سورہ عنکبوت: آیت 5 - من كان يرجو لقاء الله... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ عنکبوت

مَن كَانَ يَرْجُوا۟ لِقَآءَ ٱللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ ٱللَّهِ لَءَاتٍ ۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ

اردو ترجمہ

جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے، اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Man kana yarjoo liqaa Allahi fainna ajala Allahi laatin wahuwa alssameeAAu alAAaleemu

آیت 5 کی تفسیر

من کان یرجوا ۔۔۔۔۔۔۔ السمیع العلیم (5)

جو دل اللہ کی ملاقات کی امیدیں لیے ہوئے ہیں وہ مطمئن ہوجائیں اور انتظار کریں ان چیزوں کا جن کا اللہ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا ہے۔ یہ انتظار اس انداز کا ہونا چاہئے جس طرح کسی کو کسی چیز کے ملنے کا پختہ یقین ہو اور وہ اس کا منظر ہو۔ بس دن کے آنے کا انتظار ہو ، اور شوق ملاقات بڑھتا ہی جائے۔ یہاں ایسے پاکیزہ قلوب کی تصویر بڑی اشاراتی ہے۔ ایک ایسے شخص کی تصویر جو ملاقات کا امیدوار بھی ہے ، مشتاق بھی ہے ، مربوط بھی ہے اور ایسے شخص کے شوق کے جواب میں اسے نہایت ہی فرحت بخش اشارے ملتے ہیں کہ دیکھو ہم دیکھ رہے ہیں ، سن رہے ہیں اور ہمیں پورا پورا علم ہے۔

وھو السمیع العلیم (29: 5) ” اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے “۔

چوتھی ضرب کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں ، جہاد فی سبیل اللہ کی تکالیف اٹھاتے ہیں کہ یہ جہاد اور مشقتیں وہ اپنے لیے برداشت کر رہے ہیں۔ اپنے جمال و و کمال اور اپنی خیر اور بھلائی کے لیے ، اللہ کو تو ان چیزوں کی چنداں ضرورت نہیں ہے وہ تو جہانوں اور کائنات سے غنی ہے۔

آیت 5 مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآء اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ط ”یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر ایک بندۂ مؤمن دنیا میں اپنا تن من دھن اس کی راہ میں کھپا دے گا تو اس کی اس قربانی کا صلہ اسے آخرت کی نعمتوں کی صورت میں دیا جائے گا۔ لیکن اللہ کا یہ وعدہ بہر حال ادھار کا وعدہ ہے۔ دوسری طرف دنیا کے ظاہری معاملات کو دیکھتے ہوئے انسان ”نو نقد نہ تیرہ ادھار“ کے اصول پر زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ انسان کی اسی کمزوری سے شیطان فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے دل میں وسوسے ڈال کر اس کے یقین کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے یہاں حضرت بلال ‘ حضرت ابو فکیہہ اور حضرت خباب جیسے صحابہ رض اور ان کی قائم کردہ مثالوں کی قیامت تک کے لیے پیروی کرنے والے جاں نثاروں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اے شمع توحید کے پروانو ! شیطان تمہارے دلوں میں کسی قسم کا وسوسہ پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے ‘ تم اطمینان رکھو ! تمہارے ساتھ کیے گئے اللہ کے تمام وعدے ضرور پورے ہوں گے اور آخرت کا وہ دن ضرور آکر رہے گا جس دن تمہاری تمام قربانیوں کا بھر پور صلہ تمہیں دیا جائے گا۔وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ”وہ تمہارے حالات سے بخوبی آگاہ ہے ‘ تمہاری کوئی تکلیف اور کوئی قربانی اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے ‘۔۔ اب اگلی آیت میں پھر سرزنش کا انداز ہے :

نیکیوں کی کوشش جنہیں آخرت کے بدلوں کی امید ہے اور اسے سامنے رکھ کر وہ نیکیاں کرتے ہیں۔ ان کی امیدیں پوری ہونگی اور انہیں نہ ختم ہونے والے ثواب ملیں گے۔ اللہ دعاؤں کا سننے والا اور کل کائنات کا جاننے والا ہے اللہ کا ٹھہرایا ہوا وقت ٹلتا نہیں۔ پھر فرماتا ہے ہر نیک عمل کرنے والا اپنا ہی نفع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال سے بےپرواہ ہے۔ اگر سارے انسان متقی بن جائیں تو اللہ کی سلطنت میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت حسن فرماتے ہیں جہاد تلوار چلانے کا ہی نام نہیں۔ انسان نیکیوں کی کوشش میں لگا ہے یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تمہاری نیکیاں اللہ کے کسی کام نہیں آتیں لیکن بہر حال اس کی یہ مہربانی کہ وہ تمہیں نیکیوں پر بدلے دیتا ہے۔ انکی وجہ سے تمہاری برائیں معاف فرما دیتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی قدر کرتا ہے اور اس پر بڑے سے بڑا اجر دیتا ہے ایک ایک نیکی کا سات سات سوگنا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بدی کو یا تو بالکل ہی معاف فرما دیتا ہے یا اسی کے برابر سزا دیتا ہے۔ وہ ظلم سے پاک ہے، گناہوں سے درگزر کرلیتا ہے اور ان کے اچھے اعمال کا بدل عطا فرماتا ہے۔

آیت 5 - سورہ عنکبوت: (من كان يرجو لقاء الله فإن أجل الله لآت ۚ وهو السميع العليم...) - اردو