سورۃ الانفال: آیت 1 - يسألونك عن الأنفال ۖ قل... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الانفال

يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَنفَالِ ۖ قُلِ ٱلْأَنفَالُ لِلَّهِ وَٱلرَّسُولِ ۖ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَصْلِحُوا۟ ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

اردو ترجمہ

تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ کہو “یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yasaloonaka AAani alanfali quli alanfalu lillahi waalrrasooli faittaqoo Allaha waaslihoo thata baynikum waateeAAoo Allaha warasoolahu in kuntum mumineena

آیت 1 کی تفسیر

(سورۃ کے تعارف کا بقیہ حصہ)

جو لوگ نظریہ جہاد اسلامی کے اخلاقی جواز کے لیے صرف دار الاسلام کی حفاظت کے اسباب و وجوہ تلاش کرتے ہیں ، انہوں نے در اصل نظام اسلامی کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں لگایا۔ وہ اس نظام کو ایک وطن سے بھی کم تر درجے کی کوئی چیز سمجھتے ہیں ، حالانکہ اسلامی نقطہ نظفر سے یہ خیال درست نہیں ہے۔ یہ بالکل ایک یا تصور ہے جو اسلامی تصور پر غالب ہورہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام پہلے عقیدے کو اہمیت دیتا ہے ، پھر اس نظام کو جو اس عقیدے پر مبنی ہوتا ہے۔ پھر اس معاشرے کو جس میں وہ نظام قائم ہوتا ہے یہی چیزیں اسلامی تصور حیات میں اہمیت کی حامل ہیں۔۔۔ باقی رہی صرف کوئی سرزمین تو بذات خود اسلام میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ کسی اسلامی سرزمین کو اہمیت صرف اس وجہ سے حاصل ہوتی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکومت قائم ہوتی ہے اور وہ اسلامی عقیدے کا گہوارا اور اسلامی نظام حیات کے لیے ایک کھیت کی حیثیت اختیار کرکے دار الاسلام قرار پاتی ہے اور " تحریک آزادی انسان " کے لیے مرکز بن جاتی ہے۔

دار الاسلام کی حفاظت بھی اس لیے ہوتی ہے کہ اس عقیدے ، اس نظام حیات اور اس معاشرے کی حفاظت ہو ، جو اس دار الاسلام میں قائم ہوتا ہے۔ بذات خود دار الاسلام کوئی مستقل بالذات مقصد نہیں اور نہ تحریک جہاد اسلامی منتہائے نظر صرف دار الاسلام کی حفاظت ہی ہے۔ اس کی حفاظت تو محض اس لیے کی جاتی ہے کہ وہاں حکومت الہیہ کا قیام عمل میں لایا جاسکے اور اس کے بعد تمام روئے زمین پر پھیلنے اور تمام نوع انسانی تک دعوت اسلامی کو پہنچانے کے لیے اسے مرکز بتایا جاسکے۔ اس طرح گویا پوری انسانیت اس دین کا موضوع ہے اور پورا کرہ ارض اس کا میدان کار ہے۔

جیسا کہ اس سے پہلے ہم کہہ چکے ہیں ، جب بھی دین کو پھیلانے کا کام شروع ہوگا اس کے راستے میں اس وقت کی سیاسی طاقت ، اس وقت کے موجودہ اجتماعی نظام اور اس وقت کے معاشروں کی عادات واطوار کی جانب سے مادی رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ پھر اسلام بھی ، ان تمام چیزوں کو اپنی قوت کے بل بوتے پر اپنے راستے سے ہٹاتا ہے تاکہ وہ براہ راست لوگوں کو اپیل کرسکے ، ان کے ضمیر اور ان کے افکار کو مخاطب کرسکے اور تبلیغ دین اور انسان کے درمیان کوئی مادی رکاوٹ نہ رہے۔ اس کے بعد انہیں اختیار دیا جائے کہ وہ اسلامی عقیدے کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔

ہمیں اسلام کے نظریہ جہاد کے بارے میں ، کسی سے مرعوب نہ ہونا چاہیے اور نہ مستشرقین کی وسوسہ اندازیوں سے متاثر ہونا چاہیے۔ موجودہ بین الاقوامی حالات سے دب کر ، اسلام کے نظریہ جہاد کی جدید تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے اس کی روح ختم ہوجائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ حالات اور واقعات جن کا وقتی دفاع سے تھا ، اگر وہ نہ بھی ہوتے تو بھی مسلمان اسی طرح جہاد کرتے جس طرح انہوں نے ان حالات کے ہوتے ہوئے کیا۔

براہ راست مطالعہ

ہمیں صرف اسلامی نظام حیات کا تاریخی جائزہ لینا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ وہ کن کن امور کو اولیت دیتا ہے۔ اس کا مزاج کیا ہے ، اور وہ کس چیز کا اعلان کرتا ہے۔ اس کا طریق کار کیا ہے ؟ ان تمام امور کے بارے میں کوئی حتمی فیصلے کرتے وقت ہمیں وقتی اور دفاعی اقدامات اور دائمی نصب العین میں فرق کرنا چاہیے۔

یہ بات اپنی جگہ بالکل درست کہ یہ دین حملہ آوروں کا دفاع بھی کرتا ہے کیونکہ جاہلیت کسی حال میں بھی اسے برداشت نہیں کرسکتی۔ محض یہ اعلان ہی جاہلیت کے ایک بڑا چیلنج ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی انسان کسی کا غلام نہیں۔ خالی خولی اعلان ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک قیادت کے تحت عملی تحریک بھی منظم کرنا اور بالکل ایک نئے اور ممتاز معاشرہ کی بنیاد رکھنا ، جو سیاسی لحاظ سے اللہ کے سوا تمام حاکمیتوں کا انکار کرتا ہو ، یہ سب چیزیں ہمیشہ جاہلیت کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ غرض اسلامی نظام زندگی کا وجود ہی اپنی اس تاریخی صورت میں ، جس میں حضور ﷺ نے اسے پیش کیا تھا ، اس بات کے لیے کافی تھا کہ اس وقت کے تمام جاہلی معاشرے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ، جن کی بنیاد ہی اس بات پر تھی کہ انسان انسان کی غلامی کرے اور کوشش کرکے اس دین کو ختم کریں اور اپنے وجود کا دفاع کریں۔ ان حالات میں اسلامی نظام زندگی کے لیے بھی یہ ضروری تھا کہ وہ اپنا دفاع کرے اور پر خطر حالات میں بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے۔ یہ ایک ناگزیر ضرورت تھی ، اسلام کے وجود کے ساتھ اس کا دفاع بھی ضروری تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی نئی ابھرنے والی طاقت فوراً ہی اقدامی پوزیشن حاصل کرلے۔ ایک دور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نئی ابھرنے والی طاقت فورا ہی اقدامی پوزیشن حاصل کرلے۔ ایک دور ایسا بھی ہوتا ہے جس میں اپنا دفاع کرن اپڑتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اسلام ابد الآباد تک اپنا دفاع ہی کرتا رہے۔ بلکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے وجود کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ مناسب حالات میں ، آگے بڑھے اور پوری انسانیت کو غیر اللہ کی غلامی سے رہائی دلائے۔ اس معاملہ میں اسلام کسی جغرافیائی حد بندی کا قائل نہیں ہے ، یہ اسلام کے مزاج کے خلاف ہے کہ پوری انسانیت کو جہالت اور گمراہی کے اندھیرے میں بھٹکتا اور ظلم و ستم میں پستا چھوڑ کر صرف ایک نسل یا ایک مخصوص قوم کی اصلاح پر قانع ہوجائے۔

بعض اوقات ایسے حالات میں بھی پیش آسکتے ہیں کہ جاہلیت کے حامی نظام اسلام کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے ہیں۔

بعض اوقات ایسے حالات بھی پیش آسکتے ہیں کہ جاہلیت کے حامی نظام اسلام کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے ہیں اور اس پر حملہ آور نہیں ہوتے اور اسلام بھی انہیں ان کی جغرافیائی حدود کے اندر آزاد چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ انسانوں کو غلام بنا کر ان پر حکمرانی کریں اور مداخلت نہیں کی جاتی اور نہ ہی تحریک اسلامی کو ان حدود تک وسیع کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ وقفہ عارضی ہوتا ہے ، اصل پالیسی یہی ہوتی ہے کہ اسلام ان جاہلی معاشروں کے ساتھ اس وقت تک مصالحت نہیں کرتا ، جب تک وہ اسلام کے اقتدار اعلیٰ کے سامنے سر تسلیم خم نہ کردیں اور جزیہ ادا کرکے یہ ثبوت فراہم نہ کردیں کہ ان کے ملک کے دروازے تحریک اسلامی کے لیے کھلے ہیں اور ان کی حدود میں قائم حکومت ، اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ ہے اس دین کا مزاج اور اس کی اصل غرض وغایت یعنی تمام انسانیت کو غیر اللہ کی غلامی سے چھڑا کر صرف اللہ کی غلامی میں داخل کرنا ہے۔

