سورۃ الانعام: آیت 1 - الحمد لله الذي خلق السماوات... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الانعام

ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَجَعَلَ ٱلظُّلُمَٰتِ وَٱلنُّورَ ۖ ثُمَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ

اردو ترجمہ

تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi allathee khalaqa alssamawati waalarda wajaAAala alththulumati waalnnoora thumma allatheena kafaroo birabbihim yaAAdiloona

آیت 1 کی تفسیر

نیز ہمیں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جب طرح یہ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ رسول نازل کیا گیا اسی طرح اس کا طریق کار بھی اللہ تعالیٰ نے سنت رسول کے ذریعے مقرر فرما دیا ۔ یہ مسنون طریق کار ہی اس دین کے مزاج کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس دین اور اس کے فطری طریق کار کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہمارے پیش نظر رہے کہ جس طرح اسلام نظریاتی اصلاح کے ذریعہ انسان کے کردار میں اصلاح اور تبدیلی چاہتا ہے بعینہ اسی طرح وہ اس طریق کار کو بھی بدل دینا چاہتا ہے جس کے مطابق فکری اور نظریاتی اصلاح درکار ہے ۔ مثلا یہ کہ وہ محض فکری تعمیر ‘ فلسفیانہ طور پر نہیں چاہتا بلکہ وہ فکری اصلاح اور راہنمائی کے ساتھ ساتھ ایک تحریک بھی برپا کرنا چاہتا ہے ‘ تاکہ ایک ایسی امت (GreAt NAtion) کی تعمیر ہو جس کے طرز فکر میں اعتقادی تصورات اور ایک زندہ وفعال معاشرے کا وجود ساتھ ساتھ موجود ہوں۔ غرض اسلامی نظریہ حیات کی رو سے اس کے طرز فکر ‘ اور اس فکر کے مطابق اساسی تصورات اور ان تصورات کے مطابق وجود میں آنے والے معاشرے کے درمیان ایسی کوئی حد فاصل نہیں ہے کہ جب ایک پر کام ہو رہا ہو تو دوسرے کو ہاتھ نہ لگایا جائے ‘ احیائے دین کے اسلامی طریق کار کے مطابق سب پر بیک وقت کام ہوگا ۔

اس طریق کار کی اہمیت :

احیائے دین کے اس طریق کار کو سمجھ لینے کے بعد ہمیں اس بات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ طریق نہایت اہم اور نہایت بنیادی ہے ۔ یہ کسی خاص مرحلے کسی خاص خاندان اور کسی خاص معاشرے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور نہ ہی یہ طریق پہلی تحریک اسلامی کے ظروف واحوال کے ساتھ مخصوص تھا ۔ یہ ایسا طریق کار ہے جس کو اختیار کیے بغیراحیائے دین کا کام کسی جگہ اور کسی زمانے میں بھی نہیں ہو سکتا ۔

اسلام کے پیش نظر صرف یہ نہ تھا کہ لوگوں کے کچھ عقائد میں تبدیلی کرکے اور معاشرتی حالات میں کچھ اصلاحات کر کے بیٹھ جائے ۔ وہ لوگوں کے فکر ونظر میں ہمہ گیر تبدیلی چاہتا تھا اور یہی وہ مہم تھی جس کا بیڑا اس نے اٹھایا ۔ اس نے انہیں نظریہ بھی دیا اور واقعیت بھی دی اور اس کے لئے ایک خاص طریق کار بھی دیا اور چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ طریق کار ہے اس لئے وہ اپنے مزاج کے اعتبار ہی سے انسانوں کے وضع کردہ ناقص طریق ہائے کار سے سراسر مختلف ہے ۔

اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام زندگی کا حصول اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ہم اپنے اندر اسلامی طرز فکر (IslAmic WAy of Thinking) پیدا نہ کرلیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرز فکر پر لوگوں کے افطار و تصورات کی تعمیر کی اور ان کے تمام عقائد درست ہوگئے اور ان کی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر بھی صحیح خطوط پر ہوئی ۔ جدید افکار سے متاثر ہو کر جب ہم اسلامی نظریہ حیات کو محض تعلیمی اور تدریسی نظریہ بنا دیں گے تو وہ اپنا مخصوص مزاج کھو دے گا اور ہم اس ذہنی شکست کا شکار ہوں گے کہ گویا اسلامی طریق کار اور الہی نقطہ نظرانسانی نظریوں اور نظاموں سے فروتر ہے یا یہ کہ وہ ان سے ناقص ہے اور ہم یہ تبدیلی کرکے اس کے نقص کو دور کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ انسانی طریق کار اور معیار کے مطابق ہوجائے ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک عظیم شکست ہوگی اور تباہ کن بھی ۔

