیع ہے ۔ وہ پوری طرح اہل مغرب کے عیسائیوں کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے ۔ یہ فرقہ اللہ کے نظام کو ترک کرکے اہل مغرب کے نظام کو اپنا چکا ہے ۔ اللہ کا دین قرآن وسنت اور اسلامی شریعت ہے اور یہی اسلامی نظام قانون ودستور ہے اور انسانوں کا دین انسانوں کا بنایا ہوا دستور اور قانون ہے ۔

لہذا بات یہی ہے کہ زمانہ گردش کر کے اسی مقام پر آگیا ہے جس پر اس وقت تھا جب پہلے پہل دین اسلام انسانوں کی ہدایت کے لئے آیا ۔ لوگ دین اسلام کو ترک کرکے جاہلیت کی طرف لوٹ گئے ہیں اور فرقے فرقے بن گئے ہیں لیکن کوئی فرقہ دین اسلام کا مطیع نہیں ہے ۔ آج قرآن پوری انسانیت کے لئے اسی طرح دعوت فکروعمل ہے جس طرح اپنے نزول کے وقت تھا ۔ اس دین کا آج بھی ہدف یہ ہے کہ انسان کو سب سے پہلے عقیدے اور نظریات کے زاوے سے اسلام میں داخل کرے ‘ پھر نظام زندگی اور میدان عمل کو اسلام کے مطابق ڈھالا جائے ۔ چناچہ آج جو شخص بھی قرآنی دعوت کو لے کر اٹھتا ہے وہ ویسی ہی مشکلات سے دو چار ہوگا جس طرح کی مشکلات سے رسول اللہ دو چار رہے تھے ۔ کیونکہ آپ نے جب انسانیت کو خطاب فرمایا تو وہ جاہلیت کی گندگی میں آلودہ تھی ۔ جاہلیت کے صحرا میں گم کردہ راہ تھی ۔ اس نے شیطان کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تھا اور بھٹک رہی تھی ۔ لہذا آج پہلا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ لوگوں کے دل میں کلمہ شہادت کے مطابق اسلامی تصور حیات اور اسلامی سوچ پیدا کی جائے اور دنیا میں ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں صرف اللہ کی عبادت ہو ‘ اور اللہ کے سوا کوئی اور حاکم اور مقتدر اعلی نہ ہو ۔ یوں انسان کو ایک نئی اسلامی زندگی عطا کی جائے جس میں انسان انسانوں کی زندگی سے آزاد ہو کر اور اپنی خواہشات سے آزاد ہو کر صرف اللہ کی بندگی میں داخل ہوجائے ۔

اسلام کوئی تاریخی حادثہ نہیں ہے کہ وہ ایک دفعہ پیش آگیا اور پھر جس طرح اس سے پہلے کا دور ایک تاریخ ہے اور بعد کا دور بھی ایک تاریخ ہے ۔ اسے آج بھی وہی کردار ادا کرنا ہے جو اس نے ایک بار پہلے ادا کیا تھا ۔ وہ اس طرح کام کرے گا جیسے حالات اور واقعات میں ‘ جیسے نظام اور معاشرے میں ‘ جیسے عقائد و تصورات میں ‘ جیسی اقدار اور پیمانوں میں اس نے پہلے کام کیا تھا اور نظام باطل کا مقابلہ کیا تھا ۔

یاد رہے کہ جاہلیت ایک صورت حال ہوتی ہے ۔ جاہلیت تاریخ کے کسی مخصوص دور کا نام نہیں ہے ۔ اس وقت اطراف عالم میں یہ جاہلیت چھائی ہوئی ہے ۔ تمام فرقوں ‘ تمام تصورات ‘ تمام مذاہب اور تمام نظامہائے زندگی میں جاہلیت قائم ودائم ہے ۔ اس کا اصل الاصول یہ ہے کہ انسان انسانوں کے غلام ہوں اور اس میں اللہ کی ہمہ گیر حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کا انکار ہو۔ اس کا دوسرا اصول یہ ہے کہ وہ انسانی خواہشات پر قائم ہوتی ہے ‘ چاہے ان کی شکل و صورت جو بھی ہو۔ اس کی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں اللہ کی شریعت کو بطور نظام حکومت تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ اس کے بعد اس کی شکل و صورت ‘ اس کے خدوخال ‘ اس کے جھنڈے اور شعائر اس کے نام والقاب ‘ اس کے گروہ اور مذاہب اور اسکے ملل ونحل اگرچہ مختلف ہوتے ہیں لیکن ان تمام میں مذکورہ بالااساسی ضابطے اور اصول موجود ہوتے ہیں ۔