دین اسلام کے اس تصور اور اس تصور کے درمیان میں زمین و آسمان کا فرق ہے جو اسے ایک محدود علاقے کے اندر بند کرکے رکھ دیتا ہے۔ اگر ہم اسلام کے اس محدود تصور کو اپنا لیں تو اس صورت میں ہمارے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ قرن اول میں اسلام کی وسعت پذیری کے لیے وجوہ جواز تلاش کریں۔

لیکن اگر ہمارے سامنے اسلامی نظام زندگی کا تصور یہ ہے کہ اسلام تمام انسانوں کے لیے ، اللہ کا تجویز کردہ نظام زندگی ہے اور اس کا تعلق انسانوں کے کسی خاص گروہ اور نسل سے نہیں ہے تو اسلامی کی وسعت پسندی کی حقیقی وجوہات خود بخود ہمارے سامنے آجاتی ہیں اور جب تک یہ حقیقت ہمارے ذہنوں سے اوجھل رہتی ہے ، ہم اس وسعت پذیر کے لیے خارجی اسباب تلاش کرتے پھرتے ہیں حالانکہ مسئلہ کی اصلیت صرف اس قدر ہے کہ اسلام کا نصب العین پوری انسانیت کی حریت اور اللہ کی غلامی ہے اور جس کسی کے ذہن میں یہ حقیقت بیٹھ جائے اسے کسی اور اخلاقی جواز کے تلاش کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔

دو نقطہ ہائے نظر

اسلام کے نظریہ جہاد کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں ، ایک یہ کہ اسلام مجبور تھا کہ وہ معرکہ جہاد میں کود پڑے کیونکہ جاہلی معاشرے اس کو مٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، دوسرا تصور یہ ہے کہ اسلام از خود اقدام کرتا ہے اور معرکہ جہاد میں داخل ہوتا ہے۔ اگرچہ ابتدائی دور میں ان دونوں تصورات کے درمیان امتیاز کرنا دشوار نظر آتا ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں اسلام کو معرکہ جہاد میں کودنا پڑا ہے لیکن آگے جا کر دونوں میں فرق واضح ہوجاتا ہے ، جس سے اسلام کے بارے میں مسلمانوں کے نقطہ نظر اور احساس و شعور میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اس کے دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

دوسرے نقطہ نظر کے مطابق اسلام ایک ایسا نظام زندگی بن جاتا ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پوری انسانیت اللہ کی بندگی میں داخل ہو ، انسان پر صرف اللہ کا حکم چلے اور اس کی شریعت ملک کا قانون ہو اور الوہیت کا مستحق صرف اللہ ہو ، جب اسلام کے بارے میں یہ نقطہ نظر اختیار کیا جائے تو یہ اس کا طبیعی حق ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے راستے میں حائل ہونے والی تمام مشکلات کو دور کرے تاکہ وہ براہ راست لوگوں کی عقل و شعور اور وجدان کو اپیل کرسکے۔ اسلام کے اس جامع تصور اور اس تصور کے درمیان بہت بڑآ فرق ہے ، جس کی رو سے اسے ایک " علاقائی اور مقامی " تصور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ہم اسے ایک علاقائی نظام سمجھیں تو پھر اس کا حق صرف یہ رہ جائے گا کہ وہ اپنے ان علاقائی حدود کے اندر اپنے وجود اور اپنی بقاء کے لیے مدافعت کرسکے۔ اسلام کے یہ دونوں تصورات نظریہ جہاد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگرچہ بظاہر دونوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ دونوں صورتوں میں مسلمانوں کو معرکہ جہاد میں کودنا پڑتا ہے لیکن دونوں تصورات کے نتیجے میں نظریہ جہاد کی نوعیت اور حقیقت بدل جاتی ہے۔

جب اسلام کسی ایک قوم اور نسل کا دین نہیں ہے تو پھر اس کا یہ فطری حق ہے کہ وہ متحرک ہو ، کیونکہ وہ ایک الہی نظام ہے اور پورے جہان کے لیے ہے۔ لہذا اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ آگے بڑھے اور زندگی کے باطل نظاموں کو ختم کردے۔ غلط اوضاع واطوار کے پردوں کو چاک کردے اور ان بندشوں کو ختم کردے جنہوں نے عوام الناس سے آزادانہ رد و قبول کے اختیار کو سلب کر رکھا ہے۔ اس معاملے میں اسلام نے صرف یہ احتیاط برتی ہے کہ وہ کسی ایک فرد پر جبر نہیں کرتا۔ بلکہ وہ زندگی کے اجتماعی نظم اور اجتماعی عادات واطوار پر حملہ آور ہوتا ہے تاکہ زندگی پر اثر انداز ہونے والے غلط اثرات سے افراد کو محفوظ رکھا جاسکے جو انسان کی فطرت کو بگاڑ کر اس کی آزادی کو سلب کرلیتے ہیں۔

اسلام کا یہ حق ہے کہ وہ لوگوں کو غیر اللہ کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ کی غلامی میں داخل کرے اور اپنے اس مطمح نظر کو ایک حقیقت بنا دے کہ اللہ کے سوا کوئی رب اور آقا نہیں ہے۔ تمام لوگ اب جھوٹے آقاؤں کی غلامی سے آزاد ہیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ اس دنیا میں اسلامی نظام زندگی قائم ہو ، کیونکہ صرف یہی ایک نظام ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہی تمام انسانوں کے لیے قانون سازی کرتا ہے ، خواہ وہ انسان حکمران ہوں یا محکوم ہوں ، سفید رنگ ہوں یا سیاہ فام ہوں ، دور کے رہنے والے ہوں یا قریب کے رہنے والے ہوں ، فقیر ہوں یا امیر ہوں۔ غرض ایک ہی قسم کی قانون سازی ہے جس کے سامنے سب کے سب سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ جب اسلام کے سوا تمام دوسرے نظاموں میں حالت یہ ہے کہ بعض انسان انسانوں کی بندگی کر رہے ہیں ، کیونکہ ان کے لیے انسان قانون بناتے ہیں اور قانون سازی در اصل الوہیت کا ایک اہم خاصہ ہے ، جو شخص بھی یہ دعوے کرتا ہے کہ اسے انسان کے لیے قانون سازی کا حق ہے تو وہ در اصل ربوبیت کا دعویدار ہے ، خواہ وہ اپنے اس دعوے کا صریح الفاظ میں اعلان کرے یا نہ کرے اور جو شخص بھی کسی ایسے شخص کے دعوے کو تسلیم کرلیتا ہے وہ در اصل اسے اپنا الہ مان لیتا ہے خواہ وہ اس کا اعلان کرے یا نہ کرے۔

یہ بات اچھی طرح یاد رکھیے کہ اسلام محض فلسفہ اور نظریہ نہیں ہے کہ وہ فقط وعظ وبیان پر اکتفاء کرے اور اپنے تصورات کو لوگوں کے گوش گزار کردے بلکہ وہ ایک اجتماعی نظام زندگی ہے اور بڑی قوت اور زور سے آگے بڑھ کر لوگوں کو غیر اللہ کی غلامی سے آزاد کرنا چاہتا ہے اور دوسرے اجتماعی نظام اس کے اہل نہیں ہیں کہ وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کی تنظیم ان خطوط پر کرسکیں جو اسلام کو مطلوب ہیں۔ اس لیے اسلام اپنے آپ کو اس میں حق بجانب سمجھتا ہے کہ وہ ان باطل نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے تاکہ وہ انسان کی حریت فکر کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ یہی مفہوم ہے ویکون الدین کلہ للہ کا۔ یعنی اسلامی نظام میں قانون سازی اور حاکمیت کے اصلی اختیارات صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہوتے ہیں۔