اسلامی نظام حیات کی خصوصیت یہ ہو کہ وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں کو ایک خاص طرز فکر عطا کرے اور انہیں جاہلی طرز فکر کے بندھنوں سے آزاد کردے ‘ جو اس وقت ہر طرف چھائے ہوئے ہیں اور جن سے ہماری تنظیمیں اور ہماری پوری ثقافت متاثر ہے ۔ اگر ہم اسلامی نظام حیات کو اسی نقطہ نظر سے دیکھیں ‘ جو کسی دنیاوی جاہلی نظام کے بارے میں رکھا جاتا ہے تو یہ اسلامی نظام حیات کے مزاج کے سراسر خلاف ہوگا اس طرح اس دین کا وہ اصلی مقصد ہی فوت ہوجائے گا جو مقصد وہ فلاح انسانیت کے سلسلے میں پیش نظررکھتا ہے ۔ اس نقطہ نظر کو اختیار کرنے کے بعد ہمارے لئے یہ بےحد مشکل ہوگا کہ ہم جاہلی نظام حیات سے نجات پاسکیں ۔ جب کہ یہ نظام اس وقت ہر طرف سے غلبہ پارہا ہے ۔ اس طرح ہم ایک زریں موقع کھو دیں گے اور ہماری اجتماعی زندگی جاہلی نظریات اور غیر اسلامی افکار کے نیچے دب جائے گی اور اس کے نتائج دور رس اور تباہ کن ہوں گے ۔

نقطہ نظرکا توازن :

تحریک احیائے اسلام میں طرز فکر اور طریق کار تصور حیات اور نظام حیات کے در میان اہمیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ طرز فکر اور طریق کار ‘ کسی وقت بھی مفصل نظام حیات اور تصور حیات سے منفصل نہیں ہو سکتے اور اس تصور حیات اور نظام حیات کو اگر محض تعبیری شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے میں قطعا کوئی تحریک وجود میں نہ آئے گی اور اسلامی نظریہ حیات محض ذہنی نظریہ بن کر رہ جائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اگر ہم اسلام کے تصور حیات کو پیش کرنے کے لئے محض تعبیری طریق کو اختیار بھی کرلیں تو پھر بھی اس سے وہی لوگ مستفید ہو سکیں گے جو عملا اس تحریک کو اپنائے ہوئے ہوں اور یہ بھی اس صورت میں کہ جس منزل پر یہ کارکن ہوں اس میں وہ اسلامی نظام حیات کے احکامات پر پوری طرح عمل پیرا ہوں ۔ یعنی اس نظریہ حیات سے استفادہ مقدار عمل کے مطابق اٹھایا جاسکتا ہے ‘ مقدار علم کے مطابق نہیں ۔ غرض میری ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات فی الفور ایک تحریک کی شکل میں ظاہر ہونا چاہئے اور یہ تحریک اس تصور حیات کی صحیح تمثیل اور ترجمہ ہو ۔ یہی اسلامی نظام حیات کے قیام کا فطری طریق کار ہے اور تمام دوسرے طریقوں سے اعلی ارفع اور ٹھوس بھی ہے ۔ انسانی فطرت کے ساتھ زیادہ مطابق بھی ہے اور اس میں زیادہ تحریکیت اور فعالیت پائی جاتی ہے ۔ محض جامد شکل میں ایک مستقل اور مکمل نظریہ حیات پیش کردینے سے یہ طریق کار زیادہ مفید ہے کیونکہ اس میں فعال اور متحرک لوگوں کے سامنے لائحہ عمل پیش ہوتا ہے اور غیر متحرک لوگوں سے واسطہ نہیں پڑتا بلکہ لوگ ذہنی تصورات اور نظریہ حیات کی جیتی جاگتی تصور ہوتے ہیں ۔

