سورہ عنکبوت: آیت 6 - ومن جاهد فإنما يجاهد لنفسه... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ عنکبوت

وَمَن جَٰهَدَ فَإِنَّمَا يُجَٰهِدُ لِنَفْسِهِۦٓ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَغَنِىٌّ عَنِ ٱلْعَٰلَمِينَ

اردو ترجمہ

جو شخص بھی مجاہدہ کریگا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا، اللہ یقیناً دنیا جہان والوں سے بے نیاز ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman jahada fainnama yujahidu linafsihi inna Allaha laghaniyyun AAani alAAalameena

آیت 6 کی تفسیر

ومن جاھد ۔۔۔۔۔ عن العلمین (6)

” “۔ جب اللہ مومنین کے لیے آزمائشیں مقرر کرتا ہے اور ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ یہ مشتقیں برداشت کریں تاکہ ان کے نفوس جنگاہ حیات میں مشکلات برداشت کرنے کے اہل بن جائیں ، تو یہ احکام بھی خود اہل ایمان کی اصلاح کے لیے ہیں۔ یہ ان کو مکمل بناتے ہیں اور دنیا اور آخرت دونوں میں اہل ایمان کے لیے خیر کا باعث بنتے ہیں۔ جہاد کی وجہ سے خود ایک مومن کا نفس اور اس کا قلب پاک ہوتا ہے۔ ان کے تصورات میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور اس کے پیش نظر دنیا کے آفاق وسیع ہوتے ہیں۔ یہ حسب مال اور حب نفس سے بھی بلند ہوجاتا ہے ، اب اس کی شخصیت کے اعلیٰ جو ہر کھلتے ہیں اور اس کی صلاحیت سامنے آتی ہے۔ اس کے بعد پھر وہ اپنی ذات سے آگے بڑھ کر ایک سوسائٹی کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ اس سوسائٹی کی اصلاح ہوتی ہے ، اسے فائدہ ملتا ہے۔ اس میں حق کے جھنڈے بلند ہوتے ہیں ، بھلائی پھیلتی ہے اور غالب ہوتی ہے اور شر مغلوب ہوتا ہے۔ اصلاح کو ترقی ملتی ہے اور فساد سکڑتا ہے۔

ومن جاھد فانما ۔۔۔۔ لنفسہ (29: 6) ” جو شخص بھی جہاد کرے گا تو وہ اپنے بھلے کے لیے کرے گا “۔

کوئی شخص جہاد شروع کرکے ، آدھی راہ میں کھڑا نہ ہوجائے کہ لائیے جی معاوضہ اب تک کے جہاد کا۔ یا اللہ پر احسان جتلائے یا تحریک اسلامی پر احسان جتلائے یا یہ کہے کہ جی اس قدر جدوجہد سے ہمیں کیا ملا کیونکہ اس کے جہاد سے اللہ کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ اللہ کو انسانوں کی طرف سے جہاد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کیا ہے اور اس کا جہاد کیا ہے ؟ اللہ تو دو جہانوں سے بےنیاز ہے۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ اس نے اس ضعیف انسان کو اس عظیم کام کے لیے منتخب کیا۔ اسے زمین کا خلیفہ بنایا اور وہ اس زمین میں کام تو اپنے لیے کرتا ہے پھر بھی اللہ اسے اجر وثواب دیتا ہے۔

آیت 6 وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖط اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ ”دیکھو ! تم میں سے جو کوئی اللہ کی راہ میں جدوجہد کر رہا ہے ‘ اس کے لیے تکلیفیں اٹھا رہا ہے اور ایثار کر رہا ہے تو یہ سب کچھ وہ اپنے لیے کر رہا ہے ‘ اس کا فائدہ بھی اسی کو ملنے والا ہے۔ وہ اپنے ان اعمال کا اللہ پر احسان نہ دھرے۔ اللہ کو ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ ان چیزوں سے بہت بلند اور بےنیاز ہے۔ سورة الحجرات میں اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْاط قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْج بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ”اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے۔ آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ اپنے اسلام کا مجھ پر احسان مت دھرو ‘ بلکہ یہ تو تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی ‘ اگر تم اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہو۔“r؂ منتّ منہَ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی منتّ شناس ازو کہ بخدمت بدا شتت !یعنی تم بادشاہ پر احسان مت دھرو کہ تم اس کی خدمت کر رہے ہو ‘ بلکہ تم اس سلسلے میں بادشاہ کا احسان پہچانو کہ اس نے تمہیں اپنی خدمت کا موقع فراہم کیا ہے۔نوٹ کیجیے ان آیات کے مندرجات انسانی دل و دماغ کے احساسات و خیالات سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں۔۔ اب اگلی آیت میں پھر دلجوئی کا انداز ہے۔ گویا پہلے رکوع میں ترہیب کا رنگ بھی ہے اور ترغیب کا انداز بھی اور یہ دونوں مضامین پہلو بہ پہلو چل رہے ہیں۔ آغاز سرزنش سے ہوا تھا ‘ پھر دلجوئی فرمائی گئی ‘ اس کے بعد پھر سرزنش اور اب پھر دلجوئی :

آیت 6 - سورہ عنکبوت: (ومن جاهد فإنما يجاهد لنفسه ۚ إن الله لغني عن العالمين...) - اردو