ان اصولوں کی روشنی میں ‘ آج اگر دنیا پر نظر ڈالی جائے تو اس میں ہر طرف جاہلیت چھائی ہوئی ہے ۔ بلکہ اس وقت پوری دنیا پر جاہلیت حکمران ہے ۔ اس وقت دنیا میں اسلامی نظام زندگی معطل ہے اور جو لوگ اس وقت دنیا میں اسلامی نظام زندگی کی طرف دعوت دے رہے ہیں ‘ انہیں ویسی ہی مشکلات درپیش ہیں جیسی حضور اکرم ﷺ کو درپیش تھیں ۔ ان کا ہدف وہی ہے جو رسول اللہ کا تھا اور آج یہ آیت ان سے اسی طرح مخاطب ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ سے مخاطب تھی ۔

آیت ” کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ (2)

” یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ‘ پس اے محمد ﷺ تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو ۔ “

اس وقت دنیا میں جس قدر معاشرے موجود ہیں ‘ وہ جاہلی معاشرے ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ یہ پسماندہ ‘ رجعت پسند معاشرے ہیں کیونکہ وہ دبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے ہیں حالانکہ اسلام نے انہیں اس جاہلیت سے نجات دی تھی ۔ آج بھی اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ اس جاہلی معاشروں کو رجعت پسندی اور پسماندگی سے نجات دے ۔ اور ترقی اور زبانی ہدایات کے مطابق تہذیب و تمدن کے حصول کے لئے ان کی قیادت کے فرائض سرانجام دے ۔

جب اقتدار اعلی صرف اللہ کے لئے مخصوص ہوجائے اور یہ اقتدار ایک معاشرے کی صورت میں ردبعمل آجائے جس میں اسلامی شریعت نافذ ہو ‘ تو یہی ایک صورت حالات ہوگی جس میں انسانیت انسانوں کی غلامی سے پوری طرح آزاد ہوگی ۔ وہ ہوائے نفس اور مطلب پرستی کی غلامی سے آزاد ہوگی اور صرف یہی صورت حالات اسلامی اور متمدن صورت حالات ہوگی ‘ اسلامی اقدار کے مطابق ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جس تہذیب و تمدن کو انسان کے لئے پسند فرماتے ہیں وہ ہر فرد کی مکمل آزادی اور شرف کے اصول پر مبنی ہے ۔ اس طرح کا کوئی تمدن اللہ کو پسند نہیں ہے جس میں انسان کو ایسی آزادی حاصل ہو جس میں وہ دوسرے انسانوں کا غلام ہو اور جس میں انسان انسانوں کے رب اور خدا ہوں اور ان کے حاکم اور قانون ساز ہوں ۔ بعض تابع ہوں اور بعض متبوع اور حاکم ہوں ۔ قانون سازی سے مراد محض رسمی قوانین ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد حسن وقبح کے پیمانے ‘ اخلاق اور رسم و رواج بھی ہیں ۔ یہ سب قوانین و ضوابط ہیں اور لوگ ان کے تابع ہوتے ہیں چاہے لوگ شعوری طور پر ان کے پابند ہوں یا غیر شعوری طور پر ۔ اس قسم کے معاشروں کو رجعت پسند اور پسماندہ معاشرے تصور کیا جاتا ہے اور اسلامی اصطلاح کے مطابق انہیں جاہلی معاشرے کہا جاتا ہے ۔

جب کسی معاشرے میں اجتماعیت کی اساس نظریہ حیات پر ہو ‘ اس کی اساس پر ایک نظام حیات بھی ہو اور یہ تصور اور نظام دونوں کا مصدر ذات باری تعالیٰ ہو ‘ کسی ایک فرد کی خواہش نہ ہو ‘ کسی ایک بندے کا ارادہ نہ ہو ‘ تو یہ معاشرہ ترقی یافتہ مہذب معاشرہ ہوگا ۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق اسے ربانی اور مسلم معاشرہ کہا جائے گا ۔ کیونکہ اس معاشرے میں اجتماعیت انسانی خواص پر نہ ہوگی بلکہ روحانی اور فکری تصورات پر ہوگی ۔ لیکن اگر کسی اجتماعی نظام اور معاشرے کی اساس قوم ‘ نسل وغیرہ اور زمین کی اساس پر ہو تو ایسا معاشرہ رجعت پسند اور پسماندہ معاشرہ کہلائے گا یا اسلامی اصطلاحات کے مطابق اسے جاہلی اور مشرک معاشرہ کہا جائے گا ۔ اس لئے کہ قوم ونسل اور زمین ورنگ کوئی اعلی انسانی اقتدار نہیں ہیں کیونکہ انسانی کسی نسل ‘ کسی قوم ‘ کسی زمین ‘ کسی زنگ میں بھی ہو وہ بہرحال انسان رہتا ہے ۔ اور اس کے اندر اگر کوئی فرق ہوتا ہے تو روح اور فکر کے ذریعے ہوتا ہے ۔

