آیت 7 وَاِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآءِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَکُمْ لشکر یا قافلے میں سے کسی ایک پر مسلمانوں کی فتح کی ضمانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دے دی گئی تھی۔ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَات الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ تم لوگوں کی خواہش تھی کہ لشکر اور قافلے میں سے کسی ایک کے مغلوب ہونے کی ضمانت ہے تو پھر غیر مسلح گروہ یعنی قافلے ہی کی طرف جایا جائے ‘ کیونکہ اس میں کوئی خطرہ اور خدشہ risk نہیں تھا۔ قافلے کے ساتھ بمشکل پچاس یا سو آدمی تھے جبکہ اس میں پچاس ہزار دینار کی مالیت کے سازوسامان سے لدے پھندے سینکڑوں اونٹ تھے ‘ لہٰذا اس قافلے پر بڑی آسانی سے قابو پایا جاسکتا تھا اور بظاہر عقل کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ان لوگوں کی دلیل یہ تھی کہ ہمارے پاس تو ہتھیار بھی نہیں ہیں اور سامان رسد وغیرہ بھی نا کافی ہے ‘ ہم پوری تیاری کر کے مدینے سے نکلے ہی نہیں ہیں ‘ لہٰذا یہ بہتر ہوگا کہ پہلے قافلے کی طرف جائیں ‘ اس طرح سازو سامان بھی مل جائے گا ‘ اہل قافلہ کے ہتھیار بھی ہمارے قبضے میں آجائیں گے اور اس کے بعد لشکر کا مقابلہ ہم بہتر انداز میں کرسکیں گے۔ تو گویا عقل و منطق بھی اسی رائے کے ساتھ تھی۔ وَیُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ یہ وہی بات ہے جو ہم سورة الانعام آیت 45 میں پڑھ آئے ہیں : فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ط کہ ظالم قوم کی جڑ کاٹ دی گئی۔ یعنی اللہ کا ارادہ کچھ اور تھا۔ یہ سب کچھ دنیا کے عام قواعد و ضوابط physical laws کے تحت نہیں ہونے جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس دن کو یوم الفرقان بنانا چاہتا تھا۔ وہ تین سو تیرہ نہتے افراد کے ہاتھوں کیل کانٹے سے پوری طرح مسلح ایک ہزار جنگجوؤں کے لشکر کو ذلت آمیز شکست دلوا کردکھانا چاہتا تھا کہ اللہ کی تائید و نصرت کس کے ساتھ ہے اور چاہتا تھا کہ کافروں کی جڑ کاٹ کر رکھ دے۔