زمانہ حال کے بعض اہل قلم اسلامی نظام زندگی کی اس خصوصیت کو نہیں پا سکے اور اسلام کے نظریہ جہاد کو محض دفاعی نظریہ قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ مستشرقین کے اس پروپیگنڈے سے دب گئے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا رہا ہے اور وہ بہ جبر لوگوں کو مسلمان کرتا ہے۔ اپنی جگہ مستشرقین اسلامی نظام کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے نظریہ جہاد کی حقیقت کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کردی جائیں۔ اس صورت حال کے مقابلے میں یہ اہل قلم اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ان سوالات کا جواب دیتے ہیں اور ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں ہوتا کہ وہ دفاعی جنگ کے وجوہ و اسباب تلاش کریں۔ یہ حضرات اسلام کے مزاج اور اس کے نصب العین کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں حالانکہ اسلامی نظریہ حیات کی رو سے اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ اقدام کرے نہ کہ دفاع۔ ان شکست خوردہ اہل قلم کے دل و دماغ میں مذہب کا مغربی تصور اس قدر راسخ ہوچکا ہے کہ وہ اسلامی نظام زندگی کو بھی ایک مذہبی عقیدہ سمجھتے ہیں ، جسے زندگی کے عملی اور اجتماعی نظام سے کوئی سرورکار نہ ہو ، اس لیے دینی جہاد (Holy War) کے معنے ان کی نظروں میں صرف یہ رہ جاتے ہیں کہ لوگوں کو دین میں داخل کرنے کے لیے جہاد کیا جائے اور ان پر ایک خاص عقیدہ مسلط کردیا جائے ، حالانکہ صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے۔ اسلام پوری زندگی کے لیے ایک مکمل نظام حیات ہے اور اس کی اساس اس عقیدے پر ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو خود حاکم اور فرمان روا بھی ہے اور اس نے یہ مکمل نظام پوری انسانیت کے لیے تجویز کیا ہے اور اس کے مطابق جہاد کے معنے یہ ہیں کہ انسانوں پر اس نظام کو نافذ کیا جائے۔ رہا یہ سوال کہ کوئی اسلامی عقائد کو اپناتا ہے یا نہیں تو یہ بالکل اس کے آزادانہ اختیار تمیزی پر موقوف ہے۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ آزادانہ غور و فکر کے لیے اسے آزاد فضاء میسر ہو اور ایسی فضا میسر ہونے کے لیے اسلامی نظام زندگی کا نفاذ ضروری ہے۔ یہ ہے مذہب کا وہ حقیقی اسلامی تصور جو مذہب کے مغربی تصور سے بالکل مختلف ہے۔

اسلامی معاشرے کے ظہور کے بعد اور اس میں اسلامی نظام زندگی کے قیام کے بعد اللہ تعالیٰ اس معاشرے کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اقتدار پر قابض ہو اور اس نظام کو پورے کرہ ارض پر جہاں تک ممکن ہو ، نافذ کردے ، رہا یہ شعوری طور پر کوئی اس نظام زندگی کو قبول کرتا ہے یا نہیں تو اس میں ہر کوئی آزاد ہے۔ حالات اور مواقع کے اعتبار سے بعض اوقات یوں بھی ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد بالسیف سے روکا ہے۔ یہ مستقل پالیسی نہ تھی بلکہ وقتی حالات اور مصالح کا تقاضا تھا۔ تحریک کے عملی تقاضوں کی بناء پر ایسا کیا گیا۔ ہم نے اس مضمون میں مختلف ادوار کی آیات پر بحث کرکے ان کا مفہوم متعین کردیا ہے۔ اس کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ وہ پالیسیان جو مختلف مواقع پر طے ہوئیں اور وہ نظریہ اور نصب العین جو ابد الآباد کے لیے طے ہوا ہے ، ان کے درمیان فرق کریں اور وقتی احکامات کے پیش نظر دائمی احکامات کو پس پشت نہ ڈالیں۔

اب ہمارے سامنے صرف یہ نکتہ رہ گیا ہے کہ اسلام کے نظریہ جہاد کا مزاج کیا ہے ؟ اور اسلامی نظام زندگی کی نوعیت کیا ہے تو اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سید ابو الاعلی مودودی کی نہایت ہی مختصراً مگر قیمتی بحث ہماری بہت ہی اچھی راہنمائی کرتی ہے۔ یہ بحث انہوں نے اپنی کتاب " جہاد فی سبیل اللہ " میں کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں اس کتاب سے قدرے طویل اقتباسات نقل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو شخص اس موضوع کو اچھی طرح سمجھنا چاہتا ہے اس کے لیے اس کتاب کا پڑھنا نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اس مسئلے کی گہرائی میں جا کر اسے اچھی طرح سمجھ سکے اور اس بات کا ادراک کرسکے کہ تحریک اسلامی کے برپا کرنے میں اس کا کیا کردار ہے ، فرماتے ہیں :

" عموما لفظ " جہاد " کا ترجمہ انگریزی زبان میں (Holy War) مقدس جنگ " کیا جاتا ہے اور اس کی تشریح و تفسیر مدتہائے دراز سے کچھ اس انداز میں کی جاتی رہی ہے کہ اب یہ لفظ " جوش جنوں " کا ہم معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کو سنتے ہی آدمی کی آنکھوں میں کچھ اس طرح کا نقشہ پھرنے لگتا ہے کہ مذہبی دیوانوں کا ایک گروہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے داڑھیاں چڑھائے ، خونخوار آنکھوں کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا چلا آرہا ہے۔ جہاں کسی کافر کو دیکھ پاتا ہے ، پکڑ لیتا ہے اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر کہتا ہے کہ بول لا الہ اللہ ورنہ ابھی سر تن سے جدا کردیا جاتا ہے۔ ماہرین نے ہماری یہ تصویر بڑی قلمکاریوں کے ساتھ بنائی ہے اور اس کے نیچے موٹے حرفوں میں لکھ دیا ہے کہ :

بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے انسانوں سے

لطف یہ ہے کہ اس تصویر کے بنانے والے ہمارے وہ مہربان ہیں جو خود کئی صدیوں سے انتہا درجہ کی غیر مقدس جنگ (Unholy War) میں مشغول ہیں۔ ان کی اپنی تصویر یہ ہے کہ دولت اور اقتدار کے بھوکے ہر قسم کے اسلحہ سے مسلح ہوکر قزاقوں کی طرح ساری دنیا پر پل پڑے ہیں اور ہر طرف تجارت کی منڈیاں ، خام پیداوار کے ذخیرے ، نو آبادیاں بسانے کے قابل زمینیں اور معدنیات کی کانیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں تاکہ اپنی حرص کی کبھی نہ بجھنے والی آگ کے لیے ایندھن فراہم کریں۔ ان کی جنگ خدا کی راہ میں نہیں بلکہ پیٹ کی راہ میں ہے۔ ہوس اور نفس امارہ کی راہ میں ہے۔ ان کے نزدیک کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے بس یہ کافی وجہ جواز ہے کہ اس کی زمین میں کانیں ہیں ، یا جن اس کافی پیدا ہوتی ہیں ، یا وہاں تیل نکل آیا ہے ، یا ان کے کارخانوں کا مال وہاں اچھی طرح کھپایا جاسکتا ہے ، یا اپنی زائد آبادی کو وہاں آسانی کے ساتھ بسایا جاسکتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو اس قوم کا یہ گناہ بھی کوئی معمولی گناہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے ملک کے راستے میں رہتی ہے جس پر یہ پہلے قبضہ کرچکے ہیں یا اب قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو جو کچھ کیا وہ زمانہ ماضی کا قصہ ہے۔ اور ان کے کارنامے حال کے واقعات ہیں جو شب و روز دنیا کی آنکھوں کے سامنے گزر رہے ہیں۔ ایشیا ، افریقہ ، امریکہ ، غرض کرۂ زمین کا کون سا حصہ ایسا بچا رہ گیا ہے جو ان کی اس غیر مقدس جنگ سے لالہ زار نہیں ہوچکا ، مگر ان کی مہارت قابل داد ہے۔ انہوں نے ہماری تصویر اتنی بری بنائی کہ خود ان کی تصویر اس کے پیچھے چھپ گئی اور ہماری سادہ لوحی بھی قابل داد ہے۔ جب ہم نے غیروں کی بنائی ہوئی اپنی یہ تصویر دیکھی تو ایسے دہشت زدہ ہوئے کہ ہمیں اس تصویر کے پیچھے جھانک کر خود مصورروں کی صورت دیکھنے کا ہوش ہی نہ آیا اور لگے معذرت کرنے کہ حضور ! بھلا ہم جنگ و قتال کیا جانیں۔ ہم تو بھکشووؤں اور پادریوں کی طرح پر امن مبلغ لوگ ہیں۔ چند مذہبی عقائد کی تردید کرنا اور ان کی جگہ کچھ دوسرے عقائد لوگوں سے تسلیم کرالینا ، بس یہ ہمارا کام ہے۔ ہمیں تلوار سے کیا واسطہ ؟ البتہ اتنا قصور کبھی کبھار ہم سے ضرور ہوا ہے کہ جب کوئی ہمیں مارنے آیا تو ہم نے بھی جواب میں ہاتھ اٹھا دیا۔ سو اب تو ہم اس سے بھی توبہ کرچکے ہیں۔ حضور کی اطمینان کے لیے تلوار والے جہاد کو سرکاری طور پر منسوخ کردیا گیا ہے۔ اب تو جہاد فقط زبان و قلم کی کوشش کا نام ہے۔ بندق چلانا سرکار کا کام ہے اور زبان و قلم چلانا ہمارا کام۔

