سورۃ الانعام: آیت 3 - وهو الله في السماوات وفي... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَهُوَ ٱللَّهُ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَفِى ٱلْأَرْضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ

اردو ترجمہ

وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمہارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa Allahu fee alssamawati wafee alardi yaAAlamu sirrakum wajahrakum wayaAAlamu ma taksiboona

آیت 3 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 3 :

” وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی ‘ تمہارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے ۔ “

وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ‘ وہی آسمانوں اور زمین کی حاکم مطلق ہے ۔ اس حق حاکمیت میں وہ منفرد ہے ۔ زمین و آسمان دونوں پر اس کی حکومت کو تسلیم کیا جانا چاہئے ۔ اللہ کی شان حاکمیت ‘ زمین و آسمان میں پوری طرح جاری وساری ہے ۔ یوں کہ زمین و آسمان میں اللہ کا جاری کردہ ناموس کائنات ان پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ اس سے سرتابی نہیں کرسکتے ۔ اسی طرح اللہ کی منشا یہ ہے کہ انسانوں کی زندگی کے اندر بھی اللہ کا حکم ‘ قانون اور شریعت جاری ہو ‘ اس لئے کہ جس طرح اللہ نے ذمین و آسمان کی تخلیق فرمائی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی پیدا کیا ہے ۔ انسانی اپنی ابتدائی تخلیق کے وقت اس زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ اس کے اندر وہ خصائص رکھے گئے جن کی وجہ سے وہ انسان بنا اور اس زمین ہی سے اس کے رزق کا بھی بندوبست کیا گیا ۔ یہ انسان اپنی جسمانی تخلیق کے زاویہ سے بھی اسی قانون قدرت کا تابع ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا ‘ نہ اس کی ماں اور باب کی مشیت اور ارادے کا اس میں کوئی دخل ہوتا ہے ۔ وہ دونوں باہم ملتے ضرور ہیں لیکن وہ بچے میں روح نہیں ڈال سکتے نہ جنین کو وجود بخش سکتے ہیں ۔ یہ بچہ ان تمام قوانین قدرت کے مطابق مدت حمل پوری کرکے اس ناموس فطرت کے مطابق بطن مادر سے باہر آتا ہے جو اس کے لئے رب ذوالجلال نے تجویز کیا ہے ۔ وہ اس ہوا میں سانس لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیمانوں کے مطابق بنایا ہے اور وہ اسی قدر اور اسی کیفیت کے مطابق سانس لیتا ہے جو اللہ کے قانون قدرت نے وضع فرمائے ۔ اس کا احساس رنج والم ‘ اس کا بھوک اور پیاس کا احساس ‘ اس کا کھانا اور پینا اور عام طور پر زندہ رہنا عین ناموس فطرت کے مطابق ہوتا ہے ۔ اس میں اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ اپنے فطری وجود کے اعتبار سے انسان اور زمین و آسمان کی فطرت اور ناموس کے اندر کوئی فرق نہیں ہے ۔

اللہ وہ ذات ہے کہ انسان کے بھیدوں سے بھی واقف ہے ۔ اور اس کی ظاہری باتوں سے بھی واقف ہے ۔ وہ جو اعمال بھی کرتا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا خفیہ ہوں ان سب سے اللہ اچھی طرح باخبر ہے اس لئے حق تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے اس ناموس اور قانون کا بھی اتباع کرے جو اللہ نے اس کی اختیاری زندگی کے لئے تجویز کیا ہے ۔ وہ اپنے نظریات وزندگی جو ناموس تکوینی کے اندر جکڑی ہوئی ہے اور وہ زندگی جو اختیاری ہے دونوں میں وہ اللہ کی شریعت کے تابع ہو ‘ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں ۔ ان دونوں زندگیوں کے اندر کوئی تضاد اور کشمکش نہ ہو ‘ کوئی عملی تصادم نہ ہو اور یہ دونوں ناموس باہم تکڑا کر پاش پاش نہ ہوجائیں کہ اس کائنات اور زندگی میں الہی ناموس ہو اور اختیاری اور قانون اور شرعی زندگی طاغوتی اور غیر اسلامی بنیادوں پر استوار نہ ہو۔

