سورۃ الانعام: آیت 8 - وقالوا لولا أنزل عليه ملك... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَقَالُوا۟ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِىَ ٱلْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنظَرُونَ

اردو ترجمہ

کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo lawla onzila AAalayhi malakun walaw anzalna malakan laqudiya alamru thumma la yuntharoona

آیت 8 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 8 تا 9 ۔

یہ تجویز مشرکین کی طرف سے تھی اور ان مشرکین سے پہلے بھی کئی اقوام نے یہ تجویز پیش کی ۔ ہر قوم نے اپنے رسول سے نزول فرشتگان کا مطالبہ کیا ۔ دوسری جگہ قرآن کریم نے ایسے مطالبے پیش کئے ہیں اور یہاں اس تجویز کو دلائل کے ساتھ رد کردی جاتا ہے ۔ اس تجویز کے بارے میں ‘ مناسب ہے ہم تمام حقائق یہاں پیش کردیں حتی الامکان ۔

اس کے متعلق پہلی حقیقت یہ ہے کہ مشرکین عرب اللہ کا انکار نہ کرتے تھے بلکہ وہ اس بارے میں ایک بین دلیل طلب کرتے تھے سے معلوم ہوجائے کہ حضور ﷺ نبی مرسل ہیں اور آپ جو کتب ان کے سامنے پڑھتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے ۔ اس سلسلے میں دوسری تجاویز دیتے تھے ۔ یہ تجاویز قرآن کریم نے متعدد مقامات پر ذکر فرمائی ہیں ۔ مثلا سورة اسراء میں یہ تجاویز مذکور ہیں ۔ اس میں اس تجویز کے ساتھ ساتھ دوسری تجاویز بھی دی گئی ہیں جن سے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی اور عناد کا اظہار ہوتا ہے ۔ عناد کے علاوہ ان کی کج فہمی پر بھی خود ان کی تجویز دلیل بین ہے ۔ اس لئے کہ یہ لوگ نہ اس نظام کائنات کو اچھی طرح سمجھے ہیں اور نہ حقیقی اقدار کو سمجھتے ہیں ۔ سورة اسراء میں آتا ہے ۔

(آیت) ” وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ یَنبُوعاً (90) أَوْ تَکُونَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّن نَّخِیْلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْہَارَ خِلالَہَا تَفْجِیْراً (91) أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْْنَا کِسَفاً أَوْ تَأْتِیَ بِاللّہِ وَالْمَلآئِکَۃِ قَبِیْلاً (92) أَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَی فِیْ السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتَّی تُنَزِّلَ عَلَیْْنَا کِتَاباً نَّقْرَؤُہُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً (93) وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن یُؤْمِنُواْ إِذْ جَاء ہُمُ الْہُدَی إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّہُ بَشَراً رَّسُولاً (94) قُل لَّوْ کَانَ فِیْ الأَرْضِ مَلآئِکَۃٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْْہِم مِّنَ السَّمَاء ِ مَلَکاً رَّسُولاً (95)

” اور انہوں نے کہا ” ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لئے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے ۔ یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کر دے ۔ یا تو آسمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعوی ہے یا خدا اور فرشتوں کو رو در رو ہمارے سامنے لے آئے ۔ یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں ۔۔۔۔۔ اے نبی ان سے کہو ” پاک ہے میرا پروردگار ‘ کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں ؟ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر ان کے اسی قول نے کہ ” کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ۔ ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہیں تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لئے بنا کر بھیجتے ۔

یہ تجاویز اور مطالبے ایسے ہیں کہ ان سے ایک طرف ان کی ہٹ دھرمی کا اظہار ہوتا اور دوسری جانب ان کی جہالت کا ۔ اس لئے کہ ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی کتاب اخلاق کھلی تھی ‘ وہ طویل تیرن تجربے سے آپ کو اچھی طرح جانتے تھے اور آپ کے اخلاق سے ان کو معلوم تھا کہ آپ سچے اور امین ہیں اور ان ہی لوگوں نے ان کو امین کا لقب دیا ہوا تھا ۔ آپ کے ساتھ انکے شدید نظریاتی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ اپنی امانتیں حضور ﷺ کے پاس رکھتے تھے ۔ جب آپ نے ہجرت فرمائی تو آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی ؓ کو امانتیں ادا کردیں جو ابھی تک آپ کی تحویل میں تھیں ۔ لیکن ان کو ان کے ساتھ اس قدر اختلاف تھا کہ ہو لوگ آپ ﷺ کے قتل کے تدابیر کر رہے تھے ۔ آپ کی امانت ودیانت جس طرح مسلم تھی اسی طرح آپ کی سچائی بھی مسلم تھی اس لئے کہ جب آپ نے سب سے پہلے کوہ صفا پر انہیں علی الاعلان دعوت دی ۔ یہ اس وقت ہوا جب اللہ کا حکم آگیا کہ آپ علی الاعلان دعوت کا آغاز کردیں ۔ اس موقعہ پر آپ نے ان سے سوال کیا کہ اگر میں آپ لوگوں کو کوئی اہم خبر دوں تو آپ لوگ تصدیق کردیں گے ؟ تو سب نے مل کر جواب دیا کہ آپ تو نہایت ہی سچے آدمی ہیں ۔ اگر یہ لوگ صرف یہ جاننا چاہتے کہ آپ سچے ہیں یا نہیں تو آپ کے ماضی ہیں ان کے لئے دلیل وبرہان تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ آپ تو نہایت ہی سچے آدمی ہیں ۔ اسی سورة میں یہ مضمون آنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اللہ کو جھٹلاتے ہیں ۔