جہاد کے متعلق غلط فہمی کے اسباب

خیر یہ تو سیاسی چالوں کی بات ہے مگر خالص علمی حیثیت سے جب ہم ان اساب کا تجزیہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے " جہاد فی سبیل اللہ " کی حقیقت کو سمجھنا غیر مسلموں ہی کے لیے نہیں ، خود مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہوگیا ہے تو ہمیں دو بڑی اور بنیادی غلط فہمیوں کا سراغ ملتا ہے۔

پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو ان معنوں میں ایک مذہب سمجھ لیا گیا ہے جن میں لفظ مذہب عموماً بولا جاتا ہے۔

دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان معنوں میں محض ایک قوم سمجھ لیا گیا ہے جن میں یہ لفظ عموماً مستعمل ہوتا ہے۔

ان دو غلط فہمیوں نے صرف ایک جہاد ہی کے مسئلہ کو نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے پورے اسلام کے نقشہ کو بدل ڈالا ہے اور مسلمانوں کی پوزیشن کلی طور پر غلط کرکے رکھ دی ہے۔

" مذہب کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں ، رکھیں اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو ، اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھر یے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے ؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں ؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک " مذہب " قرار دے لیں۔ یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجہ جواز ثابت نہیں کی جاسکتی۔

اسی طرح " قوم " کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ ایک متجانس گروہ اشخاص (A homogencous Grup of men) کا نام ہے جو چند بنیادی امور میں مشترک ہونے کی وجہ سے باہم مجتمع اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوگیا ہے۔ اس معنی میں جو گروہ ایک قوم ہو وہ دو ہی وجوہ سے تلوار اٹھاتا ہے اور اٹھا سکتا ہے۔ یا تو اس کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے ، یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھینے کے لیے حملہ آور ہو۔ پہلی صورت میں تو خیر تلوار اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ اخلاقی جواز موجودہ بھی ہے (اگرچہ بعض درھماتماؤں کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے) لیکن دوسری صورت کو تو بعض ڈکٹیٹروں کے سوا کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا ، حتی کہ برطانیہ اور فرانس جیسی وسیع سلطنتوں سے مدبرین بھی آج اس کو جائز کہنے کی جرات نہیں رکھتے۔

جہاد کی حقیقت

پس اگر اسلام ایک " مذہب " اور مسلمان ایک " قوم " ہے تو جہاد کی ساری معنویت جس کی بنا پر اسلام میں افضل العبادات کہا گیا ہے ، سرے سے ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی " مذہب " کا اور مسلمان کسی " قوم " کا نام نہیں ہے۔ وہ در اصل اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (Social Order) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolution Party) کا اور اس تنہائی صرف طاقت کا نام ہے ، جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جماعت عمل میں لاتی ہے۔

تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خاص اصطلاحی (Terminology) اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے انقلابی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہوسکیں۔ لفظ جہاد بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (War) کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں ، قصداً ترک کردیے اور ان کی جگہ " جہاد " کا لفظ استعمال کیا جو (Struggle) کا ہم معنی ہے بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جاسکتا ہے :

(To exort Onc's Utmost endcavour in promoting a Cause) اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد کی تحصیل میں صرف کردینا۔

سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا ؟ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ " جنگ " کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہو رہا ہے۔ جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے مھرک محض اپنے شخصی یا اجتماعی مقاصد ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظرئیے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے اس لیے وہ سرے سے اس لفظ ہی کو ترک کردیتا ہے۔ اس کے پیش نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا مفاد نہیں ہے۔ وہ اس سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا۔ اس کی دلچسپی جس چیز سے ہے وہ انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔ اس نظرئیے اور مسلک کے خلاف جہاں کی حکومت بھی ہے ، اسلام اسے مٹانا چاہتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو اور کوئی ملک ہو۔ اس کا مدعا اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے۔ بلا لحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑتی ہے۔ وہ زمین مانگتا ہے۔ زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا کرہ ارض۔۔ اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قوموں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے۔ بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اس کے پاس ہے یا بالفاظ صحیح تر یوں ہے کہ فلاح انسانیت کے جس پروگرام کا نام " اسلام " ہے اس سے تمام نوع انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہوسکتی ہیں ، اور ان سب طاقتوں کے استعمال کا ایک جامع نام وہ " جہاد " رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطہ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا بھی جہاد ہے۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظام زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔

" فی سبیل اللہ " کی لازمی قید

لیکن اسلام کا جہاد نرا " جہاد " نہیں ہے بلکہ " جہاد فی سبیل الہ " ہے۔ " فی سبیل اللہ " کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔ یہ لفظ بھی اسلام کی اسی مخصوص اصطلاح زبان سے تعلق رکھتا ہے جس کی طرف ابھی میں اشارہ کرچکا ہوں۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے " راہ خدا میں " اس ترجمے سے لوگ غلط فہمی پڑگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگوں کو اسلام کے مذہبی عقائد کا پیرو بنانا جہاد فی سبیل اللہ ہے کیونکہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں " راہ خدا " کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سما سکتا۔ مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خود کوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو ، اسلام ایسے کام کو فی سبیل اللہ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خیرات دیتے ہیں۔ اس نیت سے کہ اس دنیا میں مادی یا اخلاقی طور پر اس خیرات کا کوئی فائدہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے تو یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ اور اگر خیرات سے اپ کی نیت یہ ہے کہ ایک غریب انسان کی مدد کرکے آپ خدا کی خوشنودی حاصل کریں تو یہ فی سبیل اللہ ہے۔ پس یہ اصطلاح مخصوص ہے ایسے کاموں کے لیے جو کامل خلوص کے ساتھ ، ہر قسم کی نفسانی اغراض سے پاک ہوکر ، اس نظرئیے پر کیے جائیں کہ انسان کا دوسرے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خدا کی خوشنودی کا موجوب ہے اور انسان کی زندگی کا نصب العین مالک کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

" جہاد " کے لیے بھی " فی سبیل اللہ " کی قید اسی غرض کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ جب نظام زندگی میں انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظرئیے کے مطابق نیا نظام مرتب کرنے کے لیے اٹھے تو اس قیام اور اس سربازی و جاں نثاری میں اس کی اپنی کوئی نفسانی غرض نہ ہو۔ اس کا یہ مقصد ہر گز نہ ہو کہ قیصر کو ہٹا کر وہ خود قیصر بن جائے۔ اپنی ذات کے لیے مال و دولت ، یا شہرت و ناموری ، یا عزت و جاہ حاصل کرنے کا شائبہ تک اس کی جدوجہد کے مقاصد میں شامل نہ ہو۔ اس کی تمام قربانیوں اور ساری محنتوں کا مدعا صرف یہ ہو کہ بندگان خدا کے درمیان ایک عادلانہ نظام زندگی قائم کیا جائے۔ اس کے معاوضہ میں اسے خدا کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی مطلوب نہ ہو۔ قرآن کہتا ہے۔

الذین آمنوا یقاتلون فی سبیل اللہ والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں "۔

