سورۃ الانبیاء: آیت 21 - أم اتخذوا آلهة من الأرض... - اردو

آیت 21 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

أَمِ ٱتَّخَذُوٓا۟ ءَالِهَةً مِّنَ ٱلْأَرْضِ هُمْ يُنشِرُونَ

اردو ترجمہ

کیا اِن لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ (بے جان کو جان بخش کر) اُٹھا کھڑا کرتے ہوں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ami ittakhathoo alihatan mina alardi hum yunshiroona

آیت 21 کی تفسیر

ام اتخذوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الآ انا فاعبدون (12 : 52) ”

کیا اسے چھوڑ کر انہوں نے دوسرے خدا بنا لیے ہیں ؟ اے نبی ﷺ ‘ ان سے کہو کہ ” لا ئو اپنی دلیل ‘ یہ کتاب بھی موجود ہے جس میں میرے دوسرے لوگوں کے لیے نصیحت ہے اور وہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے نصیحت تھی “۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے بیخبر ہیں ‘ اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیاج ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خاد نہیں ہے ‘ پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو “۔

ان لوگوں کے بارے میں پوچھنا کہ انہوں نے اللہ کے سوا الہٰ پکڑ رکھے ہیں ‘ استفہام انکاری ہے اور پھر ان الہوں کی یہ صفت بیان کرنا کہ وہ لوگوں کو مارتے ہیں اور پھر زندہ کریں گے۔ یہ ان کے الہوں کے ساتھ مذاق ہے ‘ کیونکہ کسی الہٰ کا سچا تصور ہی یہ ہے کہ وہ موت کے بعد لوگوں کو زندہ کر کے حساب و کتاب لے۔ مذاق کے طور پر پوچھا جاتا ہے کہ بتائو ان کے یہ الہٰ حشر و نشر کا کام کرتے رہتے ہیں ؟ اگر نہیں ‘ اور مشرکینخود بھی مانتے ہیں کہ نہیں ‘ تو پھر کیوں ان کو الہٰ مانتے ہیں ‘ جبکہ وہ اپنے اندر الہٰ ہونے کی صفت اول ہی نہیں رکھتے۔

یہ عملی استدلال اور عملی منطق ہے۔ اب ایک دوسری حقیقت پسندانہ عملی دلیل ملاحظہ ؟

لوکان فیھمآ الہھۃ الا اللہ لفسدتا (12 : 22) ” اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا “۔ یہ کائنات ایک ایسے قانون قدرت کے اوپر قائم ہے جو اس کے تمام اجزاء کے درمیان ایک مکمل ربطہ قائم کرتا ہے اور اس کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں۔ ایک ایک جزء کی حرکت کائنات کے کل کی حرکت کے ساتھ مربوط ہے۔ یہ قانون واحد ایک واحد مقنن کے حکم اور ارادے کا مرہون منت ہے۔ اگر کائنات کی مدبر ہستیاں متعدد ہوتیں تو ارادے بھی متعدد ہوتے اور قوانین بھی متعدد ہوتے۔ ارادہ کرنے والی ذات کا مظہر اور ہوتا ہے اور کوئی قانون اور ضابطہ نافذ کرنے والی ذات کے ارادے کا مظہر اور ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کائنات کا یہ مکمل نظام کب کا باہم ٹکرا جاتا اور اس میں ہم آہنگی نہ رہتی اور اس کائنات میں آئے دن عظیم اضطرابات ہوتے رہتے کائنات کے اندر یہ ربط ‘ تنظیم اور ہم آہنگی اس قدر محسوس اور مشاہد ہے کہ ملحد سے ملحد شخص بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ دنیا میں جن لوگوں کی فطرت سلیم ہے وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اس پوری کائنات میں ایک ہی قانون کار فرما ہے اور یہ ناموس ایک اہم شہادت ہے کہ پوری کائنات میں ایک ہی ادارہ کام کرتا ہے اور اس کا ایک ہی خالق اور مدبر ہے ‘ اس لیے اس کی ساخت اور رفتار میں کوئی فساد نہیں ہے۔

