سورۃ الانعام: آیت 4 - وما تأتيهم من آية من... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ ءَايَةٍ مِّنْ ءَايَٰتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا۟ عَنْهَا مُعْرِضِينَ

اردو ترجمہ

لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے سامنے آئی ہو اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama tateehim min ayatin min ayati rabbihim illa kanoo AAanha muAArideena

آیت 4 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 4 تا 6۔

ان لوگوں نے عناد اور باطل پہ اصرار کرنے کے موقف کو اپنایا ‘ حالانکہ ایسے دلائل اور نشانیوں کی کمی نہ تھی جن کو دیکھ کر وہ ایمان لاتے اور نہ ایسے دلائل اور نشانات کی کمی تھی جن سے معلوم ہوتا کہ پیغمبروں کی دعوت نہایت ہی سچی دعوت ہے ‘ نہ یہ بات تھی کہ اس دعوت اور داعی کی سچائی پہ دلائل کی کوئی کمی تھی ۔ وجود باری پر دلائل وبراہین بھی موجود تھے ۔ غرض ان چیزوں کی ان کے ہاں کوئی کمی نہ تھی بلکہ جس چیز کی کمی تھی وہ یہ تھی کہ وہ مان کر نہ دیتے تھے ۔ وہ باطل پر مصر تھے ‘ تحریک سے عناد رکھتے تھے اور اس روگردانی کی وجہ ان کے لئے اس دین اور تحریک میں غور وفکر کرنے کے مواقع جاتے رہے ۔

(آیت) ” وَمَا تَأْتِیْہِم مِّنْ آیَۃٍ مِّنْ آیَاتِ رَبِّہِمْ إِلاَّ کَانُواْ عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ (4)

” لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں ہے جو ان کے سامنے آئی ہو ‘ اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ “ جب صورت حالات یہ ہوجائے کہ لوگ جان بوجھ کر حق سے روگردانی اختیار کریں ‘ جب کہ ان کے پاس آیات و دلائل موجود ہوں ‘ حقائق ان پر روز روشن کی طرح واضح ہوچکے ہوں تو پھر بعض اوقات ڈر اوا اور تہدید ان کی آنکھیں کھول دیتی ہے ۔ ایک جھٹکے سے آنکھ کھل جاتی ہے اور فطرت کے دریچے کھل جاتے ہیں ‘ بشرطیکہ غرور اور عناد کے پردے حائل نہ ہوں ۔

(آیت) ” فَقَدْ کَذَّبُواْ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاء ہُمْ فَسَوْفَ یَأْتِیْہِمْ أَنبَاء مَا کَانُواْ بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ (5)

” چناچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا ۔ اچھا ‘ جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ چیزیں انہیں پہنچیں گی ۔ “

زمین وآسمانوں کے خالق کی طرف سے جو ہدایت آئی وہ سچائی تھی ۔ روشنی اور تاریکی پیدا کرنے والے کی طرف سے سچائی تھی ‘ جس نے انسان کو کیچڑ سے پیدا کیا ۔ جو آسمانوں کا بھی حاکم ہے اور زمین کا بھی حاکم ہے جو ان کے کھلے اور پوشیدہ سب امور سے واقف ہے ۔ وہ جو کچھ بھی کماتے ہیں ان سے واقف ہے ۔ وہ سچائی ہے اور انہوں نے سچائی کو جھٹلایا ہے ۔ اب وہ اس تکذیب پر اصرار کر رہے ہیں ‘ آیات الہی سے روگردانی کرتے ہیں ‘ دعوت اسلامی کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ لہذا انہیں چاہئے کہ وہ اب اس بات کے انجام اور آخری خبر کا انتظار کریں۔

اب یہ ایک نہایت ہی اجمالی تہدید اور ڈراوا ہے جس کی نہ تفصیلات دی گئی ہیں اور نہ اس انجام بد کا کوئی وقت مقرر کیا گیا ہے ۔ انہیں صرف یہ تاثر دیا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اس انجام کا انتظار کریں ۔ ان پر عذاب الہی کس بھی وقت آسکتا ہے ۔ ان پر سچائی کھل جائے گی اور وہ اپنی آنکھوں سے عذاب کو دیکھ لیں گے ۔