تحریک اسلامی اور علمی تحقیقات :

اگر یہ رائے اصل اسلامی نظریہ حیات کے بارے میں درست ہے تو اسے اسلامی نظریہ حیات کے اساسی تصورات کے بارے میں بھی درست ہونا چاہئے ۔ نیز اسلامی نظام حیات کے مفصل قوانین پیش کرنے کے مسئلے میں بھی یہی طریق کار ‘ یعنی تدوین ونفاذ کا اتحاد ہی درست ہونا چاہئے ۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اردگرد جاہلیت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے ۔ وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ جوں جوں وہ احیائے دین کے لئے اسلامی نظام حیات کے مقررہ طریق کار کے مطابق قدم آگے بڑھاتے ہیں وہ ان سے بڑے معصوم لہجے میں سوال کرتی ہے کہ جس نظام حیات کی طرف تم لوگوں کو بلا رہے ہو اس کی تفصیلات کیا ہیں ۔ اس کے نفاذ کے لئے تم نے کیا کیا علمی تحقیقات کی ہیں ‘ اس کی علمی اور نظری بنیادی کہاں تک تیار ہوچکی ہیں اور جدید خطوط پر اسلامی فقہ کی تدوین کہاں تک ہوگئی ہے ؟ ان معصومانہ سوالات کو سن کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی راہ میں ‘ اب صرف یہی رکاوٹیں حائل ہیں کہ صرف فقہی احکامات کی تدوین اور بعض فقہی موضوعات پر تحقیق کی ضرورت پوری ہوجائے ۔ رہی جاہلیت تو وہ تو اللہ کی حاکمیت کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے اور تمام لوگ اس کے لئے آمادہ ہوچکے ہیں کہ اسلامی قوانین کو نافذ کیا جائے ، مشکل صرف یہ درپیش ہے کہ کوئی ایسا فقیہ مجتہد اور مفنن نہیں مل رہاجو جدید قانونی خطوط پر اسلامی شریعت کو مدون کرسکے ۔ یہ دراصل ایک گہری سازش اور ایک کھلا مزاح ہے جو شریعت اسلامیہ کے ساتھ کیا جارہا ہے اور ہر حساس دل کو اس کی طرف خاطر خواہ توجہ دینا چاہئے ۔

جاہلیت کے پیروکار ایسے سوالات اٹھا کر ‘ دراصل شریعت اسلامی کے نفاذ سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں ۔ انکا ایک مقصد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو بدستور غیر اسلامی اور انسانی قوانین کے تابع رکھا جائے ، دوسرا مقصد یہ ہے کہ تحریک اسلامی کو اقامت دین کے اسلامی طریق کار سے ہٹا دیا جائے ‘ تعمیر افکار اور احیائے تحریک کے ضروری مرحلے کو نظر انداز کردیاجائے اور اس سے پہلے ہی قانون کی تدوین شروع کردی جائے ‘ حالانکہ اقامت دین کا صحیح طریق کار یہ ہے کہ سب سے پہلے اسلامی نظریہ حیات تحریک اسلامی کی فعال شکل میں ظہور پذیر ہو اور اقامت دین کا جو مرحلہ درپیش ہو اس کی حقیقی ضرورت کے مطابق ہی تفصیلی قوانین کو سامنے لایا جائے اور تدوین قانون اس وقت ہو جب اس کی ضرورت درپیش ہو ۔

تحریک اسلامی کے کارکنوں کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ اسی طریق کار کو پیش نظر رکھیں ۔ سازشوں اور فوجی انقلابات کے طریق کار سے باز رہیں اور اس اسلامی طریق کار کے مقابلے میں اپنی طرف سے کوئی طریق کار املاء نہ کرائیں جو لوگ سرے سے خدا اور رسول پر یقین ہی نہیں رکھتے ان کی باتوں پر توجہ نہ دیں ۔ یہ لوگ دراصل ہمارے تحریک اسلامی کے کارکنوں کو گمراہ کرکے جلد باز بنانا چاہتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں ہمیں بےحد سنجیدہ ہونا چاہئے ۔