فسبحن اللہ رب العرش عما یصفون (12 : 22) ” پس پاک ہے اللہ رب العرش ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ وہ یہ باتیں بناتے ہیں کہ اللہ کے شریک ہیں حالانکہ وہ ان باتوں سے منزہ ہے۔ وہ عرش کا رب ہے۔ عرش اللہ کے اقتدار اعلیٰ ‘ اللہ کے قبضے اور احاطے اور اللہ کی بلندی کا رمز اور اشارہ ہے۔ اللہ ان کی بنائی ہوئی باتوں سے پاک ہے اور جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اسی کائنات کی سلامت رومی ‘ تنظیم اور ہم آہنگی اور یک رنگ ان کی باتوں کی تکذیب کرتی ہے۔

آیت 21 اَمِ اتَّخَذُوْٓا اٰلِہَۃً مِّنَ الْاَرْضِ ہُمْ یُنْشِرُوْنَ ”کیا ان کا خیال ہے کہ وہ ان باطل معبودوں کی نظر کرم سے دنیا میں خوب پھلیں پھولیں گے اور ترقی کی اعلیٰ منازل طے کرلیں گے ؟

سب تہمتوں سے بلند اللہ جل شانہ شرک کی تردید ہو رہی ہے کہ جن جن کو تم اللہ کے سوا پوج رہے ہو ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو مردوں کو جلا سکے۔ کسی میں یا سب میں مل کر بھی یہ قدرت نہیں پھر انہیں اس قدرت والے کے برابر ماننا یا ان کی بھی عبادت کرنا کس قدر ناانصافی ہے ؟ پھر فرماتا ہے سنو اگر مان لیا جائے کہ فی الواقع بہت سے الہٰ ہیں تولازم آئے گا کہ زمین و آسمان تباہ و برباد ہوجائیں جیسے فرمان ہے آیت (مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ 91؀ۙ) 23۔ المؤمنون :91) اللہ کی اولاد نہیں، نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوقات کو لئے پھرتا اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ اوصاف سے مبرا اور منزہ ہے۔ یہاں فرمایا اللہ تعالیٰ مالک عرش ان کے کہے ہوئے ردی اوصاف سے یعنی لڑکے لڑکیوں سے پاک ہے۔ اسی طرح شریک اور ساجھی سے، مثل اور ساتھی سے بھی بلند وبالا ہے۔ ان کی یہ سب تہمتیں ہیں جن سے اللہ کی ذات برتر ہے۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ علی الاطلاق شہنشاہ حقیقی ہے، اس پر کوئی حاکم نہیں۔ سب اس کے غلبے اور قہر تلے ہیں۔ نہ تو اس کے حکم کا کوئی تعاقب کرسکے نہ اس کے فرمان کو کوئی ٹال سکے۔ اس کی کبریائی اور عظمت جلال اور حکومت علم اور حکمت لطف اور رحمت بےپایاں ہے۔ کسی کو اس کے آگے دم مارنے کی مجال نہیں۔ سب پست اور عاجز ہیں لاچار اور بےبس ہیں۔ کوئی نہیں جو چوں کرے کوئی نہیں جو اس کے سامنے بول سکے کوئی نہیں جسے چوں چرا کا اختیار ہو جو اس کا پوچھ سکے کہ یہ کام کیوں کیا ایسا کیوں ہوا ؟ وہ چونکہ تمام مخلوق کا خالق ہے سب کا مالک ہے اسے اختیار ہے جس سے جو چاہے سوال کرے کہ ہر ایک کے اعمال کی وہ باز پرس کرے گا۔ جیسے فرمان ہے آیت (فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ 92 ۙ) 15۔ الحجر :92) ، تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے سوال کریں گے ہر اس فعل سے جو انہوں نے کیا۔ وہی ہے کہ جو اس کی پناہ میں آگیا سب شر سے بچ گیا اور کوئی نہیں جو اس کے مجرم کو پناہ دے سکے۔

آیت 21 - سورۃ الانبیاء: (أم اتخذوا آلهة من الأرض هم ينشرون...) - اردو