سورۃ الانفال: آیت 2 - إنما المؤمنون الذين إذا ذكر... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ الانفال

إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتُهُۥ زَادَتْهُمْ إِيمَٰنًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

اردو ترجمہ

سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama almuminoona allatheena itha thukira Allahu wajilat quloobuhum waitha tuliyat AAalayhim ayatuhu zadathum eemanan waAAala rabbihim yatawakkaloona

آیت 2 کی تفسیر

(سورۃ کے تعارف کا تیسرا حصہ)

حضور ﷺ نے عمار ابن یاسر اور عبداللہ ابن مسعود کو بھیجا تاکہ وہ دشمن کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ انہوں نے دشمن کی قیام گاہ کے گرد چکر لگایا اور واپس آکر حضور ﷺ کو یہ رپورٹ دی کہ دشمن بہت پریشان حال ہے اور یہ کہ بارش ان پر خوب برس رہی ہے۔

جب رسول اللہ ﷺ کنویں پر اترے تو آپ کے لیے ایک چبوترہ بنایا گیا ، کھجور کی شاخوں سے اور حضرت سعد ابن معاذ اپنی تلوار سونت کر اس کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ حضور ﷺ نے میدان جنگ میں گشت کیا۔ اور آپ نے اپنے ساتھیوں کو قریش کے سرداروں میں سے ایک ایک کی قتل گاہ بتائی۔ آپ فرماتے یہاں فلان قتل ہوگا ، یہاں فلاں قتل ہوگا ، یہ سب قتل ہوئے اور ان میں سے کوئی بھی حضور اکرم ﷺ کی مقرر کردہ جگہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں کی صفوں کو درست کیا اور اپنے چبوترے کی طرف لوٹے۔ آپ کے ساتھ صرف حضرت ابوبکر تھے۔

ابن اسحاق کہتے ہیں ، قریش ساری رات سفر کرتے رہے اور صبح کے وقت مقابلے پر آگئے۔ جب حضور ﷺ نے قریش کو دیکھا تو آپ نے اس ٹیلے سے منہ پھیر کر اپنا چہرہ وادی کی طرف موڑ دیا اور اس وقت آپ نے یہ دعا فرمائی " اے اللہ یہ ہے قبیلہ قریش جو نہایت ہی کبر و غرور کے ساتھ بڑھتا چلا آ رہا ہے اور یہ تیری دشمنی میں آیا ہے ، اور تیرے رسول کی تکذیب کر رہا ہے۔ آج میں تیری اس امداد کا طلبگار ہوں جس کا تونے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ اے اللہ کل انہیں پیس کر رکھ دیجیے "۔ حضور ﷺ یہ کہہ رہے تھے۔ آپ کی نظر عتبہ ابن ربیعہ پر پری جو سرخ اونٹ پر سوار تھے۔ وہ قریش کے ساتھ تھے۔ آپ نے فرمایا اگر اہل قریش میں سے کسی کے ہاں کوئی بھلائی ہوسکتی ہے تو صرف سرخ اونٹ والے سوار کے ہاں ہوسکتی ہے۔

حفاف ابن ایما ابن رحضہ الغفاری نے یا اس کے باپ ایما نے اہل قریش کو اپنے بیٹے کے ہاتھ کچھ مویشی برائے ذبح بھیجے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ اگر تم چاہو تو ہم تمہیں اسلحہ اور افراد کی امداد بھی دے سکتے ہیں۔ قریش نے اس کے بیٹے کے ذریعے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تونے صلہ رحمی کا حق ادا کردیا ہے۔ اور تم پر جو حق تھا وہ تم نے ادا کردیا ہے اور کہا خدا کی قسم اگر ہم انسانوں سے لڑنے نکلے ہیں تو انسانوں کے مقابلے میں ہم اپنے اندر کوئی کمزوری محسوس نہیں کرتے۔ اور اگر ہماری یہ جنگ خدا کے خلاف ہے جس طرح محمد سمجھتے ہیں تو خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی طاقت نہیں ہے۔

جب لوگ اپنی منزل پر اترے تو حضور ﷺ کے تیار کردہ حوض پر کچھ لوگ پانی لینے آئے۔ ان میں حکیم ابن حزام بھی تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : " انہیں پانی پینے دو "۔ غرض اس حوض سے جس نے بھی پانی پیا۔ وہ مارا گیا ماسوائے حکیم ابن حزام کے ، یہ بعد میں مسلمان ہوگئے اور بہت اچھے مسلمان بنے اور جب حلف اٹھاتے اور بہت تاکید کرتے تو کہتے اس خدا کی قسم جس نے مجھے بدر کے دن نجات دی۔

ابن اسحاق کہتے ہیں : مجھے ابو اسحاق ابن یسار جمحی انصار کے دوسرے اکابر نے بتایا کہ جب اہل قریش نے اطمینان سے پڑاؤ کرلیا تو انہوں نے عمر ابن وہب جمحی کو بھیجا کہ وہ اصحاب محمد کا اندازہ لگا کر بتائیں کہ اسلامی لشکر کی کوئی خفیہ فوج بھی ہے یا کوئی امدادی فوج ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ دو بار وادی میں دور تک گیا۔ اسے کچھ نظر نہ آیا اور واپس آ کر رپوٹ دی کہ مجھے کچھ سراغ نہیں ملا۔ لیکن اے اہل قریش میں ایک ایسی مصیبت دیکھ رہا ہوں جس میں بہت لوگوں کی موت ہے۔ یثرت کے ترشح میں موت واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ ہمارا مقابلہ ایسی قوم سے ہے جن کا دفاع اور جن کا قلعہ صرف ان کی تلواریں ہیں۔ خدا کی قسم میں یہ نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کوئی شخص مارا جائے گا الا یہ کہ وہ ہم سے ایک آدمی کو قتل کردے۔ اگر وہ اپنی تعداد جتنے لوگ بھی ہم سے مار لیں تو ہمارے لیے زندہ رہنے میں کوئی مزہ نہ ہوگا۔ اس لیے مناسب ہے کہ آپ لوتگ اس جنگ کے بارے میں سوچ لیں۔

