سورہ اعراف: آیت 1 - المص... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ اعراف

الٓمٓصٓ

اردو ترجمہ

ا، ل، م، ص

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflammeemsad

آیت 1 کی تفسیر

اس کے بعد اس قصے پر کئی تبصرے سامنے آتے ہیں ۔ ایک تبصرہ فطری عہد کے بعد آتا ہے اس میں اس شخص کی صورت حال کا نقشہ کھینچا گیا ہے جسے اللہ نے اپنی نشانیاں عطا کیں اور وہ اس سے نکل گیا ۔ مثلا بنی اسرائیل اور وہ تمام دوسری اقوام جنہیں اللہ نے اپنی نشانیاں عطا کیں لیکن انہوں نے ان کی پابندی نہ کی ۔ یہ ایک ایسا تبصرہ ہے جس میں تمام اشکال اور تمام حرکات اور اشارات ہماری نظروں کے سامنے آجاتے ہیں اور سورة انعام جیسے مناظر اور مشاہد سامنے آتے ہیں ۔

آیت ” وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ الَّذِیَ آتَیْْنَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْہَا فَأَتْبَعَہُ الشَّیْْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْنَ (175) وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَـکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَی الأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیْْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَث ذَّلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (176) سَاء مَثَلاً الْقَوْمُ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا وَأَنفُسَہُمْ کَانُواْ یَظْلِمُونَ (177) مَن یَہْدِ اللّہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِیْ وَمَن یُضْلِلْ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ (178) وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَـئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (179) (7 : 175 تا 179)

” اور اے محمد ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا ۔ گر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا ۔ آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑگیا ۔ یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا ۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے ‘ مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا ‘ لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے ۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ۔ تم یہ حکایات انکو سناتے رہو ‘ شاید کہ یہ غور وفکر کریں ۔ بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ‘ اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے ۔ اور جسے اللہ اپنی راہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام ونامراد ہو کر رہتا ہے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے ۔ ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سوچتے نہیں ‘ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے ہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے اور یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔

اب براہ راست نظریاتی مباحث آتے ہیں ۔ نظریاتی مباحث کے ساتھ بعض کائناتی شواہد ومؤثرات بھی پیش کئے جاتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے عذاب اور اس کی سخت پکڑ سے ڈرایا جاتا ہے ان کے دلوں کو ٹٹولا جاتا ہے کہ وہ غور وہ فکر کریں ‘ اللہ کی آیات میں تدبر کریں اور اس رسول اور اس کی رسالت کے بارے میں سوچ سے کام لیں ۔

آیت ” 179) وَلِلّہِ الأَسْمَاء الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُواْ الَّذِیْنَ یُلْحِدُونَ فِیْ أَسْمَآئِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (180) وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّۃٌ یَہْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ (181) وَالَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُم مِّنْ حَیْْثُ لاَ یَعْلَمُونَ (182) وَأُمْلِیْ لَہُمْ إِنَّ کَیْْدِیْ مَتِیْنٌ(183) أَوَلَمْ یَتَفَکَّرُواْ مَا بِصَاحِبِہِم مِّن جِنَّۃٍ إِنْ ہُوَ إِلاَّ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(184) أَوَلَمْ یَنظُرُواْ فِیْ مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّہُ مِن شَیْْء ٍ وَأَنْ عَسَی أَن یَکُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُہُمْ فَبِأَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُونَ (185) مَن یُضْلِلِ اللّہُ فَلاَ ہَادِیَ لَہُ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ (186) ”(7 : 180 تا 186)

” اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے ‘ اس کو اچھے ناموں ہی سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھتے ہیں وہ راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں ۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا بدلہ ہو پاکر رہیں گے ۔ ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقے سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی ۔ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں ‘ میری چال کا کوئی توڑ نہیں ۔ اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچا نہیں ؟ ان کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے جو صاف صاف متنبہ کررہا ہے ۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا ؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آلگا ہو ؟ پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہو سکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟ جس کو اللہ راہنمائی سے محروم کر دے اس کے لئے پھر کوئی راہنمائی نہیں ہے اور اللہ انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے ۔

اس کے بعد اللہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنی دعوت کی نوعیت سے آگاہ کریں اور اس نظریہ حیات میں رسول کے حدود کار سے آگاہ کریں ۔ یہ بات ان کے اس سوال کے جواب میں آتی ہے جس میں انہوں نے رسول سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس قیامت کے وقت کا تعین کردیں جس سے وہ انہیں ہر وقت ڈراتے رہتے ہیں۔