انسان اپنے آزادانہ اختیار اور ارادے سے اور یہ اختیار ارادہ وہ عظیم شرف ہے جو انسان کو عطا ہوا ہے ‘ اپنے عقائد واپنے تصورات کو بدل سکتا ہے ‘ بشرطیکہ اپنے فہم کے ادراک کے ذریعے وہ کسی سمت میں مائل ہوجائے اور اسے اطمینان ہوجائے اس صورت میں گمراہی کو ترک کرکے ہدایت اپنا سکتا ہے ‘ اور کوئی اچھا نظام حیات اپنا سکتا ہے ‘ لیکن کوئی انسان اپنی نسل اپنا رنگ اپنی قوم اور اپنے اس ملک کو نہیں بدل سکتا اور زمین کا تعین نہیں کرسکتا ۔ اس لئے وہ معاشرہ اور وہ اجتماعی نظام جسے لوگوں نے خود اپنے آزادانہ ارادہ سے اپنایا ہو وہ بہتر یا وہ نظام جس کے اندر کوئی شخص مقہور ومجبور ہو ۔ اور اس میں اس کی آزادی اور ارادے کا کوئی دخل نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ پہلی صورت حالات شرف انسانیت کے لئے اعلی وارفع ہے اور اسے زیادہ ترقی پسندانہ کہا جاسکتا ہے ۔

اگر کسی معاشرے میں انسان کی انسانیت ہی اعلی قدر قرار پائے انسان کے انسانی خصائص اہمیت اور رعایت کے مستحق قرار پائیں تو وہ معاشرہ ترقی پسند اور مہذب معاشرہ قرار پائے گا اور اسلامی اصطلاح میں وہ ربانی اور مسلم معاشرہ ہوگا۔ لیکن اگر کسی معاشرے کی اساس مادے پر ہو ‘ چاہے جس شکل و صورت میں بھی وہ ہو ‘ اور مادہ ہی اعلی قدر ہو ‘ وہ مارکسی نظریات کے مطابق ہو ‘ یا مادی پیداوار کے نظریہ کے مطابق ہو۔ مثلا یورپ وامری کہ کے تمام معاشرے جہاں اعلی قدر و قیمت مادی پیداوار ہے جس کے لئے انہوں نے تمام اعلی انسانی اقدار اور انسانی خصوصیات کو قربان کردیا ہے ۔ اس کے لئے ان معاشروں نے تمام اخلاق اقدار ثانوی حیثیت دے دی ہے تو یہ معاشرہ پسماندہ اور رجعت پسند معاشرہ تصور ہوگا اور اسلامی اصطلاح میں اسے جاہلی اور مشرکانہ معاشرہ کہا جائے گا ۔

اسلام کا ربانی معاشرہ بھی مادے کو حقارت کی نظروں سے نہیں دیکھتا ‘ نہ اس نقطہ نظر سے کہ اس پوری کائنات کی تشکیل اسی مادے سے ہوئی ہے اور نہ اس اعتبار سے کہ اس سے پیداوار حاصل کرکے انسان کو اس سے استفادہ کرنا چاہئے ‘ کیونکہ مادہ اور مادی پیداوار اس کرہ ارض پر انسان کے لئے اپنے فرائض خلافت ادا کرنے کے لئے از حد ضروری ہیں ۔ دنیا کی حلال چیزوں سے فائدہ اٹھانا اسلام جائز سمجھتا ہے بلکہ اس کی دعوت دیتا ہے جیسا کہ آگے ہم اس سورة میں بتائیں گے لیکن اسلام مادے اور مادی پیداوارکو اس کائنات کی اعلی قدر قرار نہیں دیتا جس کے حصول کے لیے اعلی انسانی اقدار کو قربان کردیا جائے جیسا کہ تمام جاہلی اور مادی معاشرے کرتے ہیں۔

