سورہ اعراف: آیت 145 - وكتبنا له في الألواح من... - اردو

آیت 145 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَكَتَبْنَا لَهُۥ فِى ٱلْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَىْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَىْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا۟ بِأَحْسَنِهَا ۚ سَأُو۟رِيكُمْ دَارَ ٱلْفَٰسِقِينَ

اردو ترجمہ

اس کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی اور اس سے کہا: "اِن ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakatabna lahu fee alalwahi min kulli shayin mawAAithatan watafseelan likulli shayin fakhuthha biquwwatin wamur qawmaka yakhuthoo biahsaniha saoreekum dara alfasiqeena

آیت 145 کی تفسیر

اب چند الفاظ اس رسالت کے مضمون اور طریقہ کار کے بارے میں ہیں کہ یہ رسالت کس طرح دی گئی :

(وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ) " اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی "

روایات اور مفسرین کے درمیان ان تختیوں کے بارے میں اختلافات ہیں ، بعض نے ان کے بارے میں تفصیلات دی ہیں۔ ان تفصیلات کا بیشتر حصہ ان اسرائیلی روایات پر مشتمل ہے جو اسلامی تفاسیر کے اندر داخل ہوگئی ہیں۔ ان روایات میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی بات مرفوع نہیں ہے۔ چناچہ ہم اس آیت کو پڑھ کر آگے جانے سے رک جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان روایات میں جو تفصیلات ہیں ان سے ان الواح کی حقیقت میں نہ اضافہ ہوتا ہے اور نہ کمی۔ یہ تختیاں کیسی تھیں ، کس چیز کی بنی ہوئی تھیں۔ ان پر کس انداز کی تحریر درج تھی ، اس کے بارے میں ہمارے پاس تفصیلات نہیں ہیں ، نہ ان کی کوئی ضرورت ہے ، کیونکہ اصل مقصد تو یہ تھا کہ ان تختیوں میں لکھا ہوا کیا ہے اور کیا تھا ؟ ان میں وہ تمام تفصیلات تھیں جن کا تعلق حضرت موسیٰ کی رسالت سے تھا۔ مثلاً اللہ کا بیان ، اللہ کی شریعت کے احکام ، لوگوں کی اصلاح کے لیے مزید ہدایات ، امت کے حالات اور جن امور کی وجہ سے ان کے اندر بگاڑ پیدا ہوگیا تھا ، یعنی ان کی تاریخ وغیرہ۔

فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا۔ اور اس سے کہا " ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں "

اللہ کی جانب سے اہم حکم یہ تھا کہ آپ نہایت ہی قوت اور عزم سے ان الواح و ہدایات کو لیں اور اپنی قوم کو سختی سے حکم دیں کہ وہ ان ہدایات پر عمل کریں۔ اگرچہ وہ مشکل ہوں اس لیے کہ وہ ان کی اصلاح حال کے لیے نہایت ہی موزوں تھیں اور احسن تھیں۔

حضرت موسیٰ کو اس انداز میں ہدایات لینے کا حکم دینے کے دو مقصد ہیں۔ ایک یہ ، بنی اسرائیل نے ایک طویل عرصہ تک غلامی کی زندگی بسر کی تھی ، ایک طویل عرصہ تک غلامی کی زندگی بسر کرتے کرتے ان کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا ہوگیا تھا ، لہذا ان کے ساتھ معاملہ کرتے وقت سختی اور سنجیدگی کی اشد ضرور تھی ، تاکہ وہ ان کے اندر فرائض رسالت اچھی طرح ادا کرسکیں اور پھر فرائض منصب خلافت ادا کرسکیں اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ تمام وہ لوگ جو نظریہ حیات کی اساس پر کام کرتے ہوں ان کو اپنے نظریات پر صحیح طرح جم جانا چاہیے۔

اللہ کے نزدیک عقیدہ بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ اس پوری کائنات کے نقطہ نظر سے بھی نظریہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یعنی اس کائنات کے تصرفات اور انسانی تاریخ کے بارے میں انسان کا صاف ستھرا نقطہ نظر ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی کے بارے میں انسان کے افکار صاف ہونے ضروری ہیں۔ یوں انسان کی بندگی صرف اللہ وحدہ کی الوہیت کے لیے مخصوص ہو۔ اس کے بعد اس نظریہ پر مبنی ایک ایسا نظام زندگی قائم ہو جو انسانی زندگی کو یکسر تبدیل کردے اور زندگی کے لیے بالکل ایک نیا انداز مقرر کردے۔ وہ نظام ایسا نہ ہو جس کے تحت جاہلیت چلتی ہے ، جس میں اللہ کے سوا کسی اور کی الوہیت قائم ہوتی ہو۔ غرض پوری زندگی کا ایک ایسا تفصیلی اور جامع نظام جو اس نظریہ حیات پر مبنی ہو۔ ایسے نظام کا قیام ضروری ہے۔ اللہ کے نزدیک واضح عقیدہ اور اس پر مبنی نظام کی بڑی اہمیت ہے۔ اس پوری کائنات کی تخلیق ، اس کے اندر انسان کے وجود اور پھر اس انسان کی تاریخ کے بارے اسلامی نظریہ حیات پر انسان کو بڑی سختی سے جم جانا چاہئے۔ انسان کو اس کے بارے میں سنجیدہ ہونا چاہئے واضح طور پر وہ اپنے نظریات کا اعلان کرے اور دو ٹوک الفاظ میں کرے۔ اس معاملے میں سہل انگاری سے کام نہ لے۔ نرمی اختیار نہ کرے ، رخصتیں تلاش نہ کرے۔ اس لیے کہ یہ بہت ہی اہم اور بنیادی معاملہ ہے۔ اس معاملے کے تقاضے بھی اس قدر مشکل ہیں کہ نرم مزاج ، لچک والے اور رخصتیں تلاش کرنے والے لوگ ان کو پورے نہیں کرسکتے۔