اسلام پسند عناصر میں مختلف طریقوں سے جو تنگی دلی پھیلائی جارہی ہے اس کا مقابلہ بےحد ضروری ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس سازش کو بھی ناکام بنائیں اور اس پست ذہنیت کو نظر انداز کو دیں جو ” فقہ اسلامی کے ارتکائ “ کے نام سے ایک ایسے ملک میں پھیلائی جارہی ہے جو سرے سے شریعت کی اطاعت اور نفاذ کا قائل ہی نہیں ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس بےفائدہ مزاح کو نظر انداز کرتے ہوئے صحیح اسلامی طریق کار کے مطابق اپنے حقیقی نصب العین کی طرف متوجہ ہوجائیں ۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہوا میں تخم ریزی کا فائدہ کچھ نہ ہوگا ۔ اسلام تحققات اور فقہی ارتقاء کا یہ خوش آئند کھیل دراصل ایک گہری سازش ہے اور ہمارا فرض یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں احیائے دین کے صحیح اور فطری طریق کار ہی پر ڈٹ جائیں ۔ اسی میں اس دین کی قوت کا راز مضمر ہے اور وہی ہمارے کارکنوں کی معنوی قوت کا مصدر ہے ۔

(اس وقت مصر میں پاکستان کے ادارہ ثقافت اسلامیہ اور مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی کی طرز پر کئی ادارے اسلام پر تحقیقا کر رہے ہیں ۔ یہ تحقیقات ایسی ہی ہیں جیسے کوئی مشاق فن ریگستانوں میں اثری اکتشافات میں مصروف ہوتا ہے ۔ سید قطب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اسلام کے احیاء سے کوئی سروکار ہے نہ وہ لوگ جو ان اداروں میں کام کرتے ہیں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور انہ ان کی حکومتوں کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ ان تحقیقات کو نافذ کیا جائے بلکہ محض علمی اور فنی عیاشی کے طور پر کام کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی کوئی تدبیر اسلام کو مطلوب نہیں ہے ۔

البتہ یہ بات اپنی جگہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام کے ہر موضوع پر اٹھائے ہوئے جدید سوالات اور جدید حالات کی روشنی میں تحقیقات کی اشد ضرورت ہے ‘ خصوصا دفاعی تحقیقات ۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہے کہ عربوں کے سامنے اسلامی نظام پہلی مرتبہ پیش ہوا اور ساتھ ساتھ بتدریج اس پر عمل بھی ہوتا رہا ہے ۔ لہذا قدرتی طور پر تعمیر افکار ‘ اس کا طریق کار اور تحریک اسلامی اور تشکیل نظام حیات کے ساتھ ساتھ ہی ہوتے رہے ۔ لیکن اب ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کے دو پہلو ہیں ۔ ایک طرف عوام الناس ہیں جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے آمادہ ہیں یا کم از کم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ ان پر یہ نظام نافذ کیا جائے اور دوسری طرف ایک محدود اقلیت ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کی امکانیت کی قائل نہیں اور یہ اقلیت محض طاقت اور اقتدار کے بل بوتے پر اسلامی نظام حیات کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ‘ لہذا اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے بعینہ وہ طریق کار جس میں تمام لوگوں کو غیر مسلم فرض کرکے اختیار کیا جاتا ہے ‘ نہیں اپنایا جاسکتا ۔ ایک دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ دور اول میں اسلامی قوانین کی تفصیلات پر وہ غیب میں مستور تھیں اور جاہلیت کے حامل صرف انہیں قوانین اور احکامات پر اعتراض کرسکتے تھے جو نازل ہوجاتے تھے ۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسلامی نظام حیات مفصل طور پر قرآن وسنت میں موجود ہے ۔ اسلامی تاریخ مدون ہے اور جاہلیت کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اسلامی ثقافت کے بارے میں قسم قسم کے اعتراضات اٹھائے ۔