انسانی اقدار اور انسانی اخلاق ہی اگر کسی معاشرے میں اگر کسی معاشرے میں سربلند ہوں ‘ اس طرح جس طرح انہیں اللہ تعالیٰ نے وضع کیا ہو تو یہ معاشرہ مہذب اور ربانی معاشرہ ہوگا ۔ اب سوال یہ ہے کہ انسانی اخلاق کیا ہیں اور انسانی اقدار کیا ہیں ؟ تو یہ کوئی پوشیدہ اور ناقابل فہم مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اخلاق واقدار تغیر پذیر ہوتے ہیں یا ایک حالت پر نہیں رہتے جیسا کہ وہ لوگ رائے رکھتے ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میں طوائف الملوکی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ اعلی اقدار اور اعلیٰ اخلاقی معیار انسان کی ان خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں جن میں وہ دوسرے حیوانات کے مقابلے میں نفرد ہے ۔ انسان کے انسانی پہلو کو اس کے حیوانی پہلو پر غالب کرتے ہیں ۔ اخلاقی قدریں انسان اور حیوان کے درمیان مشترک خصوصیات کو پروان نہیں چڑھاتیں ۔ اگر اس مسئلے کو اس انداز سے لیا جائے تو اعلی اقدار اور اخلاق اور محض حیوانیت کے درمیان ایک حد فاصل چڑھاتیں ۔ اگر اس مسئلے کو اس انداز سے لیا جائے تو اعلی اقدار اور اخلاق اور محض حیوانیت کے درمیان ایک حد فاصل قائم ہوجائے گی اور اعلی قدروں کو اچھی طرح سمجھا جاسکے گا ۔ چناچہ اس طرح ترقی پسندوں کے تمام فلسفے ڈھیر ہوجاتے ہیں اور سرمایہ دارانہ اخلاق ‘ اشتراکی اخلاق غرباء کے اخلاق اور مالداروں کے اخلاق جیسی کوئی تقسیم نہیں باقی رہتی ‘ صرف انسانی اخلاق اور حیوانی اخلاق رہ جاتے ہیں۔ اس طرح معاشرتی اخلاق اور معاشی اخلاق کی تقسیم کوئی مستقل تقسیم نہ رہے گی ۔ یہ چیزیں تعمیر اخلاق میں مستقل عوامل شمار نہیں ہوں گی اور تعمیر اخلاق میں ان کا اثر حتمی تصور ہوگا ۔ اس زاویہ سے ایک طرف انسانی اخلاقی اور انسانی اقدار ہوگی اور یہ اسلامی معاشرے کے اخلاق ہوں گے اور دوسری جانب حیوانی اخلاق اور اقدار ہوں گی اور اسے پسماندہ کہا جائے گا ۔ اسلامی اصطلاحات میں اس تقسیم کو اسلامی اور ربانی اخلاق واقدار اور رجعت پسندانہ جاہلی اخلاق واقدار کہا جاتا ہے ۔

وہ معاشرے جن پر حیوانی خواہشات اور میلانات چھائے ہوئے ہوتے ہیں ‘ وہ کبھی مہذب معاشرے نہیں بن سکتے اگر وہ صنفی اور اقتصادی اعتبار سے بہت ہی ترقی یافتہ ہوں ۔ انسان کی ترقی میں یہ معیار کبھی غلط ثابت نہیں ہوا ہے ۔

دورجدید کے جاہلی معاشروں نے اعلی اخلاق اور اعلی اقدار کو ان تمام شعبوں سے نکال دیا ہے جن کا تعلق انسان کے حیوانی پہلو سے ہے ۔ ان معاشروں میں فری سیکس کا اصول کارفرما ہے ۔ ان لوگوں کے ہاں نہایت ہی سوقیانہ جنسی حرکات کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے ۔ ان کے ہاں اگر ان کوئی قومی مفادتقاضا کرتا ہو تو وہ شخصی معاملات اقتصادی روابط اور سیاست میں اخلاق کے قائل ہیں ‘ اپنی قومی مصلحتوں کے دائرے کے اندر اندر ۔ ان ممالک کے صحافی ‘ ادیب اور میڈیا کے تمام شعبے نوجوانوں کو جنسی بےراہ روی کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور ان میں جنسی اتصال کو اخلاق رذیلہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔

اس قسم کے معاشرے اسلامی نقطہ نظر سے پسماندہ معاشرے ہیں اور انسانی زاویہ سے بہت ہی گرے ہوئے ہیں۔ اسلامی لحاظ سے تو یہ اس لئے قابل رد ہیں کہ اسلام انسان کی حیوانی خواہشات کو ضبط میں لاتا ہے اور اس کے انسانی پہلوؤں کو نرمی دیتا ہے اور انسانی پہلو کو حیوانی پہلو پر غالب کرتا ہے ۔