(آیت) ” قَدْ نَعْلَمُ إِنَّہُ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُولُونَ فَإِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِآیَاتِ اللّہِ یَجْحَدُونَ (33)

” جانتے ہیں کہ آپ کو ان لوگوں کی باتیں بہت پریشان کرتی ہیں ‘ دراصل یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے لیکن یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ۔ “

ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ انکار کردیں ۔ یہ انکار محض عناد اور کبر کی وجہ سے تھا ۔ جہاں تک حضور ﷺ کی سچائی کا تعلق ہے تو اس میں کسی کو شک نہ تھا ۔

حقیقت یہ ہے کہ عربوں کے لئے خود قرآن کریم کے اندر ایک عظیم شہادت موجود تھی ۔ یہ شہادت ان شہادتوں سے زیادہ دقیع تھی جو وہ طلب کرتے تھے ۔ قرآن بذات خود شاہد تھا ۔ قرآن کا طرز تعبیر اور اس کے مضامین بھی اس بات پر شاہد تھے کہ وہ من جانب اللہ ہے ۔ یہ لوگ ذات باری کے تو منکر نہ تھے اور قرآن کی اندرونی شہادت کا انہیں بھی احساس تھا ۔ وہ جس قدر ادبی اور لسانی ذوق رکھتے تھے اس کے ذریعے وہ جانتے تھے کہ انسانوں کی ادبی اور لسانی صلاحیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قرآن کریم انسانی حدود سے ماوراء ہے ۔ جو لوگ فنی اور ادبی ذوق رکھتے ہیں وہ اس حقیقت کو ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جانتے ہیں جو ادبی ذوق نہیں رکھتے ۔ دنیا میں جو لوگ اسالیب کلام کے اندر کچھ بھی ذوق رکھتے ہی۔ (چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم) وہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب انسان کی قدرت سے بہت ہی اونچا ہے ۔ انسان اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس حقیقت کا انکار صرف ایساشخص ہی کرسکتا ہے جو معاند ہو ‘ جو ایک حقیقت کو پا رہا ہو لیکن اسے اپنے عناد کی وجہ سے دل میں چھپا رہا ہو ۔ نیز اس بہترین اسلوب کے اندر قرآن کریم نے جو تصورات پیش کئے ہیں ‘ ان تصورات اور اعتقادات کو جس اسلوب میں نفس انسانی کے اندر ادا اور انسانی نفسیاتی اسلوب اظہار سے قرآن کا اسلوب نہایت ہی مختلف اور معجز ہے عربوں کے گہرے شعور اور ان کی نفسیات کی اندرونی حالت یہ تھی کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے ۔ ان کے حالات اور ان کے اقوال سے بھی یہ بات اچھی طرح عیاں ہے کہ وہ اس بات میں کسی شک میں مبتلا نہ تھے کہ یہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے ۔

یہ بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے جو مطالبے کئے تھے ‘ وہ اس لئے نہ تھے کہ وہ تسلیم کے لئے کسی دلیل وبرہان کے طالب تھے بلکہ یہ ان کی ہٹ دھرمی تھی ۔ یہ ایک ایسا انداز تھا جس کے ذریعے وہ یہ جتلانا چاہتے تھے کہ وہ ہٹ کے پکے ہیں اور یہ مطالبے تو وہ محض عناد اور نہ ماننے کی وجہ سے کر رہے تھے ۔ اللہ نے فرمایا ۔

(آیت) ” وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِأَیْْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(7)

” اے پیغمبر ﷺ اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ عرب ملائکہ کو تو مانتے تھے اور مطالبہ یہ کرتے تھے کہ حضور ﷺ پر ایک فرشتہ نازل ہو اور جب آپ تبلیغ کریں تو وہ ساتھ ساتھ آپ کی تصدیق و تائید کرے ۔ لیکن ان کے ذہن میں یہ بات نہ تھی کہ ملائکہ کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے ؟ وہ اس مخلوق کے بارے میں اپنے عقیدے اور تصور میں نہایت ہی مخبوط الحواس تھے ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ ملائکہ کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کیا ہوتا ہے ۔ اس زمین اور اس کے باسیوں کے ساتھ ان کا تعلق کیا ہوتا ہے ؟ قرآن کریم نے عربوں کی فکری ژولیدگی کی کئی مثالیں بیان کی ہیں اور ملائکہ کے بارے میں ان کے جو بت پرستانہ خیالات تھے وہ بھی قرآن نے بیان کئے ہیں ۔ قرآن کریم نے ان تمام فکری غلطیوں کی اصلاح کی ہے تاکہ یہ لوگ پاک وصاف عقیدے کے حامل بن جائیں اور صحیح راہ پر گامزن ہوں ۔ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق کے بارے میں بھی قرآن نے صحیح فکر دی ہے ۔ اس زاویے سے اسلام نے جس طرح عقل و شعور کو غذا فراہم کی اسی طرح دل اور ضمیر کو بھی صحیح سوچ دی اور اس درست فکر کی اساس پر لوگوں کے اعمال واطوار کو بھی درست کیا ۔

