سورۃ الانفال: آیت 3 - الذين يقيمون الصلاة ومما رزقناهم... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورۃ الانفال

ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ يُنفِقُونَ

اردو ترجمہ

جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yuqeemoona alssalata wamimma razaqnahum yunfiqoona

آیت 3 کی تفسیر

درس نمبر 83 ایک نظر میں

یہ اس سورة کا پہلا سبق ہے۔ اس کا موضوع انفال اور اموال غنیمت کی تقسیم ہے۔ اموال غنیمت اور انفال میں وہ تمام چیزیں شامل ہوتی ہیں جو میدان جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ لگتی ہیں ، جبکہ یہ جنگ جہاد فی سبیل اللہ ہو۔ سب سے پہلے اہل بدر کے درمیان اموال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں اختلافات پھوٹ پڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خدا خوفی اور اطاعت رسول کے معاملے کی طرف بھی متوجہ کیا اور لوگوں کے دلوں میں ایمان اور تقوی کے جذبات ابھارے گئے۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں یاد دلایا کہ تم تو آغاز ہی سے یہ چاہتے تھے کہ قافلے پر حملہ کرکے مال غنیمت حاصل کرلو۔ لیکن اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ تمہیں نصرت اور عزت سے نوازے۔ پھر انہیں یاد دلاای کہ ذرا اس معرکے کے مراحل پر غور کرو کہ تمہاری تعداد اور سازوسامان دشمن کے مقابلے میں بہت ہی کم تھا ، وہ تم سے کہیں زیادہ تھا۔ مگر اللہ نے فرشتوں کے ذریعے تمہارے قدم مضبوط کیے۔ پھر اس نے بارش برسا کر تمہارے لیے لڑنا آسان کردیا۔ تمہارے پاؤں مضبوطی سے جمتے تھے ، تم بارش کے پانی سے مویشیوں کو سیراب کرائے تھے اور غسل کرتے تھے کیونکہ جنگ بدر ریت کے میدان میں لڑی گئی تھی اور ریت میں انسانوں اور گھوڑوں کے قدم دھنس جایا کرتے ہیں۔ پھر یاد دلایا گیا کہ تم کو ایک قسم کی نیند نے آ لیا اور نیند آتے ہی تم مطمئن ہوگئے۔ پھر اللہ نے تمہارے دشمنوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور ان پر شدید عذاب نازل کردیا۔

ان تجربات کی روشنی میں قرآن ان کو حکم دیتا ہے کہ تم ہر جنگ میں ثابت قدمی اختیار کرو۔ اگرچہ بظاہر تمہیں دشمنوں کی قوت زیادہ نظر آئے کیونکہ قتل کرنے والا اللہ ہوتا ہے۔ اللہ ہی دراصل تیر چلاتا ہے وہی معاملات کی تدبیر کرتا ہے ، تم تو در اصل تقدیر الہی کے لیے ایک پردہ ہو ، وہ تمہیں جس طرح چاہتی ہے ، چلاتی ہے۔ اس کے بعد اس سبق میں مشرکین کی اس احمقانہ حرکت پر تبصرہ کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اس واقعہ سے قبل اللہ کے سامنے دست بدعا تھے کہ اے اللہ آپ آج کی جنگ میں اس فرقے کو تباہ کردیں جو گمراہ ہو اور جو صلہ رحمی کا قاطع ہو۔ اللہ فرماتے ہیں ان تستفتحوا فقد جاء کم الفتح۔ اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو فیصلہ تمہارے سامنے آگیا۔

مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگیوں سے نفاق کو دور کرو اور منافقوں کا رویہ اختیار نہ کرو۔ جو کہتے تو یہ تھے کہ ہم سنتے ہیں لیکن سنتے نہ تھے اس لیے کہ وہ سن کر مانتے نہ تھے۔

اس سبق کے آخر میں مسلمانو کو بار بار پکارا جاتا ہے کہ مسلمانو ! رسول تمہیں جب بھی پکارے تو لبیک کہو ، اس لیے کہ وہ تمہیں ایک ایسی دعوت دیتا ہے جس کے نتیجے میں تمہیں زندگی دوام حاصل ہوگی۔ اگرچہ بظاہر وہ تمہیں موت اور قتل کی طرف بلا رہا ہو۔ اللہ اہل ایمان کو یاد دلاتا ہے کہ وہ وقت یاد کرو جب تم قلیل اور کمزور تھے۔ تمہیں ہر وقت ہر طرف سے ڈر لگا رہتا تھا کہ دشمن کہیں تمہیں اچک نہ جائے۔ ان حالات میں اللہ نے تمہیں پناہ دی ، نصرت دی۔ اور اب تمہارے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ اگر تم تقویٰ کی راہ اختیار کرو تو اللہ تمہیں فیصلہ کن طرز عمل اور فیصلہ کن رائے عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا ، تمہاری تقصیرات سے درگذر کرے گا اور اللہ کے ہاں جو کچھ تمہارے لیے دار آخرت میں تیار ہے وہ اس جہاں کے تمام غنائم و اموال سے کہیں زیادہ ہے۔

۔۔۔

درس نمبر 83 تشریح آیات : 1 ۔۔ تا۔۔ 29:۔

تفسیر آیات 1 تا 4 ۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأنْفَالِ قُلِ الأنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (1)إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (4)

اے پیغمبر لوگ تم سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہہ دو کہ یہ غنیمتیں اللہ اور اس کے رسول کی ہیں ، پس اللہ سے ڈرو اور آپ سکے باہم تعلقات ٹھیک رکھو۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ مومت تو وہ ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور جب ان پر آیات الہی کی تلاوت ہوتی ہے تو ان کے ایمان کو زیادہ کردیتی ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں اور مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔

ان آیات کے نزول کے بارے میں جو روایات وارد ہیں ، ان کا ایک بڑا حصہ ہم نے اس سورة کے تعارف کے ضمن میں نقل کیا تھا۔ یہاں ہم بعض دوسری روایات کا اضافہ کرتے ہیں۔ تاکہ وہ حالات قاری کے پیش نظر رہیں جن میں عموماً یہ سورت نازل ہوئی ہے۔ خصوصا جن حالات میں وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تعلق اموال غنیمت سے ہے۔ ان روایات سے یہ بات بھی معلوم ہوگی کہ مدینہ میں پہلی اسلامی حکومت کے قیام کے وقت جماعت مسلمہ کے خدوخال کیا تھے ؟ اور وہ کن عملی دشواریوں سے گزر رہی تھی۔