اس تہدید اور ڈراوے کے مقام پر انہیں یاد دلایا جاتا ہے ‘ انہیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ ذرا پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں اور ذرا نگاہ ڈالیں کہ انسانی تاریخ میں جھٹلانے والوں کا انجام کیا رہا ہے ؟ ان میں سے بعض لوگوں کے انجام سے وہ واقف بھی تھے ۔ احقاف میں قوم عاد کا جو انجام ہوا اور حجر میں قوم ثمود کا جو انجام ہوا ‘ اس کی داستانیں ان کے ہاں مشہور تھیں ۔ جب عرب گرمیوں میں شمال کی طرف جاتے اور سردیوں میں جنوب کی طرف سفر کرتے تو ان اقوام کے کھنڈرات کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ۔ قوم لوط پر جہاں تباہی آئی وہ مقامات بھی انہیں معلوم تھے اور ان کے اردگرد رہنے والے لوگ ان مقامات سے واقف تھے لہذا یہاں ان کی توجہ ان حقائق کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے ۔

(آیت) ” أَلَمْ یَرَوْاْ کَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَبْلِہِم مِّن قَرْنٍ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّن لَّکُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاء عَلَیْْہِم مِّدْرَاراً وَجَعَلْنَا الأَنْہَارَ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمْ فَأَہْلَکْنَاہُم بِذُنُوبِہِمْ وَأَنْشَأْنَا مِن بَعْدِہِمْ قَرْناً آخَرِیْنَ (6)

” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے ؟ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا جو تمہیں نہیں بخشا ‘ ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں (مگر انہوں نے کفران نعمت کیا) تو آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا ۔ “

کیا یہ لوگ گزری ہوئی اقوام کے انجام بد سے عبرت نہیں لیتے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کو اس کرہ ارض پر بہت ہی بڑا قتدار عطا کیا تھا ۔ انہیں قوت اور سلطنت کے اسباب فراہم کئے تھے ۔ اور وہ اس قدر ترقی یافتہ اور قوی تھی کہ قرآن کے مخاطبین اہل قریش اور ان کے درمیان کوئی مماثلت ہی نہ تھی ان پر پے در پے بارشیں ہوتی تھیں ‘ ان کی سرزمین تروتازہ تھی اور ہر قسم کی پیداوار کی فراوانی تھی ۔ پھر کیا ہوا ؟ انہوں نے اپنے رب کی نافرمانی شروع کردی ۔ اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑا ۔ ان کو تباہ کر کے ان کی جگہ دوسری اقوام کو منصہ شہود پر لایا گیا اور زمین کا اقتدار ان کے حوالے کردیا گیا ۔ اس زمین نے جانے والوں پر کوئی ماتم نہ کیا اس لئے کہ زمین کے وارث اب دوسرے لوگ تھے ۔ ذرادیکھئے کہ ان مکذبین اور روگردانی کرنے والوں کی حیثیت ہی کیا رہی ہے ۔ اللہ کے ہاں وہ کس قدر ہلکے ہیں اور اس زمین پر وہ کس قدر ہلکے ہیں ۔ وہ ہلاک کردیئے گئے ‘ نیست ونابود ہوگئے اور اس زمین کو کوئی احساس ہی نہ ہوا ۔ اور نہ یہ زمین خالی رہ گئی ‘ اس خلا کو دوسری اقوام نے پر کردیا اور یہ زمین اس طرح گردش کرتی رہی کہ گویا یہ مٹنے والی اقوام کبھی اس پر بسی ہی نہ تھیں اور زندگی اس طرح چلتی رہی کہ گویا سابقہ لوگ کبھی زندہ ہی نہ تھے ۔