آج کے انسانی معاشروں پر یہاں ہم اس سے زیادہ بحث نہیں کرسکتے ۔ یہ معاشرے درحقیقت جاہلیت میں غرق ہیں۔ نظریات سے لے کر اخلاق تک میں اور تصورات سے لے کر طرز عمل تک میں ۔ ان معاشروں کے خدوخال کی وضاحت کے لئے یہ اشارات ‘ میں سمجھتا ہوں یہاں کفایت کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں ان کا تعارف ان اشارات سے ہوجاتا ہے ۔ ہمارے دور میں تحریک اسلامی کا اپنے اہداف ‘ دعوت اسلامی اور احیائے دین کیلئے اس قدر تعارف کافی ہے ۔ آج کی دعوت دین اور تحریک اسلامی کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسانیت کو از سر نو اسلام کی طرف دعوت دی جائے ۔ نظریات کے اعتبار سے بھی ‘ اخلاق کے اعتبار سے بھی اور نظام زندگی کے اعتبار سے بھی ۔ یہ وہی جدوجہد ہے جس کا آغاز حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا ۔ ہماری دعوت کا آغاز بھی اسی مقام سے ہونا چاہئے جہاں سے داعی اول نے کیا تھا ۔ جس طرح داعی اول نے اس کتاب کے ساتھ رویہ اختیار کیا تھا وہی ہمارا بھی ہونا چاہئے اور دوبارہ اس آیت پر غور کرنا چاہئے ۔

(یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ‘ پس تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو)

اللہ نے اس کتاب کو رسول اللہ ﷺ کی طرف نازل فرمایا اور حضور ﷺ نے سب سے پہلے کتاب کو لوگوں کے سامنے پیش فرمایا ۔ قیامت تک جب بھی کوئی شخص اس کتاب کو کسی قوم کے سامنے پیش کرے گا تو وہ ان کو لوگوں کو سب سے پہلے یہی حکم دے گا کہ تم ان احکام کی پیروی کرو جو اس کتاب میں ہیں ۔ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور کارساز نہ بناؤ۔ کیونکہ دعوت اسلامی کا اصل محور ہی یہ ہے کہ اسلامی احکامات کا اتباع کیا جائے بجائے اس کے کہ دوسرے لوگوں کا اتباع کیا جائے ۔ جو لوگ اس کتاب کا اتباع کرتے ہیں وہ مسلمان ہیں اور اگر وہ دوسروں کا اتباع کرتے ہیں تو مشرک ہیں ۔ اہل کتاب کے مقابلے میں صرف یہی دو موقف ہیں یا مسلم یا مشرک ۔

آیت 2 کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ رسول اللہ ﷺ دعوت کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کر رہے تھے ‘ مگر آپ ﷺ کی سالہا سال کی جدوجہد کے باوجود مکہ کے صرف چند لوگ ایمان لائے۔ یہ صورت حال آپ ﷺ کے لیے باعث تشویش تھی۔ ایک عام آدمی تو اپنی غلطیوں کی ذمہ داری بھی دوسروں کے سر پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کو بھی دوسروں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو صاف بچانے کی فکر میں رہتا ہے ‘ لیکن ایک شریف النفس انسان ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر اس کی کوشش کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں تو اس میں اس کی طرف سے کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ اس سوچ اور احساس کی وجہ سے وہ اپنے دل پر ہر وقت ایک بوجھ محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا جب حضور ﷺ کی مسلسل کوشش کے باوجود اہل مکہ ایمان نہیں لا رہے تھے تو بشری تقاضے کے تحت آپ ﷺ کو دل میں بہت پریشانی محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے آپ ﷺ کی تسلی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس قرآن کی وجہ سے آپ ﷺ کے اوپر کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ لِتُنْذِرَ بِہٖ وہی لفظ ہے جو ہم سورة الانعام کی آیت 19 میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ وہاں فرمایا گیا تھا : وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط اور یہ قرآن میری طرف اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تمہیں بھی خبردار کروں اور جس جس کو یہ پہنچے۔ یہاں مزید فرمایا کہ یہ اہل ایمان کے لیے ذِکْرٰی یاد دہانی ہے۔ یعنی جن سلیم الفطرت لوگوں کے اندر بالقوۃ potentially ایمان موجود ہے ان کے اس سوئے ہوئے dormant ایمان کو بیدار activate کرنے کے لیے یہ کتاب ایک طرح سے یاددہانی ہے۔ جیسے آپ کو کوئی چیز بھول گئی تھی ‘ اچانک کہیں اس کی کوئی نشانی دیکھی تو فوراً وہ شے یاد آگئی ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کے حصول کے لیے اس کائنات کی نشانیوں کو یاد دہانی ذکریٰ بنا دیا ہے۔

آیت 2 - سورہ اعراف: (كتاب أنزل إليك فلا يكن في صدرك حرج منه لتنذر به وذكرى للمؤمنين...) - اردو