سورہ اعراف: آیت 10 - ولقد مكناكم في الأرض وجعلنا... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَلَقَدْ مَكَّنَّٰكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَٰيِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ

اردو ترجمہ

ہم نے تمھیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں سامان زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad makkannakum fee alardi wajaAAalna lakum feeha maAAayisha qaleelan ma tashkuroona

آیت 10 کی تفسیر

درس نمبر 73 تشریح آیات :

10۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 25۔

یہاں سے انسانیت کے عظیم سفر کا آغاز ہوتا ہے اور نسل انسانی کو کرہ ارض کا چارج دیا جاتا ہے ۔ یہ فقرہ قصہ انسانیت کے لئے ایک تمہید ہے ۔ تفصیلات آگے آرہی ہیں۔

آیت ” نمبر 10۔

اس زمین اور انسانوں کے خالق ہی نے یہاں انسانوں کو بسایا اور اسی نے زمین کے اندر وہ وسائل وخصائص پیدا کئے جو انسانی زندگی کے لئے سازگار ہیں جو انسانوں کے لئے قوت و ضروریات مہیا کرتے ہیں اور اس نگہداشت کرتے ہیں جن میں وسائل رزق ومعاش شامل ہیں۔

یہ اللہ ہی ہے کہ جس نے کرہ ارض کو ایک ایسے مقام پر رکھا جو انسانوں کی نشوونما کے لئے ساز گار ہے ۔ زمین اپنی ترکیب ‘ حجم اور سورج و چاند سے اپنے متعین فاصلے اور سورج کے گرد اپنی گردش ‘ اور اپنے طور پر ایک طرف جھکاؤ اور اپنی گردش کی رفتار وغیرہ کے اعتبار سے انسانی زندگی کے لئے مفید ہے ۔ پھر یہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کے اندر بےحد و حساب خزانے ودیعت کئے ہیں اور اس میں اکثر چیزیں انسان کی خوراک اور استعمال کے لئے فراونی سے پیدا کی ‘ جو اس انسان کے لئے یہاں نشوونما پانے اور ترقی کرنے کا سبب ہیں۔ پھر وہ اللہ ہی ہے جس نے جنس انسانی کو اس زمین کا سردار بنایا ہے ۔ وہ اس قابل ہوا ہے کہ ان قوتوں کو تسخیر کرے اور انہیں اپنی آسائش کے لئے استعمال کرے پھر اللہ نے انسانوں کو ایسی عقلی قوت دی ہے جس کے ذریعے انہوں نے اس کائنات کے بعض پوشیدہ رازوں تک رسائی حاصل کرلی ہے ۔ اور اس علم کو پھر وہ اپنی ضروریات کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔

اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ قوت نہ دیتا تو یہ ضعیف انسان اس کائناتی قوتوں کو ” تسخیر “ نہ کرسکتا (جس طرح قدیم وجدید جاہلیت کے علمبردار اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں) اور اس عظیم کائنات اور طویل و عریض دنیا کی قوتوں کا مقابلہ نہ کرسکتا ۔

دور جدید کی تہذیب پر رومی اور یونانی جاہلی افکار کی چھاپ لگی ہوئی ہے ۔ یہ جاہلی تصورات کائناتی قوتوں کو انسان کی دشمن قوتیں سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ قوتیں انسان کے وجود اور اس کی سرگرمیوں کی دشمن ہیں ۔ ان تصورات کے مطابق انسان اور کائناتی قوتوں کے درمیان مسلسل جنگ ہے ۔ اس لئے انسان جب اس کائنات کے بھیدوں میں سے کسی بھید کو جان لیتا ہے تو یہ لوگ اسے ” تسخیر فطرت “ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن یہ تصورات غلط ہیں اور پھر ان کے پس منظر میں خباثت بھی چھپی ہوئی ہے۔

اگر یہ کائناتی قوتیں انسان کی دشمن ہوتیں ‘ اس کی زندگی کا نقیض ہوتیں ‘ اس کے خلاف مورچہ زن ہوتیں ‘ اس کی مخالفت کرتیں ‘ اور ان کے پس منظر میں کسی مدبر ذات کا ارادہ کام نہ کر رہا ہوتا ‘ جس طرح ان لوگوں کا خیال ہے تو انسان سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا ۔ اگر پیدا ہوتا تو وہ اس کائنات کے اندر کسی طرح نشوونما نہ پاسکتا تھا ۔ کیونکہ ان تصورات کے مطابق یہ پورا جہان انسان کا دشمن ہے محض اس لئے کہ وہ وجود میں آگیا ہے ۔ لہذا وہ یہاں زندگی بسر کر رہا ہے ‘ یہ کوئی معقول توجیہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر یہ پوری کائنات ہی انسان کی دشمن ہے تو وہ کس طرح یہاں چل سکتا ہے ۔ ان لوگوں کا تصور یہ تھا کہ یہ کائنات خود مختار ہے اور اس کے اوپر کوئی مقتدر اعلی نہیں ہے ۔