ابن کثیر فرماتے ہیں : ابو داود ، نسائی ، ابن جریر ، ابن مردویہ (الفاظ ان کے ہیں) ابن حبان ، اور حاکم نے بواسطہ داود ابن ابو ہند اور عکرمہ ، ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بدر کا دن آیا تو حضور ﷺ نے فرمایا " جس نے یہ یہ کیا ، اسے یہ یہ جزا ہوگی "۔ اسی طرح قوم کے نوجوان آگے بڑھ گئے اور بوڑھے لوگ جھنڈوں کے آس پاس رہے۔ جب اموال غنیمت کا وقت آیا تو انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے وہ مطالبات شروع کردئیے جن کا وعدہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا۔ تو بڑے لوگوں نے یہ کہا کہ تم لوگ ترجیحات کا مطالبہ نہ کرو کیونکہ ہم لوگ تمہارے لیے چادر تھے ، اگر تمہیں شکست ہوتی تو تم ہمارے پاس پناہ لیتے۔ اس پر ان دو گروہوں کے درمیان تنازعہ ہوگیا۔ اس موقعہ پر اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ یسئلونک عن الانفال تا واطیعو اللہ ورسولہ ان کنتم مومنین۔ اور ثوری نے کلبی سے ، ابو صالح سے ، ابن عباس سے یہ روایت کی ہے۔ کہتے ہیں : جب بدر کی جنگ ہوئی ، تو حضور نے فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا تو اس کے لیے یہ یہ انعام ہوگا اور جس نے کسی کو قید کیا تو اسے یہ یہ انعام دیا جائے گا "۔ اس موقع پر ابو الیسیر نے دو آدمیوں کو قیدی بنا لیا تو انہوں نے عرض کیا یہ لیجیے حضور آپ نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اس پر سعد ابن عبادہ کھڑے ہوئے اور فرمایا حضور اگر آپ نے ان لوگوں کو اس طرح غنائم دیے تو آپ کے ساتھیوں کے لیے کچھ نہ رہے گا۔ نیز ہم لوگ لڑائی کرنے سے اس لیے باز نہیں رہے کہ ہمیں اجر کی ضرورت نہ تھی یا ہم دشمن سے ڈرتے تھے۔ ہم یہاں اس لیے کھرے رہے کہ آپ کی حفاظت ہو۔ یہ نہ ہو کہ دشمن پیچھے سے آپ پر حملہ کردے۔ چناچہ اس پر کافی تنازعہ ہوگیا اور اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ یسئلونک عن الانفال قل الانفال للہ والرسول۔ انہوں نے کہا اور اسی سلسلے میں یہ آیات بھی نازل ہوئیں واعلموا انما غنمتم من شیئ فان للہ خمسہ الخ۔

امام احمد نے ایک روایت نقل کی۔ فرماتے ہیں : ابو معاویہ نے روایت کی ہے ، ابو اسحاق شیبانی سے ، محمد ابن عبیداللہ ثقفی سے ، سعد بن ابو وقاص سے ، یہ کہتے ہیں : بدر کی جنگ کے موقعہ پر میرے بھائی عمر قتل ہوگئے تھے ، میں نے سعید ابن العاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے لی۔ اس تلوار کا نام " ذوالکثیفہ " تھا۔ میں یہ تلوار لے کر حضور کے پاس آیا۔ حضور نے فرمایا جاؤ اور اسے مقبوضات میں پھینک دو ۔ کہتے ہیں ، میں تلوار پھینک کر لوٹا لیکن میرے حال کو صرف خدا ہی جانتا تھا کہ میرا بھائی بھی قتل ہوگیا اور میرے ہاتھ جو قیمتی چیز لگی تھی وہ بھی نہ مل سکی۔ میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ سورة انفال نازل ہوگئی۔ حضور نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ وہ تلوار لے لو جو تمہارے ہاتھ لگی تھی۔

امام احمد فرماتے ہیں ، اسود ابن عامر نے روایت کی ، ابوبکر سے ، عاصم ابن ابو النجود سے ، مصعب ابن سعد سے ، سعد ابن مالک سے۔ یہ کہتے ہیں : میں نے حضور سے کہا کہ آج اللہ نے مشرکین سے مجھے شفا عطا کی تو یہ تلوار آپ مجھے بخش دیں۔ حضور نے فرمایا یہ تلوار نہ میرے لیے ہے اور نہ تیرے لیے۔ اسے ادھر رکھ دو ۔ تو اس نے کہا کہ میں تلوار رکھ دی اور واپس ہوگیا۔ ممکن ہے کہ یہ تلوار اس شخص کو ملے جس نے میری طرح اس کا حق ادا نہ کیا ہو۔ اچانک میں نے سنا کہ ایک شخص پیچھے سمجھے پکار رہا ہے۔ کہتے ہیں میں نے یہی سمجھا کہ شاید میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوگئی۔ حضور نے فرمایا تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی ، اور یہ میری ملکیت نہ تھی اور اب یہ مجھے بخش دی گئی ہے لہذا اب یہ تمہاری ہے " اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۔ ابو داود ، ترمذی ، نسائی نے ابوبکر ابن عیاش سے یہ روایت نقل کی ہے۔ متعدد طریقوں سے امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔

ان روایات سے وہ فضا معلوم ہوجاتی ہے جس میں سورة انفال نازل ہوئی۔ انسان یہ روایات پڑھ کر ایک بار حیران سا ہوجاتا ہے کہ اہل بدر اور یہ باتیں ! اس لیے کہ ان میں تو وہ لوگ تھے جو یا تو مہاجرین تھے جنہوں نے مکہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا اور محض اپنے نظریات کی وجہ سے مدینہ چلے آئے تھے اور ان کی نظروں میں اس دنیا کے مفادات بہرحال ہیچ تھے۔ یا ان میں وہ انصار سابقین تھے جنہوں نے ان مہاجریین کو پناہ دی تھی اور انہیں اپنے علاقے اور اموال میں شریک کرلیا تھا۔ وہ ان کے ساتھ اس دنیا کے مفادات میں سے کسی مفاد میں بھی بخل نہ کرتے تھے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ: یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ محتاج ہوں۔