جب اللہ کسی کو اس کرہ ارض پر تمکن عطا کرتا ہے تو صاحبان اقتدار سب سے پہلے اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ یہ اقتدار انہیں اللہ کی مرضی سے نصیب ہوا ہے اور یہ ان کے لئے ایک بڑی آزمائش ہے ۔ آزمائش یہ کہ آیا وہ اس اقتدار کو اللہ کے عہد اور شرط کے مطابق استعمال کرتے ہیں اور اس میں وہ صرف اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور صرف اسی سے ہدایات لیتے ہیں اس لئے کہ وہی تو اس اقتدار کا اصل مالک ہے اور انسان تو اس کا خلیفہ ہے یا وہ اپنے آپ کو طاغوت کا منصب دیتے ہیں اور اپنے لئے اللہ کے اختیارات حاصل کرتے ہیں اور وہ ان اختیارات کو بطور خلیفہ استعمال نہیں کرتے بلکہ بطور مالک خود مختار استعمال کرتے ہیں ۔

یہ وہ حقیقت ہے جسے انسان بھول جاتے ہیں ‘ الا یہ کہ کوئی اللہ کی جانب سے محفوظ کردیا گیا ہو ۔ جب انسان اس حقیقت کو بھول جائیں تو وہ اللہ کے عہد اور اس کے خلیفہ فی الارض ہونے کی شرائط سے صرف نظر کرنے لگتے ہیں اور سنت الہیہ کے خلاف جاتے ہیں ۔ پہلے پہل انہیں احساس نہیں ہوتا کہ اس انحراف کے نتائج کیا ہوں گے ‘ چناچہ ان کے اندر آہستہ آہستہ فساد رونما ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ انہیں اس کا شعور بالکل نہیں ہوتا ‘ یہاں تک کہ وقت مقررہ تک وہ پہنچ جاتے ہیں اور اللہ کا وعدہ آجاتا ہے ۔ ان کے انجام پھر مختلف ہوتے ہیں ‘ بعض اوقات ان پر ایسا عذاب آتا ہے کہ انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے ۔ یہ عذاب کبھی آسمان سے آتا ہے اور کبھی نیچے زمین سے آتا ہے ۔ دنیا کی کئی اقوام کو اس عذاب کے ذریعے تباہ کیا گیا اور بعض اوقات یہ عذاب قحط سالی اور خشک سالی کی صورت میں آتا ہے ۔ پھل اور پیداوار ختم ہوجاتے ہیں اور لوگ بھوکے مرنے لگتے ہیں ۔ کئی اقوام عالم اس عذاب سے دو چار ہوئیں ۔ بعض اوقات وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کے لئے عذاب بن جاتا ہے بعض دوسروں کو مبتلائے عذاب کرتے ہیں ‘ بعض اقوام دوسروں کو نیست ونابود کردیتی ہیں ۔ بعض دوسروں کو اذیت دیتی ہیں اور کئی دوسروں کو امن نہیں دیتے ۔ اس طرح انکی قوت اور شوکت ختم ہوجاتی ہے ‘ اور اللہ ان پر پھر اپنے دوسرے بندوں کو مسلط کردیتا ہے جو یا تو اللہ کے فرمانبردار ہوتے ہیں اور یا نافرمان ہوتے ہیں ۔ وہ ان کی قوت کو توڑ کر انہیں اس اقتدار اعلی سے محروم کردیتے ہیں جس پر ان کو متمکن کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد اللہ کچھ نئے لوگوں کو تمکین فی الارض عطا کرتا ہے تاکہ اب ان کی آزمائش کا دور شروع ہو ۔ یوں سنت الہیہ کا دور چلتا ہے اور دنیا میں نیک بخت اقوام وہ ہوتی ہیں جو سنت الہیہ کا ادراک رکھتی ہیں ۔ جو یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ایک آزمائش ہے ۔ وہ اللہ کے عہد کا پاس رکھتی ہیں ۔ بدبخت اقوام دہ ہوتی جو اس حقیقت سے غافل ہوتی ہیں اور یہ گمان کرنے لگتی ہیں کہ یہ اقتدار انہیں خود ان کے علم و کمال کی وجہ سے ملا ہے یا کسی حیلے اور تدبیر سے ملا یا اتفاقا بغیر کسی منصوبے کے انہیں مل گیا ہے ۔