جب حکیم ابن حزام نے یہ باتیں سنیں تو وہ لوگوں میں گھوما اور اس نے سب سے پہلے عتبہ بن ربیعہ سے ملاقات کی۔ اس نے کہا : " اے ابو الولید ! تم قریش کے معمر بزرگ اور سردار ہو اس میں تمہاری بات بھی چلتی ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ تمہاری ایک بھلائی کو قوم قیامت تک یاد رکھے "۔ اس نے کہا " حکیم وہ کیا بھلائی ہے "۔ حکیم نے کہا بھلائی یہ ہے کہ تم لوگوں کو لے کر واپس ہوجاؤ۔ اور تمہارے حلیف عمرو ابن الحضرمی کا معاملہ تمہارے اوپر عائد ہو۔ اس نے جواب دیا مجھے یہ منظور ہے۔ تم اس پر میرے گواہ ہو۔ وہ میرا حلیف ہیے ، اس لیے اس کی دیت میرے ذمہ ہوگی۔ (یعنی اس کے بھائی کی دیت جو مسلمانوں کے ہاتھوں عبداللہ ابن جحش کے سریہ میں مارا گیا تھا) ۔ نیز مسلمانوں نے اس سے جو مال لیا تھا وہ بھی میرے ذمہ ہے۔ لیکن مناسب ہے کہ تم حنطیہ کے بیٹے کے پاس جاؤ کیونکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے اندر اختلافات پیدا ہوجائیں گے۔ اس سے ان کی مراد ابوجہل سے تھی۔ اس کے بعد عتبہ ابن ربیعہ نے ایک تقریر کی۔

" اے اہل قریش خدا کی قسم تم محمد اور اصحاب محمد سے کیا لوگے ، اگر تم نے انہیں قتل کردیا تو تم سے کوئی شخص پسند نہ کرے گا کہ وہ مقتول کو دیکھے اس لیے کہ اس کا مقتول یا اس کا چچا زاد ہوگا یا خالہ زاد ہوگا یا اس کے خاندان میں سے کوئی ہوگا۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ تم لوگ لوٹ جاؤ اور محمد اور تمام عربوں کو مقابلہ کرنے دو ، اگر عربوں نے اسے قتل کردیا تو تمہاری مراد پوری ہوئی اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت حال ہو تو تم اسے اس حال میں ملوگے کہ تم نے اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا ہوگا۔

اس تقریر کے بعد میں ابوجہل کے پاس آیا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی زرہ تھیلے سے نکالی ہوئی ہے اور اسے وہ تیار کر رہا ہے۔ میں نے اسے کہا اے ابوالحکم مجھے عتبہ نے آپ کے پاس یہ تجاویز دے کر بھیجا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ محمد اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے ہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ خدا کی قسم ہم ہر گز واپس نہ ہوں گے ، جب تک کہ اللہ ہمارے اور محمد کے درمیان فیصلہ نہیں کردیتا اور عتبہ جو باتیں کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دیکھ لیا ہے کہ محمد اور اس کے ساتھی جانور ذبح کرکے کھا کر رہے اور ان میں ان کے بیٹے ابوحذیفہ بھی ہیں جو مسلمان ہوگئے اور عتبہ کو ڈر ہے کہ لشکر قریش کے ہاتھوں وہ قتل نہ ہوجائیں۔

اس کے بعد اس نے عامر الحضرمی کو یہ پیغام بھیجا کہ دیکھو عتبہ تمہارا حلیف ہے اور وہ لوگوں کو لے کر واپس جانا چاہتا ہے حالانکہ تم نے اپنے شکار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ، اس لیے آپ انہیں اور اپنے عہد کا واسطہ دلائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں کہ تمہارے بھائی قتل ہوچکے ہیں۔ اس پر عامر الحضرمی اٹھا اور اپنے آپ کو ننگا کرکے چلایا " اے عمر ، اب جنگ شروع ہوگئی اور لوگوں کے درمیان معرکہ تیز ہونے لگا ، اور انہوں نے جس فتنے کا فیصلہ کر رکھا تھا اس پر پر عزم ہوگئے اور لوگوں کے ذہنوں سے وہ بات نکل گئی جس کی طرف عتبہ لوگوں کو بلا رہے تھے۔ جب عتبہ کو معلوم ہوا کہ ابوجہل یہ باتیں کرتا ہے تو اس نے کہا کہ عنقریب اس کے چوتروں کی زردی کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ میرے یا اس کے۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اسود بن عبدالاسد مخزومی ایک نہایت ہی جری اور بد مزاج شخص تھے۔ انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم میں ان کے حوض سے پانی پیوں گا یا اسے منہدم کردوں گا اور یا اس حوض کے پاس قتل ہوجاؤں گا۔ جب وہ نکلا تو حمزہ ابن عبدالمطلب اس کی طرف بڑھے۔ جب حضرت حمزہ نے اس پر وار کیا تو اس کی ایک ٹانگ کو اڑا دیا۔ یہ اس وقت حوض کے قریب تھے۔ وہ پشت کی جانب پر گر پڑے اور اس کی ٹانگ سے خون کے فوارے اپنے ساتھیوں کی جانب چھوٹ رہے تھے لیکن وہ پیٹ کے بل حوض کی طرف بڑھا اور حوض میں گھس گیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس نے اپنی قسم پوری کردی ہے ، لیکن حضرت حمزہ نے اس کا پیچھا کیا اور ایک ہی وار کرکے اسے حوض کے اندر قتل کردیا۔

اس کے بعد عتبہ ابن ربیعہ نکلے ، اس کے ساتھ اس کے بھائی شیبہ اور بیٹا ولید ابن عتبہ بھی تھے۔ جب یہ لوگ اپنی صف سے جدا ہوئے تو انہوں نے دعوت مبارزت دی۔ ان کے مقابلے میں انصار میں سے تین نوجوان آگے بڑھے جن کے نام عوف ، معوذ بسران حارث جن کی والدہ عفرا تھی اور ایک شخص دوسرا تھا۔ یعنی عبداللہ ابن رواحہ۔ عتبہ کے گروپ نے کہا کہ تم کون ہو ؟ تو انہوں نے کہا ہم انصاری ہیں۔ اس پر عتبہ نے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی کام نہیں ہے۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ عتبہ نے ان انصاری حضرات سے کہا کہ تم ہمارے معزز ہم پلہ ہو لیکن ہمارا مقصد اپنے بھائیوں سے لڑنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے آواز دی اے محمد تم ہمارے مقابلے میں ہماری قوم کے ہم پلہ لوگوں کو سامنے لاؤ۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : عبیدہ ابن الحارث ، حمزہ اور علی تم نکلو۔ جب یہ لوگ نکلے اور عتبہ گروپ کے قریب گئے تو انہوں نے یہی سوال کیا تم کون ہو ؟ عبیدہ نے کہا میں عبیدہ ہوں ، حمزہ نے کہا میں حمزہ ہوں۔ اور علی کہا میں علی ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا ہاں تم معزز ہم پلہ ہو۔ عبیدہ نے جو سن رسیدہ تھے عتبہ ابن ربیعہ کو دعوت مبارزت دی اور حمزہ نے شیبہ ابن ربیعہ کو اور حضرت علی ، نے ولید بن عتبہ کو۔ حمزہ نے تو شیبہ کو ایک وار ہی میں ختم کردیا۔ اور علی نے ولید کو ایک ہی وار میں قتل کردیا۔ عبیدہ اور عتبہ کے درمیان دو دو وار ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو ایسا زخمی کردیا کہ جگہ سے حرکت ممکن نہ رہی۔ لیکن حضرت اور حضرت حمزہ عتبہ کی طرف لوٹے اور اس کا کام تمام کرکے اپنے ساتھی کو اٹھا کر اپنے کیمپ میں لے گئے۔