قرآن کریم نے عربوں کی توہم پرستیوں اور باطل نظریات کے کئی پہلوؤں پر بحث کی ہے کہ وہ کس قدر باطل نظریات کے حامل تھے ۔ مثلا یہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں حالانکہ اللہ اس تصور سے پاک اور برتر ہے ۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان فرشتوں کو ناقابل استراداد سفارش کے اختیارات بھی حاصل ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ عربوں کے اندر مروج بتوں میں اکثر ان فرشتوں کے تصور پر بنائے گئے تھے اور انکے اس تصور اور مطالبے سے کہ حضور ﷺ پر ایک موید اور مصدق فرشتہ اترے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے ۔

قرآن کریم نے سورة نجم میں ان کی اس کج فکری کی اصلاح اس طرح کی ہے ۔

(آیت) ” أَفَرَأَیْْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّی (19) وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْأُخْرَی (20) أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْأُنثَی (21) تِلْکَ إِذاً قِسْمَۃٌ ضِیْزَی (22) إِنْ ہِیَ إِلَّا أَسْمَاء سَمَّیْْتُمُوہَا أَنتُمْ وَآبَاؤُکُم مَّا أَنزَلَ اللَّہُ بِہَا مِن سُلْطَانٍ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاء ہُم مِّن رَّبِّہِمُ الْہُدَی (23) أَمْ لِلْإِنسَانِ مَا تَمَنَّی (24) فَلِلَّہِ الْآخِرَۃُ وَالْأُولَی (25) وَکَم مِّن مَّلَکٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْْئاً إِلَّا مِن بَعْدِ أَن یَأْذَنَ اللَّہُ لِمَن یَشَاء ُ وَیَرْضَی (26) إِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ لَیُسَمُّونَ الْمَلَائِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْأُنثَی (27) وَمَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْْئاً (28) (53 : 19 تا 28)

” اب ذرا بتاؤ تم نے کبھی اس لات ‘ اور عزی ۔ اور تیسری ایک دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور کیا ہے ؟ کیا بیٹے تمہارے لئے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لئے ؟ یہ تو پھر بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی ۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے ۔ کیا انسان جو کچھ چاہے اس کے لئے وہی حق ہے ۔ دنیا وآخرت کا مالک تو اللہ ہی ہے ۔ آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں ۔ ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دے دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے ۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ فرشتوں کی دیویوں کے ناموں سے موسوس کرتے ہیں ‘ حالانکہ اس معاملے کا علم بھی انہیں حاصل نہیں ہے ۔ وہ محض گمان کی پیروں کر رہے ہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔ “

مزیدیہ کہ ان دو آیات میں قرآن کریم نے فرشتوں کی ماہیت کے بارے میں ان کی دوسری کج فکری کی اصلاح بھی کردی ہے ۔ اس سورة کے علاوہ دوسری سورتوں کے اندر بھی ان کی فکری اصلاح کی گئی :

(آیت) ” وَقَالُواْ لَوْلا أُنزِلَ عَلَیْْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَکاً لَّقُضِیَ الأمْرُ ثُمَّ لاَ یُنظَرُونَ (8) ۔

” کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ “

اللہ کی مخلوقات میں سے جن لوگوں کی یہ سوچ ہے ‘ یہاں ان کے بارے میں وضاحت کردیں گئی ۔ یہ لوگ یہ تجویز کرتے ہیں کہ اللہ قرآن کے ساتھ فرشتہ بھی اتارے ۔ لیکن فرشتوں کے اترنے کے بارے میں اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب وہ اترتے ہیں تو وہ اس قوم کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں جس نے کسی نبی کی تکذیب کی ہوتی ہے اور وہ پھر تباہی و بربادی کے بارے میں اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ مشرکین عرب کی اس تجویز اور مطالبے کو تسلیم کرلیتے تو بات کا فیصلہ ہوجاتا اور وہ تباہ کردیئے گئے ہوتے ۔ اس کے بعد انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں ایک عظیم تباہی اور عذاب سے بچایا رہا ہے ۔ یوں سیاق کلام میں ان کو یہ بات براہ راست جتا دی جاتی ہے کہ اللہ انہیں مہلت دے کر ان کے ساتھ نہایت ہی رحمت اور درگزر سے کام لے رہا ہے ۔ یہ اس لئے کہ وہ خود اپنی مصلحت کو بھی نہیں سمجھتے اور سنت الہیہ سے بالکل بیخبر ہیں ۔ وہ اس جہالت میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح ان کی زندگی ہی تباہ ہوجائے ۔ اس جہالت کی وجہ سے وہ بدستور اللہ کی رحمت سے انکار کر رہے ہیں ‘ ہدایت سے دور بھاگے جا رہے ہیں ‘ دلائل ومعجزات اور فرشتے اترنے کے مطالبے کر رہے ہیں ۔ ان کی کج فہمی کو درست کرنے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے

(آیت) ” وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکاً لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلاً وَلَلَبَسْنَا عَلَیْْہِم مَّا یَلْبِسُونَ (9)

” اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اسی شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب وہ مبتلا ہیں ۔ “ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر ایک فرشتہ نازل کریں اور یہ فرشتہ حضور ﷺ کے دعوائے نبوت کی تصدیق کرے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فرشتے تو انسانوں سے بالکل جدا مخلوق ہیں ۔ ان کا اپنا ایک خاص مزاج اور ماہیت ہے جس کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ کا علم ہے ۔ یہ فرشتے (جس طرح ان کے بارے میں ان کا خالق ہمیں معلومات فراہم کرتا ہے) اپنی موجودہ ماہئیت کے ساتھ اس زمین پر نہیں چل سکتے کیونکہ وہ اس کرہ ارض کے باشندے نہیں ہیں تاہم اگر وہ اس کرہ ارض کے باشندے نہیں ہیں ۔ تاہم اگر وہ اس کرہ ارض پر انسانوں کے حوالے سے کوئی ڈیوٹی سرانجام دیں تو وہ انسانوں کی شکل اختیار کرکے یہاں آتے ہیں مثلا تبلیغ رسالت اور مکذبین کو ہلاک کرنے کی ڈیوٹی وغیرہ ۔ یا مسلمانوں کی تسلی اور حوصلہ افزائی کی ڈیوٹی یا مسلمانوں کے دشمنوں کو قتل کرنے کی ڈیوٹی یا اس قسم کی دوسری ڈیوٹیاں جن کی بابت انہیں اللہ ہدایت کر دے وہ انکے سرانجام دینے میں اللہ کی ہدایت کی ذرہ برابر نافرمانی نہیں کرتے ۔

اگر اللہ تعالیٰ رسول کی تصدیق کے لئے کوئی فرشتہ بھیج بھی دے تو وہ لوگوں کے سامنے ایک انسان کی شکل اختیار کر کے ہی ظاہر ہوگا ۔ وہ فرشتوں کی اصل صورت میں ہر گز نہ آئے گا ۔ اور جب فرشتہ انسان کی شکل میں آئے گا تو وہ پھر بھی اسی شب ہے کا شکار ہوں گے اور انہیں وہی تردد لاحق ہوگا ۔ وہ پہلے بھی اس تردد کا شکار ہیں حالانکہ حضرت محمد ﷺ ان کے ساتھ جو بات کرتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ” میں محمد ہوں ‘ تم مجھے خوب جانتے ہو ۔ مجھے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں برے انجام سے خبردار کروں اور اچھے انجام کی خوشخبری دوں ۔ “ لیکن اگر کوئی فرشتہ آئے اور وہ ایسے انسان کی شکل میں آئے جسے وہ نہیں جانتے اور وہ یوں گویا ہو : ” میں فرشتہ ہوں اور مجھے اللہ نے بھیجا ہے کہ میں رسول خدا حضرت محمد ﷺ کی تصدیق کروں ۔ “ تو وہ دیکھیں گے کہ یہ شخص تو ان ہی جیسا ایک آدمی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی انہیں ویسا ہی شبہ لاحق ہوگا غرض اگر کوئی فرشتہ آدمی کی شکل میں آتا تو بھی وہ اسی شب ہے کا شکار ہوتے جسے کا وہ پہلے سے شکار تھے اور کوئی یقینی بات نہ کرسکتے ۔

اس طرح ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ بتاتے ہیں کہ یہ لوگ حقائق کائنات کے بارے میں کس قدر جاہل ہیں اور سنت الہیہ سے کس قدر ناواقف ہیں جبکہ اپنی جگہ نہایت ہی معاند اور بغیر علم وجواز کے ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ۔ بالکل بلا دلیل ۔ تیسری حقیقت جو یہ آیات انسانی سوچ کے اندر پیدا کرتی ہیں ‘ وہ یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات اور اس کے اساسی عناصر ترکیبی کیا ہیں ؟ ان عناصر میں وہ تمام مظاہر فطرت شامل ہیں جن کے بارے میں اسلام ایک مسلمان کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ ان کا ادراک کرے اور اپنی زندگی کو ان مظاہر فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کرلے ۔ نیز عالم غیب بھی ان اساسی عناصر میں شامل ہے جس میں ملائکہ بھی شامل ہیں ۔ اسلام نے ایمان کے بنیادی عناصر میں اس بات کو شامل کیا ہے کہ تم فرشتوں پر بھی ایمان لاؤ گے ۔ فرشتوں پر ایمان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا ۔ اللہ پر ایمان ‘ ملائکہ پر ایمان ‘ کتابوں پر ایمان ‘ رسولوں پر ایمان ‘ یوم آخرت پر ایمان اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان ۔

ظلال القرآن کی جلد اول میں جب ہم نے سورة بقرہ کی بتدائی آیات کی تشریح کی تھی تو اس میں ہم نے اس موضوع پر بات کی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان بالغیب کی وجہ سے انسانی زندگی میں ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہوجاتا ہے ۔ انسان محض عالم محسوسات کے محدود دائرے سے نکل جاتا ہے اور وہ اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ ایک عالم اور بھی ہے جو ہمیں معلوم نہیں ہے ۔ ہم اگرچہ اس کا تصور نہیں کرسکتے لیکن وہ بلاشک اور لاریب آنے والا ہے ۔ یہ تصور انسان کو حیوانات کے محسوس دائرے سے نکال کر انسانی ادراک کے دائرے میں داخل کردیتا ہے اور جو لوگ انسان کے لئے محسوسات سے اوپر جانے کا دروازہ بند کرتے ہیں وہ انسان کو مقام انسانیت سے گرا کر اسے پیچھے حیوانی دائرے میں لے جاتے ہیں اور اس کا نام ترقی پسندی رکھتے ہیں ۔ اس سورة میں جب ہم عالم غیب کے بارے میں بات کریں گے تو اس نکتے کی مزید وضاحت کریں گے ۔ آیت عندہ مفاتح الغیب کے ذیل میں ۔ انشاء اللہ ۔