اس صورت حالات کی تشریح کی طرف اشارہ خود ان روایات میں موجود ہے۔ اس وقت مال غنیمت کا تعلق اس بہادری اور شجاعت سے تھا ، جس کا مظاہرہ ایک فوجی میدان جنگ میں کرتا تھا اور یہ مالی انعام اس بات کی علامت بھی ہوا کرتا تھا کہ انعام پانے والے نے داد شجاعت دی ہے اور اس دور میں لوگ اس بات کی خواہش رکھتے تھے کہ انہیں رسول اللہ کے ہاتھوں انعام خصوصی ملے جو براہ راست اللہ کی طرف سے انعام تصور ہوگا۔ خصوصاً اس پہلے معرکے میں جو اسلام اور کفر کے درمیان برپا ہوا۔ اس حرص اور انعام کے اس لالچ میں ایک دوسری صفت دب کر رہ گئی اور بعض لوگوں نے اموال غنیمت کے بارے میں بات کی اور اللہ نے ان کو اس صفت کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا۔ وہ یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں ذرا حسن معاملت کی ضرورت ہے اور تمہاری قلبی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ چناچہ انہوں نے اس بات کو اچھی طرح محسوس کرلیا اور سمجھ گئے۔ ایک موقع پر حضرت عبادہ ابن الصامت نے فرمایا : " یہ آیات ہم اصحاب بدر کے بارے میں نازل ہوئیں۔ جب ہم نے اموال غنیمت میں اختلاف کیا اور اس میں ہم اخلاقی حدود سے آگے نکل گئے۔ اللہ ان اموال کو ہمارے اختیار سے نکال لایا اور رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں دے دیا "

اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کی عملی اور لسانی تربیت فرمائی۔ چناچہ اموال غنیمت کی تقسیم کے اختیارا ان سے لے لیے اور کلی طور پر نبی ﷺ کے ہاتھ میں دے دئیے۔ یہاں تک کہ تقسیم غنائم کے بارے میں تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔ لہذا اس معاملے میں ان کے لیے کسی تنازعے کا کوئی حق ہی نہ رہا۔ یہ اللہ کا فضل ہوگیا۔ رسول اللہ نے ان کے درمیان ان کی تقسیم اس طرح فرمائی جس طرح رب تعالیٰ نے آپ کو ہدایت دی۔ اس عملی اصلاح کے ساتھ ساتھ یہ طویل اور مسلسل ہدایت بھی ان کو دی گئیں اور یہ ہدایت اس سورة میں دور تک چلی گئیں۔ آغاز یوں ہوا :

يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : لوگ تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو " یہ انفال تو اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگر تم مومن ہو "

یہ سوال ان لوگوں کی جانب سے تھا جنہوں نے غنائم پر تنازعہ کیا تھا اور یہ پکار بھی انہی کے نام ہے کہ اللہ کا خوف کرو ، اللہ تمہارے دلوں کا خالق ہے اور تمہارے دلوں میں جو باتیں آتی ہیں ان کو وہ جانتا ہے۔ اللہ اس بات پر گرفت نہیں کرتا کہ کسی کے دل میں دنیاوی مقاصد کی خواہش کیوں آتی ہے۔ اور اس پر نزاع کیوں واقع ہوگیا۔ اگرچہ اس نزاع کی تہ میں یہ جذبہ تھا کہ رسول کے ہاتھوں ان کو انعام ملے جو ان کے حسن کار کردگی پر دلیل وبرہان ہو۔ لیکن اللہ نے دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے یہ ضروری قرار دیا کہ تم اپنے دلوں میں تقوی اور خدا خوفی کا جذبہ پیدا کرو ، اس لیے کہ جس دل کا تعلق باللہ نہ ہو اور وہ اللہ کے غضب سے نہ ڈرتا ہو اور اسے رضائے الہی کے حصول کی خواہش نہ ہو تو وہ ہر گز دنیاوی مفادات کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ کبھی بھی شعوری طور پر ان آلودگیوں سے دور نہیں ہوسکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ تقوی دلوں کی لگام ہے اور تقویٰ ہی کے ذریعے دلوں کی قیادت کی جاسکتی ہے اور بڑی ہی سہولت کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ قرآن کریم اول سے آخر تک انسان کی قیادت اسی تقوی اور تعلق باللہ کی لگام کے ذریعے کرتا ہے اور اس کو اصلاح کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔

قرآن کہتا ہے فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ : تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔ اور آگے کہا جاتا ہے کہ یہی وہ ذریعہ ہے جس کی وجہ سے تم اطاعت رسول کرسکتے ہو۔ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو "

اور اور رسول کی پہلی اطاعت یہ ہے کہ تم ان احکام کو تسلیم کرو جو اللہ کی طرف انفال کے بارے میں آ رہے ہیں۔ مثلاً اموال غنیمت کو اب مجاہدین کی ملکیت سے نکال دیا گیا ہے اور ان کی ملکیت اللہ اور رسول کو دے دی گئی ہے۔ لہذا اب ان کے بارے میں تصرف کا حق صرف اللہ اور رسول کو ہے۔ اہل ایمان کا فرض یہ ہے کہ اس کے بارے میں اللہ اور رسول کے احکام کو تسلیم کریں۔ اور اللہ کی ہدایات کے مطابق رسول اللہ کی تقسیم کو قبول کریں اور بطیب خاطر قبول کریں ، راضی برضا ہوں اور اپنے ما بین کے تعلقات کی اصلاح کریں اور اپنے شعور اور احساسات کو درست کریں اور اپنے دلوں کو ایک دوسرے کے معاملے میں صاف کرلیں۔ ان کنتم مومنین : اگر تم مومن ہو۔