ان تصورات کے مقابلے میں اسلامی تصور کائنات ہی وہ حقیقی تصور ہے جو یہاں کائنات کے تمام اجزاء کی پوری پوری تشریح کردیتا ہے ۔ وہ یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ۔ وہی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور یہ وہی اللہ ہے جس نے اس کائنات کے مزاج کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ اپنی ساخت کے اعتبار ہی سے انسان کے لئے ممدومعاون ہے ۔ انسان کے اندر اسی اللہ نے ایسی قوتیں ودیعت کی ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کائنات کی قوتوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرپاتا ہے ۔ یہ موافقت اور یہ ہم آہنگی ہی وہ قابل لحاظ راز ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ہر چیز کی تخلیق کو بہترین بنایا ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ کائنات کی یہ قوتیں باہم دگر برسر جنگ ہیں۔

اس اسلامی تصور کے مطابق انسان اس کائنات کے ساتھ باہم دوست کی طرح زندگی گزار رہا ہے ۔ ایک قوت مدبرہ یعنی باری تعالیٰ کی نگرانی میں ۔ اس کا قلب مطمئن ہے ۔ اس کا نفس خوش ہے ۔ اس کے قدم مضبوط ہیں اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس کرہ ارض پر اپنے فرائض خلافت انسانی کو سرانجام دے رہا ہے ۔ وہ کائنات کا انیس وہم نشیں ہے اور اللہ کا شکر گزار ہے کہ اس نے اس کائنات کا راز بخشا ہے ۔ جونہی وہ اس کائنات کے راز ہائے نہفتہ میں سے کوئی راز دریافت کرتا ہے ‘ جو اس کے فرائض کیلئے معاون ہوتا ہے تو اس کی ترقی آرام اور خوشحالی میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔

اس کائنات کے بارے میں یہ تصور جو اسلام دیتا ہے انسان کو اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ اس کائنات کے مزید راز معلوم کرے ۔ یہ تصور اسکی اس بات کے لئے حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسے نہایت ہی اطمینان اور خود اعتمادی کی کیفیت دیتا ہے کیونکہ اس کی حرکت ‘ ایک ایسے دوست کی ہمرکابی میں ہوتی ہے جو بخیل نہیں ہے جو اسے اپنے راز نہ بتاتا ہو۔ وہ اپنے تعاون اور امداد سے بھی ہاتھ نہیں کھینچتا ۔ اس کی وجہ سے انسان کا کسی ایسے دشمن سے رابطہ نہیں ہوتا جو ہر وقت مخالفت کرتا ہے اور راستے میں روڑے اٹکاتا ہے اور اسکی آرزوؤں اور امیدوں پر پانی پھیرتا ہے ۔

فلسفہ وجودیت کا یہ عظیم المیہ ہے کہ اس کائنات کے بارے میں ایک برا اور خبیث تصور رکھتا ہے ۔ اس فلسفے کا تصور کائنات یہ ہے کہ یہ پوری کائنات اور اس کے اندر انسان کا اجتماعی نظام انسانی کے انفرادی وجود کا دشمن ہے اور اس کائنات کا بوجھ اور پھر انسان کی اجتماعیت کا بوجھ انسان کے لئے تباہ کن ہے ۔ یہ ایک ایسا تصور ہے کہ اس پر یقین رکھنے والا انسان رجعت پسندی ‘ عزلت نسبتی بلکہ عدم کے دامن میں لوٹ جاتا ہے یا پھر اس کے نتیجے میں انفرادیت اور خود سری اور سرکشی جنم لیتی ہے ۔ دونوں حالتوں میں ایک انسان بےچینی اور قلق میں مبتلا ہوتا ہے جس کا بوجھ وہ برداشت نہیں کرسکتا عقل وخرد انسان کے لئے وبال بن جاتے ہیں۔ وہ عملی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے اور یا وہ سرکشی کی راہ اختیار کرلیتا ہے یاعدم کے صحرا میں گم گشتہ راہ ہوجاتا ہے اور یہ دونوں حالتیں ایک ہی طرح کی مصیبت ہیں۔

یورپی افکار کے شعبہ وجودیت ہی کا یہ المیہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے پورے فلسفے کا بھی یہی المیہ ہے ۔ یورپ کے تمام مکاتب فکر اور رجحانات اسی المیہ میں گرفتار ہیں بلکہ ہر قسم کا جاہلی نظام ہر دور میں اور ہر معاشرے میں اس المیے سے دوچار ہوتا ہے ۔ اس المیے کا مقابلہ صرف اسلامی نظام فکر وعمل ہی کرتا ہے کیونکہ اسلام ہی انسان کو اس کائنات کے بارے میں ایک دوست زاویہ فکر دیتا ہے ۔ بلکہ وہ و رائے کائنات بھی ایک معقول تصور دیتا ہے ۔