لوگوں کو یہ امر دھوکے میں ڈالتا ہے کہ وہ ایک باغی و سرکش ‘ ایک بدکار اور مفسد اور ایک ملحد اور کافر کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس کرہ ارض پر مقتدر اعلی ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے کوئی مواخذہ نہیں ہو رہا ہے ۔ وہ مایوس ہوجاتے ہیں ‘ لیکن ایسے لوگ جلد بازی سے کام لیتے ہیں ۔ وہ راستہ کا ابتدائی حصہ دیکھتے ہیں ‘ درمیانی حصہ بھی دیکھتے ہیں لیکن ان کی جب ایسے سرکشوں پر اللہ کا عذاب آتا ہے تو وہ نیست ونابود ہوجاتے ہیں اور انکے بارے میں محض قصے اور کہانیاں ہی رہ جاتی ہیں ‘ تب حقیقت نظر آتی ہے ۔ قرآن کریم ایسے لوگوں کے ہونے والے انجام کے کچھ مظاہر پیش کرتا ہے تاکہ ایسے غافل سرکشوں کو ہوش آجائے ‘ کیونکہ ایسے لوگ اپنے انفرادی حالات میں اس قدر مست ہوتے ہیں کہ انہیں منزل مقصود اور اپنا آخری انجام نظر نہیں آتا ۔ یہ لوگ بس اس مختصر زندگی کو دیکھ سکتے ہیں اور اسے ہی آخری منزل سمجھتے ہیں ۔

قرآن کریم کی یہ آیت (فاھلکنھم بذنوبھم (6 : 6) اور اس جیسی دوسری آیات بار بار دہرائی گئی ہیں ۔ ایسی آیات میں اللہ کی ایک ناقابل تبدیل سنت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور ان میں اسلام کے نظریہ تاریخ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ۔

ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ سنت الہیہ یہ ہے کہ بدکار لوگوں کو آخر کار ان کی اس بدکاری کی وجہ سے ہلاک اور برباد کردیا جاتا ہے ۔ ان پر یہ ہلاکت اور بربادی اللہ کی جانب سے آتی ہے اور یہ سنت اس کائنات میں ہمیشہ کے لئے جاری وساری ہے ۔ اگرچہ ایک فرد اپنی مختصر زندگی میں اسے نہ سمجھ سکے ۔ یا ایک محدود اور متعین نسل کی زندگی میں یہ ہلاکت نہ آئے ۔ لیکن یہ ایک ایسی سنت الہیہ ہے کہ جب کسی قوم میں جرائم اور بدکاریاں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں اور پوری زندگی کا نظام بدکاری اور جرائم پر قائم ہو ‘ تو پھر اللہ کی جانب سے عذاب ضرور آتا ہے ۔ اسلام کا نظریہ تاریخ یہ ہے کہ اقوام کے عروج وزوال میں اصل اور موثر عالم (FActor) یہ ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں جب بدکاری اور جرائم سرایت کر جاتی ہیں تو یہ تباہی اور بربادی کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ یہ تباہی یا تو آفات سماویہ کے ذریعے سے ہوتی ہے جیسا کہ قدیم تاریخ میں یہ واقعات رونما ہوئے یا نہایت ہی تدریجی تباہی کے ذریعے طبعی طور پر ‘ جس طرح کسی جسم پر عارضی طور پر زوال آتا ہے جب وہ بدکاری اور جرائم میں کانوں تک ڈوب جاتے ۔

انسان کی جدید تاریخ میں ہمارے سامنے اس زوال کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں اقوام پر اخلاقی بےراہ روی ‘ بدکرداری اور فحاشی ‘ عیاشی اور اسراف اور لہو ولعب کی وجہ سے تباہی آئی ۔ مثلا یونان کی تباہی کے یہی عوامل تھے ۔ اس کے بعد رومیوں کی تباہی اور زوال کے یہی اسباب تھے ۔ یہ اقوام اپنے عروج کے باوجود اس طرح مٹ گئیں کہ اب انکے صرف قصے کہانیاں ہی رہ گئیں ۔ جدید ترقی یافتہ اقوام کے اندر بھی اس عظیم تباہی اور زوال کے اسباب نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں مثلا فرانس اور برطانیہ کا زوال شروع ہوچکا ہے حالانکہ مادی جنگی اور تکنیکی قوت کے اعتبار سے وہ عروج پر ہیں اور نہایت ہی ترقی یافتہ اور دولتمند ہیں ۔