عالم غیب کے بارے میں جو اسلامی تصور ہے اس میں یہ بات موجود ہے کہ عالم غیب میں ایک مخلوق ایسی ہے جو نظر نہیں آتی اور وہ فرشتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اس مخلوق کی بعض صفات کا تذکرہ کیا ہے ‘ جو ان کے بارے میں ایک مجمل تصور کے لئے کافی ہے اور انسان اپنے حدود کے اندر فرشتوں کے ساتھ جو برتاؤ کرے گا اس کی بنیاد اسی بات پر ہونی چاہئے ۔

فرشتے اللہ کو مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں وہ رہ وقت اللہ کی اطاعت اور بندگی پر کمر بستہ ہیں ۔ مطلق مطیع ہیں وہ اللہ کے قریب رہتے ہیں ۔ وہ اللہ کے کس طرح مقرب ہیں اس کی کیفیت کا ہمیں پوری طرح علم نہیں ہے ۔

(آیت) ” وقالوا اتخذ الرحمن ولدا سبحنہ بل عباد مکرمون ‘، (26) لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون (27) یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم ولا یشفعون الا لمن ارتضی وھم من خشیتہ مشفقون (28) (21 : 26 تا 28) (یہ کہتے ہیں رحمن اولاد رکھتا ہے ‘ سبحان اللہ ‘ وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے ۔ اس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے وہ باخبر ہے ‘ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے کہ جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو ‘ اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں)

(آیت) ” ومن عندہ لا یستکبرون عن عبادتہ ولا یستحسرون یسبحون اللیل والنھار لا یفترون “۔ (اور جو فرشتے اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں ۔ شب وروز اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں دم نہیں لیتے) یہ فرشتے اللہ کے تخت کو بھی اٹھائے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن بھی اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ اس کی کیفیت کا ادراک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس غیبی حقیقت کے بارے میں ہمارا ادراک اسی حد تک محدود ہے جس حد تک اللہ نے انکشاف فرمایا ہے ۔

(آیت) ” الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربھم ویومنون بہ (40 : 7)

” عرش الہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش الہی کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں ‘ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ “

(آیت) ” وتری الملئکۃ حافین من حول العرش یسبحون بحمد ربھم وقضی بینھم بالحق وقیل الحمد للہ رب العلمین “۔ (39 : 75) ” اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد وتسبیح کر رہے ہوں گے اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا اور پکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ رب العالمین کے لئے ۔ “

وہ اللہ کے خزانوں کے بھی نگران ہیں اور آگ اور جہنم کے داروغے بھی وہی ہوں گے ۔ اہل جنت کو سلام اور دعاء کے ساتھ استقبال کریں گے اور اہل جہنم کو وہ سخت عذاب کی دھمکی دیتے ہوئے لیں گے ۔ “

(آیت) ” وسیق الذین کفروا الی جھنم زمرا حتی اذا جآء وھا فتحت ابوابھا وقال لھم خزنتھا الم یاتکم رسل منکم یتلون علیکم ایت ربکم وینذرونکم لقآء یومکم ھذا قالوا بلی ولکن حقت کلمۃ العذاب علی الکفرین (71) قیل ادخلوا ابواب جھنم خلدین فیھا فبئس مثوی المتکبرین (72) وسیق الذین اتقوا ربھم الی الجنۃ زمرا حتی اذا جآء وھا وفتحت ابوابھا وقال لھم خزنتھا سلم علیکم طبتم فادخلوھا خلدین (83) (39 : 71 تا 73)

” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا ‘ جہنم کی طرف گروہ درگروہ ہانکے جائیں گے ‘ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے اور اس کے کارندے ان سے کہیں گے ” کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جنہوں نے تم کو تمہارے رب کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایاہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہوگا ۔ “ وہ جواب دیں گے ” ہاں آئے تھے ‘ مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا ۔ “ کہا جائے گا داخل ہوجاؤ جہنم کے دروازوں میں ‘ یہاں اب تمہیں ہمیشہ رہنا ہے ‘ بڑا ہی بڑا ٹھکانا ہے یہ متکبروں کے لئے ۔۔۔۔۔ اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا ۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے ” سلام میں تم پر ‘ بہت اچھے رہے ‘ داخل ہوجاؤ اس میں ہمیشہ کے لئے ۔ “ اور دوسری جگہ آتا ہے :

(آیت) ” وما جعلنا اصحب النار الاملئکۃ “۔ اور ہم نے آگ کا نگران بھی صرف ملائکہ کو بنایا ہے ۔ “

ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ فرشتے اہل زمین کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل زمین کے ساتھ ان کا معاملہ مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ۔ وہ خدا کے حکم سے اہل زمین کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور ان کے اعمال کا مکمل ریکارڈ بھی تیار کرتے ہیں اور جب ان کا مقررہ وقت پورا ہوتا ہے تو وہ ان کی روح قبض کرلیتے ہیں ۔

(آیت) ” وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْسِلُ عَلَیْْکُم حَفَظَۃً حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُونَ (61)

” پنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دیتے ہیں اور ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔

(آیت) ” لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ “۔ (13 : 11)

” ہر شخص کے آگے پیچھے اس کے مقرر کئے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں ۔ “

(آیت) ” مایلفظ من قول الالدیہ رقیب عتید “۔ (5 : 18) ” کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا ہے جسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضر باش نگران نہ ہو۔ “

ان فرشتوں کے فرائض میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ رسولوں کے اوپر وحی لے کر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ ان میں سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ کام سرانجام دیتے ہیں ۔

(آیت) ” ینزل الملئکۃ بالروح من امرہ علی من یشآء من عبادہ ان انذروا انہ لا الہ الا انا فاتقون “۔ (16 : 2) ” وہ اس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اس ہدایت کے ساتھ کہ) لوگوں کو آگاہ کر دو ‘ میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے لہذا تم مجھ ہی سے ڈرو۔ “

(آیت) ” قل من کان عدوا الجریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ “۔ (2 : 97) ” ان سے کہو کہ جو کوئی جبرائیل سے عداوت رکھتا ہو ‘ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبرائیل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے ۔ “

(آیت) ” وَالنَّجْمِ إِذَا ہَوَی (1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی (2) وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی (3) إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی (4) عَلَّمَہُ شَدِیْدُ الْقُوَی (5) ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَی (6) وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَی (7) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی (8) فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنَی (9) فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہِ مَا أَوْحَی (10) مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی (11) أَفَتُمَارُونَہُ عَلَی مَا یَرَی (12) وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی (13) عِندَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی (14) عِندَہَا جَنَّۃُ الْمَأْوَی (15) إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَی (16) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی (17) لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی (18) (53 : 1 تا 18)

” قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہوا ‘۔ تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے ‘ نہ بہکا ہے ۔ وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا ۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ۔ اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے ‘ جو بڑا صاحب حکمت ہے ۔ اور وہ سامنے آکھڑا ہوا جبکہ ہو بالائق افق پر تھا ‘ ۔ پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگا ۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا ۔ تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو اس نے پہنچانی تھی ۔ نظر نے جو کچھ دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا ۔ اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ اور ایک دفعہ پھر اس نے سدرۃ المنتہی کے پاس اترتے دیکھا ‘ ۔ جہاں پاس ہی جنت الماوی ہے ۔ اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھ ۔ نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی ۔ اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔

اور جب مسلمانوں کی طاغوت کے ساتھ نہایت ہی اہم اور بڑی جنگ ہوتی ہے تو اس معرکے میں وہ بطور تائید اور امداد ثابت قدمی پیدا کرنے کے لئے اترتے ہیں :

(آیت) ” ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون “۔ (30) (41 : 30)

” جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے ‘ اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں ۔ ” نہ ڈرو نہ غم کرو ‘ اور خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ “

(آیت) ” اذ تقول للمومنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلثۃ الف من الملئکۃ منزلین (124) بلی ان تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ الف من الملئکۃ مسومین (125) وما جعلہ اللہ الابشری لکم ولتطمئن قلوبکم بہ وما النصر الامن عند اللہ العزیزالحکیم (136) (3 : 124 تا 126)

” اے نبی یاد کرو جب تم مومنوں سے کہہ رہے تھے ” کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ اللہ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے ؟ “ بیشک اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اوپر چڑھ آئیں گے ‘ اسی آن تمہارا رب (تین ہزار نہیں) پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ۔ یہ بات اللہ نے تمہیں اس لئے بتا دی ہے تاکہ تم خوش ہوجاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں ۔ فتح ونصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے جو بڑی قوت والا اور دانا اور بینا ہے ۔ “

(آیت) ” اذ یوحی ربک الی الملئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان (8 : 12)

” اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو ‘ میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہوں ‘ پس تم ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ۔ “

یہ فرشتے اہل ایمان کے کاموں میں بھی مصروف رہتے ہیں ‘ وہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے ہر وقت مغفرت کی دعا کرتے ہیں جو اہل ایمان ہیں اور وہ ان مومنین کے لئے اس قدر شغف کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ جس طرح ایک نہایت ہی محبت کرنے والا شخص اپنے محبوب کے لئے دعا کرتا ہے ۔

(آیت) ” الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربھم ویومنون بہ ویستغفرون للذین امنوا ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلما فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبیلک وقھم عذاب الجحیم (7) ربنا وادخلھم جنت عدن التی وعدتھم ومن صلح من ابآئھم وزواجھم وذریتھم انک انت العزیز الحکیم (8) وقھم السیات ومن تق السیات یومئذ فقد رحمتہ وذلک ھو الفوز العظیم (9) (40 : 7 تا 9)

