سورۃ الانبیاء: آیت 10 - لقد أنزلنا إليكم كتابا فيه... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

لَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكُمْ كِتَٰبًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

اردو ترجمہ

لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad anzalna ilaykum kitaban feehi thikrukum afala taAAqiloona

آیت 10 کی تفسیر

لقد انزلنآ۔۔۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون ( ” ۔

قرآن ایک ایسا معجزہ ہے کہ یہ تمام نسلوں کے لی کھلا معجزہ ہے۔ یہ ایسا معجزہ نہیں ہے کہ ایک ہی نسل میں اس کا مظاہرہ ہو ‘ لوگ اس سے متاثر ہوں اور وہ ختم ہوجائے۔ یہ ایک دائم وقائم معجزہ ہے۔

قرآن کریم کے ذریعہ عربوں کو بھی بڑی شہرت ملی جب وہ قرآن کے پیغام کو لے کر مشرق و مغرب تک جا پہنچے۔ اس سے پہلے وہ کوئی قابل ذکر لوگ نہ تھے۔ نہ ان کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کوئی قابل ذکر چیز تھی۔ جب تک عربوں نے اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رکھا انہوں نے اس کے ذریعہ پوری انسانیت کی راہنمائی کی ‘ تو وہ بھی کامیاب رہے اور اس کی وجہ سے پوری انسانیت کو بھی کامیابی اور خوسحالی نصیب ہوئی ‘ جب عربوں نے اس کتاب کو چھوڑا تو انسانیت نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور لوگوں کے اندر عربوں کا ذکر ختم ہونے لگا۔ یہ لوگ قافلہ انسانیت کے دم چھلا بن گئے اور انسانوں میں سے جو چاہے ‘ انہیں اچک لیتا ہے لیکن جب یہ کتاب انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھی تھی تو لوگ ان کے ماحول میں اچک لیے جاتے تھے اور یہ محفوظ تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ عرب قرآن کے سوا انسانیت کو کیا تحفہ دے سکتے ہیں ؟ قرآن کے سوا ان کے پاس اور ہے کیا ؟ ان کے پاس قرآنی فکر کے سوا انسانیت کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی اور فکر نہیں ہے۔ اگر وہ انسانیت کے سامنے یہ کساب پیش کریں گے تو انسانیت ان کو پہچان لے گی۔ ان کا ذکر کرے گی اور ان کو سروں پر اٹھائے گی کیونکہ اسے عربوں سے ایک نفع بخش پیغام ملے گا۔ لیکن اگر وہ انسانوں کے سامنے محض عربوں کو بحیثیت ایک قوم پیش کریں گے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی حیثیت کیا ہے اور وہ کیا ہیں ؟ اس کتاب کے سوا ان کے اس نسب نامے کی کیا وقعت ہے۔ انسانیت نے عربوں کو اس کتاب کے ذریعے ‘ اسلامی نظریہ حیات کے ذریعے اور اس کتاب سے اخذ کردہ نظام حیات کے ذریعے پہچانا تھا۔ انسانیت میں ان کو جو مقام حاصل ہوا تھا وہ اس لیے نہ تھا کہ وہ عرب ہیں۔ کیونکہ صرف عرب ہونا تاریخ انسانیت میں کوئی چیز نہیں ہے اور تہذیب کی ڈکشنری میں لفظ عرب کا کوئی مقام نہیں ہے۔ عربوں کی پہچان اسلامی تہذیب و تمدن سے تھی اور ہے۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی فکر ‘ اسلامی فلسفہ اور اسلامی تمدن کے تو تمدن کی ڈکشنری میں نام ملیں گے لیکن عرب کا اس میں کوئی نام نہیں ہے۔

اسی حقیقت کی طرف قرآن کریم یہاں ارشارہ کررہا ہے۔ مشرکین کو مخاطب کر کے کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب تمہاری پہچان ہے۔ لیکن تم اس کتاب میں آنے والی نئی تعلیمات کا استقبال غفلت ‘ اعراض اور تکذیب اور مذاق کے ساتھ کرتے تھے۔

لقد انزلنآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون (12 : 01) ” لوگو ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ‘ کیا تم سمجھتے نہیں ہو “۔