لیکن اسلامی نظریہ حیات پر جمنے اور اسے سختی سے پکڑنے کے معنی یہ بھی نہیں کہ انسان متشدد ، پیچیدہ مزاج اور خشک مزاج ہوجائے۔ اس لیے کہ دین اسلام کی یہ نفسیات نہیں ہیں۔ دین صرف یہ تقاضا کرتا ہے کہ دین کے لیے ایک شخص سنجیدہ ہو ، بات صاف کرتا ہو ، دو ٹوک نظریات رکھتا ہو اور صاف گو ہو۔ یہ باتیں تشدد ، سختی ، خشکی اور بد مزاجی سے الگ ہیں۔ نظریات پر جمنے اور بد مزاجی میں بہرحال فرق ہونا چاہئے۔

حقیقت یہ ہے کہ مصر کی طویل غلامانہ زندگی نے بنی اسرائیل میں ایسی اخلاقی کمزوریاں پیدا کردی تھیں ، جن کے لیے سختی پر مبنی ہدایات ضروری تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کو جس قدر ہدایات بھی دی گئیں ان میں نہایت ہی سختی پائی جاتی ہے۔ تاکہ روایتی سہل انگاری ، کمزور اخلاقی قوت اور بےراہ روی کا علاج کیا جاسکے اور وہ دین کے معاملے میں درست فکر ، صریح آواز اور واضح انداز اختیار کریں۔

وہ تمام اقوام جو ایک طویل عرصے تک غلام رہی ہوں ان کے اندر ایسی ہی اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ غلامی ذلت ، عاجزی ، ڈر ، طاغوت کی غلامی وغیرہ جن کی وجہ سے ایسے لوگ کج فہم ، دھوکہ باز ، سہل انگار اور محنت و مشقت سے بھاگنے والے ہوتے ہیں۔ آج کل ہمارے دور میں جو اقوام بھی غلام رہی ہیں ان کے اندر یہ صفات موجود ہیں کیونکہ غلامی لوگوں کے ضمیر بدل جاتے ہیں۔ ایسے لوگ نظریات سے دور بھاگتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ نظریات کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے۔ جس طرف دنیا چلتی ہے ، یہ لوگ اسی طرف چلتے ہیں اور جدھر کی ہوا ہو انسان اس طرف بڑی آسانی کے ساتھ چل سکتا ہے۔

یہ ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ کو یہ بشارت بھی دیتے ہیں کہ اگر تم نے اپنے نظریہ حیات کو سختی سے تھامے رکھا تو تمہیں زمین کا اقتدار اعلیٰ نصیب ہوگا اور تم فاسقون کے گھروں کے مالک بن جاؤ گے۔ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ " عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا "

آیات کے اس ٹکڑے کا اقرب مفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد ارض مقدس ہے جو اس دور میں بت پرستوں کے قبضے میں تھی۔ یہ حضرت موسیٰ کو بشارت تھی کہ تم اس پر قابض ہوگے۔ اگرچہ حضرت موسیٰ کے عہد میں بنی اسرائیل اس میں داخل نہ ہوئے کیونکہ آپ کے دور میں ابھی تک ان کی اخلاقی تربیت مکمل نہ ہوئی تھی۔ ان کے اخلاق ابھی تک درست نہ تھے کیونکہ وہ جب ارض مقدس کے سامنے آئے تو انہوں نے اپنے نبی سے کہہ دیا " اے موسیٰ ! اس میں تو ایک جبار قوم بستی ہے اور ہم اس وقت تک اس میں داخل نہ ہوں گے جب تک وہ اس سے نکل نہیں جاتے۔ ہاں اگر وہ نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہوں گے "

ان میں ایک دو شخص سچے مومن تھے ، انہوں نے اصرار کیا کہ شہر میں داخل ہوجاؤ اور حملہ کردو ، یہ دو شخص در اصل الہ سے ڈرنے والے تھے۔ اس پر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ جواب دیا " ہم تو اس شہر میں ہرگز داخل نہ ہوں گے جب تک یہ قوم وہاں موجود ہے۔ تم اور تمہارا رب جاؤ، لڑو ، ہم یہاں بیٹھے ہیں انتظار میں "۔ ان آیات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ بنی اسرائیل کا مزاج کس قدر بگڑا ہوا تھا۔ وہ کس قدر کج رو تھے اور حضرت موسیٰ ان کی دعوت اور ان کی شریعت کن لوگوں کی اصلاح کے لیے تھی۔ ایسے حالات میں یہ نہایت ہی موزوں ہدایت تھی کہ تورات کی ہدایات کو قوت سے پکڑو اور اپنی قوم سے ان پر سختی سے عمل کراؤ۔

