سورۃ الانبیاء: آیت 1 - اقترب للناس حسابهم وهم في... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

ٱقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ

اردو ترجمہ

قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iqtaraba lilnnasi hisabuhum wahum fee ghaflatin muAAridoona

آیت 1 کی تفسیر

سورة الانبیآء مکیۃ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اقترب للناس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واھلکنا المسرفین (1 : 9)

یہ نہایت ہی زور دار آغاز ہے ‘ کسی بھی غافل شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ حساب سر پر ہے اور لوگ غفلت اور لاپرواہی میں بیٹھے ہیں۔ بڑی بےتابی سے رسول ان کے سامنے آیات الہیہ پیش کررہے ہیں اور وہ منہ موڑ کر دوسری جانب جارہے ہیں۔ فوراً چوکنا ہونے کی ضورت ہے اور یہ لوگ ہیں کہ خطرے کا شعور بھی نہیں رکھتے بلکہ جب بھی ان کو متنبہ کرنے کی نئی کوشش کی جاتی ہے یہ مذاق کرتے ہیں اور دعوت کو غیر اہم سمجھ کر کھیل میں لگ جاتے ہیں۔

لاھیۃ قلو بھم (12 : 3) ” ان کے دل غافل ہیں “۔ ان کے دل و دماغ اور شعور و وجدان کے تار بالکل خاموش ہیں۔ ان کے اندر کوئی نغمہ نہیں ہے۔ یہ ان شخصیات کی تصویر کشی ہے جو غایت درجہ لاابالی ہیں اور سنجیدگی ان میں مفقود ہے ‘ جو نہایت ہی خطرناک مقامات پر بھی غیر سنجیدہ رہتے ہیں ‘ جو نہایت محتاط رہنے کے مقام پر بھی گپ لگاتے ہیں ‘ نہایت ہی مقدس موقف اور مقدس مقام میں بھی گندگی گراتے ہیں۔ یہ قرآن جو ان کو منایا جارہا ہے ‘ یہ تو رب ذوالجلال کی طرف سے ایک پیغام ہے اور یہ اس سے لاپرواہ ہیں۔ کوئی وقار ‘ کوئی پاکیزگی ان میں نہیں ہے۔ جن لوگوں میں سنجیدگی ‘ وقار ‘ پاکیزگی ‘ جدت نظر نہیں ہوتی وہ آخرکار اس قدر ہلکے ‘ خشک ہوجاتے ہیں اور اس طرح ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں کہ وہ کسی اونچے مشن یا اہم فرائض کی ادائیگی اور بھاری بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ ان کی زندگی ڈھیلی ‘ ان کے اخلاق گرے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی اقدار ارزاں ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں میں ایک قسم کی بےباکی پیدا ہوجاتی ہے او وہ مقدس سے مقدس قدر کو بھی ہلکا سمجھتے ہیں۔ یہ شتر بےمہار ہوتے ہیں ‘ کس یدستور اور ضابطے کے پابند نہیں ہوتے۔ اور ان کو خیر و شر کا شعور ہی نہیں رہتا۔

اس قسم کے لوگ اس قرآن مجید کو سنجیدگی سے نہ لیتے تھے حالانکہ یہ قرآن مجید تو دستور حیات ‘ نظام زندگی ‘ نظام عمل ‘ نظام معاملہ تھا۔ اس کو سنجیدگی سے دیکھا چاہیے تھا لیکن ان لوگوں نے اسے نہایت ہی لا بالی پن سے ایک ستر بےمہار شخص کی طرح غفلت سے لیا اور مذاق کرنے لگے ۔ ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔ جب روح انسان اس طہارت اور اقدا کے اس تقدس کو خیر باد کہہ دے تو پھر معاشرہ مریض انسان پیدا کرتا ہے ‘ ستر بےمہار انسان پیدا کرتا ہے ‘ لا ابالی انسان پیدا کرتا ہے ‘ جن کا نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور نہ وہ کسی چیز کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان نے اس سورة کو اس سندیگی ‘ اور اس اہمیت سے لیا کہ ان کے دل دنیا ومافیہا سے بےنیاز ہوگئے۔ ترجمہ آمدی میں عامر ابن ربیعہ کا یہ واقعہ آیا ہے کہ ان کے پاس عرب کا ایک آدمی آیا۔ اس نے ان کی بڑی قدر و منزلت کی اور عزت سے ٹھہرایا۔ اس کے بعد وہ شخص دوبارہ عامر کے پاس آیا۔ اس وقت اسے زمین الاٹ ہوچکی تھی اور کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سرزمین عرب کی ایک پوری وادی بطور جاگیر الاٹ کرالی ہے ‘ میں چاہتا ہوں کہ اس میں سے ایک ٹکڑا تمہیں دے دوں تاکہ وہ تمہیں اور تمہارے بعد تمہاری اولاد کے کام آئے۔ اس پر عامر نے کہا ‘ مجھے تمہاری اس جاگیر میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ آج ایک سورة نازل ہوئی ہے ‘ اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب دنیا میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔

اقترب للناس۔۔۔۔۔۔۔۔ معرضون (12 : 1) ” قریب آگیا ہے ‘ لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں “۔

یہ ہے فرق دلوں میں۔ ایک طرف ہیں زندہ ‘ قبول کنندہ اور اثر گثرندہ دل اور دوسری جانب ہیں مردہ ‘ بجھے ہوئے اور ایسے دل جن میں فکر و شعور کے داخلے کی تمام کھڑکیاں بند ہیں۔ ان مردہ دلوں پر لہو و لعت کے کفن ہیں اور ان کو بےمہاری کے لا ابالی پن کے قبرستان میں دفنا دیا گیا ہے۔ قرآن کا ان پراثر نہیں ہوتا کیونکہ ان کے دل بجھ گئے ہیں اور وہ اس طرح ہوگئے ہیں کہ ان میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں ہے۔

