سورۃ الانبیاء: آیت 19 - وله من في السماوات والأرض... - اردو

آیت 19 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

وَلَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُۥ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ

اردو ترجمہ

زمین اور آسمان میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے اور جو (فرشتے) اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اُس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walahu man fee alssamawati waalardi waman AAindahu la yastakbiroona AAan AAibadatihi wala yastahsiroona

آیت 19 کی تفسیر

ولہ من فی السموت والارض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یفترون ”

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کے سوا اس کا پورا علم کسی کو نہیں ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو ہر چیز کا احاطہ کرسکتا ہے ۔ علم و بشیر ہی صرف انسان کے بارے میں یقین سے جانتا ہے۔ اہل ایمان جن اور ملائکہ کے وجود پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ ان کا ذکر قرآن مجید میں ہے لیکن ان دو مخلوقوں کے بارے میں بھی ہم صرف اسی قدر جانتے ہیں جس قدر ہمیں خالق نے علم دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اندونوں کے علاوہ کو اکب میں اور ذی عقل مخلوق بھی ہو اور اس کی شکل و صورت اس سیارے کے ماحول اور طبیعی حالات کے مطابق ہو ‘ لیکن یہ علم بھی اللہ ہی کے پاس ہے۔

ولہ من فی السموات والارض (12 : 91) ” اور زمین و آسمان میں جو مخلوق بھی ہے ‘ اللہ کی ہے “۔ تو ہمیں جس جس مخلوق کے بارے میں علم ہے اسے ہم مانتے ہیں اور جس کے بارے میں علم نہیں ہے اسے خلاق کائنات پر چھوڑ دیتے ہیں۔

ومن عندہ ” اور جو اس کے پاس ہیں۔ اس کا قریبی مفہوم تو یہی ہے کہ مراد فرشتے ہیں ‘ لیکن ہم اس کے مفہوم میں تخصیص کیوں کریں۔ اس میں ملائل کہ اور دوسری مخلوقات شامل ہیں۔ اس کے ” پاس “ یا ” عندہ “ مفہوم اللہ کے حوالے سے مکانیت کا اظہار نہیں کرتا بلکہ اس سے قرب معلوم ہوتا ہے۔

ومن عندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولایستحسرون (12 : 91) ” اور جو اللہ کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی عبادت سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ طول ہوتے ہیں “۔ جس طرح مشرکین مکہ محض تکبر کی وجہ سے اللہ کی بندگی سے منہ موڑتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں یعنی رات اور دن وہ مسلسل اللہ کی بندگی اور تسبیح و تہلیل کرتے ہیں۔

جہاں تک انسان کا تعلق ہے اس کی پوری زندگی عبادت بن سکتی ہے اور وہ اپنے آپ کو فرشتوں کی طرح مسلسل عبادت کی حالت میں رکھ سکتا اگر وہ اپنی پوری زندگی میں اللہ کی بندگی اور اطاعت کرے اگرچہ اس کے بعض افعال ذاتی نوعیت کے ہوں ‘ مثلاً اس کا کھانا پینا۔

یہ کہ اللہ کی تعدد ولا تصی مخلوق رات اور دن اللہ کی عبادت میں مصروف ہے ‘ جو بھی زمین اور آسمانوں میں ہے ‘ لیکن مشرکین اللہ وحدہ کی بندگی سے سرتابی کر کے دوسرے الہوں کی بندگی کرتے ہیں اور انہیں پکارتے ہیں۔ ان کی یہ حرکت بہت ہی بری ہے۔ حالانکہ رات اور دن کا نظام اور اس پوری کائنات میں چلنے والا ناموس فطرت اس بات پر دلیل بین ہے کہ مدبر کائنات اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ نیز نقلی استدلال بھی اگر مانگتے ہیں تو پوآن اور تمام کتب سماوی اس پر متفق ہیں کہ اللہ الہٰ واحد ہے اور یہی تمام رسولوں اور کتابوں کی دعوت ہے۔

آیت 19 - سورۃ الانبیاء: (وله من في السماوات والأرض ۚ ومن عنده لا يستكبرون عن عبادته ولا يستحسرون...) - اردو