عرب مشرکین پر اللہ کا کرم تھا کہ ان کے سامنے نبی ﷺ کے ذریعہ کوئی خارق عادت معجزہ پیش نہ کیا گیا ‘ ورنہ وہ انکار کرتے اور ان کی بیح گنی اسی طرح سنت الہیہ کے مطابق ہوجاتی جس طرح تاریخ میں کئی اقوام اور کئی بستیوں کی ہوئی۔ یہاں اللہ تعالیٰ ایک زندہ منظر کی شکل میں ایسی اقوام کے استیصال اور تباہی و بربادی کو دکھاتے ہیں۔

آیت 10 لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ”یہاں ”ذِکْرُکُمْ“ کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں ‘ ایک تو یہ کہ اس میں تمہارے حصے کی نصیحت اور تعلیم ہے یعنی ذکرٌ لکم اور دوسرا یہ کہ ”اس میں تمہارا اپنا ذکر بھی موجود ہے“۔ اس دوسرے مفہوم کی وضاحت ایک حدیث سے ملتی ہے ‘ جس کے راوی حضرت علی رض ہیں۔ آپ رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : أَلَا اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ ”آگاہ ہوجاؤ ! عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ رونما ہوگا“ فَقُلْتُ : مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ ”تو میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہوگا ؟“ یعنی اس فتنے سے بچنے کی سبیل کیا ہوگی ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : کِتَاب اللّٰہِ ، فِیْہِ نَبَأُ مَا کَانَ قَبْلَکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ 1 ”للہ کی کتاب ! اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں بھی ہیں ‘ تمہارے بعد آنے والوں کے احوال بھی ہیں اور تمہارے باہمی مسائل و اختلافات کا حل بھی ہے“۔ ان معانی میں یہاں ذِکْرُکُمْ سے مراد یہی ہے کہ تمہارے ہر دور کے تمام مسائل کا حل اس کتاب کے اندر موجود ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی ہمیں ہر قسم کی صورت حال میں قرآن مجید سے راہنمائی مل سکتی ہے۔

قدر ناشناس لوگ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی قدر ومنزلت پر رغبت دلانے کے لئے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف اتاری ہے جس میں تمہاری بزرگی ہے، تمہارا دین، تمہاری شریعت اور تمہاری باتیں ہیں۔ پھر تعجب ہے کہ تم اس اہم نعمت کی قدر نہیں کرتے ؟ اور اس اتنی بڑی شرافت والی کتاب سے غفلت برت رہے ہو ؟ جیسے اور آیت میں ہے (وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ 44؀) 43۔ الزخرف :44) تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے یہ نصیحت ہے اور تم اس کے بارے میں ابھی ابھی سوال کئے جاؤگے۔ پھر فرماتا ہے ہم نے بہت سی بستیوں کے ظالموں کو پیس کر رکھ دیا ہے۔ اور آیت میں ہے ہم نے نوح ؑ کے بعد بھی بہت سی بستیاں ہلاک کردیں۔ اور آیت میں ہے کتنی ایک بستیاں ہیں جو پہلے بہت عروج پر اور انتہائی رونق پر تھیں لیکن پھر وہاں کے لوگوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے ان کا چورا کردیا، بھس اڑا دیا، آبادی ویرانی سے اور رونق سنسان سناٹے میں بدل گئی۔ ان کے ہلاکت کے بعد اور لوگوں کو ان کا جانشین بنادیا ایک قوم کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری یونہی آتی رہیں۔ جب ان لوگوں نے عذابوں کو آتا دیکھ لیا یقین ہوگیا کہ اللہ کے نبی ؑ کے فرمان کے مطابق اللہ کے عذاب آگئے۔ تو اس وقت گھبرا کر راہ فرار ڈھونڈنے لگے۔ لگے ادھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے۔ اب بھاگو دوڑو نہیں بلکہ اپنے محلات میں اور عیش و عشرت کے سامانوں میں پھر آجاؤ تاکہ تم سے سوال جواب تو ہوجائے کہ تم نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا بھی کیا یا نہیں ؟ یہ فرمان بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں ذلیل وحقیر کرنے کے ہوگا۔ اس وقت یہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے صاف کہیں گے کہ بیشک ہم ظالم تھے لیکن اس وقت کا اقرار بالکل بےنفع ہے۔ پھر تو یہ اقراری ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا ناس ہوجائے اور ان کی آواز دبا دی جائے اور یہ مسل دیئے جائیں۔ ان کا چلنا پھرنا آنا جانا بولنا چالنا سب ایک قلم بند ہوجائے۔

آیت 10 - سورۃ الانبیاء: (لقد أنزلنا إليكم كتابا فيه ذكركم ۖ أفلا تعقلون...) - اردو