اب لوگ آگے بڑھے اور جنگ شروع ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اس وقت تک حملہ نہ کریں جب تک آپ انہیں حکم نہ دیں۔ اور اگر وہ لوگ حملہ آور ہوں تو نیزوں کے ذریعہ مدافعت کریں۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے صفیں درست کیں اور آپ اپنے چبوترے کی طرف لوٹ گئے۔ آپ اندر گئے اور اس وقت آپ کے ساتھ صرف ابوبکر تھے اور کوئی نہ تھا۔ حضور ﷺ اپنے رب کو پکار رہے تھے اور وہ وعدہ یاد دلا رہے تھے جو آپ کے ساتھ نصرت کے بارے میں ہوا تھا۔ اور باتوں کے علاوہ آپ نے اس پکار کے موقعہ پر یہ باتیں کہیں۔ " اے اللہ ! اگر یہ مٹھی بھر لوگ آج قتل ہوگئے تو تیری بندگی کبھی نہ ہوگی " حضرت ابوبکر فرما رہے تھے۔ آپ اپنی دعا کو کم کردیں۔ اللہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے۔

امتاع الاسماع مصنفہ مقریزی میں ہے کہ عبداللہ ابن روحہ نے حضور اکرم ﷺ سے کہا کہ حضور میں آپ یہ مشورہ دیتا ہوں حالانکہ آپ کو کسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہ اللہ کو اس کے وعدوں کی یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہے۔ تو آپ نے فرمایا ابن رواحہ ، کیا میں اللہ تعالیٰ کو وعدہ یاد نہ دلاؤں۔ اللہ تو وعدہ پورا کرنے والے ہیں ، کبھی خلاف نہیں کرتے۔

ابن اسحاق نے کہا ، جب رسول اللہ ﷺ چبوترے میں تھے تو آپ کو قدرے اونگھ نے آ لیا۔ جب آپ جاگے تو فرمایا : ابوبکر مبارک ہو ، اللہ کی مدد اگئی۔ یہ ہیں جبرئیل اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے چلے آ رہے ہیں اور اس کی دونوں جانب غبار اٹھ رہا ہے۔

حضرت عمر ؓ کے آزاد کردہ غلام مہجع کو ایک تیر لگا اور وہ شہید ہوگیا۔ یہ مسلمانوں میں سے پہلا مقتول تھا۔ اس کے بعد حارثہ ابن سراقہ نے بنی عدی ابن نجار کے ایک شخص کو تیر مارا اور اسے ہلاک کردیا۔ یہ شخص حوض سے پانی پی رہے تھے۔ تیر اس شخص کی گردن میں لگا اور وہ شہید ہوگیا۔

اس کے بعد حضور ﷺ چبوترے سے نکلے اور آپ نے لوگوں کو جنگ کرنے پر اکسایا۔ آپ نے فرمایا : " خدا کی قسم آج جو شخص بھی صبر ، تحمل سے فی سبیل اللہ لڑا اور وہ آگے ہی بڑھتا رہا اور پیٹھ نہ پھیری وہ لازماً جنت میں دخل ہوگا "

ایک شخڑ عمر ابن الہمام بنی سلمہ کے بھائی تھے جو اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ بات سنی اور کہا بہت خوب ! حضور کیا میرے اور جنت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کردیں ؟ اس کے بعد اس نے وہ کھجوریں پھینک دیں۔ تلوار لی اور خوب لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔

ابن اسحاق نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص عوف ابن الحارث نے جو " عفرا " کا بیٹآ تھا ، نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ اپنے بندے کے کس فعل پر ہنس دیتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ اس بات سے ہنس پڑتا ہے کہ ایک شخص کے جسم پر زرہ بھی نہ ہو اور وہ تلوار لے کر دشمن کی صفوں میں گھس جائے۔ چناچہ اس نے جو زرہ پہنی ہوئی تھی اسے اتار پھینکا۔ اس کے بعد تلوار لی اور دشمن کی صفوں میں گھس گیا اور اس قدر لڑا کہ شہید ہوا۔

ابن اسحاق نے زہری سے ایک روایت نقل کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جب لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو ابوجہل نے کہا ، اے اللہ ہم سے جو قطع رحمی کرنے والا ہو اور ایسے کام کرنے والا ایسے کام کرنے والا ہو جو معروف نہ ہو تو کل اسے شکست دے دے ، چناچہ اس کی دعا قبول ہوئی۔

ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مٹھی ریت لی اور اسے قریش کی طرف پھینکا اور فرمایا شاہت الوجوہ اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ زور لگاؤ اور اس کے بعد مخالفین کو شکست ہوئی اور قریش کے سرداروں میں سے اکثر مارے گئے اور باقی گرفتار ہوئے۔

جب لوگوں نے قتل سے ہاتھ کھینچ لیے اور لوگوں کو گرفتار کرنے لگے اور رسول خدا ﷺ نے دیکھا کہ سعد ابن معاذ کے چہرے پر کراہت کے آثار نظر آتے ہیں کیونکہ لوگ مخالفین کو قتل کرنے کے بجائے گرفتار کر رہے تھے تو حضور ﷺ نے انہیں مخاطب کر کے کہا " خدا کی قسم اور شاید تم لوگوں کی اس حرکت کو ناپسند کرتے ہو "

اس نے کہا ہاں جناب میں اسے ناپسند کرتا ہوں۔ یہ پہلا معرکہ ہے جس میں کفر و اسلام کا تصادم ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معرکے میں دشمن کا پوری طرح کچل دینا ہمارے لیے اس سے بہتر تھا کہ ہم انہیں گرفتار کرتے۔

ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس کی ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو یہ حکم دیا تھا کہ بنی ہاشم میں سے بعض لوگ مجبوراً اس لشکر میں آئے ہیں اور وہ ہمارے خلاف لڑنا نہیں چاہتے۔ اس لیے تم میں سے جو شخص بنی ہاشم میں سے کسی کے سامنے آئے تو انہیں قتل نہ کرے۔ اور جو شخص ابوالبختری ابن ہشام ابن الحارث ابن اسد کو پائے اسے بھی قتل نہ کرے۔ اور جو شخص عباس ابن عبدالمطلب کو پائے اسے بھی قتل نہ کرے۔ کیونکہ حضرت عباس مجبورا لشکر کے ساتھ آگئے ہیں۔ اس پر ابوحذیفہ ابن عتبہ ابن ربیعہ نے کہا (یہ مسلمان تھے) " کیا ہم اپنے باپوں ، بھائیوں اور بیٹوں اور خاندان کو قتل کریں اور عباس کو چھور دیں۔ خدا کی قسم اگر وہ مجھے ملا تو اسے مزہ چکھاؤں گا "۔ تو یہ بات حضر نبی ﷺ تک پہنچ گئی تو آپ نے حضرت عمر بن الخطاب سے کہا " اے ابو حفص (اور یہ پہلا دن تھا کہ حضور ﷺ نے مجھے اس کنیت کے ساتھ خطاب فرمایا " کیا رسول اللہ کے چچا کے چہرے کو تلوار سے مارا جائے گا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا رسول خدا مجھے اجاز دیجیے کہ میں اس کی گردن کو اڑا دوں۔ خدا کی قسم یہ منافق ہے۔ اس گفتگو کے بعد ابوحذیفہ کہا کرتے تھے کہ اس وقت میں نے جو بات کی میں آج تک اس سے ڈرتا ہوں اور میں ہمیشہ اس سے ڈرتا رہوں گا۔ الا یہ کہ شہادت پا کر میں اس کا کفارہ ادا کروں۔ بعد میں ابوحذیفہ مرتدین کے ساتھ جنگ میں یوم الیمامہ میں شہید ہوئے۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضور نے ابوالبختری کے قتل سے اس لیے روکا تھا کہ جب آپ مکہ میں تھے تو وہ لوگوں کو آپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے روکتا تھا۔ وہ حضور ﷺ نے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جو آپ کے لیے موجب اذیت ہوتی۔ اور قریش نے بنی ہاشم کے ساتھ بائیکاٹ کا جو معاہدہ لکھا تھا اس کے توڑنے والوں میں وہ بھی تھا۔ لیکن اس دن وہ اس لیے مارا گیا کہ اس نے قیدی بننے سے انکار کردیا۔

ابن اسحاق نے یحی ابن عباد سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے کہا کہ امیہ ابن خلف میرا دوست تھا۔ اور میرا نام جاہلیت میں عبد عمرو تھا۔ میں نے جب اسلام قبول کیا تو نام عبدالرحمن رکھ لیا۔ اس وقت ہم مکہ میں تھے۔ امیہ مجھے کہتا عبد عمرو تونے اپنے اس نام کو چھوڑ دیا جس کے ساتھ تمہارے باپ نے تجھے موسوم کیا تھا۔ میں کہتا ہاں۔ اس نے کہا میں رحمن کو نہیں جانتا اس لیے تم میرے لیے آپس کا کوئی نام تجویز کردو تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ پکاروں۔ اس لیے کہ تم پہلے نام کے ساتھ پکارنے کا جواب نہیں دیتے اور میں دوسرا نام نہیں لیتا جسے میں جانتا نہیں ہوں۔ جب وہ مجھے عبد عمرو کہتا ، میں جواب نہ دیتا۔ میں نے اسے کہا کہ تم ہی کوئی نام رکھ دو ، چناچہ اس نے میرا نام عبد الالہ رکھ دیا۔ اور جب ہم ملتے تو وہ مجھے عبدالالہ کہتا اور ہم باتیں کرتے۔ بدر کے دن میں نے دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے علی ابن امیہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور میں بعض زرہیں اٹھا کر جا رہا ہوں جو میں نے جنگ کے بعد لوٹ لی تھیں۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو اس نے کہا اے عبد عمرو ، تو میں نے جواب نہ دیا۔ اس پر اس نے کہا اے عبدالالہ تو میں نے کہا ہاں۔ کیا تمہیں ہمارے اندر کوئی دلچسپی ہے۔ میں سمجھتا ہوں میں تمہارے لیے ان زر ہوں سے زیادہ مفید رہوں گا جو تونے اٹھا رکھی ہیں۔ میں نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے کہ کہ میں نے زرہیں پھینک دیں۔ اور ان دونوں کو میں نے ہاتھ سے پکڑ لیا اور دونوں کو قیدی بنا لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایسا دن کبھی نہیں دیکھا۔ کیا تمہیں دودھ کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی مجھے جس نے قیدی بنایا تو میں اسے دودھ دینے والی اونٹنیاں فدیہ میں دوں گا۔ میں انہیں لے کر کیمپ میں چلا گیا۔

ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ عبدالرحمن ابن عوف نے بتایا کہ مجھے امیہ ابن خلف نے کہا ، اس وقت میں اس کے اور اس کے بیٹے کے درمیان تھا اور میں نے دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ عبد الالہ ، تم میں سے وہ شخص کون تھا جس نے اپنے سینے پر شتر مرغ کے پر لگا رکھے تھے ؟ کہتے ہیں ، میں نے کہا کہ وہ حمزہ ابن عبدالمطلب ہے۔ اس نے کہا کہ اس شخص نے ہمارے خلاف سخت کارہائے نمایاں کیے۔