” عرش الہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش الہی کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں ‘ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب تو اپنی رحمت اور علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے ‘ پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے ۔ اے ہمارے رب اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے والدین ‘ اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچا دے) تو بلاشبہ قادر مطلق ہے اور حکیم ہے ۔ اور بچا دے ان کو برائیوں سے جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے رحم کیا یہی بڑی کامیابی ۔ “

جب فرشتے روح قبض کرتے ہیں تو اس وقت اہل ایمان کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں اور ان کا استقبال خوشخبری سے کرتے ہیں اور آخرت میں وہ ان کو سلام وآداب سے عزت افزائی کریں گے ۔

(آیت) ” الذین تتوفھم الملئکۃ طیبین یقولون سلم علیکم ادخلوا الجنۃ بما کنتم تعملون “۔ (16 : 32)

” ان متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں ” سلام ہو تم پر ‘ جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے ۔ “

(آیت) ” جنت عدن یدخلونھا ومن صلح من ابآئم وازواجھم وذریتھم والملئکۃ یدخلون علیھم من کل باب (23) سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار “۔ (24) (13 : 23۔ 24)

” ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے ۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویاں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے ۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لئے آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہے ‘ تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہو ۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر ۔

ان کے فرائض میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ اہل کفر کا استقبال آخرت میں توہین آمیز رویے کے ساتھ کریں گے اور دنیا میں کفر واسلام کے معرکے میں وہ کفار کے مقابلے میں لڑتے ہیں اور جب کفار کی روح قبض کرتے ہیں تو وہ سختی اذیت اور توہین آمیز انداز میں قبض کرتے ہیں ۔

(آیت) ” وَلَوْ تَرَی إِذِ الظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِکَۃُ بَاسِطُواْ أَیْْدِیْہِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّہِ غَیْْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ (93)

” کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ” لاؤ“ نکالو اپنی جان ‘ آج تمہیں ان باتوں کی پاداش مین ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرتے تھے ۔ “

(آیت) ” فکیف اذا توفتھم الملئکۃ یضربون وجوھھم وادبارھم (47 : 27)

” پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے ۔ “

جب سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے باوا آدم کو پیدا کیا اس وقت سے فرشتوں کا انسانوں کے ساتھ ایک خاص تعلق رہا ہے اور یہ سلسلہ طول حیات تک میں جاری رہا ہے اور قیامت تک جاری رہے گا جیسا کہ مذکور بالا قرآنی آیات کے اقتباسات سے اچھی طرح معلوم ہوا ہے ۔ فرشتوں اور عالم بشریت کے باہم تعلق پر بھی قرآن کریم کے متعدد مقامات پر بحث کی گئی ہے اور سورة بقرہ میں اس کی پوری تفصیل دی گئی ہے ۔

(آیت) ” وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (30) وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء ہَـؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ (31) قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ (32) قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ (33) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ (34) ۔

” پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ” میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ “ انہوں نے عرض کیا ” کیا آپ زمین میں کسی زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے نظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا ؟ آپ کے حمد وثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں ۔ “ فرمایا : ” میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے ۔ ‘ اس کے بعد اللہ نے آدم کو سارے چیزوں کے نام سکھائے ۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا :” اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے نظام بگڑ جائے گا) تو بتاؤ ان چیزوں کے نام کیا ہیں ؟ ‘ انہوں نے عرض کیا ” نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ۔ ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں ‘ جتنا آپ نے ہم کو دیا ہے ۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ۔ “ پھر اللہ نے آدم سے کہا : ” تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ جب اس نے ان کو ان سب کے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا : ” میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ‘ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ‘ وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے بھی میں جانتا ہوں۔ ‘ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا ۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا ۔ ‘

” یہ ایک وسیع میدان ہے جس میں انسانی زندگی اور عالم بالا کی زندگی کا باہم اتصال ہوتا ہے اور اس اتصال کی وجہ سے انسانی سوچ میں ایک وسعت سی پیدا ہوجاتی ہے اور انسان اس کائنات کے حقائق کا ادراک ایک وسیع زاویے سے کرسکتا ہے ۔ اس کا نفسیاتی شعور وسیع اور اس کے ذہن کی جو لانی کا دائرہ کھل جاتا ہے اور فکر ونظر کی یہ وسعت ایک مسلمان کو ایک ہمہ گیر اسلامی تصور عطا کرتی ہے ۔ قرآن کریم انسان کے سامنے اس وسیع اور مشہود کائنات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کا آخری اتصال عالم غیب کے اس وسیع میدان سے ہوتا ہے ۔

عالم غیب کا ایک وسیع عالم اور ایک کھلا میدان ہے ۔ جو لوگ انسان پر عالم غیب کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں وہ انسان کے ساتھ نہایت ہی قبیح عداوت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ وہ انسان کی دنیا کو اس کے نہایت ہی محدود تصور بلکہ عالم محسوسات کے اندر محدود کردینا چاہتے ہیں اور اسے عالم حیوانات میں داخل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ نے انسان کو عزت اور شرافت اس طرح بخشی کہ اسے غور وفکر کی قوت عطا کی ۔ اس غور وفکر کی قوت سے انسان ان چیزوں کا ادراک کرسکتا ہے جس سے جانور اور بہائم محروم ہیں ۔ انسان اپنی اس صلاحیت کی وجہ سے علم ومعرفت کی فراوانی پاتا ہے اور اس کا شعور نہایت ہی وسیع ہوجاتا ہے ۔ وہ اپنی عقل اور اپنے دل کی وجہ سے عالم بالا کی وسعتوں تک پہنچ جاتا ہے وہ اخلاق پاکیزہ حاصل کرتا ہے اور اپنے وجود کے ساتھ نورانی عالم بالا کی سیر کرتا ہے ۔

