سورۃ الانبیاء: آیت 16 - وما خلقنا السماء والأرض وما... - اردو

آیت 16 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

وَمَا خَلَقْنَا ٱلسَّمَآءَ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَٰعِبِينَ

اردو ترجمہ

ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama khalaqna alssamaa waalarda wama baynahuma laAAibeena

آیت 16 کی تفسیر

وما خلقنا السمآ ئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مما تصفون (61 : 81) ”

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک حکمت اور اسکیم کے مطابق پیدا کیا ہے ‘ اس کا ایک مقصد ہے ۔ یہ کائنات محض کھیل تماشے کے طور پر نہیں پیدا کی گئی۔ یہ ایک حکیمانہ فعل ہے ‘ محض اتفاقی عمل نہیں ہے۔ جس سنجیدگی ‘ سچائی اور مقصدیت کے ساتھ زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا ہے ‘ اس کے ساتھ رسولوں کو بھی بھیجا گیا ہے۔ کتابیں نازل کی گئی ہیں ‘ فرائض منصبی مقرر ہوئے اور شریعت اور قانون بنائے گئے ہیں۔ لہٰذا مقصدیت اور سنجیدگی اس کائنات کی اساس ہے۔ اس کے چلانے کا بھی ایک مقصد ہے۔ اس میں انسانوں کو ایک نظریہ دینے میں بھی ایک مقصد ہے اور موت کے بعد حساب و کتاب میں بھی مقصدیت اور سنجیدگی ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ کوئی کھلونا بنانا چاہتا تو اپنے ہاں بنا لیتا۔ ایک ذاتی کھیل ہوتا اور اللہ کی دوسری مخلوقات سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا۔ یہ محض الزامی اور جدلی فرض ہے۔ ” اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے پاس ہی سے کرلیتے “۔ جس طرح نحوی لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف امتناع برائے امتناع ہے۔ یعنی ” لو “ کے بعد ایک فقرہ شرط ہوتا ہے اور دوسرا جواب شرط ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں فقروں کا واقع ہونن ناممکن اور ممتنع ہے۔ چونکہ اللہ نے ارادہ ہی نہیں کیا اس لیے لہو و لعب ہوا ہی نہیں ہے۔ نہ اللہ کے ہاں کوئی لہو ہوا اور نہ خارج میں کسی معاملے میں ہوا۔ اور یہ لہو ولعب ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس کی طرف اللہ کا ارادہ متوجہ ہی نہیں ہوا۔

ان کنا فعلین (12 : 71) کے معنی ہیں ما کنا فعلین یعنی ہم نے ایسا کرنا ہی نہ تھا ‘ ایسا کرنے والے ہی نہ تھے۔ تو یہ ایک فرض ہے برائے مباحثہ اور اس سے یہ حقیقت ثابت کرنا ہے کہ اللہ کی ذات سے متعلق جو امور بھی ہیں وہ اللہ کی ذات کی طرح قدیم ہیں۔ دائمی ہیں ‘ فانی نہیں ہیں۔ اگر اللہ لہو کا ارادہ کرتا تو یہ لہو ایک نیا معاملہ نہ ہوتا۔ یہ بھی ذات باری کی طرح قدیم ہوتا۔ ازلی ہوتی اور ابدی ہوتا کیونکہ اس کا تعلق ذات ازلی اور باقی سے ہوتا ۔ اسی لیے ” من لدنا “ کا لفظ استعمال ہوا ” اپنے ہی پاس “ لیکن اللہ کا طے شدہ قانون تو یہ ہے کہ کوئی معاملہ کھیل کے طور پر نہ ہو ‘ بلکہ ہر معاملہ سنجیدگی اور سچائی کے ساتھ ہو۔ اور وہ حق ہو۔ یوں حق باطل پر غالب آتا ہے۔

آیت 16 وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ ”یعنی ہم نے یہ دنیا کھیل تماشے اور شغل کے لیے نہیں بنائی ہے۔ ہماری ہر تخلیق بامقصد اور اٹل قوانین پر مبنی ہے۔ اسی طرح دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کے بارے میں بھیُ ”سنتّ اللہ“ اور قواعد و ضوابط بالکل غیرمبدلّ اور ناقابل تغیر ہیں۔

آسمان و زمین کوئی کھیل تماشہ نہیں آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے۔ اس نے انہیں بیکار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے۔ دوسری آیت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اگر ہم کھیل تماشہ ہی چاہتے تو اسے بنالیتے۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اگر ہم عورت کرنا چاہتے۔ لہو کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ دونوں معنے ہے اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے کسی کو بنا لیتے۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر ہم اولاد چاہتے۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت (لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ) 39۔ الزمر :4) ، یعنی اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو مخلوق میں کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں۔ ان عیسائیوں یہودیوں اور کفار مکہ کی لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے۔ آیت (ان کنا فاعلین) میں ان کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے۔ بلکہ مجاہد ؒ کا قول ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لئے ہی ہے۔ فرشتوں کا تذکرہ ہم حق کو واضح کرتے ہیں، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے، ٹوٹ کر چورا ہوجاتا ہے اور فورا ہٹ جاتا ہے۔ وہ ہے بھی لائق، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔ اللہ کے لئے جو لوگ اولادیں ٹھیرا رہے ہیں ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لئے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کی ملکیت میں ہے۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں نہ حضرت مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آرہا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہوگا اور اپنا کیا بھرے گا۔ یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں، گھبراتے بھی نہیں، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں اس کی عبادت میں اس کی تسبیح واطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں۔ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے مجمع میں تھے کہ فرمایا لوگو ! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو ؟ سب نے جواب دیا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تو کچھ بھی نہیں سن رہے۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہے اس لئے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو۔ عبداللہ حارث بن نوفل فرماتے ہیں میں حضرت کعب احبار ؒ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا اللہ کا پیغام لے کر جانا عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا ؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہو کر آپ نے فرمایا یہ بچہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا بنو عبدالمطلب سے ہے آپ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا۔ دیکھو چلتے پھرتے بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے۔

آیت 16 - سورۃ الانبیاء: (وما خلقنا السماء والأرض وما بينهما لاعبين...) - اردو