سورۃ الانبیاء: آیت 11 - وكم قصمنا من قرية كانت... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا ءَاخَرِينَ

اردو ترجمہ

کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور اُن کے بعد دُوسری کسی قوم کو اُٹھایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakam qasamna min qaryatin kanat thalimatan waanshana baAAdaha qawman akhareena

آیت 11 کی تفسیر

وکم قصمنا من قریۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصیدا خمدین (11 تا 51) ”

قصم کا مفہوم ہے شدت سے کاٹنا ‘ اس لفظ کی آواز کی شدت بھی اس کے ملسوم کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لفظ کے تلفظ ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم بستیوں کو بڑی شدت اور سختی سے اس طرح توڑا پھوڑا گیا کہ ان کا وجود ہی ختم کردیا گیا اور ان کی حالت یہ ہوگئی کہ ان کو پیس کر رکھ دیا گیا۔

وانشانا ۔۔۔۔۔۔۔ اخرین (12 : 11) ” اور ان کے بعد دوسری کسی قوم کو اٹھایا “۔ یہاں قصم کا فعل بستیوں پر وارد ہوتا ہے اور بستیوں اور ان کے باشندوں سب کو پیس کر رکھ دیا جاتا ہے لیکن انشا کا فعل صرف قوم پر وارد ہوتا ہے ‘ پہلے قوم پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد وہ بستیاں آباد کرتی ہے۔ یہ تو ہے تو حقیقت واقعہ کہ تباہی بستیوں پر آتی ہے اور اس میں آبادی بھی ہلاک ہوجاتی ہے۔ اور جب اٹھایا جاتا ہے تو پہلے اقوام کو اٹھا یا جاتا ہے اور وہ پھر بستیاں آباد کرتی ہیں لیکن جس انداز میں ‘ ایک منظر کی شکل میں ہلاکت و بربادی کو پیش کیا گیا ہے ‘ یہ قرآن کریم کا مخصوص فنی اسلوب ہے۔

جب یہ تباہی آتی ہے تو اس میں لوگوں کا منظر بھی بڑا عجیب ہے۔ ان کی حالت یوں ہوتی ہے جس طرح پنجرے میں چوہے بند ہوجاتے ہیں ‘ جب تک وہ ہلاک نہ کردیئے جائیں ‘ وہ پنجرے کے اندر ادھر ادھر بھاگتے ہی رہتے ہیں۔

آیت 11 وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً ”ان کے باسی گنہگار ‘ سرکش اور نافرمان تھے۔ چناچہ انہیں سزا کے طور پر نیست و نابود کردیا گیا۔وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ ”جیسے قوم نوح علیہ السلام کے بعد قوم عاد کو موقع ملا اور قوم عاد کے بعد قوم ثمود نے عروج پایا اور اسی طرح یہ سلسلہ آگے چلتا رہا۔

آیت 11 - سورۃ الانبیاء: (وكم قصمنا من قرية كانت ظالمة وأنشأنا بعدها قوما آخرين...) - اردو