" طاغوت " کا مصدر " طغیان " ہے جس کے معنی حد سے گزر جانے کے ہیں۔ دریا جب اپنی حد سے گزر جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں طغیانی آگئی ہے۔ اسی طرح جب آدمی اپنی جائز حد سے گزر کر اس غرض کے لیے اپنی طاقت استعمال کرتا ہے کہ انسانوں کا خدا بن جائے یا اپنے مناسب حصہ زائد فوائد حاصل کرے تو یہ طاغوت کی راہ میں لڑنا ہے۔

اور اس کے مقابلہ میں راہ خدا کی جنگ وہ ہے جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ خدا کا قانون عدل دنیا میں قائم ہو ، لڑنے والا خود بھی اس کی پابندی کرے اور دوسروں سے بھی بھی اس کی پابندی کرائے۔ چناچہ قرآن کہتا ہے :

تلک الدار الاخرۃ نجعلہا للذین لایریدون علوا فی الارض ولا فسادا والعاقبۃ للمتقین۔ آخرت میں عزت کا مقام تو ہم نے صرف ان لوگوں کے لیے رکھا ہے جو زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنا اور فساد کرنا نہیں چاہتے۔ عاقبت کی کامیابی صرف خدا ترس لوگوں کے لیے ہے۔

حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا۔ " راہ خدا کی جنگ سے کیا مراد ہے ؟ ایک شخص مال کے لیے جنگ کرتا ہے۔ دوسرا شخص بہادری کی شہرت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے۔ تیسرے شخص کو کسی سے عداوت ہوتی ہے یا قومی حمیت کا جوش ہوتا ہے اس لیے جنگ کرتا ہے۔ ان میں سے کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے جواب دیا۔ کسی کی بھی نہیں۔ فی سبیل اللہ تو صرف اس شخص کی جنگ ہے جو خدا کا بول بالا کرنے کے سوا کوئی مقصد نہیں رکھتا۔

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ " اگر کسی شخص نے جنگ کی اور اس کے دل میں اونٹ باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی بھی نیت ہوئی تو اس کا اجر ضائع ہوگیا " اللہ صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو محض اس کی خوشنودی کے لیے ہو اور کوئی شخصی یا جماعتی غرض پیش نظر نہ ہو۔ پس جہاد کے لیے فی سبیل اللہ کی قید اسلامی نقطہ نظر سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ مجرد جہاد تو دنیا میں سب ہی جاندار کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے لیکن " مسلمان " جس انقلابی جماعت کا نام ہے اس کے انقلابی نظریات میں سے ایک اہم ترین نظریہ بلکہ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اپنی جان و مال کھپاؤ، دنیا کی ساری سرکش طاقتوں سے لڑو ، اپنے جسم و روح کی ساری طاقتیں خرچ کردو ، اس لیے کہ دوسرے سرکشوں کو ہٹا کر تم ان کی جگہ لے لو ، بلکہ صرف اس لیے کہ دنیا سے سرکشی و طغیانی مٹ جائے اور خدا کا قانون دنیا میں نافذ ہو۔

جہاد کے اس مفہوم اور فی سبیل اللہ کی اس معنویت کو مختصراً بیان کردینے کے بعد اس دعوت انقلاب کی تھوڑی سی تشریح کرنا چاہتا ہوں جو اسلام لے کر آیا ہے تاکہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھا جاسکے کہ اس دعوت کے لیے جہاد کی حاجت کیا ہے اور اس کی غایت (Objective) کیا ہے۔

اسلام کی دعوت انقلاب

اسلام کی دعوت انقلاب کا خلاصہ یہ ہے :

یا ایہا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم۔ لوگوں ! صرف اپنے اس رب کی بندگی کرو جس نے تمہیں پیدا کیا۔

اسلام مزدوروں یا زمینداروں یا کاشت کاروں یا کارخانہ داروں کو نہیں پکارتا ، بلکہ تمام انسانوں کو پکارتا ہے۔ اس کا خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے اور وہ کہتا یہ ہے کہ اگر تم خدا کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت اور فرماں برداری کرتے ہو تو اسے چھوڑ دو ۔ اگر خود تمہارے اندر خدائی کا داعیہ ہے تو اسے بھی دماغ سے نکال دو ۔ کیونکہ دوسروں سے اپنی بندگی کرانے اور دوسروں اک سر اپنے آگے جھکوانے کا حق بھی تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ تم سب کو ایک خدا کی بندگی قول کرنی چاہیے اور اس بندگی میں سب کو ایک سطح پر آجانا چاہیے۔

تعالیٰ الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ۔ آؤ ہم اور تم ایک ایسی بات پر جمع ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اور خداوندی میں کسی کو خدا کا شریک بھی نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے بجائے امر و نہی کا مالک بھی نہ بنائے۔

یہ عالمگیر اور کلی انقلاب کی دعوت تھی۔ اس نے پکار کر کہا ان الحکم الا اللہ حکومت سوائے خدا کے اور کسی کی نہیں ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ بذات خود انسانوں کا حکمران بن جائے اور اپنے اختیار سے جس چیز کا چاہے حکم دے اور جس چیز سے چاہے روک دے۔ کسی انسان کو بالذات امر و نہی کا ملک سمجھنا در اصل خدائی میں اسے شریک کرنا ہے۔ اور دنیا میں یہی اصل بنائے فساد ہے۔ اللہ نے انسان کو جس صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے اور زندگی بسر کرنے کا جو سیدھا راستہ اسے بتایا ہے اس سے انسان کے ہٹنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں اور نتیجۃ خود اپنی حقیقت کو بھی فراموش کردیتے ہیں۔ اس کا انجام پھر لازمی طور پر یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض اشخاص یا خاندان یا طبقے خدائی کا کھلا یا چھپا داعیہ لے کر اٹھتے ہیں اور اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کو اپنا بندہ بنا لیتے ہیں۔ اور دوسری طرف اسی خدا فروشی و خود فراموشی کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کا ایک حصہ طاقتوروں کی خداوندی مان لیتا ہے اور ان کے اس حق کو تسلیم کرلیتا ہے کہ وہ حکم کریں اور یہ اس حکم کے آگے سر جھکا دیں۔ یہ دنیا میں ظلم و فساد اور ناجائز انتفاع (Exploitation) کی بنیاد ہے اور اسلام پہلی ضرب اسی پر لگاتا ہے۔ وہ ہانکے پکارے کہتا ہے : ولا تطیعوا امر المسرفین۔ الذین یفسدون فی الارض ولا یصلحون۔ ان لوگوں کا حکم ہر گز نہ مانو جو اپنی جائز حد سے گزر گئے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے "۔

لاتطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ و کان امرہ فرطا۔ اس شخص کی اطاعت ہر گز نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشات نفس کا بندہ بن گیا ہے اور جس کا کام افراط وتفریط پر مبنی ہے۔

الا لعنۃ اللہ علی الظلمین۔ الذین یصدون عن سبیل اللہ و یبغونہا عوجا۔ خدا کی لعنت ان ظالموں پر جو خدا کے بنائے ہوئے زندگی کے سیدھے راستے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور اس کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں۔

وہ لوگوں سے پوچھتا ہے کہء ارباب متفرقون خیر ام اللہ الواحد القہار۔ یہ بہت سے چھوٹے خدا ، جن کی بندگی میں تم پسے جا رہے ہو ، ان کی بندگی قبول ہے ، یا اس ایک خدا کی جو سب سے زبردست ہے ؟ اگر اس خدائے واحد کی بندگی قبول نہ کروگے تو ان چھوٹے اور جھوٹے خداؤں کی آقائی سے تمہیں کبھی نجات نہ مل سکے گی۔ یہ کسی نہ کسی طور سے تم پر تسلط پا لیں گے ، اور فساد برپا کرکے رہیں گے : ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا وجعلوا اعزۃ اھلہا اذلۃ وکذلک یفعلون۔ یہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اس کے نظام حیات کو تہ وبالا کر ڈالتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور ان کا یہی وطیرہ ہے۔

و اذا تولی سعی فی الارض لیفسدو فیہا و یھلک الحرث و النسل واللہ لا یحب الفساد۔ اور جب وہ اقتدار پا لیتا ہے تو زمین میں فساد پھیلاتا ہے کھیتوں کو خراب اور نسلوں کو تباہ کرتا ہے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔

