ور یہ کہ وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا " ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا آخرت کی ہستی کا انکار کیا اور اس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ، کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں۔
حبطت کا لفظ حبوط سے ہے۔ کہتے ہیں حبطت اعمالہم۔ جب وہ زہریلی گھاس چرے اور اس کا پیٹ پھول جائے اور پھر اس سے گیس نکل جائے۔ اس لفظ کو باطل کی قوت کے لیے اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ باطل کے اعمال بظاہر بہت ہی پھلتے پھولتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی حقیقت کچھ نہیں ہوتی جب غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے تو پھر کچھ نہیں رہتا۔
یہ تو مناسب سزا ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی اور آخرت کی جوابدہی سے انکار کیا لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے اعمال کس طرح ختم ہوجاتے ہیں اور برباد ہوجاتے ہیں ؟
نظریاتی اور اعتقادی لحاظ سے تو ہمارا ایمان ہے کہ ان کے اعمال ضائع ہوں گے ، اگرچہ ظاہری حالات ایسے نظر آئیں کہ ان میں ، ان لوگوں کے اعمال کا یہ انجام متوقع نہ نظر آتا ہو۔ لیکن جو کوئی بھی اللہ کی آیات کی تکذیب کرے اور آخرت کی جوابدہی کا یقین نہ رکھے اس کے اعمال آخر کار ضائع اور برباد ہوں گے اور ان کی حیثیت اسی ہوگی جیسے کہ وہ کچھ نہیں ہیں۔
لیکن نظری پہلو سے بھی یہ بات واضح ہے کہ جو لوگ ان آیات و معجزات کی تکذیب کرتے ہیں جو اس پوری کائنات کے صفحات میں بکھرے پڑے ہیں اور ان کی تائید میں وہ آیات و دلائل بھی موجود ہیں جو اللہ کے پیغمبروں نے پیش کیے ، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ آخرت کی جوابدہی کا بھی انکار کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کی روح در اصل مسخ شدہ ہے اور ایسے لوگ اس کائنات کے مزاج اور اس کے قوانین سے سرکش ہیں۔ اس کائنات سے ایسے شخص کا کوئی حقیقی رابطہ نہیں ہوتا اور نہ اس قسم کے لوگ اس سچی جدوجہد کی راہ سے ہم آہنگ ہیں۔ ایسے لوگوں کے اعمال چونکہ کائنات کے رخ ، اس کے مقاصد اور اللہ کے قوانین کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ اعمال اگرچہ بظاہر خیرہ کن ہوں بےحقیقت ہیں۔ اگرچہ بظاہر وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوں ، اس لئے کہ یہ اعمال ان دائمی مضبوط دواعی اور نظریات پر مبنی نہیں ہوتے جو اس پوری کائنات کی بنیاد ہیں۔ ان اعمال کا ہدف اور نصب العین وہ نہیں ہوتا جو اس پوری کائنات کا ہدف اور نصب العین ہے۔ ان کی مثال اس نہر جیسی ہے جو اپنے سرچشمے سے کٹ گئی ہو اور اس نے جلد یا بدیر لامحالہ خشک ہونا ہے۔
جو لوگ ان ایمانی اقدار اور انسانی تاریخ کے درمیان گہرے رابطے کا ادراک نہیں کرسکتے اور جو لوگ تقدیر کے اس اٹل فیصلے کو نہیں پا سکتے جو ان لوگوں کے حق میں صاد ہوچکا ہے جو ان ایمانی اقدار کے منکر ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ غافل ہیں۔ اور انہی کے بارے میں یہ سزا سنائی گئی ہے کہ وہ اللہ کی سنت جاریہ اور ناموس کلی کو نہ پا سکیں گے۔ کیونکہ ان کا رخ پھر گیا ہے اور اب ان کے بارے میں آخری فیصلے کا ظہور باقی ہے۔
جن لوگوں کو اس دنیا کی عمر مختصر نے غرے میں ڈال دیا ہے اور وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آخرت سے غافل لوگ بظاہر اس دنیا میں بڑی کامیابی سے زندگی بسر کر رہے ہیں ، ان کو یہ دھوکہ اس سو جن سے ہوگیا جو کسی جانور کو مسوم گھاس کھانے کی وجہ سے لاحق ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جانور تازہ اور موٹا ہوگیا اور وہ بہت ہی صحت مند ہے۔ حالانکہ در حقیقت وہ مرنے والا ہوتا ہے۔
اس دنیا میں جو اقوام نابود ہوکر مٹ چکی ہیں ، اور ان کی جگہ جو دوسری اقوام آکر آباد ہوگئی ہیں۔ وہ ان سابقہ اقوام سے عبرت نہیں لیتیں۔ وہ اللہ کی اس سنت کو نہیں دیکھ رہی ہیں کہ وہ کس طرح اس کائنات میں کام کرتی ہے۔ اللہ کی یہ تقدیر اور اس کا نظام جاری وساری ہے۔ اسی میں کسی وقت بھی ٹھہراؤ نہیں آتا۔ اللہ سب لوگوں پر احاطہ کیے ہوئے۔
آیت 147 وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَلِقَآءِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ ط۔ ایسے لوگ اپنے تئیں بڑی بڑی نیکیاں کمار ہے ہوں گے ‘ مگر اللہ کے ہاں ان کی ان نیکیوں کا کوئی صلہ نہیں ہوگا۔ جیسا کہ قریش مکہ خود کو خادمین کعبہ سمجھتے تھے ‘ وہ کعبہ کی صفائی اور ستھرائی کا خصوصی اہتمام کرتے ‘ حاجیوں کی خدمت کرتے ‘ ان کے لیے دودھ اور پانی کی سبیلیں لگاتے ‘ مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر ایمان لائے بغیر ان کے ان سارے اعمال کی اللہ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