عبدالرحمن کہتے ہیں ، کدا کی قسم میں ان لوگوں کو لے کر جا رہا تھا کہ اچانک اسے حضرت بلال نے میرے ساتھ دیکھ لیا اور یہ وہی شخص تھا جو حضرت بلال کو اذیت دیتا تھا اور مکہ میں اسے ترک اسلام پر مجبور کیا کرتا تھا۔ وہ اسے مکہ کے ریگستان کی طرف لے جاتا۔ جب یہ ریت گرم ہوتی ، تو یہ شخص انہیں الٹے لیٹاتا اور اس کے بعد ان کے سینے پر بڑا پتھر رکھ دیتا اور اس کے بعد کہتا کہ تم اسی طرح پڑے رہوگے الا یہ کہ تم دین محمد کو چھوڑ نہ دو ۔ اور بلال کہتے جاتے۔ احد احد۔ کہتے ہیں جب اسے بلال نے دیکھا وہ چلایا ، یہ تو رئیس الکفار امیہ ابن خلف ہے۔ اگر یہ بچ نکلا تو میں نے نجات نہ پائی۔ میں نے کہا کہ بلال تم میرے اسیر کے ساتھ یہ کرتے ہو۔ اس نے پھر کہا اگر یہ نجات پا گیا تو گویا مجھے نجات نہ ملی۔ میں نے پھر سختی سے کہا " اے کالی کے بیٹے تم سنتے نہیں ، اس نے پھر کہا اگر یہ نجات پا گیا تو میں مرا۔ کہتے ہیں اس کے بعد بلال نہایت ہی بلند آواز سے پکارا۔ اے اللہ کے انصار یہ ہے رئیس الکفار امیہ ابن خلف۔ اگر یہ بچ نکلا تو میں مر گیا۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے ہمیں گھیر لیا۔ لیکن میں ان دونوں سے لوگوں کو روکتا ہی رہا۔ پیچھے سے ایک آدمی آیا اور اس نے اس کے بیٹے پر وار کیا اور وہ گر گیا۔ اس کے بعد امیہ ابن خلف نے ایک چیخ نکالی۔ اس پر میں نے کہ جان بچاؤ تاکہ میں بھی بچ جاؤں خدا کی قسم اب میں کچھ نہیں کرسکتا۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے اپر تلواروں سے پے در پے وار کیے اور ان سے فارغ ہوگئے۔ عبدالرحمن کہا کرتے تھے۔ اللہ بلال پر رحم کرے کہ میری زرہیں بھی گئیں اور میرے قیدیوں کو بھی قتل کرکے اس نے مجھے دکھ پہنچایا۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ دشمن سے فارغ ہوئے تو حکم دیا گیا کہ مقتولوں میں سے ابوجہل کو تلاش کیا جائے۔ اور جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ معاذ ابن عمرو ابن الجموح بنی سلمہ کے بھائی نے کہا کہ میں نے لوگوں سے سنا کہ ابوجہل تک پہنچنا بہت مشکل ہے اور وہ اس وقت ایک درخت کی اوٹ میں تھا۔ جب میں نے یہ سنا تو میں نے ارادہ کرلیا کہ میں یہ کام کروں گا۔ میں اس کی طرف بڑھا۔ جب میرے لیے ممکن ہوا تو میں نے اس پر حملہ کردیا۔ میں نے اس پر ایک ایسا وار کیا کہ میں نے اس کے پاؤں کو نصف پنڈلی کے ساتھ اڑا دیا۔ جب اس کا پاؤں اڑا تو مجھے ایسا لگا جس طرح گٹھلی توڑنے والے پتھر کے نیچے سے گٹھلی اڑتی ہے۔ اس وار کے بعد اس کے بیٹے عکرمہ نے مجھے مارا اور میرے کاندھے پر ایسی چوٹ آئی کہ میرا بازو کٹ گیا اور وہ ایک جانب سے میرے پہلو میں چمڑے کے ساتھ لٹک رہا تھا۔ اب لڑائی میں جلدی اور تیزی آگئی۔ میں نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور پورا دن لڑتا رہا۔ اور یہ ہاتھ میری پشت کے ساتھ لٹکا رہا۔ جب اس نے مجھے بہت تنگ کیا تو میں اس پر اپنا پاؤں رکھا اور اسے کاٹ کر پھینک دیا۔

اس کے بعد معوذ ابن عفرا ابوجہل تک جا پہنچا اور اس وقت اس کی ٹانگ کٹی ہوئی تھی۔ اس نے اسے اس قدر زخمی کردیا کہ وہ اب حرکت کے قابل نہ رہا۔ اور معوذ لڑتا رہا یہاں تک کہ وہ قتل ہوگیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود ابوجہل تک جا پہنچا۔ یہ اس وقت ہوا جب حضور ﷺ نے حکم دیا تھا کہ ابوجہل کو مردوں میں تلاش کیا جائے۔ تلاش کرنے والوں کو رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا کہ اسے تلاش کرو۔ اگر اسے پہچاننے میں دقت ہو ، تو اس کے گھٹنے پر ایک زخم ہے اسے دیکھو اس لیے کہ میں اور وہ دونوں ایک دن عبداللہ ابن جدعان کی دعوت میں شریک تھے اور اس وقت ہم دونوں لڑکپن میں تے۔ اژدھام میں ، میں نے اسے دھ کہ دیا اور اگرچہ میں اس کے مقابلے میں دبلا پتلا تھا ، وہ گھٹنوں کے بل گرا۔ اس کا ایک گھٹنا اس قدر زخمی ہوا کہ زخم کے اثرات زائل نہ ہوئے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے اس اس حال میں تلاش کرلیا کہ وہ زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔ میں نے اپنا پاؤں اس کی گردن پر رکھا۔ اس نے مکہ میں ایک بار میرے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ مجھے مارا تھا اور مکہ لگائے تھے۔ اس کے بعد میں نے اسے کہا : اللہ کے دشمن تم نے جان لیا کہ آج اللہ نے تجھے ذلیل کیا ہے ؟ " مجھے کیوں ذلیل کیا ہے ؟ " اس نے کہا ، کیا تم نے مجھے سے کسی بڑے آدمی کو بھی قتل کردیا ہے۔ اس نے کہا یہ تو بتاؤ آج کی جنگ کس نے جیتی ؟ میں نے جواب دیا اللہ اور رسول اللہ نے۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بنی مخزوم کے بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ ابن مسعود نے کہا کہ اس نے مجھے یہ کہا کہ اے چرواہے ، تم ایک عظیم آدمی کی گردن پر سوار ہو ، جس پر سوار ہونا کوئی آسان کام نہ تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اس کی گردن کو تن سے جدا کیا اور لا کر رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا اور کہا اے رسول خدا یہ رہا خدا کے دشمن کا سر۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

ابن ہشام کہتے ہیں کہ مجھے مقامی کے ماہرین اہل علم نے بتایا کہ حضرت عمر ابن لخطاب نے سعید ابن العاص کو ایک مرتبہ یہ کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تجھے میرے بارے میں غلط فہمی ہے کہ شاید میں نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے۔ اگر میں نے اسے قتل کیا ہوتا تو میں اس کے قل کی ہرگز معذرت نہ کرتا۔ لیکن میں نے اپنے ماموں عاص ابن ہشام ابن المغیرہ کو قتل کیا تھا۔ رہا تمہارا باپ تو میں جنگ میں اس کے پاس سے گزرا تا۔ اس طرح لڑ رہا تھا جس طرح ایک بیل جنگ کے وقت اپنے سینگوں کے ساتھ زمین کو چیرتا ہے۔ تو میں اس سے ایک طرف ہوگیا اور مجھ سے آگے بڑھ کر اس کے چچا زاد نے اس کا رخ کیا اور اسے قتل کردیا۔

