و ابراہیم اذ قال لقومہ ۔۔۔۔۔۔۔ علی الرسول الا البلغ المبین (16 – 18)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو نہایت واضح اور سادہ دعوت دی جس میں کوئی پیچیدگی اور اجمال نہ تھا۔ اس دعوت کو انہوں نے نہایت مرتب انداز میں پیش کیا۔ جو لوگ دعوت اسلامی کا کام کرتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ دعوت کی اس ترتیب اور انداز پر غور کریں۔ پہلے تو انہوں نے اپنی دعوت کی حقیقت ان کے سامنے رکھی۔
اعبدوا اللہ واتقوہ (29: 16) ” اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو “۔ اور اس کے بعد انہوں نے ان کے دلوں میں اس دعوت کے لیے دلچسپی پیدا کی کہ اس میں تمہارے لیے بہت خیر ہے ، بشرطیکہ وہ اچھائی اور برائی کو سمجھیں۔ خیر اور مقامات خیر کو جانیں۔
ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون (29: 16) ” یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو “۔
اس شرطیہ تعقیب میں ان کو اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ جہالت کو ترک کرکے اور اپنی ذات کے حوالے سے جہالت کی نفی کرکے اپنے لیے بھلائی کی راہ اختیار کریں۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے محض ایک خطابت اور جوش خطابت کی ہٹ دھرمی نہیں ہے اور نہ محض لفاظی ہے۔ تیسرے مرحلے میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ جو عقائد و نظریات رکھتے ہیں وہ متعدد پہلوؤں سے غلط ہیں۔ وہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور یہ بت پتھر یالکڑی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بندگی اور پوجا نہایت غلط اور کھوٹا عمل ہے۔ جبکہ یہ انہیں اللہ وحدہ کی بندگی سے بھی روک رہا ہے۔ پھر وہ جو پوجا کرتے ہیں اس پر کوئی معقول برہان و دلیل بھی نہیں ہے بلکہ کچھ جھوٹی باتیں ہیں جو انہوں نے ازخود گھڑ رکھی ہیں۔ ان کا نہ کوئی سابقہ اور نہ کوئی لاحقہ ہے بلکہ جھوٹی خود ساختہ باتیں ہیں۔ اور کسی مسلمہ اصول و قاعدے پر مبنی نہیں ہیں۔ پھر یہ بت ان کو کوئی نفع یا نقصان بھی نہیں پہنچا سکتے۔ نہ ان کو کچھ دے سکتے ہیں۔
ان الذین تعبدون ۔۔۔۔۔ لکم رزقا (29: 17) ” در حقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو ، وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے “۔ اور چوتھے مرحلے میں قرآن پھر ان کو متوجہ کرتا ہے کہ اللہ سے رزق طلب کرو کہ وہ وحدہ رزاق ہے۔ یہ بات ان کے لئے بہت اہم ہے اور ان کی حاجات اور ضروریات اللہ کے دربار ہی سے پوری ہو سکتی ہیں۔
فابتغوا عند اللہ الرزق (29: 17) ” اللہ سے رزق مانگو “۔
رزق دراصل مشغلہ نفوس ہے ، خصوصا نفوس مومنہ کا۔ اور رزق کو صرف اللہ کے ہاں طلب کرنا ایک حقیقت بھی ہے۔ یہ محض نفسیاتی ہیجان انگیزی نہیں ہے ، نہ نفسیاتی میلان ہے جسے ابھارا جا رہا ہو ، بلکہ ایک حقیقت ہے۔
آخر میں انکو یہ دعوت دی جاتی ہے کہ انعامات اور ارزاق کے حقیقی مسبب اور حقیقی منعم کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔
واعبدوہ واشکروا لہ (29: 17) ” اور اس کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو “۔
آخر میں ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اس سے بھاگ نہیں سکتے ، نہ اس اللہ سے تم کہیں پناہ پاسکتے ہو۔ لہٰذا مناسب یہی ہے اور اسی میں تمہاری بھلائی ہے کہ تم اس کی طرف لوٹ آؤ اور ایمان لاکر اس کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو ،
الیہ ترجعون (29: 17) ” اسی کی طرف تم پلٹ کر جانے والے ہو “۔
اور اگر اس دعوت کے بعد وہ تمہاری تکذیب کریں تو اس تکذیب کی کیا حیثیت ہے ! اس سے اللہ کی بادشاہت میں کوئی نقص یا کمی واقع نہیں ہوتی۔ نہ رسول اللہ ﷺ کے مقام و مرتبے میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کئی لوگوں نے تکذیب کی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ڈیوٹی تو صرف یہ ہے کہ آپ ﷺ بس تبلیغ کردیں۔