لہذا اسلامی نظام حیات کے احیاء کے ابتدائی طریق کار کے ہر مرحلے میں یہ ضروری ہوگا کہ جاہلیت کے اعتراضات کا دفعیہ کیا جائے اور اسلامی قوانین کے مختلف گوشوں کی وضاحت کی جائے ، نیز اس وقت ساری دنیا کو زندگی کے اساسی مسائل کا سامنا ہے اور مختلف نظام ہائے حیات کی باہمی آویزش میں صرف وہی نظام حیات کامیاب ہوسکتا ہے جو عالمی مسائل کا بہترین حل پیش کرتا ہو۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ تحریک اسلامی اس میدان میں بھی اسلامی نظام حیات کی برتری کو ذہن نشین کرائے ۔ اس طرح صحیح خطوط پر اسلامی تحقیقات کا کام بھی اشد ضروری ہوجاتا ہے ۔ ان حقائق کے پیش نظر سید قطب کا یہ فرمان کہ اسلامی قانون کی تفصیلات کو بالکل نہ چھیڑا جائے خالی از مبالغہ نہیں ہے)

احیائے دین کا اسلامی طریق کار اور خود اسلامی نظام حیات آپس میں عین ہیں ۔ ان کے درمیان کوئی فرق اور جدائی نہیں ہے ۔ اس طریق کار کے سوا کوئی دوسرا طریق کار اسلامی نظام حیات کو جنم نہیں دے سکتا ۔ کسی دوسرے طریق کار کے نتیجے میں کوئی انسانی اور جاہلی نظام حیات ہی جنم لے سکتا ہے ۔ اسلامی نظام حیات کا احیاء اس کے مطابق ہر گز نہیں ہو سکتا ۔ غرض اس پوری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ احیائے دین کی ہر تحریک اور ہر کوشش میں ‘ احیائے دین کے اسلامی طریق کار کا التزام ضرری ہے ۔

یہ میری آخری بات ہے اور مجھے یہ یقین ہے کہ اس طویل نوٹ کے ذریعے میں نے مکی سورتوں اور ان کے اندر طے کردہ منہاج کی پوری پوری وضاحت کردی ہے ۔ اب ان تمام قائدین کو چاہیے کہ وہ اپنی تحریکوں کے لئے اسلامی منہاج کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں اور جو اسلام کا کام کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر اطمینان کرلیں اور امید رکھیں کہ وہ جس منہاج کو پا چکے ہیں وہ خیر اور بھلائی ہے اور یہ کہ وہی بلند ترین لوگ ہیں اور یہ کہ قرآن کریم جو راہ دکھاتا ہے وہ اقوام اور مضبوط ہے ۔ (آیت) ” ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم)

اب ہم کچھ بات اس سورة کے بارے میں کرتے ہیں ۔ ضلال القرآن میں یہ پہلی مکی سورة ہے جس پر ہمیں کلام کرنے کا موقعہ مل رہا ہے اور یہ سورة مکی قرآن اور مکی انداز کلام اور مضامین کی ایک مکمل تصویر ہے ‘ جس کے خصائص ‘ جس کے مزاج اور مضامین کے بارے میں ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں ۔ اس سورة میں قرآن کریم کے خصائص ‘ اس کے منہاج کلام ‘ اس کے موضوع اساسی ‘ اور طرز ادا کے زاوے سے ایک مثالی بحث موجود ہے ۔ اس عمومی اسلوب کو اپناتے ہوئے سورة کے اپنے مزاج کو بھی قائم رکھا گیا ہے ۔ جس طرح قرآن کریم کی تمام سورتوں کی یہ خصوصیت ہے کہ ان میں قرآن کریم کے عمومی اسلوب اور اخذ کے ساتھ ساتھ سورة کا ایک خاص مزاج اور اسلوب بھی قائم رکھا گیا ہے ۔ اور ہر سورة کا مخصوص ماحول دوسری سورتوں میں نہیں پایا جاتا ۔ چناچہ قرآن کریم کی ہر سورة کی اپنی ذاتی شخصیت بھی ہوتی ہے ‘ اس کا ایک علیحدہ محور ہوتا ہے ‘ ہر سورة کے مخصوص خدوخال ہوتے ہیں اور اس کا ایک بڑا موضوع ہوتا ہے جس کے گرد تمام مباحث گھومتے ہیں ۔ پھر اس موضوع کی مناسبت اور دوسرے اسباب جو ادائے مطلب کو نہایت ہی موثر بناتے ہیں ۔ مخصوص منظر کشی ‘ مخصوص سائے اور مخصوص فضا ہر سورة میں ممیز وممتاز نظر آتی ہے ۔

