سورۃ الانبیاء: آیت 18 - بل نقذف بالحق على الباطل... - اردو

آیت 18 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

بَلْ نَقْذِفُ بِٱلْحَقِّ عَلَى ٱلْبَٰطِلِ فَيَدْمَغُهُۥ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ ٱلْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ

اردو ترجمہ

مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مِٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal naqthifu bialhaqqi AAala albatili fayadmaghuhu faitha huwa zahiqun walakumu alwaylu mimma tasifoona

آیت 18 کی تفسیر

بل نقذف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زاھق (12 : 81) ” مگر ہم باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے “۔ نحو میں لفظ بل اضراب کے لیے آتا ہے یعنی ایک بات کو چھوڑ کر متکلم دوسری بات لیتا ہے۔ یعنی لہو کی بات چھوڑ کر بتایا جاتا ہے کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی کشمکش ہے اور سنت الہیہ یہ ہے کہ اس کشمکش میں حق کو غلبہ نصیب ہو۔

اس منظر کا انداز تعبیر نہایت ہی حسی محسوس ہونے والا ‘ زندگی سے بھرپور اور حرکت سے بھر پور ہے۔ نقشہ کچھ یوں ہے کہ سچائی ایک گولہ ہے جو دست قدرت میں ہے ‘ قدرت اسے پھینکتی ہے ‘ یہ باطل کے سر پر لگتا ہے اور اس کے دماغ کو پھوڑ کر رکھ دیتا ہے اور باطل صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے آناً فاناً ۔

یہ ایک طے شدہ سنت ہے ‘ اور سچائی اس کائنات کے اندر اصل ہے۔ کائنات کے وجود میں اس کا گہر ادخل ہے۔ باطل تو دائرہ کائنات سے خارج البلد ہے۔ اگر کہیں نظر آتا ہے تو یہ عارضی ہوتا ہے ‘ اس کی قوت گہری نہیں ہوسکتی ‘ اللہ اس باطل کو بھگاتا رہتا ہے۔ سچائی سے خود اللہ باطل پر بمباری کرتارہتا ہے اور اس کا سر توڑ تا رہتا ہے۔ لہٰذا جس چیز پر اللہ کی بمباری ہو ‘ جس چیز کو دست قدرت فنا کرتا ہو ‘ اس کے لیے بقا نہیں ہے۔ ہر گز نہیں ہے !

بعض سطحی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اس وقت عملی صورت حالات اس کرئہ ارض پر اس کے خلاف ہے ‘ جو اللہ علیم وخبیر فرمارہا ہے۔ بظاہر حالات اس کے برعکس ہیں۔ یہ سوال ان تاریخی وقفوں میں پیدا ہوتا ہے جن میں کبھی کبھار باطل پھولا ہوا نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ گویا اس کی حکمرانی رہے گی۔ اور ان وقفوں میں حق اور اہل حق اس قدر بدحال ‘ افسردہ اور غبار آلودہ ہوتے ہیں کہ وہ مغلوب نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں بعض مختصر وقفوں میں یوں ہوتا رہتا ہے۔ ان وقفوں کو اللہ تعالیٰ بعض اوقات ذرا طویل بھی کردیتا ہے مگر یہ اہل حق کی آزمائش کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد سنت الہی کا دست غیب بمباری شروع کرتا ہے۔ یہ سنت الہیہ ہے اور اسی سنت پر ارض و سما کا نظام قائم ہے اور اسی پر اسلامی دعوتوں کا بھی نظام قائم ہے۔

جن لوگوں کا ایمان پختہ ہے ان کے دل میں تو ذرا شک بھی پیدا نہیں ہو سکتا کہ اس کائنات کی بنیاد سچائی پر ہے۔ وہ یہ شک نہیں کرسکتے کہ اللہ داعیان حق کی نصرت کرتے ہوئے باطل پر گولہ پھینکتا ہے اور اس کا بھیجا نکالا دیتا ہے۔ اہل حق کو اگر اللہ کچھ عرصہ کے لیے آزمائے تو ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ان کی آزمائش ہے۔ ان کور اہ حق میں جم جانا چاہیے۔ اور اس آزمائش میں پورا اترنا چاہیے۔ ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان میں کچھ کمزور یاں ہیں اور اللہ چاہتا ہے کہ وہ دور ہوں اور وہ اس حق کے غلبے کے لیے تیار ہوں۔ وہ دست قدرت کا کام کریں ‘ اپنی کمزوریاں دور کریں ‘ اپنے اندر کمال پیدا کریں جس قدر وہ جلدی تیاریاں مکمل کریں گے ‘ ان کی آزمائش کا عرصہ اسی قدر جلدی ختم ہوگا اور پھر اللہ باطل پر جو گولہ باری کرے گا تو انہی کے ہاتھوں سے ہوگی۔ اہل حق کے غلبے کے لیے تیار ہوں۔ وہ دست دقدرت کا کام کریں ‘ اپنی کمزوریاں دور کریں ‘ اپنے اندر کمال پیدا کریں جس قدر وہ جلدی تیاریاں مکمل کریں گے ‘ ان کی آزمائش کا عرصہ اسی قدر جلدی ختم ہوگا اور پھر اللہ باطل پر جو گولہ باری کرے گا تو انہی کے ہاتھوں سے یہ ہوگی۔ (وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی) کا منظر ہوگا ‘ اچانک باطل اس دنیا سے نیست و نابود ہوجائے گا۔ یادرکھئے کہ باطل کا انجام مقرر ہے۔