انسان اس زمین کا بیٹا ہے ‘ وہ اس کائنات کی پیداوار ہے ۔ وہ اس زمین سے پیدا کیا گیا ‘ اسی میں پروان چڑھا ۔ اس کی بودوباش اور نشوونما کا انتظام اسی زمین میں ہے اور اسے یہاں ایسی عقلی قوت دی گئی ہے جس کے ذریعے وہ اس جہان کے پوشیدہ رازوں تک رسائی حاصل کرتا ہے اور یہ راز اور قوتیں انسانی وجود کے لئے سازگار ہیں۔ جب ان رازوں تک انسان رسائل حاصل کرلیتا ہے تو یہ انسان کے معاون ہوتے ہیں اور اس کی زندگی کی تفسیر وتعبیر کرتے ہیں۔

لیکن انسان ! انسان کی اکثریت ناشکری ہے اس لئے کہ وہ اپنی جہالت اور جاہلیت میں گم گشتہ راہ ہے ۔ جو لوگ اس کائنات کے راز ہائے نہفتہ سے واقف ہوگئے ہیں وہ بھی حق شکر ادا نہیں کرتے ۔ وہ شکر وثنا بھی کیسے سکتے ہیں جب اللہ کو ان کی جانب سے یہ اعزاز قبول ہی نہیں ۔ (وہ انسانیت کے بجائے اپنی حیوانیت ثابت کرتے ہیں)

آیت ” وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِیْ الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ (10)

” ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لئے یہاں سامان زیست فراہم کیا ‘ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ۔ “

اب قصہ انسانیت کے دلچسپ واقعات بیان ہوتے ہیں ۔ ایک عظیم محفل میں انسانیت کی ولادت کی تقریب منعقد ہوتی ہے ۔ یہ ملاء اعلی میں ایک عظیم الشان تقریب ہے ۔ اللہ تعالیٰ جو ایک عظیم اور جلیل القدر بادشاہ ہے ‘ اس کی جانب سے تخلیق آدم کا اعلان ہوتا ہے ‘ خود بادشاہ کائنات اعلان کرتے ہیں ۔ یہ اس بندہ انسان کے لئے ایک بڑا اعزاز ہے ۔ اس محفل میں تمام ملائکہ حاضر ہیں ۔ ان میں حضرت ابلیس بھی موجود ہیں ۔ اگرچہ یہ دراصل فرشتہ نہیں تھا لیکن اس تقریب میں پوری کائنات اور اس کی مخلوقات موجود ہیں ‘ اس لئے کہ یہ نہایت ہی اہم واقعہ ہے اور عظیم الشان معاملہ ہے جس کی اہمیت پوری کائنات کی اسکیم میں مرکزیت کی حامل ہے ۔

آیت 10 وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ ط قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ تم لوگوں کو تو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ زمین کے وسائل انسان کے مسلسل استعمال سے ختم نہ ہوجائیں ‘ انسانی و حیوانی خوراک کا قحط نہ پڑجائے۔ مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے خزانے ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم نے تمہیں اس زمین میں بسایا ہے تو یہاں تمہارے معاش کا پورا پورا بندوبست بھی کیا ہے۔ اس دنیوی زندگی میں تمہاری اور تمہاری آئندہ نسلوں کی ہر قسم کی جسمانی ضرورتیں یہیں سے پوری ہوں گی۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اگلے دوسرے رکوع میں بھی اسی مضمون یعنی تمکن فی الارض کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے احسانات اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کیلئے بنائی۔ اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے کہ ہلے جلے نہیں اس میں چشمے جاری کئے اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت سے نفع کی چیزیں اس لئے پیدائش فرمائیں۔ ابر مقرر کر کے اس میں سے پانی برسا کر ان کے لئے کھیت اور باغات پیدا کئے۔ تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گذاری نہیں کرتے ایک آیت میں فرمان ہے (وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 18) 16۔ النحل) یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں۔ لیکن انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے معایش تو جمہور کی قرأت ہے لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اعرج معایش پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے اس لئے کہ (معایش) جمع ہے (معیشتہ) کی۔ اس کا باب (عاش یعیش عیشا) ہے (معیشتہ) کی اصل (معیشتہ) ہے۔ کسر ہے پر تقلیل تھا نقل کر کے ماقیل کو دیا (معیشتہ) ہوگیا لیکن جمع کے وقت پھر کسر ہے پر آگیا کیونکہ اب ثقل نہ رہا پس مفاعل کے وزن پر (معایش) ہوگیا کیونکہ اس کلمہ میں یا اصلی ہے۔ بخلاف مدائین، صہائف اور بصائر کے جو مدینہ، صحیفہ اور بصیرہ کی جمع ہے باب مدن صحف اور ابصر سے ان میں چونکہ یا زائد ہے اس لئے ہمزہ دی جاتی ہے اور مفاعل کے وزن پر جمع آتی ہے۔ واللہ اعلم۔

آیت 10 - سورہ اعراف: (ولقد مكناكم في الأرض وجعلنا لكم فيها معايش ۗ قليلا ما تشكرون...) - اردو