تاریخ کی مادی تفسیر لکھنے والوں اور اقوام کے عروج وزوال کی داستانیں لکھنے والوں کی نظر سے تاریخ کا یہ اخلاقی پہلو غائب ہے ‘ اس لئے کہ مادی نقطہ نظر رکھنے والے کی گناہوں سے شروع ہی سے اخلاقی عناصر اوجھل رہتے ہیں ۔ اصل الاصول یعنی سنت الہیہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے ۔ جو لوگ تاریخ کی تفسیر اور اس پر تبصرہ صرف مادی نقطہ نظر سے کرتے ہیں اور اقوام کے عروج وزوال کے سلسے میں نہایت ہی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں ۔ حالانکہ اقوام کے عروج وزوال کے بعد واقعات کی معقول تفسیر صرف اعتقادی اور اخلاقی زاوے ہی سے کی جاسکتی ہے ۔

اسلام کا تاریخی نقطہ نظر نہایت جامع ‘ حقیقت پسندانہ اور سچا ہے اور وہ اپنی اس جامعیت کی وجہ سے مادی عنصر کو اسلامی نقطہ نظر کا تعلق ہے ‘ وہ زوال اقوام میں مادی زوال کو بھی اہمیت دیتا ہے ۔ تاہم اسلام دوسرے عوامل کو بھی لیتا ہے جن کا انکار صرف معاندین ہی کرتے ہیں ۔ اسلام نے سب سے پہلے اللہ کی سنت اور اللہ کی تقدیر کو اصل عامل قرار دیتا ہے ۔ پھر انسان کے داخلی شعور ‘ جذبات اور تصورات اور نظریات کو اس کا سبب قرار دیتا ہے ۔ تاہم اسلام دوسرے عوامل کو بھی لیتا ہے جن کا انکار صرف معاندین ہی کرتے ہیں ۔ اسلام نے سب سے پہلے اللہ کی سنت اور اللہ کی تقدیر کو اصل عامل قرار دیتا ہے ۔ پھر انسان کے داخلی شعور ‘ جذبات اور تصورات اور نظریات کو اس کا سبب قرار دیتا ہے ۔ اس کے بعد اسلام لوگوں کی عام اخلاقی اور عملی زندگی کو بھی اس میں اہمیت دیتا ہے اور وہ ان اسباب وعلل میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کرتا جو کسی قوم کے عروج وزوال کا سبب بنتی ہیں۔ (تفیصلات کے لئے دیکھئے الا سلام ومشکلات الحضارۃ ۔ النطور والنبات فی حیات البیرہ ۔ خصائص التصور الاسلامی وھو مائہ التصویر الفنی فی القرآن)

اب اگلی آیات میں ان لوگوں کے اس عناد کی تصویر کشی کی جاتی ہے ‘ جس کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہوتی ہے ۔ اس تصویر کشی میں انسانوں کی ایک عجیب قسم پیش کی جاتی ہے ۔ انسانوں کی یہ قسم صرف ماضی یا کسی ایک زمانے تک محدود نہیں ہے ‘ اس قسم کے لوگ تاریخ میں بار بار دہرائے جاتے ہیں ۔ ہر زمانے میں ہر جگہ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ ہر نسل اور ہر خاندان میں نمونے موجود ہوتے ہیں ۔ یہ ہٹ دھرم قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ سچائی ان کی آنکھوں کو پھاڑتی ہے لیکن یہ اسے دیکھ نہیں پاتے ۔ یہ لوگ ایسے امور کا بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ انکار کرتے ہیں جن کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے امور جو اس قدر واضح ہوتے ہیں کہ ان کے انکار کی وجہ سے منکر کو کم از کم شرم آتی ہے ۔ قرآن کریم اس قسم کے نمونے کا بڑی وضاحت سے ذکر کرتا ہے ۔ مختصر کلمات میں عجیب انداز میں جو انوکھا بھی ہے اور معجزانہ بھی ہے جس طرح قرآن کریم کا انداز تعبیر بالعموم اعجاز کا حامل ہوتا ہے ۔

