سورہ عنکبوت: آیت 2 - أحسب الناس أن يتركوا أن... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ عنکبوت

أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن يُتْرَكُوٓا۟ أَن يَقُولُوٓا۟ ءَامَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ

اردو ترجمہ

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ "ہم ایمان لائے " اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ahasiba alnnasu an yutrakoo an yaqooloo amanna wahum la yuftanoona

آیت 2 کی تفسیر

آیت 2 اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ”تمہیدی کلمات میں بیان کی گئی حضرت خباب رض کی روایت کا مضمون ذہن میں رکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آیت صحابہ کرام رض کی مذکورہ شکایت کا جواب ہے۔ اس میں خفگی کا بالکل وہی انداز پایا جاتا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی شکایت کے جواب میں اختیار فرمایا تھا۔ اہل ایمان کا ذکر عمومی انداز میں ”النَّاس“ کے لفظ سے فرمانا بھی ایک طرح سے عتاب اور ناراضی ہی کا ایک انداز ہے۔ بہر حال دین میں تحریکی و انقلابی جدوجہد کے حوالے سے یہ بہت اہم مضمون ہے جس کی مزید وضاحت مدنی سورتوں میں ملتی ہے۔ چناچہ سورة البقرۃ میں یہی مضمون مزید واضح انداز میں بیان ہوا ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْط مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ ”کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تک تم پر وہ حالات و واقعات تو وارد ہوئے ہی نہیں جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں مسلط کردی گئی تھیں ‘ اور وہ ہلا مارے گئے تھے ‘ یہاں تک کہ وقت کا رسول علیہ السلام اور اس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ! آگاہ رہو اللہ کی مدد قریب ہی ہے“۔ اس کے بعد سورة آل عمران میں یہی بات ایک دوسرے انداز میں فرمائی گئی ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ ”کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں یونہی داخل ہوجاؤ گے ‘ حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون واقعتا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں“۔ اور پھر سورة التوبہ میں اس مضمون کی مزید وضاحت کی گئی ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلاَ رَسُوْلِہٖ وَلاَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃًط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنََ ”کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے ‘ حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون ہیں جو واقعی جہاد کرنے والے ہیں ‘ اور جو نہیں رکھتے اللہ ‘ اس کے رسول اور اہل ایمان کے علاوہ کسی کے ساتھ دلی راز داری کا کوئی تعلق ‘ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔“ مندرجہ بالا چاروں آیات میں یہ مضمون جس انداز میں بیان ہوا ہے اس کی مثال ایک خوبصورت پودے اور اس پر کھلنے والے خوبصورت پھول کی سی ہے۔ زیر مطالعہ مکی آیت اس پودے کی گویا جڑ ہے جبکہ مذکورہ بالا تینوں مدنی آیات اس پر کھلنے والے پھول کی تین پتیاں ہیں۔ یہاں پر جن تین آیات کا حوالہ دیا گیا ہے البقرۃ : 214 ‘ آل عمران : 142 اور التوبۃ : 16 ان میں یہ عجیب مماثلت قابل توجہ ہے کہ نہ صرف ان آیات کے الفاظ میں مشابہت پائی جاتی ہے بلکہ ان میں سے ہر آیت کے نمبر شمار کا حاصل جمع 7 ہے۔

آیت 2 - سورہ عنکبوت: (أحسب الناس أن يتركوا أن يقولوا آمنا وهم لا يفتنون...) - اردو