ابن اسحاق ، یزید ابن رومان ، عروہ ابن الزبیر کے واسطے سے حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں ، جب حضور نے حکم دیا کہ مقتولین کو ایک گڑے میں پھینکا جائے تو ایک گڑھا کھود کر سب کو اس میں پھینک دیا گیا ، ماسوائے امیہ ابن خلف کے کیونکہ وہ اپنی زرہ کے اندر پھول گیا تھا اور زوہ کو بھر دیا تھا ، لوگ اس کے پاس گئے اور اسے حرکت دی تو اس کا گوشت اپنی جگہ چھوڑ گیا۔ لوگوں نے اسے اسی جگہ چھوڑ دیا اور اس کے اوپر مٹی ڈال دی۔ جب تمام مقتولین کو گڑھے میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ گڑھے کے دہانے پر کھڑے ہوئے اور کہا : " اے گڑھے والو ، کیا تم نے وہ انجام دیکھ لیا جو تم سے تمہارے رب نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے تو وہ انجام دیکھ لیا جو مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا تھا پوری طرح۔ کہتے ہیں کہ اصحاب رسول نے آپ سے سوال کیا : " کہ آپ تو مردوں سے بات کر رہے ہیں " آپ کہا " حقیقت یہ ہے کہ وہ اب جانتے ہیں کہ ان سے ان کے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ سچ تھا " حضرت عائشہ کہتی ہیں لوگ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے یہ فرمایا : در حقیقت میں نے جو کہا وہ سنتے ہیں " حالانکہ حضور نے فرمایا تھا : " در اصل وہ جانتے ہیں کہ رب کا وعدہ سچا تھا "۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے حکم دیا کہ انہیں گڑھے میں پھینک دیا جائے تو عتبہ ابن ربیعہ کو گڑھے کی طرف کھینچا گیا تو حضور نے ان کی طرف دیکھا (یہ بات مجھ تک پہنچی ہے) کہ ابوحذیفہ ابن عتبہ نہایت ہی غمگین ہیں اور ان کا رنگ بدل گیا ہے تو آپ نے فرمایا : ابو حذیفہ ، شاید تمہارے باپ کی وجہ سے تم پر اثر ہوگیا ہے۔ یا جو الفاظ حضور نے کہے۔ ابوحذیفہ نے کہا " حضور خدا کی قسم ! ایسا نہیں ہے۔ مجھے اپنے باپ کے بارے میں کوئی شک نہیں اور نہ اس کے قتل کے بارے میں شک ہے ، لیکن میں جانتا تھا کہ میرا باپ بڑا مدبر ، بردبار اور صاحب علم آدمی تھا۔ اور میری دلی خواہش تھی کہ اللہ اسے اسلام کی طرف ہدایت دے۔ جب میں نے دیکھا کہ اس کی یہ حالت ہے اور مجھے جب یہ خیال آیا کہ یہ تو کفر کی حالت میں دیا سے چلا گیا اور میری آرزو پوری نہ ہوئی تو اس وجہ سے مجھے یہ دکھ ہوا۔ اس پر آپ ﷺ نے اس کے باپ کے لیے دعائے خیر فرمائی اور اس کے لیے بھی بہت اچھے کلمات کہے۔

اس کے بعد حضور ﷺ نے لشکر گاہ میں جو کچھ تھا ، اسے یکجا کرنے کا حکم دیا۔ تمام مال غنیمت یکجا کردیا گیا۔ اس کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ جن لوگوں نے مال جمع کیا تھا ، انہوں نے کہا کہ اس پر پورا ہمارا حق ہے کیونکہ ہم نے جمع کیا ہے اور جو لوگ دشمن کو مار رہے تھے اور اس کا تعاقب کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ اگر ہم نہ ہوتے تو تم کہا جمع کرتے۔ ہم نے دشمن کو مشغول رکھا ، اور تم نے مال جمع کیا۔ اور جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت پر مامور تھے انہوں نے کہا ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دشمن کے حملے سے بچایا ہے۔ لہذا تمہارے مقابلے میں ہمارا حق زیادہ ہے ، ہم نے یہ سامان اس وقت دیکھ لیا تھا ، مگر آپ کا محافظ کوئی نہ تھا۔ ہم اس بات سے ڈر گئے کہ اگر ہم چلے گئے تو دشمن آپ پر حملہ نہ کردے۔ لہذا ہم حفاظت میں رہے۔ چناچہ تم لوگ ہم سے زیادہ مستحق نہیں ہو۔

ابن اسحاق کہتے کہ عبدالرحمن ابن الحارث وغیرہ نے سلیمان ، مکحول اور ابو امامہ باہلی سے روایت کی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبادہ بن الصامت سے انفال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ سورة ہم اصحاب بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس وقت ہمارے درمیان انفال کے بارے میں اختلافات ہوگئے تھے اور اس کے بارے میں ہماری اخلاقی حالت اچھی نہ رہی تھی تو اس وجہ سے اللہ نے انفال کو ہم سے لے کر اسے رسول اللہ کے اختیار میں دے دیا ، تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے درمیان مساویانہ تقسیم کردی۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بنی عبدالدار کے بھائی نبیہ ابن وہب نے بتایا کہ حضور جب قیدیوں کی طرف لوٹے تو آپ نے انہیں اپنے ساتھیوں کے درمیان تقسیم کردیا۔ اور آپ نے ان کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے تو ابو عزیر ابن ہاشم ، مصعب ابن عمیر کے سگے بھائی تھے اور قیدی تھے۔ ابو عزیر نے بتایا کہ ایک انصاری مجھے گرفتار کر رہے تھے اور مصعب ابن عمیر میرے بھائی آگئے تو انہوں نے انصاری سے کہا کہ اسے خوب باندھیے کیونکہ ان کی والدہ مالدار خاتون ہیں وہ اس کا خوب فدیہ دیں گی۔ کہتے ہیں کہ جب میدان جنگ سے مجھے لے کر آئے تو میں انصاریوں کے پاس تھا۔ جب کھانے کا وقت ہوتا تو وہ لوگ مجھے روٹی دیتے اور خود کھجوروں پر اکتفاء کرتے کہ انہیں حضور نے ہمارے بارے میں وصیت کی تھی کہ حسن سلوک کرو ، ان میں سے جس کے ہاتھ بھی روٹی آتی وہ مجھے دے دیتا۔ میں شرمندہ ہو کر انہیں واپس کرتا مگر وہ مجھے دوبارہ واپس کردیتے اور اسے ہاتھ بھی نہ لگاتے۔

ابن ہشام کہتے ہیں ابو عزیر بدر کے دن مشرکین کے علم بردار تھے۔ اور یہ علم انہیں نضر ابن الحارث کے بعد ملا تھا۔ جب ان کے بارے میں ، اس کے گرفتار کرنے والے ابوالیسیر کو مصعب ابن عمیر نے وہ بات کہی (جو اوپر مذکور ہے) تو ابو عزیر نے کہا اے بھائی ، تم میرے بارے میں یہ سفارش کرتے ہو ، تو مصعب نے کہا کہ یہ انصاری تم سے پہلے میرا بھائی ہے۔ اس پر اس کی ماں نے معلوم کیا کہ کسی قریش کا زیادہ سے زیادہ فدیہ کیا رہا ہے ؟ تو اسے بتایا گیا کہ چار ہزار درہم تو اس نے چار ہزار درہم بھیجے اور اس کا فدیہ دیا۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اس کے بعد قریش نے اسیروں کا تاوان بھیجا۔