یہ ضروری ہے کہ ایمان کی کوئی عملی اور واقعی صورت ہو۔ اور اس عملی صورت میں ایمان نظر آئے اور واضح طور پر نمایاں ہو۔ وہ مجسم شکل میں نظر آئے اور انسان کے اعمال اس کے ایمان کے ترجمان ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ لیس الایمان بالتمنی ولکن ھو ما وقرنی فی القلب و صدقۃ لاعمال : ایمان صرف تمنا نہیں ، یہ دل میں جاگزیں ہوتا ہے اور اعمال ایمان کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اس قسم کے فقرے فیصلہ کن انداز میں بار بار آتے ہیں اور ان سے مقصود یہی ہوتا ہے کہ ایمان کی حقیقت کیا ہے اور اس کا اعمال کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ ایمان صرف الفاظ کا نام نہیں ہے جو زبان پر جاری ہوتے ہیں ، یا وہ محض تمنا بھی نہیں ہے جو نہ عالم واقعہ میں کچھ حقیقت رکھتی ہو اور نہ عالم اعمال میں اس کا وجود ہو۔

اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ ایک سچے مومن کی حقیق صفات کیا ہوتی ہیں تاکہ ان کو یہ بتایا جائے کہ ان کنتم مومنین سے مراد کیا ہے ؟ چناچہ بتایا جاتا ہے کہ رب العالمین کے نزدیک مومن ایسا ہوتا ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ ۔ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ۔ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۭلَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ ۔ سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب پاس بڑے درجے ہیں (قصوروں سے درگذر ہے اور بہترین رزق ہے) ۔

لفظی اور نحوی اعتبار سے ان آیات کا طرز تعبیر نہایت ہی معنی خیز ہے اور نہایت ہی گہری معنویت رکھتا ہے۔ یہاں لفظ قصر (انما) استعمال کیا گیا ہے۔ اور یہاں کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ ہم لفظ انما کی قصر کی تاویل کریں جبکہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی تاکید سے ایک بات کہنا چاہتے ہیں ، تاویلات یوں کی گئی ہیں کہ اس سے مراد ایمان کامل ہے۔ اگر اللہ اس طرح کہنا چاہتا تو کہتا کہ کامل مومن وہ ہیں جو ایسے ایسے ہوں ، در حقیقت یہ ایک نہایت مفصل تعبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کا احساس و شعور ایسا ہو اور جن کے صفات و اعمال ایسے ہوں وہی درحقیقت مومن ہوتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے اندر یہ صفات و اعمال نہیں ہیں وہ مومن نہیں ہیں اس لیے کہ اس آیت کے آخر میں اس نکتے کی بتکرار تاکید کی گئی ہے : اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا : ایسے ہی لوگ فی الحقیقت مومن ہیں۔ اور جو لوگ فی الحقیقت مومن نہیں ہوتے وہ پھر کس طرح کے مومن کہلاتے ہیں۔ قرآن کی تعبیرات خود ایک دوسرے کی تشریح و تفسیر کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فماذا بعد الحق الا الضلال : حق سے آگے گمراہی کے سوا اور ہو کیا سکتا ہے۔ اس لیے جو حق نہ ہوگا وہ ضلالت ہوگی۔ میں یہ کہتا ہوں کہ المومنون حقا کے مقابلے کی تعبیر یہ نہیں ہوسکتی۔ المومنون ایمانا غیر۔۔۔ لہذا قرآن مجید کی اس قدر واضح اور دقیق انداز تعبیر کو تاویلات کے خراد پر نہیں چڑھانا چاہیے جن کی وجہ سے ہر صحیح تصور اور ہر صحیح تعبیر اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بعض سلف صالحین یہ کہتے تھے کہ جس شخص کے عقیدے کے اندر اور اعمال کے اندر یہ صفات نہ ہوں اس نے ایمان نہیں پایا۔ اور وہ سرے سے مومن ہی نہیں ہے۔ ابن کثیر میں ہے ، علی بن طلحہ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ آیت اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ میں درحقیقت منافقین کا ذکر ہے ، وہ جب نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ان کے دلوں میں کچھ بھی داخل نہیں ہوتا اور در حقیقت آیات الہیہ پر ایمان ہی نہیں رکھتے اور اللہ پر توکل ہی نہیں کرتے۔ اور جب لوگوں کے سامنے نہ ہوں تو ان کے ساتھ صلہ رحمی بھی نہیں کرتے اور وہ اپنے اموال کی زکوۃ بھی نہیں دیتے۔ تو اللہ نے ان منافقین کے بارے میں خبر دی کہ وہ مومن نہیں ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے حقیقی مومنوں کی صفات گنوا دیں۔ مثلاً :

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ " اہل ایمان وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں " اس طرح وہ اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا : " جب ان پر آیات الہیہ پڑھی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہوجاتا ہے۔ یعنی ان کی تصدیق میں اضافہ ہوتا ہے۔ وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ : " اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں "

آئندہ سطور میں ہم یہ ثابت کریں گے کہ ان حقائق کے بغیر سرے سے ایمان کا وجود ہی نہیں قائم رہتا۔ اور اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کی وجہ سے ایمان کامل ہوتا ہے اور نہ ہونے سے ناقص ہوتا ہے بلکہ سوال ایمان کے عدم یا وجود کا ہے : " اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں "۔ جب کوئی مومن کسی امر یا نہی کے سلسلے میں اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ان کے دل کے اندر ایک وجدانی ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ ان کے دل پر اللہ کی جلالت شان کی وجہ سے ہیت طاری ہوجاتی ہے اور ان کے دل میں خوف خدا کی لہریں اٹھتی ہیں ، اس طرح ان کی تقصیرات اور گناہوں کے بالمقابل اللہ کی ہیبت آ کھڑی ہوتی ہے اور اس طرح وہ باعث بنتی ہے عمل اور طاقت کا۔ جیسا کہ ام الدرداء ؓ نے کہا : الوجل فی القلب کافراق السعفۃ اما تجد لہ قشطریرہ ؟ قال بلی قالت اذا وجدت فاذا وجدت ذلک فادع اللہ عند ذلک فان الدعاء یذھب ذلک۔ " وجل " کا مطلب یوں سمجھیے کہ جب کسی کو پھنسیاں نکل آئیں تو اسے جلن ہوتی ہے۔ کیا تم ایسی حالت میں کپکپی محسوس نہیں کرتے۔ کہاں ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ فرمایا جب تم ایسی حالت کو پاؤ تو اللہ کو پکارو ، دعا کے نتیجے میں یہ حالت چلی جاتی ہے۔