ہر سورة میں مخصوص اسلوب کے جملے بار بار تکرار کے ساتھ آتے ہیں ۔ موضوعات بعض اوقات ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں ‘ سورة کی شخصیت کا تعین موضوع سے نہیں ہوتا بلکہ کچھ دوسرے خدوخال ہوتے ہیں جو اس سورة کی شخصیت کے لئے سیٹ کا کام دیتے ہیں جو اس سورة کے ساتھ خاص ہوتے ہیں اور دوسری سورتوں میں نہیں ہوتے ۔

رہی سورة زیر بحث تو اس کا ایک مرکزی موضوع ہے اور یہ موضوع ہر لمحہ ‘ ہر وقت ‘ ہر منظر میں نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ ایسی خوبصورتی کے ساتھ جس کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا جائیں ۔ انسان انگشت بدنداں رہ جائے ار اس کی سانس رک جائے ، اس وقت جبکہ کوئی اس کے مناظر پر غور کرے ‘ اس کے زیروبم کو دیکھے اور اس کے اثرات کو محسوس کرے ۔

ہاں یہ ایک حقیقت بہت اہم ہے ‘ میں اپنے نفس کے اندر اس حقیقت کو پاتا ہوں ‘ جب بھی اس سورة کے سیاق کلام کے ساتھ چلتا ہوں ‘ اس کے مناظر کی سیر کرتا ہوں اور اس کے اثرات کو محسوس کرتا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص بھی ایک حساس دل رکھتا ہے ‘ وہ ضرور ان احساسات میں سے کچھ نہ کچھ پائے گا جو میں محسوس کرتا ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس سورة کی خوبصورتی انسان کو مبہوت کردیتی ہے اور دل و دماغ مسحور ہو کر اس کے ساتھ چلتے ہیں ۔

یہ سورة مجموعی لحاظ سے اللہ کی حاکمیت سے بحث کرتی ہے ۔ اس پوری کائنات کے دائرے میں بھی اور انسانی زندگی کے دائرے میں بھی ۔ انسانی نفس اور ضمیر کے دائرے میں بھی اور اس دکھائی دینے والی کائنات کے نامعلوں رازوں کے دائرے میں بھی ، نیز عالم الغیب کے نامعلوم رازوں کے دائرے میں بھی ۔ یہ سورة اس کائنات کی تخلیق اس کرہ ارض کے اوپر زندگی کی تخلیق ‘ پھر حیوانات کے اوپر انسان کی تخلیق کے باب میں تصور حاکمیت الہ کو پیش کرتی ہے ۔ پھر تاریخی زوایے سے یہ سورة گزرنے والوں کی باہمی کشمکش اور پھر ان کی جگہ لینے والوں کی جانشینی میں بھی حاکمیت الہیہ کے کچھ رنگ دکھاتی ہے غرض اس کائنات کے اوپر نظر ڈالتے ہوئے مظاہر فطرت پر اللہ کی حاکمیت ‘ دنیا میں رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات میں اللہ کی حاکمیت ‘ اور دنیا میں خوشحالی اور بدحالی میں اللہ کی حاکمیت اس سورة کا موضوع ہے ۔ قدرت الہیہ کے مختلف مظاہر ومشاہد میں اللہ حاکمیت ‘ انسانی زندگی کے اوپر اللہ کی ظاہری اور باطنی گرفت میں اللہ کی حاکمیت ‘ اس کرہ ارض پر رونما ہونے والے واقعات و حوادث میں اللہ کی حاکمیت اور سب سے آخر میں مشاہد قیامت اور لوگوں کے بارگاہ الہی میں کھڑے ہونے میں اللہ کی حاکمیت ۔