آیت 145 وَکَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَۃً وَّتَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شَیْءٍ ج۔ یعنی شریعت کے تمام بنیادی احکام ان الواح میں درج کردیے گئے تھے۔ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے بنیادی احکام شاہراہ حیات پر انسان کے لیے گویا danger signals کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے کسی پر پیچ پہاڑی سڑک پر سفر کو محفوظ بنانے کے لیے جگہ جگہ danger cautions نصب کیے جاتے ہیں اسی طرح انسانی تمدن کے پیچیدہ راستے پر آسمانی شریعت اپنے احکامات کے ذریعے caution نصب کر کے انسانی تگ و دو کے لیے ایک محفوظ دائرہ مقرر کردیتی ہے تاکہ انسان اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے ‘ اپنی عقل کو بروئے کار لاکر اپنی مرضی اور پسند ناپسند کے مطابق زندگی گزارے۔ اس دائرے کے باہر محرمات ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ ان کے قریب بھی مت جانا : تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْہَا ط البقرۃ : 187۔فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا ط۔ کسی بھی حکم پر عمل درآمد کے لیے مختلف درجے ہوتے ہیں۔ یہ عمل درآمد ادنیٰ درجے میں بھی ہوسکتا ہے ‘ اوسط درجے میں بھی اور اعلیٰ درجے میں بھی۔ لہٰذا یہاں مطلب یہ ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی قوم کو ترغیب دیں کہ وہ احکام شریعت پر عمل کرتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی طرف بڑھنے کی کوشش کریں۔ یہی نکتہ ہم مسلمانوں کو بھی قرآن میں بتایا گیا : الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ ط الزمر : 18 یعنی وہ لوگ کلام اللہ کو سنتے ہیں پھر جو اس کی بہترین بات ہوتی ہے اس کو اختیار کرتے ہیں۔ ایک طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں ڈھیل اور رعایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ امتیازی پوزیشن نہ سہی ‘ فرسٹ یا سیکنڈڈویژن بھی نہ سہی ‘ بس pass marks کافی ہیں ‘ لیکن یہ معاملہ دین میں نہیں ہونا چاہیے۔ دینی امور میں عمل کا اچھے سے اچھا اور اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم سورة المائدۃ میں بھی پڑھ آئے ہیں : اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ دنیوی امور میں تو ہر شخص ع ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ! کے نظریے کا حامل نظر آتا ہی ہے ‘ لیکن دین کے سلسلے میں بھی ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ اس کا آج اس کے کل سے بہتر ہو۔ دینی امور میں بھی وہ ترقی کے لیے حتی الامکان ہر گھڑی کوشاں رہے۔سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ ۔ اس سے مرادفلسطین کا علاقہ ہے جس پر حملہ آور ہونے کا حکم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملنے والا تھا۔ بنی اسرائیل کا قافلہ مصر سے نکلنے کے بعد خلیج سویز کو عبور کر کے صحرائے سینا میں داخل ہوا تو خلیج سویز کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا ‘ یہاں تک کہ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی کونے میں پہنچ گیا جہاں کوہ طور واقع ہے۔ یہاں پر اس قافلے کا طویل عرصے تک قیام رہا۔ یہیں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر طلب کیا گیا اور جب آپ علیہ السلام تورات لے کر واپس آئے تو آپ علیہ السلام کو فلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم ملا۔ چناچہ یہاں سے یہ قافلہ خلیج عقبہ کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف عازم سفر ہوا۔ بنی اسرائیل سات آٹھ سو سال قبل حضرت یوسف علیہ السلام کی دعوت پر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آب سے تھے۔ اب فلسطین میں وہ مشرک اور فاسق قوم قابض تھی جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ سخت اور زور آور لوگ ہیں۔ چناچہ جب ان کو حکم ملا کہ جا کر اس قوم سے جہاد کرو تو انہوں نے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کردی کہ ایسے طاقتور لوگوں سے جنگ کرنا ان کے بس کی بات نہیں : قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْہَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَق المائدۃ : 22 اس واقعے کی تفصیل سورة المائدۃ میں گزر چکی ہے۔ یہاں اسی مہم کا ذکر ہو رہا ہے کہ میں عنقریب تم لوگوں کو اس سر زمین کی طرف لے جاؤں گا جو تمہارا اصل وطن ہے لیکن ابھی اس پر فاسقوں کا قبضہ ہے۔ ان نافرمان لوگوں کے ساتھ جنگ کر کے تم نے اپنے وطن کو آزاد کرانا ہے۔

آیت 145 - سورہ اعراف: (وكتبنا له في الألواح من كل شيء موعظة وتفصيلا لكل شيء فخذها بقوة وأمر قومك يأخذوا بأحسنها ۚ سأريكم دار...) - اردو