غرض یہ وہ حالت ہے جس میں دل میں بےقرار پیدا ہوجاتی ہے اور ایسے حالات میں ذکر اور دعاء کے نتیجے میں انسان کو راحت اور قرار نصیب ہوتا ہے اور یہ وہ حالت ہے جب انسان کسی امر اور نہی کے معاملے میں اللہ کو یاد کرتا ہے۔ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا : اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ قلب مومن کے لیے فی الحقیقت ان آیات میں وہ نکات ہیں جو اس کے ایمان کے لیے اضافے کا باعث ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے مومن کو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔ قرآن قلب مومن کے ساتھ براہ راست سلوک اور برتاؤ کرتا ہے اور قرآن اور قلب مومن کے درمیان صرف کفر کا پردہ حائل ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے قرآن سے قلب محجوب ہوجاتا ہے اور قلب سے قرآن۔ جب ایمان کی وجہ سے حجاب اٹھتا ہے تو دل حلاوت قرآن کو محسوس کرنے لگتا ہے اور اس طرح قرآنی اثرات پڑتے پڑتے ایمان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کامل اطمینان کے مقام تک پہنچا جاتا ہے۔ جس طرح قرآن کے اثرات دل میں ایمان کی زیادتی کا باعث ہوتے ہیں۔ اسی طرح دل بھی قرآن کے اثرات کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ فقرہ بار بار آتا ہے۔ ان فی ذلک لایات للمومنین۔ بیشک اس میں مومنین کے لیے نشانیاں ہیں۔ اس فقرے میں اسی حقیقت کو دہرایا جاتا ہے۔ ان فی ذلک لایات لقوم یومنون۔ اس میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو ایمان لاتی ہے۔ اور بعض صحابہ کرام کے اس قول کا یہی مطلب ہے کہ " ہمیں قرآن دیے جانے سے قبل ایمان دیا جاتا تھا "۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام قرآن کے ساتھ ایک مخصوص تعلق اور ذوق رکھتے تھے۔ اور اس میں ان کی مدد وہ فضا کرتی تھی جس میں وہ باد نسیم کے جھونکے پاتے تھے جبکہ قرآن ان کی عملی زندگی تھا۔ ایک عمل تھا ، محض ذوق و ادراک نہ تھا۔ اس آیت کے نزول کی روایات میں ایک روایت سعد ابن مالک کا قول ہے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ درخواست کی تھی کہ ان کو مال غنیمت کے طور پر ایک تلوار دے دیں۔ اس وقت قرآن کی وہ آیات نازل نہ ہوئی تھیں جن میں غنائم کو حضور ﷺ کے اختیارات کی طرف لوٹا دیا گیا تھا۔ آپ کو نہ یہ اختیار دیا گیا تھا کہ آپ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں۔ اور حضور نے انہیں جواب دیا تھا : بیشک یہ تلوار نہ میری اور نہ تیری ہے۔ اسے اموال کے ساتھ رکھ دیں " جب سعد کو دوبارہ پیچھے سے پکارا گیا حالانکہ وہ تلوار رکھ کر واپس ہوگئے تھے تو وہ توقع رکھتے تھے کہ شاید اللہ نے اس معاملے میں کچھ آیات اتار دی ہیں۔ کہتے ہیں : " میں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں کچھ آیات نازل کردی ہیں ؟ " تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، تم نے مجھ سے تلوار کے لیے درخواست کی تھی ، حالانکہ اس وقت وہ میرے اختیار میں نہ تھی ، اب چونکہ اللہ نے غنائم مجھے دے دیے ہیں لہذا میں نے تجھے دے دی " یہ تھا ان لوگوں کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ اور یہ تھا ان کا سلوک اس قرآن کے ساتھ جو مسلسل نازل ہورہا تھا۔ یہ ایک عظیم طرز عمل ہے۔

انسانی تاریخ میں یہ ایک عجیب دور تھا۔ اس لیے وہ قرآن کو اس طرح چکھتے تھے اور اسے سنتے ہی اپنی عملی زندگی میں واقعیت دے دیتے تھے۔ ان کا یہ ذوق خاص اس واقعیت کو ایک نہایت ہی اچھی کیفیت عطا کردیتا تھا اور سامع اور قاری دونوں کو ایک دوسرے سے متاثر ہوتے تھے۔ اگرچہ یہ پہلا تجربہ تو دہرایا نہیں جاسکتا لیکن جب بھی اس کرہ ارض پر کوئی مومن گروہ وجود میں آتا ہے تو ایسے ہی تجربات سامنے آتے رہتے ہیں بشرطیکہ اٹھنے والی تحریکات دین کو اسی طرح قائم کرنے کا مقصد پیش نظر رکھتی ہوں جس طرح جماعت مسلمہ اولی کا مقصد تھا اور ایسی ہی جماعتیں جو کہیں کہیں اٹھتی ہیں اور جماعت اول کی طرح اقامت دین کا نصب العین رکھتی ہیں ، انہی کے اندر قرآن فہمی کا وہ ذوق پیدا ہوتا ہے ، جو جماعت اولیٰ کے مماثل ہوتا ہے۔ اس کی تلاوت سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان جماعتوں کے نزدیک دین اس تحریک کا نام ہوتا ہے جس کا مقصد دین کی اقامت ہو اور اس پہلے تجربے کو دہرانا مقصود ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک ایمان محض تمنا نہیں ہوتا بلکہ ایمان اس حقیقت کو کہا جاتا ہے جو دل میں اچھی طرح جاگزیں ہو اور عمل کی صورت میں اس کا ظہور ہو۔ وعلی ربہم یتوکلون اور وہ اپنے رب پر اعتماد کرتے ہیں۔ صرف رب پر۔ نحوی ترکیب کی رو سے اس کا یہی معنی ہے یعنی حصری۔

وہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرکے اس سے نہ استعانت کرتے ہیں اور نہ اس پر توکل کرتے ہیں۔ امام ابن کثیر نے لکھا ہے " وہ اس کے سوا کسی سے امید نہیں رکھتے ، کسی کی طرف قصد ہی نہیں کرتے ، کسی کے ہاں پانہ ہی نہیں لیتے ، کسی سے حوائج طلب نہیں کرتے ، کسی کی طرف ان کی رغبت اور میلان ہی نہیں ہوتا اور وہ جانتے ہیں کہ اللہ جو کچھ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو کچھ نہیں چاہتا ، نہیں ہوتا۔ وہ اس کائنات میں اکیلا صاحب اختیار ہے ، اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، نہ اس کے حکم سے کوئی سرتابی کرسکتا ہے۔ وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ چناچہ حضرت سعید ابن جبیر کہتے ہیں اللہ پر توکل کرنا ایمان کی لذت ہے۔