وہ موضوع جو اس سورة میں آغاز سے انتہا تک چلتا ہے وہ نظریے کا موضوع ہے ۔ اس موضوع کے تمام عناصر ترکیبی نظریاتی ہیں اور اس کے تمام پوشیدہ معانی بھی نظریاتی ہیں ۔ یہ سورة انسانی معاشروں کا ہاتھ پکڑتی ہے اور انہیں لے کر اس پوری کائنات کی سیر کراتی ہے ۔ یہ انہیں اس کائنات کے نظریاتی سرچشموں اور ان کے ظاہری اور خفیہ اشارات کی سیر کراتی ہے ۔ نفس انسانی کو لے کر یہ زمین وآسمانوں کی بادشاہت میں چلتی ہے ۔ جہاں یہ نفس عالم ظلمات اور عالم نور کی سیر کرتا ہے ‘ سورج چاند اور ستاروں کے جھرمٹ دیکھتا ہے ۔ یہ اس زمین کے باغات میں سیر کرتا ہے جس میں قسم قسم کے پھل ہیں ۔ ان پر بارشیں ہو رہی ہیں اور ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ۔ پھر یہ سورة نفس انسانی کو ایسے معرکہ کار زار میں لا کر کھڑا کردیتی ہے جس میں گذشتہ اقوام مرتی مٹتی نظر آتی ہیں اور ان کے آثار قدیمہ نظر آتے ہیں ۔ پھر بحر وبر کے اندھیروں کی سیر کرائی جاتی ہے ۔ کچھ غیبی راز بتائے جاتے ہیں ۔ انسانی نفسیات کے راز آشکارا ہوتے ہیں ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ زندہ مردے سے نکلتا ہے اور مردہ زندے سے نکلتا ہے ۔ ایک بیج ہے جو زمین کے پیٹ کی تاریکیوں میں پوشیدہ ایک نطفہ ہے جو رحم کے اندھیروں میں پرورش پارہا ہے ۔ پھر اس سورة کی اسکرین پر جن وانس کے غور آتے ہیں پھر پرندوں اور دوسرے وحوش کے گلے آتے ہیں ۔ پھر اولین اور آخرین آتے ہیں ۔ زندہ لوگ اور مرے ہوئے لوگ بھی نظر آتے ہیں اور رات ودن کے وقت محافظین الہی بھی نظر آتے ہیں ۔

یہ بیشمار کائناتی مشاہد ومناظر انسانی حس اور انسانی نفس پر ہر جانب سے حملہ آور ہوتے ہیں انسان بالکل ایک نیا ٹچ محسوس کرتا ہے ۔ نہایت ہی زندہ احساس نفس کے اندر پیدا ہوتا ہے اور یہ مناظر اور یہ معانی پردہ خیال پر زندہ دوڑتے نظرآتے ہیں ۔ حالت یہ ہوجاتی ہے کہ مکرر اور دیکھے ہوئے مناظر اور احساسات بھی بالکل نئے اور انوکھے نظر آتے ہیں ‘ بالکل جدید اور بالکل متحرک اور زندہ ۔ انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ احساس اور یہ شعور بالکل پہلی مرتبہ حاصل ہوا ہے ۔ گویا اس سے قبل کوئی انسانی ضمیر اور شعور ان احساسات سے کبھی دوچار نہ ہوا تھا ۔

یہ سورة اپنے ان شاہدات ومواقف ‘ اپنے اشارات واثرات اور اپنی تصاویر وشیڈز کے ساتھ اس طرح جاری وساری ہے جس طرح کوئی دریا اپنی امواج کے ساتھ جاری وساری رہتا ہے ۔ ایک موج ساحل سے نہیں ٹکراتی کہ دوسری اٹھتی ہے ۔ امواج کے ان نشیب و فراز میں اس سورة کا دریا مسلسل آگے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔

یہ سورة اپنی امواج کے اس مسلسل طلاطم کے ساتھ اور اپنی امواج کے باہم ٹکراؤ کے ساتھ اس قدر خوبصورت نظر آتی ہے کہ انسان محسور ہوجاتا ہے ۔ اس خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مضامین اور مفاہیم کو بھی نہایت ہی ہم آہنگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے اور اس قدر اثر انگیز طریقے سے مضامین پیش کئے گئے ہیں کہ انسان کے احساسات دنگ رہ جاتے ہیں ۔ نہایت ہی زندہ ‘ متحرک ہم آہنگ اور موثر صوتی اثرات والے الفاظ ہیں جو نفس انسانی پر ہر جہت اور ہر سمت سے اثرات والے الفاظ ہیں جو نفس انسانی پر ہر جہت اور ہر سمت سے اثر انداز ہو کر اسے مسحور کردیتے ہیں ۔ زندگی سے بھرپور فقرے ‘ موثر صوتی اور تصویری انداز تعبیر نفس انسانی کے ہر پہلو پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے ۔