درس نمبر 56 ایک نظر میں :

افتتاح سورة کے بعد یہ ایک دوسری لہر ہے ۔ پہلی لہر کے اثرات نہایت ہی دور رس تھے ۔ اس نے اس پوری کائنات کو حقیقت وجود باری سے بھر دیا تھا ۔ صرف زمین و آسمان کی تخلیق اور نور وظلمت کے ظہور سے اس میں اس حقیقت پر استدلال کیا گیا ۔ پھر یہ بتایا گیا کہ اس تاریک مادے سے اللہ نے انسان جیسی مخلوق کو پیدا کیا ۔ اس کی زندگی کے خاتمے کے لئے ایک مقررہ وقت دیا اور بتایا گیا کہ بعث بعد الموت کے لئے بھی ایک وقت مقرر ہے جس کا سوائے اللہ کے کسی کو علم نہیں ہے ۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ ذات باری لوگوں کے تمام افعال واقوال کو جانتی ہے ۔ وہ چھپے اور ظاہر سے بھی واقف ہے اور ان کے پورے اعمال سے باخبر ہے ۔

وجود باری جو انفس اور آفاق میں تاباں ہے ‘ وہ منفرد اور واحد وجود ہے ۔ اس جیسا کوئی دوسرا وجود نہیں ہے اللہ کے سوا کوئی اور خالق نہیں ہے ۔ وہ بھرپور ‘ روشن اور نہایت ہی چھایا ہوا وجود حق ہے ۔ ان آیات و دلائل کی روشنی میں اس کی تکذیب نہایت ہی مکروہ فعل ہے جس کی کوئی سند نہیں ہے اور یہ منکر معذور تصور ہوگا ۔

اس لئے اس لہر میں مشرکین کے موقف کو اس وجود برحق کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے کہ یہ لوگ دعوت اسلامی کا انکار ایسے حالات میں کر رہے ہیں کہ ذات باری پر روشن دلائل ان کے انفس وآفاق میں واضح طور پر موجود ہیں ‘ اس لئے ان کا یہ موقف نہایت ہی مکروہ اور ناپسندیدہ ہے ۔ ان منکرین کا یہ طرز عمل خود ان کے اپنے احساس و شعور کی رو سے بھی مکروہ ہے اس لئے کہ قرآن ان کے سامنے یہ دلائل پیش کر رہا تھا ۔ چناچہ پہلے ہی معرکے میں قرآن کریم انہیں شکست دے دیتا ہے اور لوگوں کی فطرت کی گہرائیوں کے اندر اس سچائی کو اتار دیتا ہے اگرچہ بظاہر وہ مکابرہ میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن دراصل عناد کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ۔

قرآن کریم اس عہد میں ان کے عناد اور غرور اور مکابرہ کی ایک تصویر کبھی تو نہایت ہی تہدید آمیز لہجے میں اور تلخ نوائی کے ساتھ پیش کرتا ہے اور کبھی ان کو یوں دعوت دیتا ہے کہ ذرا اس سے پہلے کے جھٹلانے والوں کے انجام کی تاریخ پر غور کرو ۔ جس میں بیشمار سامان عبرت وبصیرت ہے ۔ بعض اوقات ان جھٹلانے والوں کا انجام بھی سامنے رکھ دیتا ہے اور بیشمار ہدایات واشارات فراہم کردیتا ہے ۔

آیت 3 وَہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَفِی الْاَرْضِ ط ایسا نہیں ہے کہ آسمانوں کا خدا کوئی اور ہو زمین کا کوئی اور۔ ہاں فرشتوں کے مختلف طبقات ہیں۔ زمین کے فرشتے ‘ فضا کے فرشتے اور آسمانوں کے فرشتے معین ہیں۔ پھر ہر آسمان کے الگ فرشتے ہیں۔ پھر ملائکہ مقربین ہیں۔ لیکن ذات باری تعالیٰ تو ایک ہی ہے۔

آیت 3 - سورۃ الانعام: (وهو الله في السماوات وفي الأرض ۖ يعلم سركم وجهركم ويعلم ما تكسبون...) - اردو