آیت ” یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ رَبِّیْ لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا إِلاَّ ہُوَ ثَقُلَتْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِیْکُمْ إِلاَّ بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ اللّہِ وَلَـکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُونَ (187) قُل لاَّ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعاً وَلاَ ضَرّاً إِلاَّ مَا شَاء اللّہُ وَلَوْ کُنتُ أَعْلَمُ الْغَیْْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوء ُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِیْرٌ وَبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ (188) (7 : 187 تا 188)

” یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے ۔ اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا ۔ آسمانوں اور زمین میں بڑا سخت وقت ہوگا ۔ وہ تم پر اچانک آجائے گا ۔ “ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو ۔ کہو ” اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ۔ “ اے محمد ﷺ ان سے کہو کہ ” میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا ‘ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے ‘ وہ ہوتا ہے ۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔ میں ایک محض خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لئے جو میری بات مانیں۔

اس کے بعد قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ نفس انسانی جس سے اللہ نے عہد لیا تھا کہ وہ راہ ہدایت پر قائم رہے گا کس طرح اس عقیدہ توحید کو ترک کردیتا ہے جس کا اقرار اس کی فطرت نے کیا تھا۔ یہاں شرک کی کراہت اور شریک معبودوں کی کمزوری کو بیان کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ان معبودوں کی تحدی کریں کہ وہ کس قدر عاجز ہیں ۔

آیت ” قُلِ ادْعُواْ شُرَکَاء کُمْ ثُمَّ کِیْدُونِ فَلاَ تُنظِرُونِ (195) إِنَّ وَلِیِّـیَ اللّہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتَابَ وَہُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ (196) وَالَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِہِ لاَ یَسْتَطِیْعُونَ نَصْرَکُمْ وَلا أَنفُسَہُمْ یَنْصُرُونَ (197) وَإِن تَدْعُوہُمْ إِلَی الْہُدَی لاَ یَسْمَعُواْ وَتَرَاہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ وَہُمْ لاَ یُبْصِرُونَ (198) (7 : 195 تا 198)

” اے محمد ان سے کہو کہ ” بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ‘ پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو ‘ میرا حامی وناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے ‘ بخلاف اس کے تم جنہیں ‘ خدا کو چھوڑ کر ‘ پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لئے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے ۔ بظاہر تم کو ایسا بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقعہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے “۔

اب آگے خطاب صرف حضور ﷺ سے کیا جاتا ہے اور یہ آخر تک چلتا ہے ۔ یاد رہے کہ سورة کا آغاز بھی براہ راست حضور ﷺ کے خطاب کے ساتھ ہوا تھا ۔ یہاں حضور ﷺ کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کریں گے ۔ دعوت کو لے کر کس طرح بڑھیں گے ۔ راستے کی مشکلات پر کس طرح قابو پائیں گے ‘ لوگوں کی سازشوں اور ایذا رسانیوں پر کس طرح قابو پائیں گے ۔ وہ اور اہل ایمان قرآن پر کس طرح کان دھریں گے ۔ وہ اللہ کو ہر وقت کس طرح یاد کریں گے اور اس کے ساتھ ایک تعلق کس طرح قائم رکھیں گے ۔ نیز یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں ملائکہ کس طرح اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔

آیت ” خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ (199) وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّہِ إِنَّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(200) إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّہُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ فَإِذَا ہُم مُّبْصِرُونَ (201) وَإِخْوَانُہُمْ یَمُدُّونَہُمْ فِیْ الْغَیِّ ثُمَّ لاَ یُقْصِرُونَ (202) وَإِذَا لَمْ تَأْتِہِم بِآیَۃٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَیْْتَہَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا یِوحَی إِلَیَّ مِن رَّبِّیْ ہَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ (203) وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَہُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ (204) وَاذْکُر رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَخِیْفَۃً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَکُن مِّنَ الْغَافِلِیْنَ (205) إِنَّ الَّذِیْنَ عِندَ رَبِّکَ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیُسَبِّحُونَہُ وَلَہُ یَسْجُدُونَ (206) (7 : 199 تا 206)