آیت 4 وَمَا تَاْتِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّہِمْ الاَّ کَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ ۔ہم نئی سے نئی سورتیں بھیج رہے ہیں ‘ نئی سے نئی آیات نازل کر رہے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اعراض پر تلے ہوئے ہیں۔

کفار کو نافرمانی پر سخت انتباہ کفار کی سرکشی کی انتہا بیان ہو رہی ہے کہ ہر امر کی تکذیب پر گویا انہوں نے کمر باندھ لی ہے، نیت کر کے بیٹھے ہیں کہ جو نشانی دیکھیں گے، اسی کا انکار کریں گے، ان کی یہ خطرناک روش انہیں ایک دن ذلیل کرے گی اور وہ ذائقہ آئے گا کہ ہونٹ کاٹتے رہیں، یہ یوں نہ سمجھیں کہ ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے نہیں بلکہ عنقریب انہیں اللہ کی پکڑ ہوگی، کیا ان سے پہلے کے ایسے سرکشوں کے حالات ان کے کان میں نہیں پڑے ؟ کیا ان کے عبرتناک انجام ان کی نگاہوں کے سامنے نہیں ؟ وہ تو قوت طاقت میں اور زور میں ان سے بہت بڑھے چڑھے ہوئے تھے، وہ اپنی رہائش میں اور زمین کو بسانے میں ان سے کہیں زیادہ آگے تھے، ان کے لاؤ لشکر، ان کی جاہ و عزت، غرور و تمکنت ان سے کہیں زیادہ تھی، ہم نے انہیں خوب مست بنا رکھا تھا، بارشیں پے درپے حسن ضرورت ان پر برابر برسا کرتی تھیں، زمین ہر وقت ترو تازہ رہتی تھی چاروں طرف پانی کی ریل پیل کی وجہ سے آبشاریں اور چشمے صاف شفاف پانی کے بہتے رہتے تھے۔ جب وہ تکبر میں آگئے، ہماری نشانیوں کی حقارت کرنے لگے تو آخر نتیجہ یہ ہوا کہ برباد کردیئے گئے۔ تہس نہس ہوگئے، بھوسی اڑ گئی۔ لوگوں میں ان کے فسانے باقی رہ گئے اور ان میں سے ایک بھی نہ بچا حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے اور ان کے بعد ان کے قائم مقام اور زمانہ آیا۔ اگر وہ بھی اسی روش پر چلا تو یہی سلوک ان کے ساتھی بھی ہوتا، اتنی نظریں جب تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے، یہ کس قدر تمہاری غفلت ہے، یاد رکھو تم کچھ اللہ کے ایسے لاڈلے نہیں ہو کہ جن کاموں کی وجہ سے اوروں کو وہ تباہ کر دے وہ کام تم کرتے رہو اور تباہی سے بچ جاؤ۔ اسی طرح جن رسولوں کو جھٹلانے اور ان کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے ان رسولوں سے کسی طرح یہ رسول کم درجے کے نہیں بلکہ ان سے زیادہ اللہ کے ہاں یہ با عزت ہیں۔ یقین مانو کہ پہلوں سے بھی سخت اور نہایت سخت عذاب تم پر آئیں گے، پس تم اپنی اس غلط روش کو چھوڑ دو ، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہاری بدترین اور انتہائی شرارتوں کے باوجود تمہیں ڈھیل دے رکھی ہے۔

آیت 4 - سورۃ الانعام: (وما تأتيهم من آية من آيات ربهم إلا كانوا عنها معرضين...) - اردو