وان تکذبوا فقد ۔۔۔۔۔۔ البلغ المبین (29: 18) ” اگر تم جھٹلاتے ہو تو تم سے پہلے بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں اور رسول پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے “۔
یوں قرآن کریم قدم بقدم ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ اور ان کے دلوں پر ہر طرف سے اثر انداز ہوتا ہے اور ان کے دل کے تاروں کو ہر طرف سے چھیڑتا ہے۔ یہ تدریجی اقدامات دعوت پیش کرنے کا ایک بہترین نمونہ ہیں اور دعوت اسلامی کے کارکنوں کو اس انداز پر اچھی طرح غور کرنا چاہئے۔ اور اس انداز سے انسانی نفوس پر اثر انداز ہونا چاہئے۔ قبل اس کے کہ اس کہانی کو اختتام تک پہنچایا جائے۔ ایک وقفہ کیا جاتا ہے اور یہ ایک لمحہ فکر یہ ہے۔ اسمیں ہر اس شخص کو مخاطب کیا جاتا ہے جو دعوت ایمان
کا منکر ہے۔ جو اللہ کی طرف رجوع سے انکار کرتا ہے اور بعث بعد الموت کا منکر ہے۔
ریاکاری سے بچو امام الموحدین ابو المرسلین خلیل اللہ علیہ الصلوات اللہ کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو توحید اللہ کی دعوت دی ریاکاری سے بچنے اور دل میں پرہیزگاری قائم کرنے کا حکم دیا اس کی نعمتوں پر شکرگزاری کرنے کو فرمایا۔ اور اس کا نفع بھی بتایا کہ دنیا اور آخرت کی برائیاں اس سے دور ہوجائیں گی اور دونوں جہان کی نعمتیں اس سے مل جائیں گی۔ ساتھ ہی انہیں بتایا کہ جن بتوں کی تم پرستش کررہے ہو۔ یہ تو بےضرر اور بےنفع ہے تم نے خود ہی ان کے نام اور ان کے اجسام تراش لئے ہیں۔ وہ تو تمہاری طرح مخلوق ہیں بلکہ تم سے بھی کمزور ہیں۔ یہ تمہاری روزیوں کے بھی مختار نہیں۔ اللہ ہی سے روزیاں طلب کرو۔ اسی حصہ کے ساتھ آیت (ایاک نعبد وایاک نستعین) بھی ہے کہ ہم سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ یہی حضرت آسیہ ؓ کی دعا میں ہے آیت (رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّــنِيْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهٖ وَنَجِّــنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 11 ۙ) 66۔ التحریم :11) اے اللہ میرے لئے اپنے پاس ہی جنت میں مکان بنا۔ چونکہ اس کے سوا کوئی رزق نہیں دے سکتا اس لئے تم اسی سے روزیاں طلب کرو اور جب اس کی روزیاں کھاؤ تو اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو۔ اس کی نعمتوں کا شکر بجالاؤ تم میں سے ہر ایک اسی کی طرف لوٹنے والا ہے۔ وہ ہر عامل کو اسکے عمل کا بدلہ دے گا۔ دیکھو مجھے جھوٹا کہہ کر خوش نہ ہو نظریں ڈالو کہ تم سے پہلے جنہوں نے نبیوں کو جھوٹ کی طرف منسوب کیا تھا ان کی کیسی درگت ہوئی ؟ یاد رکھنا نبیوں کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔ ہدایت عدم ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے۔ اپنے آپ کو سعات مندوں میں بناؤ بدبختوں میں شامل نہ کرو۔ حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں اس میں آنحضرت ﷺ کی مزید تشفی کی گئی ہے اس مطلب کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلاکام ختم ہوا۔ اور یہاں سے لے کر آیت (فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّا اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ 24) 29۔ العنکبوت :24) تک یہ سب عبارت بطور جملہ معترضہ کے ہے۔ ابن جریر نے تو کھلے لفظوں میں یہی کہا ہے۔ لیکن الفاظ قرآن سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کلام حضرت خلیل اللہ ؑ کا ہے آپ قیامت کے قائم ہونے کی دلیلیں پیش کررہے ہیں کیونکہ اس تمام کلام کے بعد آپ کی قوم کا جواب ذکر ہوا ہے۔