بل نقذف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زاھق (12 : 81) ” مگر ہم باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے “۔ اور اللہ جو چاہتا ہے ‘ وہ کرتا ہے۔

(روس میں دست قدرت نے یہ کام کردکھایا ہے۔ مترجم)

قرآن کریم یہ حقیقت مشرکین مکہ کیذہن نشین کررہا ہے جو قرآن مجید کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتے تھے کہ یہ سحر ہے ‘ یہ شعر ہے ‘ یہ افتراء ہے۔ حالانکہ یہ برحق ہے اور قرآن کریم باطل پر حملہ آور ہے ‘ اس کا سر پھوڑ رہا ہے اور جلد ہی باطل اور شرک (جزیرۃ العرب سے ) مٹنے والا ہے۔ ان کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ تم قرآن مجید یا تحریک اسلامی کے بارے میں جو باتیں بناتے ہو ‘ وہ تمہارے لیے سامان ہلاکت ہیں۔ (ولکم الویل مما تصفون) اس کے بعد ان کے سامنے ان کی نافرمانی اور روگردانی کے مقابلے میں اطاعت کیش مخلوق کی اطاعت شعاری کا ایک نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ نمونہ ان لوگوں کی زندگی سے پیش کیا جاتا ہے جو ان کے مقابلے میں خدا تخالیٰ سے زیادہ قریب ہیں ‘ لیکن اس قربت کے باوجود وہ رات اور دن اس کی بندگی میں لگے ہوئے ہیں اور بندگی کرتے کرتے تھکتے بھی نہیں۔

آیت 18 بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ط ”یہ تاریخ انسانی کا قرآنی فلسفہ ہے۔ دوسری طرف ایک نظریہ سپنگلر کا بھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قوموں کی زندگی ایک فرد کی زندگی سے مشابہ ہے۔ جس طرح ایک بچہ پیدا ہوتا ہے ‘ بچپن گزارتا ہے ‘ جوانی کو پہنچتا ہے ‘ بوڑھا ہوتا ہے اور پھر مرجاتا ہے ‘ ایسے ہی دنیا میں قومیں اور ان کی تہذیبیں پیدا ہوتی ہیں ‘ ترقی کرتی ہیں ‘ بام عروج پر پہنچتی ہیں ‘ اور پھر کمزوریوں اور خرابیوں کے باعث زوال پذیر ہو کر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس ضمن میں کارل مارکس نے جو Dialectical Materialism کا نظریہ وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو الرعد : 17 کی تشریح پیش کیا ہے ‘ وہ بھی اپنی جگہ اہم ہے۔بہر حال آیت زیر نظر میں جو فلسفہ دیا گیا ہے اس کے مطابق دنیا میں حق و باطل کی کشمکش مسلسل جاری ہے۔ ایک طرف ابلیس ‘ اس کی نسل اور اس کے ایجنٹ ہیں ‘ جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ‘ انبیاء ورسل ‘ صدیقین ‘ شہداء اور مؤمنین صادقین ہیں۔ قرآن کے اس فلسفہ کو اقبالؔ نے اس طرح بیان کیا ہے : ؂ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی ﷺ سے شرار بولہبی مشیتِ الٰہی سے کبھی کبھی یہ کشمکش دھماکہ خیزہو کر باقاعدہ ایک معرکے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ طالبانِ حق کی مدد کرتا ہے اور ان کی طاقت کے ذریعے باطل کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔حق و باطل کا ایسا ہی ایک بہت خوفناک معرکہ قرب قیامت کے زمانے میں ہونے والا ہے۔ یہ جنگوں کا ایک طویل سلسلہ ہوگا جس کو عیسائی روایات میں Armageddon جبکہ احادیث میں ”المَلحَمۃ العُظمٰی“ کا نام دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے مستقبل کے اس معرکے کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے : ؂دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا اللہ کو پامردئ مؤمن پہ بھروسہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا یہاں علامہ اقبال نے لفظ ”تہذیب“ کے ذریعے اسی مخصوص ذہنیت اور سوچ کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے تحت فرعون نے اپنے عوام کو ”طَرِیقَتکُمُ المُثْلٰی“ کے نام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ابھارنے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت تمہارے مثالی تہذیب و تمدن کو بڑا خطرہ درپیش ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کو جب بھی منظور ہوتا ہے کوئی تحریک یا کوئی جمعیت حق کی علمبردار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے اور باطل اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ایسی ہی قوم یا جماعت اللہ کے دست قدرت کی وہ تلوار ہے جس سے وہ باطل کا قلع قمع کرتا ہے : ؂صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب !لیکن یہ مقام رفیع صرف وہی قوم حاصل کرسکتی ہے جو قدم قدم پر خود اپنا احتساب کرنے کی پالیسی پر عمل پیراہو۔

آیت 18 - سورۃ الانبیاء: (بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق ۚ ولكم الويل مما تصفون...) - اردو