۔۔۔۔

یہ تھا غزوہ بدر کا واقعاتی نقشہ ، ہم نے بقدر استطاعت اسے مختصراً بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ سورة انفال اسی غزوہ پر بطور تبصرہ نازل ہوئی۔ اسی میں اس غزوہ کے ظاہری واقعات پر بھی تبصرہ ہے۔ اس کے تاریخی پس منظر کا بھی ذکر ہے۔ اور یہ تمام تبصرے قرآن کے منفرد اور معجزانہ انداز بیان میں ہیں جن کی تفصیلات ہم آئندہ تشریح آیات کے درمیان بیان کریں گے۔ یہاں ہم نے صرف اس سورة کے مضامین کے اساسی خدوخال مختصراً دے دئیے ہیں۔

یہ سورة کس لائن پر جا رہی ہے ؟ اس کے اندر ایک مضمون اس کی پوری طرح وضاحت کرتا ہے۔ ابن اسحاق نے حضرت عبادہ ابن الصامت سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ سورة بدری لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب ہم مال غنیمت کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور اس سلسلے میں ہمارے اخلاق بھی خراب ہوئے تو اللہ نے انفال کا اختیار ہمارے ہاتھ سے لے لیا اور رسول اللہ ﷺ کو دے دیا اور آپ نے انفال کو مساویانہ اصول کے مطابق تقسیم کردیا۔

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس سورة کا آغاز کس طرح ہوا اور اس کی لائن کیا ہے۔ لوگوں نے اس واقعہ میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کے بارے میں اختلاف کیا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے انسانی تاریخ میں قیامت تک فرقان قرار دیا تھا۔

اللہ کو مطلوب یہ تھا کہ ان کو اور ان کے بعد آنے والوں کو بعض اہم تعلیمات دیں۔ یہی تعلیم یہاں پوری طرح انہیں دی گئی اور یہ تعلیم اللہ نے جس تدبیر اور نظام قضا و قدر کے مطابق دی ، ہر اقدام ایسا نظر آتا ہے جس کے پیچھے کوئی اصلاحی تدبیر ہے۔ اس لیے کہ جنگ بدر اور اس کے نتیجے میں جو عظیم فیصلے ہوئے اس کے بارے میں خود مسلمانوں کی منصوبہ بندی کو کوئی دخل نہ تھا۔ نہ انہوں نے جنگ بدر کے معمولی اموال غنیمت کے متعلق کوئی اپنی تدبیر کی تھی اور نہ اس جنگ کے عظیم نتائج انہوں نے سوچے تھے۔ یہ سب کام اللہ تعالیٰ کی منشا اور تدبیر کے ذریعے ہوئے۔ اس واقعہ میں اللہ نے مسلمانوں کو خوب ازمایا اور یہ اس کا فضل و کرم تھا۔

اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ لوگ اپنے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ وہ یہ سوچتے تھے کہ قافلے کو لوٹ لیں۔ مگر اللہ نے ان کے لیے قافلے کے مقابلے میں ایک مسلح لشکر لا کھڑا کردیا۔ دونوں میں کس قدر فرق ہے تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ خود ان کی اپنی سوچ کس قدر موثر ہے اور ان کے بارے میں اللہ کی تدبیر کس قدر دور رس حکمت کی حامل ہے۔ اور دونوں کے اندر کس قدر فرق ہے۔

سورة کا آغاز اس طرح ہے کہ انفال کے بارے میں عوام کی جانب سے ایک سوال ہے اور اللہ کی طرف سے مختصر جواب ہے کہ یہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول اللہ کا ہے۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ وہ خدا سے ڈریں اور باہم تعلقات کو درست کریں۔ جس طرح حضرت عبادہ ابن الصامت نے کہا کہ ہمارے اخلاق پر اثر پڑگیا تھا۔ اسے دور کردیں اور اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کریں۔ کیونکہ سمع و اطاعت ایمان کا مقتضا ہے۔ سورة کے آغاز میں اہل ایمان کے لیے ایک نہایت ہی موثر تصویر کشی کی گئی ہے۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأنْفَالِ قُلِ الأنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (1)إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (4)

اے پیغمبر لوگ تم سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہہ دو کہ یہ غنیمتیں اللہ اور اس کے رسول کی ہیں ، پس اللہ سے ڈرو اور آپ سکے باہم تعلقات ٹھیک رکھو۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ مومت تو وہ ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور جب ان پر آیات الہی کی تلاوت ہوتی ہے تو ان کے ایمان کو زیادہ کردیتی ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں اور مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ (الانفال ، آیات 1 تا 4)

اس کے بعد بدر کے معاملے کو یاد دلایا جاتا ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے لیے کیا سوچتے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے سوچ رہا تھا اور وہ زمین پر دنیاوی معیار کے مطابق جو کچھ دیکھ رہے تھے اور اللہ کا نظام تقدیر جو کچھ کر رہا تھا :۔

كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ (5) يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُونَ (6) وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ (7) لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ (8)

جیسا کہ تمہارے رب نے تجھے حق کے ساتھ اپنے گھر سے نکال دیا اور مومنوں کے ایک گروہ کو یہ ناگوار تھا۔ وہ حق بات کے سلسلے میں تم سے جھگڑ رہے تھے۔ حالانکہ واضح ہوچکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور وہ موت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جب اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک گروہ تمہارے ہاتھ آجائے گا۔ اور تم چاہ رہے تھے کہ کمزور گروہ تمہارے ہاتھ آئے لیکن اللہ چاہتا تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ثابت کردے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق کو حق اور باطل کو باطل کر دکھائے خواہ مجرموں کو ناگوار ہی کیوں نہ لگے۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

