سورۃ الانعام: آیت 2 - هو الذي خلقكم من طين... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ الانعام

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰٓ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُۥ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جواس کے ہاں طے شدہ ہے مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee khalaqakum min teenin thumma qada ajalan waajalun musamman AAindahu thumma antum tamtaroona

آیت 2 کی تفسیر

سورة کا آغاز اس مضمون سے ہوتا ہے کہ مشرکین جو اللہ کے ساتھ الہ ٹھہراتے ہیں ان کا موقف نہایت ہی بودا ہے حالانکہ توحید کے دلائل ان کے سامنے ہیں ‘ ہر طرف سے انہیں گھیرے ہوئے ہیں اور وہ اپنے نفوس میں آفاق میں انہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ سورة ہمارا استقبال ایک واضح حقیقت الوہیت کے ساتھ کرتی ہے اور چند جھلکیوں کے ذریعے اس پوری کائنات کے اوراق الٹ دیتی ہے ۔ صرف تین جھلکیوں میں ہم اس پوری کائنات کی تہ تک اتر جاتے ہیں اور اس کی وسعت کو اپنے دائرے میں لے لیتے ہیں ۔

یہ تین جھلکیاں ہیں ۔ ایک جھلکی میں اس پوری کائنات کی تخلیق دکھائی جاتی ہے ‘ دوسری میں پوری انسانیت کی تخلیق دکھائی جاتی ہے اور تیسری مین ان دونوں وجودوں کو ذات باری گھیرے ہوئے ہے ۔ کیا اعجاز ہے یہ ! کلام کی شوکت اور زور کو تو دیکھئے کس قدر جامع اور مانع بات ہے !

اس کائنات کے ہوتے ہوئے جو وحدت خالق پر دال ہے ‘ وجود انسانی کے ہوتے ہوئے جو ایک ذات مدبر پر شاہد عادل ہے اور اس کرہ ارض اور کر ات سماوی اور ان کے اندر اللہ کی جاری وساری حاکمیت کے ہوتے ہوئے مشرکین کے شرک اور کرنے والوں کی شک کی کوئی گنجائش از روئے عقل نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ رویہ نظام کائنات ‘ انسان کے نفس اور اس کی فطرت اور ایک صحت مند انسان کے دل اور اس کی عقل کی روشنی میں تعجب انگیز ہے ۔

اس لمحے میں اس سورة کے دریا میں ایک دوسری لہر نمودار ہوتی ہے ۔ اس میں جھٹلاتے والوں کا موقف پیش کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ایسی نشانیوں اور ایسے دلائل کو جھٹلاتے ہیں جو اس پوری کائنات اور خود انسان کے نفس کے اندر بکھرے پڑے ہیں اور موجود ہیں ۔ ان منکرین کے عجیب و غریب موقف کو پیش کر کے انہیں سخت تنبیہ بھی کی جاتی ہے ۔ ان کے سامنے ان منکرین کے نقشے پیش کئے جاتے ہیں جن کے لاشے انسانی تاریخ کی اسکرین پر بکھرے نظر آتے ہیں ۔ اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی قوت قاہرہ کے مقابلے میں ان کی کوئی پوزیشن نہیں ہے ۔ تعجب ہے کہ وہ اللہ کی ایسی ہی کسی پکڑ سے بالکل نہیں ڈرتے ۔ وہ حق مبین کو دیکھتے ہوئے بھی ‘ اپنی سرکشی پر قائم ہیں ۔ اس لہر سے ظاہر ہوتا ہے کہ منکرین دلائل کی کمی کی وجہ سے انکار نہیں کرتے بلکہ ان کی نیت درست نہیں ہے اور ان کے دل قبولیت حق کے لئے ابھی نہیں کھلے ‘ ان کے دلوں کے دروازے بند ہیں ۔ ذرا قرآن کے الفاظ دیکھیں ۔

” لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں ہے جو ان کے سامنے آئی ہو ‘ اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ چناچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا ۔ اچھا ‘ جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ چیزیں انہیں پہنچیں گی ۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے ؟ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا جو تمہیں نہیں بخشا ‘ ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں (مگر انہوں نے کفران نعمت کیا) تو آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا ۔ اے پیغمبر ﷺ اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ اور اگر ہم فرشتہ اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل میں اتارتے اور اس طرح انہیں اسی شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں ۔

اے محمد ﷺ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ‘ مگر ان مذاق اڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔ ان سے کہو ‘ ذرا زمین پر چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے ۔