واسروا۔۔۔۔۔ ظلموا (12 : 3) ” اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں “۔ اہل مکہ ہر وقت رسول اللہ ﷺ اور آپ کی تحریک کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ پھر یہ سرگوشیاں ان کی سازشوں کی شکل اختیار کرتی تھیں اور پھر یوں تبصرے کرتے تھے۔

ھل ھذآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانتم تبصرون (12 : 3) ” یہ شخص آخر تم جیسا بشر ہی تو ہے تو کیا پھر تم آنکھوں دیکھتے (سمجھتے بوجھتے) جادو کے پھندے میں پھنس جائو گے “۔ یہ لوگ تو درحقیقت مرچکے ہیں اور ان کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں ہے اس لیے یہ قرآن سے خود تو متاثر ہوتے نہیں تھے لیکن جن دوسرے لوگوں پر قرآن کے اثرات ہوتے تھے ان کو یہ لوگ یوں بدراہ کرتے تھے کہ لوگوں دیکھو ‘ یہ محمد تو ہم جیسا انسان ہے ‘ تو اس پر کیوں ایمان لاتے ہو۔ اس کلام کا تم پر جو اثر ہوتا ہے تو وہ ایک جادو ہے۔ تم دیکھتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے اس جادو کا اثر لیتے ہو۔

جب وہ ایسے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے تو رسول اللہ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں۔ یہ جو مشورے کررہے ہیں اور قرآن کے اثرات سے بچنے کے لیے جو بہانے اور پرو پیگنڈے کرتے ہیں ان کا کوئی اثر نہ ہوگا۔

قیامت سے غافل انسان اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لئے کوئی تیاری کررہے ہیں جو انہیں کام آئے۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہوگئے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے (اتی امر اللہ فلاتستعجلوہ) امر ربی آگیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو ؟ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے (اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ) 54۔ القمر :1) قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا الخ۔ ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے۔ شعر (الناس فی غفلاتہم ورحی المنیتہ تطحن)" موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت عامر بن ربیعہ ؓ کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے۔ انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول ﷺ سے بھی سفارش کی۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ ﷺ نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے میں میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں۔ حضرت عامر ؓ نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے۔ پھر آپ نے یہی اقترب للناس کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں۔ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کرلیا تحریف اور تبدیلی کرلی، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہونے پائی۔ یہ لوگ کتاب اللہ سے بےپرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کرسکتے۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو ؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کردے، پھر تعجب ہے کہ لوگ باجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں ؟ ان بد کرداروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں۔ اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے۔ وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے والا ہے۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیے۔ پھر کفار کی ضد، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں کسی بات پر جم نہیں سکتے۔ کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں کبھی پراگندہ اور بےمعنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی آنحضرت ﷺ کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں۔ خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کا مستحق ہے ؟ کبھی کہتے تھے اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو حضرت صالح ؑ کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا حضرت موسیٰ ؑ کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا حضرت عیسیٰ ؑ کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا۔ بیشک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے تو عادت الٰہی کی طرح عذاب الٰہی میں پکڑ لئے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے۔ عموما اگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کرلئے گئے۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزے طلب کررہے ہیں اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہوجائینگے۔ جیسے فرمان ہے آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96 ۙ) 10۔ یونس :96) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں، ایمان قبول نہ کریں گے۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فورا تسلیم کرلیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھ اور نہ حضور ﷺ کے بیشمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ بلکہ آپ کے یہ معجزے دیگر انبیاء ؑ سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں صحابہ کرام ؓ کا ایک مجمع مسجد میں تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ تلاوت قرآن کررہے تھے اتنے میں عبداللہ بن سلول منافق آیا اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا۔ تھا بھی گورا چٹا بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا کہنے لگا ابوبکر تم حضور ﷺ سے کہو کہ آپ کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلا موسیٰ ؑ تختیاں لائے، داؤد ؑ اونٹنی لائے، عیسیٰ ؑ انجیل لائے اور آسمانی دسترخوان۔ حضرت صدیق ؓ یہ سن کر رونے لگے۔ اتنے میں حضور ﷺ گھر سے نکلے تو آپ نے دوسرے صحابہ سے فرمایا کہ حضور ﷺ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ۔ آپ نے ارشاد فرمایا سنو میرے لئے کھڑے نہ ہوا کرو۔ صرف اللہ ہی کے لئے کھڑے ہوا کرو۔ صحابہ نے کہا حضور ﷺ ہمیں اس منافق سے بڑی ایذاء پہنچی ہے۔ آپ نے فرمایا ابھی ابھی جبرائیل ؑ میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے فضائل ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ کو عطاء فرمائی ہیں میں ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الٰہی پہنچادوں۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بےپڑھا ہوں۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے۔ مجھے اپنی امدادونصرت عطاء فرمائی ہے۔ رعب میرا میرے آگے آگے کردیا ہے۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہوگا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے اس وقت جب کہ سب لوگ حیران و پریشان سرجھکائے ہوئے ہوں گے مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا۔ میری شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے مجھے جنت نعیم کا وہ بلند وبالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہوگی۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ میرے اور میری امت کے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہ تھے۔

آیت 1 - سورۃ الانبیاء: (اقترب للناس حسابهم وهم في غفلة معرضون...) - اردو