ایمان سے خالی لوگ اور حقیقت ایمان ابن عباس فرماتے ہیں منافقوں کے دل میں نہ فریضے کی ادائیگی کے وقت ذکر اللہ ہوتا ہے نہ کسی اور وقت پر۔ نہ ان کے دلوں میں ایمان کا نور ہوتا ہے نہ اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے۔ نہ تنہائی میں نمازی رہتے ہیں نہ اپنے مال کی زکوٰۃ دیتے ہیں، ایسے لوگ ایمان سے خالی ہوتے ہیں، لیکن ایماندار ان کے برعکس ہوتے ہیں۔ ان کے دل یاد خالق سے کپکپاتے رہتے ہیں فرائض ادا کرتے ہیں آیات الٰہی سن کر ایمان چمک اٹھتے ہیں تصدیق میں بڑھ جاتے ہیں رب کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ کی یاد سے تھر تھراتے رہتے ہیں اللہ کا ڈر ان میں سمایا ہوا ہوتا ہے اسی وجہ سے نہ تو حکم کا خلاف کرتے ہیں نہ منع کئے ہوئے کام کو کرتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے کہ ان سے اگر کوئی برائی سرزد ہو بھی جاتی ہے تو یاد اللہ کرتے ہیں پھر اپنے گناہ سے استغفار کرتے ہیں حقیقت میں سوائے اللہ کے کوئی گناہوں کا بخشنے والا بھی نہیں۔ یہ لوگ باوجود علم کے کسی گناہ پر اصرار نہیں کرتے۔ اور آیتوں میں ہے آیت (واما من خاف مقام ربہ الخ) ، جو شخص اپنے رب کے پاس کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشوں سے روکا اس کا ٹھکانا جنت ہے۔ سدی فرماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے جی میں ظلم کرنے کی یا گناہ کرنے کی آتی ہے لیکن اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر جا وہیں ان کا دل کانپنے لگتا ہے، ام درداء فرماتی ہیں کہ دل اللہ کے خوف سے حرکت کرنے لگتے ہیں ایسے وقت انسان کو اللہ عزوجل سے دعا مانگنی چاہئے۔ ایمانی حالت بھی ان کی روز بروز زیادتی میں رہتی ہے ادھر قرآنی آیات سنیں اور ایمان بڑھا۔ جیسے اور جگہ ہے کہ جب کوئی سورت اترتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا ؟ بات یہ ہے کہ ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ خوش ہوجاتے ہیں، اس آیت سے اور اس جیسی اور آیتوں سے حضرت امام الائمہ امام بخاری ؒ وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ ایمان کی زیادتی سے مراد ہے کہ دلوں میں ایمان کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے یہی مذہب جمہور امت کا ہے بلکہ کئی ایک نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جیسے شافعی، احمد بن حنبل، ابو عبیدہ وغیرہ جیسے کہ ہم نے شرح بخاری کے شروع میں پوری طرح بیان کردیا ہے۔ والحمد اللہ۔ ان کا بھروسہ صرف اپنے رب پر ہوتا ہے نہ اس کے سوا کسی سے وہ امید رکھیں نہ اس کے سوا کوئی ان کا مقصود، نہ اس کے سوا کسی سے وہ پناہ چاہیں نہ اس کے سوا کسی سے مرادیں مانگیں نہ کسی اور کی طرف جھکیں وہ جانتے ہیں کہ قدرتوں والا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا تمام ملک میں اسی کا حکم چلتا ہے ملک صرف وہی ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس کے کسی حکم کو کوئی ٹال سکے وہ جلد ہی حساب لینے والا ہے، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اللہ پر توکل کرنا ہی پورا ایمان ہے۔ ان مومنوں کے ایمان اور اعتقاد کی حالت بیان فرما کر اب ان کے اعمال کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ نمازوں کے پابند ہوتے ہیں۔ وقت کی، وضو کی، رکوع کی، سجدے کی، کامل پاکیزگی کی، قرآن کی تلاوت، تشہد، درود، سب چیزوں کی حفاظت و نگرانی کرتے ہیں۔ اللہ کے اس حق کی ادائیگی کے ساتھ ہی بندوں کے حق بھی نہیں بھولتے۔ واجب خرچ یعنی زکوٰۃ مستحب خرچ یعنی للہ فی اللہ خیرات برابر دیتے ہیں چونکہ تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اس لئے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کی مخلوق کی سب سے زیادہ خدمت کرے اللہ کے دیئے ہوئے کو اللہ کی راہ میں دیتے رہو یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے بہت جلد تم اسے چھوڑ کر رخصت ہونے والے ہو، پھر فرماتا ہے کہ جن میں یہ اوصاف ہوں وہ سچے مومن ہیں طبرانی میں ہے کہ حارث بن مالک انصاری ؓ نبی ﷺ کے پاس سے گذرے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تمہاری صبح کس حال میں ہوئی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ سچے مومن ہونے کی حالت میں۔ آپ نے فرمایا کہ سمجھ لو کہ کیا کہہ رہے ہو ؟ ہر چیز کی حقیقت ہوا کرتی ہے۔ جانتے ہو حقیقت ایمان کیا ہے ؟ جواب دیا کہ یارسول اللہ ﷺ میں نے اپنی خواہشیں دنیا سے الگ کرلیں راتیں یاد اللہ میں جاگ کر دن اللہ کی راہ میں بھوکے پیاسے رہ کر گذراتا ہوں۔ گویا میں اللہ کے عرش کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھتا رہتا ہوں اور گویا کہ میں اہل جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ آپس میں ہنسی خوشی ایک دوسرے سے مل جل رہے ہیں اور گویا کہ میں اہل دوزخ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ دوزخ میں جل بھن رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا حارثہ تو نے حقیقت جان لی پس اس حال پر ہمیشہ قائم رہنا۔ تین مرتبہ یہی فرمایا پس آیت میں بالکل محاورہ عرب کے مطابق ہے جیسے وہ کہا کرتے ہیں کہ گو فلاں قوم میں سردار بہت سے ہیں لیکن صحیح معنی میں سردار فلاں ہے یا فلاں قبیلے میں تاجر بہت ہیں لیکن صحیح طور پر تاجر فلاں ہے۔ فلاں لوگوں میں شاعر ہیں لیکن سچا شاعر فلاں ہے۔ ان کے مرتبے اللہ کے ہاں بڑے بڑے ہیں اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے وہ ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے گا ان کی نیکیوں کی قدردانی کرے گا۔ گویہ درجے اونچے نیچے ہوں گے لیکن کسی بلند مرتبہ شخص کے دل میں یہ خیال نہ ہوگا کہ میں فلاں سے اعلیٰ ہوں اور نہ کسی ادنیٰ درجے والوں کو یہ خیال ہوگا کہ میں فلاں سے کم ہوں۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ علیین والوں کو نیچے کے درجے کے لوگ اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ صحابہ نے پوچھا یہ مرتبے تو انبیاء کے ہونگے ؟ کوئی اور تو اس مرتبے پر نہ پہنچ سکے گا ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں ؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ لوگ بھی جو اللہ پر ایمان لائیں اور رسولوں کو سچ جانیں۔ اہل سنن کی حدیث میں ہے کہ اہل جنت بلند درجہ جنتیوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے چمکیلے ستاروں کو دیکھا کرتے ہو یقیناً ابوبکر اور عمر انہی میں ہیں اور بہت اچھے ہیں۔

آیت 2 - سورۃ الانفال: (إنما المؤمنون الذين إذا ذكر الله وجلت قلوبهم وإذا تليت عليهم آياته زادتهم إيمانا وعلى ربهم يتوكلون...) - اردو