” اے نبی ‘ نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو ‘ معروف کی تلقین کئے جاؤ ‘ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو ۔ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فورا چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگ جاتا ہے کہ ان کے لئے صحیح طریق کار کیا ہے ۔ رہے ان کے (شیطانوں کے) بھائی بند ‘ تو وہ انہیں کج روی میں کھینچتے لئے چلے جاتے ہیں اور انہی بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔ اے نبی ‘ جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے ان کے لئے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی ؟ ان سے کہو ” میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں ۔ جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو اسے قبول کریں۔ جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو ‘ شاید کہ تم پر بھی رحمت کی جائے ۔ “ اے نبی اپنے رب کو صبح وشام یاد کیا کرو۔ دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ جو فرشتے تمہارے رب کے حضور ﷺ تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے جھکتے ہیں ۔ “

امید ہے کہ اس خلاصے اور ان اقتباسات سے سورة اعراف کے خدوخال واضح ہوگئے ہوں گے ۔ اور اس میں اور سورة انعام میں فرق و امتیاز بھی واضح ہوگیا ہوگا کہ دونوں سورتیں ایک ہی موضوع کو کس طرح مختلف انداز میں بیان کرتی ہیں ۔ دونوں کا موضوع اسلامی عقیدہ اور نظریہ حیات ہے ۔ جہاں تک ہر موضوع پر تفصیلی بات کا تعلق ہے وہ نصوص پر تفصیلی بحث کے وقت آئے گی ۔ انشاء اللہ اللہ کے فضل وکرم سے !

(المص) الف لام میم صاد ‘ سورة کا آغاز ان حروف مقطعات سے کیا گیا ہے ۔ سورة بقرہ کے آغاز میں ہم ان پر بحث کر آئے ہیں ۔ اسی طرح سورة آل عمران کے آغاز میں بھی ۔ ان کی تفسیر کے سلسلے میں ہم نے اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ ان سے مراد یہ ہے کہ یہ سورة ایسے ہی حروف سے بنی ہوئی ہے اور عربی زبان کے ان حروف تہجی کو تمام لوگ استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی شخص اس میڑیل سے قرآن جیسا کلام نہیں بنا سکتا اور یہ بذات خود اس بات کے لئے شاہد عادل ہے کہ قرآن انسان کا بنایا ہواکلام نہیں ہے کیونکہ یہ حروف اور عربی زبان کے الفاظ ان کے سامنے موجود ہیں۔ لیکن وہ ان سے قرآن نہیں بنا سکتے ۔ ہم نے یہ رائے بطور ترجیح اختیار کی ہے ۔ ہم جزم سے کوئی بات نہیں کہہ سکتے واللہ اعلم ۔

اس لحاظ سے پھر ترکیب یوں ہوگی کہ المص مبتدا ہے اور کتاب انزل الیک اس کی خیر ہے ۔ یعنی ان حروف اور کلمات سے مرکب یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے ۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ (المص) صرف اشارہ ہے جس سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے اور کتاب خیر ہے اور مبتدا محذوف ہے یعنی (ھذا کتب)

یہ حروف مقطعات ہیں ‘ اور جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے ‘ حروف مقطعات کا حقیقی اور یقینی مفہوم کسی کو معلوم نہیں اور یہ کہ ان تمام حروف کے مفاہیم و مطالب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان راز کا درجہ رکھتے ہیں۔ البتہ یہ نوٹ کرلیجیے کہ قرآن مجید کی دو سورتیں ایسی ہیں جن کے شروع میں چار چار حروف مقطعات آئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہی سورة الاعراف ہے اور دوسری سورة الرعد ‘ جس کا آغازا آآّرٰسے ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے تین حروف مقطعات اآآّ سورة البقرۃ اور سورة آل عمران میں آچکے ہیں۔

اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا، اسے تفصیل کے ساتھ سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں مع اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں۔ ابن عباس سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ اس سے مراد حدیث (انا اللہ افضل) ہے یعنی میں اللہ ہوں میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں، سعید بن جبیر سے بھی یہ مروی ہے، یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے، اسمیں کوئی شک نہ کرنا، دل تنگ نہ ہونا، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا، نہ کسی کا لحاظ کرنا، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبرو استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا، اس کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے، یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت و عبرت وعظ و پند ہے۔ اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ اس نبی امی کی پوری پیروی کرو، اس کے قدم بہ قدم چلو، یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے وہ اللہ تم سب کا خالق مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے، خبردار ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرانا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی، افسوس تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ جیسے فرمان ہے کہ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بےایمانی پر اڑے ہی رہیں گے۔ اور آیت میں ہے (وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ 116) 6۔ الانعام) یعنی " اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے "۔ سورة یوسف میں فرمان ہے " اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے۔ "

آیت 1 - سورہ اعراف: (المص...) - اردو