اس مقام پر اب ایک تیسری موج اٹھتی ہے اس لہر میں شان الوہیت کا حقیقی تعارف ہے اور اس کا اظہار یوں کیا گیا ہے کہ زمین وآسمانوں اور مافیہا کا مالک ذات باری ہے ۔ رات کے اندھیروں میں اور دن کے اجالوں میں جو کچھ ٹھہرا ہوا ہے وہ اسی کا ہے ۔ اور ایسا رازق ہے جو سب کا کھلا رہا ہے اور اسے کسی جانب سے جوابی کھلانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صرف وہی ولی ہی اور اس کے سوا کوئی اور ولی نہیں ہے بندوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو صرف اس کے حوالے کردیں ۔ یہ وہی تو ہے جو آخرت میں نافرمانوں کو سزا دے گا ۔ وہی ہے جو بندوں کی بھلائی اور مصیبت کا مالک ہے ‘ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اپنے بندوں پر اسے مکمل کنٹرول حاصل ہے ۔ وہ حکیم وخبیر ہے ۔

اس پوری تمہید کے بعد اب یہ لہر اپنی بلندیوں تک پہنچ جاتی ہے ۔ رسول اور اس کی قوم کے درمیان ثبوت واثباث کے بعد مکمل فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔ قوم کو ڈرایا جاتا ہے کہ وہ شرک سے دور رہیں اور یہ کہ رسول ان کے شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ یہ اعلان نہایت ہی بلند آہنگی اور نہایت ہی فیصلہ کن انداز میں ہوتا ہے ۔ ذرا قرآن کے الفاظ دیکھیں ‘

” ان سے پوچھو ‘ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ کہو سب کچھ اللہ کا ہے ‘ اس نے رحم وکرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔ قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا ‘ یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے ۔ مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مبتلا کرلیا ہے وہ اسے نہیں مانتے ۔ رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں جو کچھ ٹھہرا ہوا ہے ‘ سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ۔ کہو ‘ اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں ؟ اس خدا کو چھوڑ کر جو زمین وآسمانوں کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے اور روزی لیتا نہیں ؟ کہو ‘ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے آگے سرتسلیم خم کروں اور ” تو بہر حال مشرکوں میں شامل نہ ہو “ کہو ‘ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی ۔ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے ۔ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے ‘ اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیار رکھتا ہے اور وہ دانا اور باخبر ہے ۔ ان سے پوچھو کس کی گواہی بڑھ کر ہے ؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔ یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘ سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی شریک ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ “

اب ایک چوتھی لہر اٹھتی ہے ۔ اس میں اس نئی کتاب کے بارے میں اہل کتاب کے رویے کا ذکر ہے ‘ جسے مشرکین نے جھٹلایا ہے ۔ اس لہر میں یہ بتایا گیا ہے کہ شرک ایک عظیم ظلم ہے اور یہ تمام مظالم سے بدتر ہے ۔ اس لہر میں مشرکین کے سامنے قیامت میں ان کو پیش آنے والے واقعات کے منظر کو پیش کیا جاتا ہے ۔ اس منظر میں اہل شرک ان لوگوں سے دریافت کرتے ہیں جنہیں وہ شریک ٹھہراتے تھے ‘ یہ لوگ ان کے اس شرک کا صاف صاف انکار کرتے ہیں ۔ اس لئے ان کی اس افتراء پردازی کے تار وپود بکھر جاتے ہیں ۔ اس لہر میں اہل شرک کے حالات کی تصویر کشی کی جاتی ہے ۔ نظر آتا ہے کہ ان کی قبولیت حق کی فطری قوتیں معطل ہیں ۔ وہ ایمان کے اشارات سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں اس لئے وہ ایمان نہیں لاتے ۔ وہ دلائل نہیں پاتے ‘ اس لئے کہ ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ‘ کیونکہ ان کا دعوی یہ ہے کہ قرآن محض پرانے قصوں پر مشتمل ہے ۔ اس لہر میں ان کو کہا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی ہدایت قبول کرنے سے روکتے ہیں اور خود بھی قرآن سے دور بھاگتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں ۔ ان کے حالات کی تصویر کشی یوں کی جاتی ہے ‘

اس وقت کے حالات کی جب وہ آگ پر کھڑے ہوں گے ‘ اس وقت ان کی سوچ کی کیفیت یہ ہوگی کہ کاش ہمیں دوبارہ دنیا میں لوٹا دیا جاتا اور ہم اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور اہل ایمان میں شامل ہوجائیں لیکن اگر وہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو پھر معاد اور آخرت کا انکار کردیں ۔ تصور کا ایک دوسرا رخ جب وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہوتے ہیں ‘ ان سے ان کے اس جحود و انکار کے بارے میں بازپرس ہوتی ہے ۔ حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو شخص طور پر اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ اس لہر کے آخر میں ان کی حسرت اور پشیمانی کا ذکر ہے ۔ اس ملاقات میں ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حیات دنیا محض لہو ولعب تھی اور آخرت ہی زندگی جاوداں ہے ۔ قرآن کریم کے الفاظ دیکھیں ۔

” جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے ان کو اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا ۔ مگر جنہوں نے اپنے آپ کو خود خسارے میں ڈال دیا ہے وہ اسے نہیں مانتے ۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ جھوٹا بہتان لگائے ‘ یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے ؟ یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے ۔ جس روز ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور مشرکین سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ دیکھو اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہوجائیں گے ۔ ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے ۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ‘ اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے ۔ حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آکر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ اس امر حق کو قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں حالانکہ دراصل وہ خود اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ کاش تم اس وقت ان کی حالت دیکھ سکتے کہ جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے ۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔ درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بےنقاب ہو کر ان کے سامنے آچکی ہوگی ‘ ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے ۔

وہ تو ہیں ہی جھوٹے ۔ آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہر گز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے ۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا ” کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟ “ یہ کہیں گے ” ہاں ہمارے رب ! یہ حقیقت ہی ہے ۔ “ وہ فرمائے گا ” اچھا تو اپنے انکار کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو “۔۔۔۔ نقصان میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا ۔ جب اچانک وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے ” افسوس ! ہم سے اس معاملے میں کیسی تقصیر ہوئی “۔ اور ان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے ۔ دیکھو کیسا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں ۔ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے ‘ حقیقت میں آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لوگے ؟ “

اب اس سورة کے دریا میں پانچویں موج اٹھتی ہے ۔ اس میں روئے سخن رسول اللہ کی طرف مڑ جاتا ہے ۔ آپ کو تسلی دی جاتی ہے اور آپ کے حزن وملال کو دور کیا جاتا ہے ۔ آپ کی پریشانی یہ تھی کہ لوگ آپ کو اور آپ پر نازل ہونے والے کلام کی تکذیب کرتے تھے ۔ آپ کو تلقین کی جاتی ہے کہ آپ انبیائے سابقین کے اسوہ حسنہ کو اپنائیں جن کی تکذیب کی گئی جن کو جھٹلایا گیا اور جن کو اذیت دی گئی ۔ یہا تک کہ اللہ کی نصرت آپہنچی ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی سنت ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہوتی لیکن اللہ کی سنت اپنے وقت سے پہلے بھی نہیں آتی ۔ اگر آپ ان کے جحود و انکار پر صبر نہیں کرتے تو آپ خود اپنی طرف سے کوئی معجزہ لے آئیں اور یہ سوچیں کہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو اللہ ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا ۔ اللہ وحدہ صاحب حکم و تصرف ہے اور اس کی مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ لوگ دعوت حق کو قبول کریں جن کی فطری قوتیں قبولیت حق کی نااہل نہیں ہو چکیں ۔ رہے وہ لوگ جو روحانی طور پر مر چکے ہیں اور ان کے اندر زندگی کی رمق باقی نہیں ہے تو وہ اشارات ہدایت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور سچائی کو قبول نہیں کرتے ۔ ایک دن آنے والا بہرحال ہے اور وہ سب اٹھ کر اس کے سامنے پیش ہوں گے ۔

” اے محمد ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں انہوں نے صبر کیا ‘ یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی ۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ چکی ہیں ۔ تاہم اگر ان لوگوں کی بےرخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو۔ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا لہذا نادان مت بنو ۔ دعوت حق پر لبیک وہی کہتے ہیں جو سننے والے ہیں ‘ رہے مردے تو انہیں تو بس اللہ قبروں سے اٹھائے گا اور پھر وہ واپس لائے جائیں گے ۔ “

یوں اس سورة میں کلام کی روانی موج در موج کی صورت میں چلتی ہے اور اس انداز میں جس کے نمونے ہم نے قارئین کے سامنے رکھے ۔ ان نمونوں سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس سورة کا مزاج کیسا ہے نیز اس سے سورة کے موضوع کے بارے میں بھی اچھی طرح روشنی حاصل ہوجاتی ہے ۔ اس کی بعض لہریں ان سے بھی اونچی ہیں جن کو ہم نے بطور نمونے درج کیا ۔ بعض مقامات میں ان کا بہاؤ اور ٹکراؤ زیادہ پر جوش اور شدید ہے ۔ ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ اس پوری سورت کا تنقیدی جائزہ اور تعارف ان مختصر الفاظ میں کرسکیں ۔ بہرحال اس کا ایک دوسرا پہلو اگلے پیراگراف میں دیکھیں ۔