یہاں پوری تفصیل کا موقع نہیں۔ مختصراً میں یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی دعوت توحید و خدا پرستی محض اس معنی میں ایک مذہبی عقیدے کی دعوت نہ تھی جس میں عام طور پر مذہبی عقائد کی دعوت ہوا کرتی ہے ، بلکہ حقیقت میں یہ ایک اجتماعی انقلاب (Social Revolution) کی دعوت تھی۔ اس کی ضرب بلا واسطہ ان طبقوں پر پڑتی تھی جنہوں نے مذہبی رنگ میں پروہت بن کر ، یا سیاسی رنگ میں بادشاہ اور رئین اور حکمران گروہ بن کر ، یا معاشری نگ میں مہاجن اور زمیندار اور اجارہ دار بن کر عامۃ الناس کو اپنا بندہ بنا لیا تھا۔ یہ کہیں علانیہ ارباب من دون اللہ بنے ہوئے تھے۔ دنیا سے اپنے پیدائشی یا طبقاتی حقوق کی بنا پر اطاعت و بندگی کا مطالبہ کرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ ما لکم من الہ غیرہ اور انا ربکم الاعلی اور انا احی و امیت اور من اشد منا قوۃ اور کسی جگہ انہوں نے عامۃ لناس کی جہالت کو استعمال (Exploit) کرنے کے لیے بتوں اور ہیکلوں کی شکل میں مصنوعی خدا بنا رکھے تھے جن کی آڑ پکڑ کر یہ اپنے خداوندی حقوق بندگان خدا سے تسلیم کراتے تھے۔ پس کفر و شرک اور بت پرستی کے خلاف اسلام کی دعوت ، اور خدائے واحد کی بندگی و عبودیت کے لیے اسلام کی تبلیغ ، براہ راست حکومت اور اس کو سہارا دینے والے یا اس کے سہارے چلنے والے طبقوں کی اغراض سے متصادم ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے جب کبھی کسی نبی نے یا قوم اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ کی صدا بلند کی ، حکومت وقت فوراً اس کے مقابلے میں آن کھڑی ہوئی اور تمام ناجائز انتفاع کرنے والے طبقے اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگے۔ کیونکہ یہ محض ایک ما بعد الطبیعی قضیہ (Mataphysical Proposition) کا بیان نہ تھا ، بلکہ ایک اجتماعی انقلاب کا اعلان تھا اور اس میں پہلی اواز سنتے ہی سیاسی شورش کی بو سونگھ لی جاتی تھی۔

اسلامی دعوت انقلاب کی خصوصیت

اس میں شک نہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) سب کے سب انقلابی لیڈر تھے اور سیدنا محمد ﷺ سب سے بڑے انقلابی لیڈر ہیں۔ لیکن جو چیز دنیا کے عام انقلابیوں اور ان خدا پرست انقلابی لیڈروں کے درمیان واضح خط امتیاز کھینچتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے انقلابی لوگ خواہ کتنے ہی نیک نیت کیوں نہ ہو ، عدل اور توسط کے صحیح مقام کو نہیں پا سکتے۔ وہ یا تو خود مظلوم طبقوں میں سے نہ اٹھتے ہیں یا ان کی حمایت کا جذبہ لے کر اٹھتے ہیں اور پھر سارے معاملات کو انہی طبقوں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر غیر جانبدارانہ اور خلاص انسانیت کی نظر نہیں ہوتی بلکہ ایک طبقے کی طرف غصہ و نفرت کا اور دوسرے طبقے کی طرف حمایت کا جذبہ لیے ہوئے ہوتی ہے۔ وہ ظلم کا ایسا علاج سوچتے ہیں جو نتیجہ ایک جوابی ظلم ہوتا ہے۔ ان کے لیے انتقام ، حسد اور عداوت کے جذبات سے پاک ہو کر ایک ایسا معتدل اور متوازن اجتماعی نظام تجویز کرنا ممکن نہیں ہوتا جس میں مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح ہو۔ بخلاف اس کے انبیاء (علیہم السلام) خواہ کتنے ہی ستائے گئے ہوں اور کتنا ہی ان پر اور ان کے ساتھیوں پر ظلم کیا گیا ہو ، ان کی انقلابی تحریک میں کبھی ان کے شخصی جذبات کا اثر آنے نہیں پایا۔ وہ براہ راست خدا کی ہدایت کے تحت کام کرتے تھے اور خدا چونکہ انسانی جذبات سے منزہ ہے ، کسی انسانی طبقے سے اس کا مخصوص رشتہ نہیں ، نہ کسی دوسرے انسانی طبقے سے اس کو کوئی شکایت یا عداوت ہے۔ اس لیے خدا کی ہدایت کے تحت انبیاء (علیہم السلام) تمام معاملات کو بےلاگ انصاف کے ساتھ اس نظر سے دیکھتے تھے کہ تمام انسانوں کی مجموعی فلاح و بہبود کس چیز میں ہے۔ کس طرح ایک نظام بنایا جائے جس میں ہر شخص اپنی جائز حدود کے اندر رہ سکے۔ اپنے جائز حقوق سے متمتع ہوسکے اور افراد کے باہمی روابط ، نیز فرد اور جماعت کے باہمی تعلق میں کامل توازن قائم ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی انقلابی تحریک کبھی طبقاتی نزاع (Class War) میں تبیل نہ ہونے پائی۔ انہوں نے اجتماعی تعمیر نو (Social Reconstruction) اس طرز پر نہیں کی کہ ایک طبقے کو دوسرے طبقے پر مسلط کردیں ، بلکہ اس کے لیے عدل کا ایسا طریقہ اختیار کیا جس میں تمام انسانوں کے لیے ترقی اور مادی و روحانی سعادت کے یکساں امکانات رکھے گئے تھے۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

آیت 1 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ ط قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ ج فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْص وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ یہاں مال غنیمت کے لیے لفظ انفال استعمال کیا گیا ہے۔ انفال جمع ہے نفل کی اور نفل کے معنی ہیں اضافی شے۔ مثلاً نماز نفل ‘ جسے ادا کرلیں تو باعث ثواب ہے اور اگر ادا نہ کریں تو مواخذہ نہیں۔ اسی طرح جنگ میں اصل مطلوب شے تو فتح ہے جب کہ مال غنیمت ایک اضافی انعام ہے۔ جیسا کہ تمہیدی گفتگو میں بتایا جا چکا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد مسلمانوں میں مال غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ سنجیدہ صورت اختیار کر گیا تھا۔ یہاں ایک مختصر قطعی اور دو ٹوک حکم کے ذریعے سے اس مسئلہ کی جڑ کاٹ دی گئی ہے اور بہت واضح انداز میں بتادیا گیا ہے کہ انفال کل کے کل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ملکیت ہیں۔ اس لیے کہ یہ فتح تمہیں اللہ کی خصوصی مدد اور اللہ کے رسول ﷺ کے ذریعے سے نصیب ہوئی ہے۔ لہٰذا انفال کے حق دار بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی ہیں۔ اس قانون کے تحت یہ تمام غنیمتیں اسلامی ریاست کی ملکیت قرار پائیں اور تمام مجاہدین کو حکم دے دیا گیا کہ انفرادی طور جو چیز جس کسی کے پاس ہے وہ اسے لا کر بیت المال میں جمع کرا دے۔ اس طریقے سے سب لوگوں کو zero level پر لا کر کھڑا کردیا گیا اور یوں یہ مسئلہ احسن طور پر حل ہوگیا۔ اس کے بعد جس کو جو دیا گیا اس نے وہ بخوشی قبول کرلیا۔اگلی آیات اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں بندۂ مومن کی شخصیت کے کچھ خدوخال بیان ہوئے ہیں۔ مگر ان خدوخال کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ نکتہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مؤمن اور مسلمان دو مترادف الفاظ یا اصطلاحات نہیں ہیں۔ قرآن ان دونوں میں واضح فرق کرتا ہے۔ یہ فرق سورة الحجرات کی آیت 14 میں اس طرح بیان ہوا ہے : قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط اے نبی ﷺ ! یہ بدو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ‘ ان سے کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو ‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں جبکہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اسلام اور ایمان کا یہ فرق اچھی طرح سمجھنے کے لیے ارکان اسلام کی تفصیل ذہن میں تازہ کرلیجئے جو قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا کا مرحلۂ اولیٰ طے کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ : شَھَادَۃِ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَام الصَّلَاۃِ وَاِیْتَاء الزَّکَاۃِ وَحَجِّ الْبَیْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ 1 اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ‘ نماز قائم کرنا ‘ زکوٰۃ ادا کرنا ‘ بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔یہ پانچ ارکان اسلام ہیں ‘ جن سے ہر مسلمان واقف ہے۔ مگر جب ایمان کی بات ہوگی تو ان پانچ ارکان کے ساتھ دو مزید ارکان اضافی طور پر شامل ہوجائیں گے ‘ اور وہ ہیں دل کا یقین اور عمل میں جہاد۔ چناچہ ملاحظہ ہو سورة الحجرات کی اگلی آیت میں بندۂ مؤمن کی شخصیت کا یہ نقشہ : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط اُولٰٓءِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ مؤمن تو بس وہ ہیں جو ایمان لائیں اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ‘ پھر ان کے دلوں میں شک باقی نہ رہے اور وہ جہاد کریں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ صرف وہی لوگ اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں۔ یعنی کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد انسان قانونی طور پر مسلمان ہوگیا اور تمام ارکان اسلام اس کے لیے لازمی قرار پائے۔ مگر حقیقی مؤمن وہ تب بنے گا جب اس کے دل کو گہرے یقین ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا والا ایمان نصیب ہوگا اور عملی طور پر وہ جہاد میں بھی حصہ لے گا۔ بندۂ مؤمن کی اسی تعریف definition کی روشنی میں اہل ایمان کی کیفیت یہاں سورة الانفال میں دو حصوں میں الگ الگ بیان ہوئی ہے۔ وہ اس طرح کہ حقیقی ایمان والے حصے کی کیفیت کو آیت 2 اور 3 میں بیان کیا گیا ہے ‘ جبکہ اس کے دوسرے جہاد والے حصے کی کیفیات کو سورت کی آخری آیت سے پہلے والی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک پرکار compass کو کھول دیا گیا ہو ‘ جس کی ایک نوک سورت کے آغاز پر ہے پہلی آیت چھوڑ کر جبکہ دوسری نوک سورت کے آخر پر ہے آخری آیت چھوڑ کر۔ اس وضاحت کے بعد اب ملاحظہ ہو بندۂ مؤمن کی تعریف definition کا پہلا حصہ :