یہ تو ہے اللہ کی وحدانیت کے عقیدے کا اخلاص ، اللہ کی بندگی کا اخلاص ، لہذا اب یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک دل میں عقیدہ توحید بھی ہو اور اس کے ساتھ وہ شخص اللہ کے سوا اوروں پر بھروسہ بھی کرتا ہو۔ جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں پر بھروسہ کرتے ہیں اور دوسروں پر تکیہ کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ذرا غور سے اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور دیکھیں کہ آیا ان میں ایمان بھی ہے یا نہیں۔

ہاں اللہ پر توکل مانع اساب نہیں ہے کیونکہ مومن اسباب کو بھی ایمان اور اطاعت کی راہ سے لیتا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ مسبب الاسباب بھی اللہ ہے اور اسی نے انسان کو راہ اسباب اختایر کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن مومن کا یہ ایمان بھی ہوتا ہے کہ نتائج کا نکلنا اسباب پر موقوف نہیں ہے۔ جس طرح اسباب اللہ کی مخلوق و مقدور میں ہیں اسی طرح نتائج بھی اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ مومن کے شعور و عقیدہ میں یہ بات لازمی نہیں ہے کہ خدا کے مہیا کردہ اسباب کے بعد بھی نتائج نمودار ہوں۔ لہذا اسباب کا اختیار کرنا عبادت و اطاعت ہے اور نتائج اللہ کی تقدیر پر نمودار ہوں گے۔ نتائج کا صدور اللہ کی تقدیر کے تابع ہے۔ صرف اللہ چاہے تو نتائج نمودار ہوں گے۔ ایک مومن کے شعور میں اسباب و نتائج کے درمیان کوئی لازمی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک مومن کا شعور اسباب کی غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے اور اس آزادی کے ساتھ ساتھ ایک مومن اسباب کو برائے حصول ثواب اختیار کرتا ہے تاکہ وہ اللہ کا مطیع ہو۔

جاہلیت جدیدہ ابھی تک اپنے اس نظریہ کے تاریک سمندر میں غوطے کھا رہی ہے کہ اسباب و مسبب کا باہم تعلق قطع ہے اور قوانین طبعی اٹل ہیں تاکہ اللہ کی تقدیر اور اللہ کی غیبی قوت کی نفی کرسکیں۔ لیکن جونہی اس جاہلیت نے اس راہ پر ایک حد تک سفر طے کیا اسے معلوم ہوگیا کہ اس کے آگے تو اللہ کی تقدیر کی حدود شروع ہوگئی ہیں اور اس سرحد پر یہ جاہلیت حیران و پریشان کھڑی ہے اب اس نے عالم مادی میں قوانین طبیعت کے اٹل ہونے کے نظریے کو ترک کرکے " احتمالات " کا نظریہ اپنا لیا ہے۔ گویا پہلے جس چیز کو وہ اٹل کہتے تھے اب محتمل ہوگئی ہے اور عالم غیب کی جس سرحد پر یہ جاہلیت کھڑی ہے۔ اس سے آگے اس کے تمام راستے بند ہیں اور یہی حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ یہ تقدیر الٰہی ہی ہے جو اس عالم میں کام کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ آیت اس عالم غیب پر حکمران ہے۔ لاتدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا تمہیں نہیں معلوم کہ شاید اللہ اس کے بعد کوئی بات پیدا کردے۔ تقدیر الہیہ کا نظریہ ہی حتمی اور آخری نظریہ ہے۔ اور یہ نظریہ صاف کہتا ہے کہ اس دنیا کے مادی قوانین کے پیچھے ارادہ الہیہ کار فرما ہے اور اللہ کا ارادہ بےقید ہے۔ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے اور اس کا ارادہ مطلق اور آزاد ہے ۔ اپنے بنائے ہوئے نظام اسباب و مسبب کا پابند نہیں ہے۔

سر جیمس طبیعات اور ریاضی کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں : " قدیم سائنس یہ بات وثوق سے کہتی تھی کہ طبیعت صرف ایک ہی راہ لے سکتی ہے اور وہ وہی راہ ہے جو اس کے لیے اس کے چلنے سے پہلے ہی تجویز کردی گئی ہے۔ اس پر اسے آغاز سے لے کر انجام تک چلنا ہے۔ اور مسلسل اور دائما علل اور معلول کا قانون اس کائنات میں جاری ہے۔ اس بات میں تخلف نہیں ہوسکتا کہ حالت (الف) کے بعد حالت (ب) پیدا ہوگی۔ رہی جدید سائنس تو اس کی رو سے صرف ہی بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ حالت (ب) کے بعد اس بات کا احتمال ہے کہ حالت (ب) کے ظہور کا احتمال دوسرے احتمالات سے زیادہ ہے۔ یا ج کا احتمال (د) سے زیادہ ہے علی ھذا القیاس۔

نیز سائنس کے دائرہ قدرت کے اندر یہ بات بھی ہے کہ وہ (ب) ، (ج) اور (د) کے احتمالات کی نسبت کا تعین کردے۔ لیکن نتیجے کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنا مشکل ہے۔ کہ (الف) کی حالت کے بعد کون سی حالت کا ظہور ہوگا کیونکہ احتمال بہرحال احتمال ہوتا ہے لیکن کون سی حالت صادر ہوئی ہے۔ یہ پھر تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اب تقدیر کی حقیقت کیا ہے ، جو حقیقت بھی ہو " (تفصیلی بحث ہم آیت عندہ مفاتح الغیب میں کر آے ہٰں) (دیکھیے پارہ ہفتم ص)