اس سے پہلے ہم یہ بات کہہ آئے ہیں کہ یہ سورة اپنے مرکزی موضوع کو نہایت ہی منفرد انداز میں پیش کرتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ سورة ہر لمحہ میں ‘ ہر موقف میں اور ہر منظر میں آنکھوں میں چکا چوند کرنے والا حسن لیے ہوئے ہے ۔ جب انسان اس کے مناظر ‘ اس کے اثرات ‘ اور اس کے اشارات کو پے درپے دیکھتا ہے تو نفس انسانی انہیں اپنا حصہ بنا لیتا ہے اس کے تمام اثرات کو پلے باندھ لیتا ہے اور ہدایت کی روشنی حاصل کرلیتا ہے ۔

ب ہم قارئین کے سامنے بعض ایسی آیات رکھتے

ہیں جن سے یہ حقائق براہ راست قرآنی اسلوب میں نظر آئیں اس لیے کہ تبصرے کے ذریعے ہم جس قدر تعریف بھی کریں وہ براہ راست قرآنی آیات کے مطالعے کے مقابلے میں کم ہی مفید ہوتی ہے ۔ آیات کا براہ راست اثر کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔

مقام الوہیت کا بیان ‘ لوگوں کو اپنے سچے رب سے متعارف کرانا اور لوگوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کے دائرے میں لانا اس سورة کا مرکزی موضوع اور محور ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے مختلف مواقع اور مواقف پر قرآن کریم اس موضوع کو کس طرح لیتا ہے ۔

شہادت اور فیصلہ کن موقف کے وقت ‘ جہاں قلب مومن میں مقام الوہیت اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے ‘ جہاں مخالفین کے سامنے صاف صاف یہ موقف واضح کردیا جاتا ہے نہایت ہی قوت اور نہایت ہی یقین کے ساتھ تو قرآن کا اسلوب یہ ہوتا ہے :

(آیت) ” نمبر 2 :

” وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر تمہارے لئے زندگی کی ایک مدت مقرر کردی ‘ اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے ، مگر تم لوگ ہو جو شک میں پڑے ہوئے ہو ۔

کائنات کے بعد اب اس کائنات کے اندر وجود انسانی کی جھلکی دکھائی جاتی ہے ۔ پہلے اس کائنات اور اس میں پیدا ہونے والے بڑے مظاہر روز وشب کو غور و فکر کے لئے پیش کیا گیا تھا ۔ اس بےجان کائنات کے اندر ایک جاندار اور شاندار مخلوق انسانی کو غور فکر کے لئے پیش کیا جاتا ہے کہ ایک بےجان اور تاریک مٹی کے اندر انقلاب برپا کر کے اللہ نے اسے ایک زندہ اور تروتازہ مخلوق کو پیدا کیا ۔ دونوں جھلکیوں کے اندر دو اور جھلکیاں بھی ہیں ‘ ایک یہ کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ اس زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا اور دوسرے یہ کہ بیک وقت یہ تمام مردہ لوگ میدان حشر میں جمع ہوں گے ۔ تمام مردہ اور ساکن لوگ بیک وقت جنبش میں آجائیں گے اور میدان حشر برپا ہوگا جس میں ہر طرف حرکت ہی حرکت ہوگی جس طرح مٹی ساکن اور ہر جاندار متحرک ہوتا ہے ۔ ان مردوں اور زندوں کے درمیان اپنی حقیقت کے اعتبار سے بہت بڑا فرق اور فاصلہ ہے ۔ ان تمام مناظر ومظاہر کا تقاضا تو یہ تھا کہ ایک سلیم الفطرت انسان کا کاسہ دل ایمان سے لبریز ہوجاتا اور وہ اللہ کے سامنے ایک دن پیش ہونے کا یقین کرلیتا لیکن اس سورة کے مخاطب اہل کفر اس کے باوجود اس میں شک کرتے ہیں ۔ (آیت) ” ثم انتم تمترون (2 : 2) ” مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو ۔ “ تیسری جھلکی کی نوعیت یہ ہے کہ وہ ان تمام سابقہ مظاہر کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ یہ پوری کائنات ‘ یہ پوری زندگی اور پھر خصوصا پورا عالم انسانیت اللہ کے دائرہ حکومت میں داخل ہے ۔

آیت 2 ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلاً ط۔یعنی ہر شخص جس کو اللہ نے دنیا میں بھیجا ہے اس کا اس دنیا میں رہنے کا ایک وقت معین ہے۔ اس اجل سے مراد اس کی موت کا وقت ہے۔وَاَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ یعنی ایک تو ہے انفرادی موت کا وقت ‘ جیسے حضور ﷺ نے فرمایا : مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ 1 جس کو موت آگئی اس کی قیامت تو قائم ہوگئی۔ جبکہ ایک اس دنیا کی اجتماعی موت کا مقررہ وقت ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اپنے پاس رکھا ہے ‘ کسی اور کو نہیں دیا۔

آیت 2 - سورۃ الانعام: (هو الذي خلقكم من طين ثم قضى أجلا ۖ وأجل مسمى عنده ۖ ثم أنتم تمترون...) - اردو