بخاری شریف میں ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سورة انفال غزوہ بدر کے بارے میں اتری ہے۔ فرماتے ہیں انفال سے مراد غنیمتیں ہیں جو صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے ہی تھیں ان میں سے کوئی چیز کسی اور کیلئے نہ تھی۔ آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا گھوڑا بھی انفال میں سے ہے اور سامان بھی۔ سائل نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر پوچھا کہ جس انفال کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ غرض پوچھتے پوچھتے آپ کو تنگ کردیا تو آپ نے فرمایا اس کا یہ کرتوت اس سے کم نہیں جسے حضرت عمر نے مارا تھا۔ حضرت فاروق اعظم سے جب سوال ہوتا تو آپ فرماتے نہ تجھے حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں، ابن عباس فرماتے ہیں واللہ حق تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا حکم فرمانے والا حلال حرام کی وضاحت کرنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے اس سائل کو جواب دیا کہ کسی کسی کو بطور نفل (مال غنیمت) گھوڑا بھی ملتا اور ہتھیار بھی۔ دو تین دفعہ اس نے یہی سوال کیا جس سے آپ غضبناک ہوگئے اور فرمانے لگے یہ تو ایسا ہی شخص ہے جسے حضرت عمر نے کوڑے لگائے تھے یہاں تک کہ اس کی ایڑیاں اور ٹخنے خون آلود ہوگئے تھے۔ اس پر سائل کہنے لگا کہ خیر آپ سے تو اللہ نے عمر کا بدلہ لے ہی لیا۔ الغرض ابن عباس کے نزدیک تو یہاں نفل سے مراد پانچویں حصے کے علاوہ وہ انعامی چیزیں ہیں جو امام اپنے سپاہیوں کو عطا فرمائے۔ واللہ اعلم۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس پانچویں حصے کا مسئلہ پوچھا جو چار ایسے ہی حصوں کے بعد رہ جائے۔ پس یہ آیت اتری۔ ابن مسعود وغیرہ فرماتے ہیں لڑائی والے دن اس سے زیادہ امام نہیں دے سکتا بلکہ لڑائی کے شروع سے پہلے اگر چاہے دے دے۔ عطا فرماتے ہیں کہ یہاں مراد مشرکوں کا وہ مال ہے جو بےلڑے بھڑے مل جائے خواہ جانور ہو خواہ لونڈی غلام یا اسباب ہو پس وہ آنحضرت ﷺ کے لئے ہی تھا آپ کو اختیار تھا کہ جس کام میں چاہیں لگا لیں تو گویا ان کے نزدیک مال فے انفال ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لشکر کے کسی رسالے کو بعوض ان کی کارکردگی یا حوصلہ افزائی کے امام انہیں عام تقسیم سے کچھ زیادہ دے اسے انفال کہا جاتا ہے۔ مسند احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ بدر والے دن جب میرے بھائی عمیر قتل کئے گئے میں نے سعید بن عاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے لی جسے ذوالکتیعہ کہا جاتا تھا سے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جاؤ اسے باقی مال کے ساتھ رکھ آؤ۔ میں نے حکم کی تعمیل تو کرلی لیکن اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت میرے دل پر کیا گذری۔ ایک طرف بھائی کق قتل کا صدمہ دوسری طرف اپنا حاصل کردہ سامان واپس ہونے کا صدمہ۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا ہوں گا جو سورة انفال نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور وہ تلوار جو تم ڈال آئے ہو لے جاؤ۔ مسند میں حضرت سعد بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں سے بچا لیا اب آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئے آپ نے فرمایا سنو نہ یہ تمہاری ہے نہ میری ہے۔ اسے بیت المال میں داخل کردو میں نے رکھ دی اور میرے دل میں خیال آیا کہ آج جس نے مجھ جیسی محنت نہیں کی اسے یہ انعام مل جائے گا یہ کہتا ہوا جا ہی رہا تھا جو آواز آئی کہ کوئی میرا نام لے کر میرے پیچھے سے مجھے پکار رہا ہے لوٹا اور پوچھا کہ حضور کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ؟ آپ نے فرمایا ہاں تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی اس وقت وہ میری نہ تھی اب وہ مجھے دے دی گئی اور میں تمہیں دے رہا ہوں، پس آیت (يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ) 8۔ الانفال :1) اس بارے میں اتری ہے جو ابو داؤد طیالسی میں انہی سے مروی ہے کہ میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ مجھے بدر والے دن ایک تلوار ملی میں اسے لے کر سرکار رسالت مآب میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ تلوار آپ مجھے عنایت فرمائیے آپ نے فرمایا جاؤ جہاں سے لی ہے وہیں رکھ دو۔ میں نے پھر طلب کی آپ نے پھر یہی جواب دیا۔ میں نے پھر مانگی آپ نے پھر یہی فرمایا۔ اسی وقت یہ آیت اتری۔ یہ پوری حدیث ہم نے آیت (وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ) 29۔ العنکبوت :8) کی تفسیر میں وارد کی ہے۔ پس ایک تو یہ آیت دوسری آیت (وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14؀) 31۔ لقمان :14) تیسری آیت (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 90؀) 5۔ المآئدہ :90) ، چوتھی آیت وصیت (صحیح مسلم شریف) سیرت ابن اسحاق میں ہے حضرت ابو سعید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مجھے سیف بن عاند کی تلوار ملی جسے مرزبان کہا جاتا تھا۔ جب نبی ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو وہ جمع کرا دے، میں بھی گیا اور وہ تلوار رکھ آیا۔ آنحضرت ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ اگر کوئی آپ سے کچھ مانگتا تو آپ انکار نہ کرتے۔ حضرت ارقم بن ارقم خزاعی ؓ نے اس تلوار کو دیکھ کر آپ سے اسی کا سوال کیا آپ نے انہیں عطا فرما دی۔ اس آیت کے نزول کا سبب مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت ابو امامہ نے حضرت عبادہ سے انفال کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہم بدریوں کے بارے میں ہے جبکہ ہم مال کفار کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور جھگڑے بڑھ گئے تو یہ آیت اتری اور یہ رسول اللہ ﷺ کے سپرد ہوگئی اور حضور نے اس مال کو برابری سے تقسیم فرمایا۔ مسند احمد میں ہے کہ ہم غزوہ بدر میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ہماری ایک جماعت نے تو ان کا تعاقب کیا کہ پوری ہزیمت دے دے دوسری جماعت نے مال غنیمت میدان جنگ سے سمیٹنا شروع کیا اور ایک جماعت اللہ کے نبی ﷺ کے اردگرد کھڑی ہوگئی کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے۔ رات کو سب لوگ جمع ہوئے اور ہر جماعت اپنا حق اس مال پر جتانے لگی۔ پہلی جماعت نے کہا دشمنوں کو ہم نے ہی ہر ایا ہے۔ دوسری جماعت نے کہا مال غنیمت ہمارا ہی سمیٹا ہوا ہے۔ تیسری جماعت نے کہا ہم نے حضور کی چوکیداری کی ہے پس یہ آیت اتری اور حضور نے خود اس مال کو ہم میں تقسیم فرمایا۔ آپ کی عادت مبارک تھی کہ حملے کی موجودگی میں چوتھائی بانٹتے اور لوٹتے وقت تہائی آپ انفال کو مکروہ سمجھتے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ بدر والے دن رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جو ایسا کرے اسے یہ انعام اور جو ایسا کرے اسے یہ انعام۔ اب نوجوان تو دوڑ پڑے اور کار نمایاں انجام دیئے۔ بوڑھوں نے مورچے تھامے اور جھنڈوں تلے رہے۔ اب جوانوں کا مطالبہ تھا کہ کل مال ہمیں ملنا چاہئے بوڑھے کہتے تھے کہ لشکر گاہ کو ہم نے محفوظ رکھا تم اگر شکست اٹھاتے تو یہیں آتے۔ اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ حضور کا اعلان ہوگیا تھا کہ جو کسی کافر کو قتل کرے اسے اتنا ملے گا اور جو کسی کافر کو قید کرے اسے اتنا ملے گا۔ حضرت ابو الیسر ؓ دو قیدی پکڑ لائے اور حضرت کو وعدہ یاد دلایا اس پر حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ پھر تو ہم سب یونہی رہ جائیں گے۔ بزدلی یا بےطاقتی کی وجہ سے ہم آگے نہ بڑھے ہوں یہ بات نہیں بلکہ اس لئے کہ پچھلی جانب سے کفار نہ آپڑیں، حضور کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اس لئے ہم آپ کے ارد گرد رہے، اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری اور آیت (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 41؀) 8۔ الانفال :41) بھی اتری، امام ابو عبید اللہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب احوال الشرعیہ میں لکھا ہے کہ انفال غنیمت ہے اور حربی کافروں کے جو مال مسلمانوں کے قبضے میں آئیں وہ سب ہیں پس انفال آنحضرت ﷺ کی ملکیت میں تھے بدر والے دن بغیر پانچواں حصہ نکالے جس طرح اللہ نے آپ کو سمجھایا آپ نے مجادین میں تقسیم کیا اس کے بعد پانچواں حصہ نکالنے کے حکم کی آیت اتری اور یہ پہلا حکم منسوخ ہوگیا لیکن ابن زید وغیرہ اسے منسوخ نہیں بتلاتے بلکہ محکم کہتے ہیں۔ انفال غنیمت کی جمع ہے مگر اس میں سے پانجواں حصہ مخصوص ہے۔ اس کی اہل کیلئے جیسے کہ کتاب اللہ میں حکم ہے اور جیسے کہ سنت رسول اللہ جاری ہوئی ہے۔ انفال کے معنی کلام عرب میں ہر اس احسان کے ہیں جسے کوئی بغیر کسی پابندی یا وجہ کے دوسرے کے ساتھ کرے۔ پہلے کی تمام امتوں پر یہ مال حرام تھے اس امت پر اللہ نے رحم فرمایا اور مال غنیمت ان کے لئے حلال کیا۔ چناچہ بخاری و مسلم میں ہے حضور فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں پھر ان کے ذکر میں ایک یہ ہے کہ آپ نے فرمایا میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہ تھیں۔ امام ابو عبید فرماتے ہیں کہ امام جن لشکریوں کو کوئی انعام دے جو اس کے مقررہ حصہ کے علاوہ ہو اسے نفل کہتے ہیں غنیمت کے انداز اور اس کے کار نامے کے صلے کے برابر یہ ملتا ہے۔ اس نفل کی چار صورتیں ہیں ایک تو مقتول کا مال اسباب وغیرہ جس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا جاتا۔ دوسرے وہ نفل جو پانچواں حصہ علیحدہ کرنے کے بعد دیا جاتا ہے۔ مثلاً امام نے کوئی چھوٹا سا لشکر کسی دشمن پر بھیج دیا وہ غنیمت یا مال لے کر پلٹا تو امام اس میں سے اسے چوتھائی یا تہائی بانٹ دے تیسرے صورت یہ کہ جو پانچواں حصہ نکال کر باقی کا تقسیم ہوچکا ہے، اب امام بقدر خزانہ اور بقدر شخصی جرات کے اس میں سے جسے جتنا چاہے دے۔ چوتھی صورت یہ کہ امام پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے ہی کسی کو کچھ دے مثلاً چرواہوں کو، سائیسوں کو، بہشتیوں کو وغیرہ۔ پھر ہر صورت میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے جو سامان اسباب مقتولین کا مجاہدین کو دیا جائے وہ انفال میں داخل ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا اپنا حصہ پانچویں حصے میں سے پانچواں جو تھا اس میں سے آپ جسے چاہیں جتنا چاہیں عطا فرمائیں یہ نفل ہے۔ پس امام کو چاہئے کہ دشمنوں کی کثرت مسلمانوں کی قلت اور ایسے ہی ضروری وقتوں میں اس سنت کی تابعیداری کرے۔ ہاں جب ایسا موقع نہ ہو تو نفل ضروری نہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امام ایک چھوٹی سی جماعت کہیں بھیجتا ہے اور ان سے کہہ دیتا ہے کہ جو شخص جو کچھ حاصل کرے پانچواں حصہ نکال کر باقی سب اسی کا ہے تو وہ سب انہی کا ہے کیونکہ انہوں نے اسی شرط پر غزوہ کیا ہے اور یہ رضامندی سے طے ہوچکی ہے۔ لیکن ان کے اس بیان میں جو کہا گیا ہے کہ بدر کی غنیمت کا پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا۔ اس میں ذرا کلام ہے۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ دو اونٹنیاں وہ ہیں جو انہیں بدر کے دن پانچویں حصے میں ملی تھیں میں نے اس کا پورا بیان کتاب السیرہ میں کردیا ہے۔ فالحمد للہ۔ تم اپنے کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو، آپس میں صلح و صفائی رکھو، ظلم، جھگڑے اور مخالفت سے باز آجاؤ۔ جو ہدایت و علم اللہ کی طرف سے تمہیں ملا ہے اس کی قدر کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، عدل و انصاف سے ان مالوں کو تقسیم کرو۔ پرہیزگاری اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کرو۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ حضور بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے۔ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے۔ اس وقت حضور کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے طالب اپنی نگاہ اٹھا اور ان جنتیوں کو دیکھ وہ دیکھے گا اور کہے گا چاندی کے قلعے اور سونے کے محل میں دیکھ رہا ہوں جو لؤ لؤ اور موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہیں پروردگار مجھے بتایا جائے کہ یہ مکانات اور یہ درجے کسی نبی کے ہیں یا کسی صدیق کے یا کسی شہید کے ؟ اللہ فرمائے گا یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت ادا کر دے۔ وہ کہے گا اللہ کس سے ان کی قیمت ادا ہو سکے گی ؟ فرمائے گا تیرے پاس تو اس کی قیمت ہے وہ خوش ہو کر پوچھے گا کہ پروردگار کیا ؟ اللہ فرمائے گا یہی کہ تیرا جو حق اس مسلمان پر ہے تو اسے معاف کر دے، بہت جلد کہے گا کہ اللہ میں نے معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ اب اس کا ہاتھ تھام لے اور تم دونوں جنت میں چلے جاؤ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کا آخری حصہ تلاوت فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور آپس کی اصلاح کرو دیکھو اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن مومنوں میں صلح کرائے گا۔

آیت 1 - سورۃ الانفال: (يسألونك عن الأنفال ۖ قل الأنفال لله والرسول ۖ فاتقوا الله وأصلحوا ذات بينكم ۖ وأطيعوا الله ورسوله إن كنتم...) - اردو