انہوں نے اللہ کے ساتھ یوں خیانت کی کہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا۔ اور اللہ وحدہ کو اپنا رب تسلیم نہ کیا حالانکہ اس نے ان کی فطرت سے یہ عہد لیا تھا۔ اور اگر انہوں نے حضور ﷺ سے بھی خیانت کا ارادہ کیا۔ حالانکہ اب وہ آپ کی قید میں ہیں تو ان کو پہلی خیانت کے نتائج پر غور کرنا چاہئے کہ اب وہ مسلمانوں کے ہاں قید ہیں اور اللہ نے ان کو رسول اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں ابن عربی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب مشرکین قید ہوئے تو ان میں سے بعض لووں نے اسلام کے متعلق بات کی۔ لیکن وہ دل سے مسلمان نہ تھے۔ اسلام کے بارے میں انہوں نے جو بات کی ، وہ بھی دو ٹوک نہ تھی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے قریب آجائیں لیکن مشرکین سے بھی دور نہ ہوں۔ ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اگر کوئی کافر ایمان کی بات کرے ، زبان سے اقرار بھی کرے لیکن وہ اس میں صاحب عزیمت نہ ہو تو وہ مومن تصور نہ ہوگا ، لیکن اگر مومنین میں سے کوئی اس قسم کی مذبذب بات کرے تو وہ کافر ہوگا۔ الا یہ کہ دل میں کوئی ایسا وسوسہ آجائے جو انسان کی قدرت سے ابہر ہوتا ہے ، کیونکہ اسے تو خود اللہ نے معاف کردیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسول کے سامنے یہ حقیقت کھول دی ہے۔ و ان یریدوا خیانتک یعنی یہ بات اگر ان کی جانب سے بطور مکر و فریب اور خیانت ہے تو انہوں نے اس سے قبل بھی اللہ کی خیانت کا ارتکاب کیا ہے کہ انہوں نے کفر کو اپنایا ، اسلام کے خلاف سازشیں کیں اور آپ کے خلاف آمادہ جنگ ہوگئے۔ اگرچہ ان کی یہ بات برائے ظاہر داری اچھی ہے اور اللہ بھی جانتا ہے کہ اس کی پشت پر کوئی بھلائی موجود ہے تو اللہ ان کو معاف کردے گا اور ان کے سابقہ کرتوتوں کو ساقط کردے گا۔
آیت 71 وَاِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْکَنَ مِنْہُمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۔یعنی ان قیدیوں میں ایسے بھی ہوں گے جو آپ ﷺ سے جھوٹ بولیں گے ‘ جھوٹے بہانے بنائیں گے ‘ بےجا معذرتیں پیش کریں گے۔ تو اس نوعیت کی خیانتیں یہ اللہ سے بھی کرتے رہے ہیں اور ان کے ایسے ہی کرتوتوں کی پاداش میں ان کو یہ سزا دی گئی ہے کہ اب یہ لوگ آپ ﷺ کے قابو میں ہیں۔اب اگلی آیات گویا اس سورة مبارکہ کا حاصل کلام یعنی concluding آیات ہیں۔