عرب اپنی اس جاہلیت کے باوجود جس میں وہ غرق تھے اور جس میں ان کا تصور حیات نہایت ہی غلط اصولوں پر قائم تھا ‘ دور جدید کی سائنسی جاہلیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھے ۔ یہ جدید جاہلیت کے پیروکار عالم غیب کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور ایسے غیبی امور پر ایمان لانے کو غیر علمی اور غیر سائنسی تصور سمجھتے ہیں ۔ وہ عالم غیب کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالتے ہیں اور عالم سائنس کو دوسرے میں جو ایک نہایت ہی غلط تقابل ہے ۔ اس تصور کی تردید میں آیت (عنداہ مفاتح الغیب) کے ضمن میں کروں گا اس لئے کہ جاہلیت جدیدہ کا یہ وہ دعوی ہے جس کے اوپر سائنس کے اصولوں کے مطابق کوئی دلیل نہیں لائی جاسکتی نہ دین میں اس کے اوپر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے ۔ یہاں ہم صرف فرشتوں کے وجود کے بارے میں ایک مختصر بات کریں گے ۔

سائنس دانوں سے ہم صرف یہ بات پوچھتے ہیں کہ وہ جو فرشتوں کا انکار کرتے ہیں اس پر ان کے پاس سائنسی اصولوں کے مطابق کیا دلیل ہے ؟ وہ فرشتوں کے وجود کو تصور اور تصدیق کے دائرے سے کیوں نکالتے ہیں ؟ ذرا وہ کوئی سائنسی فارمولا بتائیں جس کی رو سے وہ ایسا عقیدہ رکھنے پر مجبور ہوں کہ فرشتوں کا وجود نہیں ہے ۔

ان کی سائنس کی حالت تو یہ ہے کہ وہ دوسرے کر ات سماوی کے اندر ایسی موجودات کے اقرار اور انکار سے بھی عاجز ہے جو اس کرہ ارض پر موجود ہیں ۔ کجا کہ وہ کر ات جن کی فضا اور جن کی کیمیاوی اور طیعیاتی ترکیب اور مسافت زمین سے مختلف ہے اور جن کی فضائیں مختلف ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ ان دوسرے جہانوں کا انکار کس اصول پر کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس فرشتوں کے وجود کی نفی پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔

ہم ان سے اپنے عقائد کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں چاہتے اور نہ ہم اللہ کے کلام کے بارے میں ان سے کوئی استدلال چاہتے ہیں ۔ ہم ان سے خود ان کے اس علم اور سائنس کے بارے میں محاکمہ چاہتے ہیں جس کو انہوں نے الہ بنا لیا ہے ۔ اس سوال کے جواب میں ان کے پاس مکابرہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس ان کی یہ سائنس جو انہیں عالم غیب اور ملائکہ کے انکار پر آمادہ کرتی ہے ‘ اس سوال سے لاجواب ہوجاتی ہے ، انکار محض اس لئے کہ یہ جہان پردہ غیب میں مستور ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جس سائنس کی وجہ سے وہ عالم غیب اور فرشتوں کا انکار کرتے ہیں وہی بالجزم عالم غیب کو ثابت کرتی ہے بلکہ اس سائنس نے عالم غیب کو ایک طرح سے عالم شہادت میں بدل دیا ہے اور کئی ایسے انکشاف کردیئے ہیں جو پہلے عالم مغیبات میں تھے ۔ ان مغیبات کو آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔

اس موج کا اختتام اس انجام کے تذکرے سے ہوتا ‘ جس سے انسانی تاریخ میں وہ تمام لوگ دو چار ہوئے جنہوں نے رسولوں کا مذاق اڑایا ۔ پھر جھٹلانے والوں کو دعوت دی گئی کہ ذرا وہ انسانی تاریخ میں ان مقتل گاہوں کا مطالعہ کریں جن میں ان کے اسلاف پر عذاب آئے ۔ ذرا اس کرہ ارض پر چل پھر کر جھٹلانے والوں کے انجام کو دیکھیں ۔ یہ واقعات زبان حال سے گویا ہیں کہ جھٹلانے والوں اور مذاق کرنے والوں کا انجام کیا ہوا ہے ؟

آیت 8 وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌط وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لاَ یُنْظَرُوْنَ یعنی اس دنیا کی زندگی میں یہ جو ساری آزمائش ہے وہ تو غیب کے پردے ہی کی وجہ سے ہے۔ اگر غیب کا پردہ اٹھ جائے تو پھر امتحان ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد تو پھر نتیجے کا اعلان کرنا ہی باقی رہ جاتا ہے

آیت 8 - سورۃ الانعام: (وقالوا لولا أنزل عليه ملك ۖ ولو أنزلنا ملكا لقضي الأمر ثم لا ينظرون...) - اردو