جب قلب مومن اسباب ظاہریہ کے دباؤ سے آزاد ہوجائے تو پھر غیر اللہ پر بھروسہ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا۔ اس لیے کہ یہ اللہ کی تقدیر ہی ہے ، جس کے پیچھے سے سب کچھ نمودار ہورہا ہے اور یہی یقینی حقیقت ہے۔ رہے ظاہری اسباب تو ان کے نتیجے میں صرف حتمی احتمالات ہی وجود میں آسکتے ہیں۔ یہ ہے وہ عظیم انقلاب جو اسلامی نظریہ حیات انسانی قلب کے اندر پیدا کردیتا ہے اور اسی کے مطابق انسانی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ جدید جاہلیت تین سو سال تک اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہی اور پورے تین سو سال کے بعد وہ اس ابتدائی حقیقت کے دروازے تک پہنچ سکی ہے۔ یعنی کالص عقلی اعتبار سے۔ لیکن ابھی تک شعوری طور پر وہ اس حقیقت میں داخل نہیں ہوئی ہے اور نہ انسانیت نے ابھی تک وہ طرز عمل اختیار کیا ہے جو اللہ کے نظام قضا وقدر کے ساتھ اختیار کیا جانا چاہیے یا جو اسباب ظاہریہ کے ساتھ اختیار کیا جانا چاہیے۔ یہ انقلاب در اصل عقلی آزادی اور عقلی انقلاب ہے۔ شعوری انقلاب ، سیاسی انقلاب ہے۔ معاشرتی انقلاب ہے اور اخلاقی انقلاب ہے۔ اور کوئی انسان جب تک وہ اسباب کا غلام ہے اور طبیعت کو اٹل سمجھتا ہے ، آزاد نج ہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ جب وہ اسباب کو اٹل سمجھتا ہے تو پھر وہ انسانوں کے ارادے کا غلام بن جائے گا یا طبیعت کے ارادے کا غلام تصور ہوگا۔ کیونکہ اگر کوئی شخص اللہ کے ارادے اور تقدیر کے سوا کسی اور چیز کو بھی حتمی سمجھتا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہی کہ وہ آزاد نہیں ہے ، غلام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے حکم دیا کہ صرف اللہ پر بھروسہ کرو اور اللہ اور صرف اللہ پر بھروسہ ہی ایمان اور عدم ایمان پر دلالت ہے اسلام کا نظام تصورات ایک کل اور اکائی ہے۔ اور اس تصور حیات پر جو نظام تجویز ہوا ہے وہ بھی ایک کل ، متکامل اور اکائی ہے۔ الذین یقیمون الصلوۃ جو نماز قائم کرتے ہیں۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ایمان ایک متحرک صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس سے قبل جو حقائق بیان ہوئے ، ان میں ایمان ایک قلبی اور ذہنی حقیقت تھی ، جو نظر نہ آتی تھی۔ کیونکہ ایمان کی تعریف ہی یہ ہے جو دل میں پروقار طریقے سے بیٹھا ہو اور اعمال جوارح ہی اس کی تصدیق کر رہے ہوں کہ وہ ہے۔ لہذا عمل ایمان کی دلالت ظاہری ہے۔ اور یہ ظاہری علامات کا ظہور لابدی ہے تاکہ یہ گواہی فراہم ہوسکے کہ دلوں کے اندر ایمان موجود ہے۔

اقامت صلوۃ کا مفہوم صرف یہ نہیں ہے کہ نماز کو ادا کرلیا جائے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نماز کو حقیقی معنوں میں ادا کیا جائے یوں کہ نظر آے کہ نمازی اللہ کے حضور کھڑا ہے۔ نماز محض قیام قعود اور قراۃ ہی نہ ہو کہ رکوع و سجود ہو اور دل غافل ہو۔ نماز اگر صحیح طرح قائم ہو تو وہ ایمان پر گواہ ہے۔ و مما رزقنہم ینفقون۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ عام ہے خواہ زکوۃ ہو یا دوسرے صدقات ہوں جو بھی خرچ کیا جائے وہ اللہ کے دیے ہوئے سے ہوگا۔ اس لیے وہ اللہ کے دین کا حصہ تصور ہوگا۔ قرآن کی ہدایت کا اپنا رنگ ہوتا ہے اور اس کے اندر خاص تعبیری اشارات ہوتے ہیں۔ یہاں یہ اشارہ ہے کہ اس مال و دولت کو تم نے نہیں پیدا کیا۔ یہ تو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور تمہیں جو بھی دیا گیا ہے وہ اللہ کا دیا ہوا رزق ہے اور اللہ کا دیا ہوا اس قدر زیادہ ہے کہ انسان اسے گن ہی نہیں سکتا۔ اور جب انسان اللہ کے دیے ہوئے میں سے دیتا ہے تو ظاہر ہے اس کا ایک حصہ دیتا ہے اور باقی کو اپنے لیے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔

یہ وہ صفات ہیں جن کے اندر اللہ نے ایمان کو محدود کردیا ہے۔ ان صفات میں ایک تو اللہ کی وحدانیت کا اعتقاد ہے اور اس کی وحدانیت کو قبول کرتے ہوئے ذکر الہی اور پھر اللہ کی آیات اور ذکر الہی سے قلبی تاثر لینا ، پھر اللہ وحدہ پر توکل کرنا ، پھر اقامت صلوۃ کما حقہ ، اور سب سے آخر میں یہ کہ اللہ کے دیے ہوئے میں سے کچھ حصہ اس کی راہ میں صرف کرنا ، یہ ہیں اس مقام پر علامات ایمان۔

یہ آیات وصفات در حقیقت ایمان کے اجزاء اور تفصیلات نہیں ہیں۔ جیسا کہ دوسری آیات میں ذکر ہوا ہے بلکہ یہاں ایمان کی واقعی صورت حالات کو بیان کیا گیا ہے یعنی وہ واقعی صورت حالات جن میں انفال و غنائم کے بارے میں اختلاف ہوگیا اور اہل ایمان کے باہم تعلقات خراب ہوگئے۔ لہذا یہاں اہل ایمان کو مومنین کی صفات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ اہل ایمان کی صفات ایسی ہوتی ہیں لیکن اگر ان صفات میں سے کسی میں کوئی صفت بھی موجود نہ ہو تو ایسے لوگوں سے حقیقت ایمان عملا منفی ہوسکتی ہے۔ لہذا یہ صفات ایمان کی اساسی علامات ہیں ، چاہے یہ ایمان کی پوری صفات ہوں یا پوری نہ ہوں ، کیونکہ یہ اسلامی نظام کی تربیت کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ مخصوص حالات کے لیے ایمان کی کون سی شائط کا تذکرہ کرتا ہے اور کون سی شرائط کا نہیں کرتا۔ کیونکہ اسلامی منہاج تربیت ایک عملی اور حقیقت پسندانہ منہاج ہے۔ یہ محض نظریاتی طریقہ کار نہیں ہے کہ وہ ایک نظریہ کو وضع کرے اور اسے پھیلائے فقط۔ اسی قاعدے کے مطابق یہ آخری تبصرہ ہوتا ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۭلَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ ۔

ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں۔ قصور سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔

یہ وہ صفات ہیں جو کوئی بھی حقیقی مومن اپنے نفس اور اپنے اعمال کے اندر موجود پاتا ہے۔ اگر یہ تمام صفات کسی کی ذات سے غآئب ہوں تو گویا اس میں ایمان کی کوئی صفت نہیں ہے۔ یہ آیات چونکہ ایک واقعی صورت حالات کی طرف مخاطب ہیں اس لیے ان کا تقاضا یہ ہے کہ مخصوص حالات میں جس کار کردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے اجر عظیم ہے اور جن لوگوں کے اندر یہ صفات ہیں ان کے لی اللہ کے نزدیک اجر عظیم ہے اور بڑے درجے ہیں۔ اسی طرح ان میں ان واقعات کی طرف بھی اشارہ ہے جو اس وقت اہل ایمان کے درمیان رونما ہوئے جیسا کہ حضرت عبادہ ابن الصامت نے فرمایا تو ان آیات میں کہا گیا کہ ان لوگوں کے لیے مغفرت ہے۔ اور جن لوگتوں نے اموال کے لیے نزاع کیا ان کے لیے بہترین رزق ہے۔ لہذا ان آیات میں ان جزوی واقعات کی طرف بھی اشارہ ہے۔ اور اپنی جگہ بات اصولی طور پر کہہ دی گئی ہے کہ مومن ایسے ہوتے ہیں۔ یہ ان کی صفات ہیں اور جس میں یہ نہ ہوں وہ اپنے ایمان کی خبر لے۔ اولئک ھم المومنون حقا۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔

پہلی اسلامی جماعت کو یہ بات سکھائی جا رہی ہے کہ ایمان کی ایک حقیقت ہے اور ہر مومن کو چاہیے کہ اس کے نفس میں وہ حقائق پائے جائیں ، ایمان محض دعای نہیں ہے۔ نہ ایمان چند کلمات کا نام ہے اور نہ چند معصوم تمناؤں کا نام ہے۔ حافظ طبرانی ایک روایت کرتے ہیں محمد بن عبداللہ حضرمی سے ، ابوبکر سے ، ابن بن الحباب سے ، ابن لہیعہ سے ، خالد ابن یزید سس کی سے ، سعید ابن بلال سے ، محمد ابن ابوالجہم سے ، حارث ابن مالک انصاری سے ، یہ کہتے ہیں : کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اور رسول اللہ نے کہا : حارث تم صبح کیسے اٹھے ؟ تو حارث نے کہا " میں ایک سچے مومن کی طرح اٹھا ہوں "۔ آپ نے فرمایا ذرا دیکھو کیا کہہ رہے ہو ؟ کیونکہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ بتاؤ تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ حارث نے کہا " میں نے دنیا سے نفرت کرلی ہے ، رات کو جاگتا ہوں اور دن کو مطمئن رہتا ہوں۔ میری حالت یہ ہے کہ گویا میں اللہ کے عرش عظیم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ گویا میں اہل جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور میں اہل جہنم کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک دوسرے پر لعنت کر رہے ہیں۔

حضور نے فرمایا : " حارث تم نے پا لیا ہے لہذا اسے پکڑے رکھو " یہ بات آپ نے تین بار کہی۔ یہ صحابی جو رسول اللہ کی طرف سے سند معرفت کے مستحق قرار پائے انہوں نے اپنے نفس کا حال بیان کرتے ہوئے ایسی باتوں کا ذکر کیا جس سے اس کے شعور کا اچھی طرح اظہار ہوتا ہے اور اس نے ایسی چیزوں کا تذکرہ بھی کیا جن کا تعلق اعمال و حرکات سے ہے ، گویا وہ عرش ربی کو دیکھ رہا ہے۔ اہل جنت کو دیکھ رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور اہل جہنم کو دیکھ رہا ہے۔

یہ صحابی محض نظریات کی بات نہیں کرتے۔ وہ مسلسل اعمال کی بات کرتے ہیں۔ یہ اعمال اور حرکات اسی شعور سمیت اس کی زندگی پر حاوی ہیں۔ وہ رات کو جاگتے اور دن کو اطمینان کے ساتھ سوتے ہیں اور یقین ایسا ہے کہ انہیں سب کچھ نظر آ رہا ہے۔

حقیقت ایمان کے بارے میں ہمیں بہت ہی سنجیدہ ہونا چاہیے۔ اس لیے اس معاملے میں ہمیں اس قدر لبرل نہیں ہونا چاہیے۔ ایمان چند کلمات کا نام رہ جائے جو زبان پر جاری ہوتے رہیں لیکن عملی زندگی اس کے برعکس گواہی دے رہی ہو۔ تو یہ حالت حقیقت ایمان سے خالی ہے احتیاط کے معنی یہ نہیں کہ ہم ایمان کے بارے میں صرف لبرل ہوجائیں۔ ایمان کی شعوری حقیقت کا وجود لازمی ہے۔ اور اس کے تصور میں احتیاط ضروری ہے۔ خصوصا ان لوگوں کے معاملے میں جن کا دعوی یہ ہے کہ وہ امامت دین کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے اٹھے ہیں جبکہ آج یہ لوگ جس آبادی میں اقامت دین کا کام کرنے اٹھے وہ مکمل جاہلیت میں ڈوبی ہوئی ہے اور جاہلیت کے قالب میں ڈھل چکی ہے۔

۔۔۔

آیت 3 الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ۔۔اس سے انفاق فی سبیل اللہ مراد ہے۔ یعنی وہ لوگ اللہ کے دین کے لیے خرچ کرتے ہیں۔

آیت 3 - سورۃ الانفال: (الذين يقيمون الصلاة ومما رزقناهم ينفقون...) - اردو