ہمیں یقین ہے کہ ہم اس سورة میں وہ اثرات جو دل و دماغ پر مرتب ہوتے ہیں ‘ ان کا اظہار ہم اپنے الفاظ میں نہیں کرسکتے ۔ بہتر تو یہ ہے کہ پڑھنے والا اسے خود پڑھے اور خود براہ راست اس کے اثرات اور کرشمے محسوس کرے ۔

اس سورة کے ادبی اور اشاراتی اوصاف ہم اپنے انسانی الفاظ اور فقروں میں بیان ہی نہیں کرسکتے ۔ البتہ ہم ان لوگوں کو اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ذریعے ایک راہ دکھلاتے ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے ۔ ان کی زندگی اور قرآن کے درمیان خلیج واقعہ ہوگئی ہے اور وہ قرآن کی فضا سے متضاد فضاؤں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔

قرآنی فضا میں زندگی گزارنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم قرآن مجید کی تعلیم حاصل کریں ‘ اس کو قرات کے ساتھ پڑھیں اور اس کے علوم وفنون سے آگاہ ہوں اور اس کی ادبی خوبیاں ہمیں معلوم ہوں ۔ یہ قرآنی فضا نہیں ہے ۔ قرآن کی فضا میں زندگی گزارنے کے معنی ہمارے نزدیک یہ ہیں کہ انسانی ایسے حالات میں ‘ ایسی فضا میں ایسی کشمکش میں ‘ ایسی مشکلات میں اور ایسی اقدار میں زندگی بسر کرے جس طرح دور اول میں نزول قرآن کے وقت تھی ۔ اس طرح کہ گویا قرآن ابھی نازل ہو رہا ہے ۔ انسان اس جاہلیت کے بالمقابل زندگی بسر کرے جو اس وقت پورے کرہ ارض پر چھائی ہوئی ہے ۔ انسان اپنے دل میں اپنے ارادوں میں ‘ اپنی حرکات میں ‘ جاہلیت کا مقابلہ کر رہا ہو ‘ اپنے نفس اور لوگوں کے نفس کے اندر اسلام کو پید اکر رہا ہو ‘ اپنی زندگی میں اور لوگوں کی زندگیوں میں ‘ جاہلیت کا مقابلہ کرتے ہوئے از سر نو اسلام کو پیدا کر رہا ہو۔ وہ جاہلیت کے تمام تصورات ‘ جاہلیت کی تمام ترجیحات ‘ جاہلیت کی تمام رسومات اور جاہلیت کی تمام عملی صورت حال کا از سرنو مقابلہ کرے ۔ جاہلیت کے تمام پریشرز ‘ جاہلیت کی ہر قسم کی معرکہ آرائی ‘ ہر قسم کے مقابلے اور اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام حیات پر ہر قسم کے حملے کے سامنے صف آراء ہوجائے ۔ اسلامی نظام اور اسلامی نظریہ حیات کے تمام تقاضے پورے کرے ‘ اسلام کی راہ میں جہاد کرے اور اس پر مصر رہے ۔ یہ ہے قرآنی فضا کا مفہوم ۔

یہ ہے وہ قرآنی فضا جس میں رہنے کا تقاضا یہ قرآن کرتا ہے ‘ صرف اسی صورت میں کوئی صاحب ذوق فہم قرآن کو پاسکتا ہے ۔ اس لئے کہ ایسے ہی حالات میں یہ قرآن نازل ہوا ‘ ایسے ہی بحر مشکلات میں قرآن نے اپنا کام کیا جو مسلمان ایسی فضاؤں سے ناآشنا ہیں ۔ وہ قرآن سے محروم ہیں ۔ اگرچہ وہ اسلامی مدارس میں پڑھتے ہوں ‘ قاری ہوں اور قرآنی علوم وفنون کے ماہر ہوں ۔

قرآن کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے مخلصین کے استعمال کے لئے ہم جو فہم قرآن کا پل تعمیر کر رہے ہیں ‘ اس کا فائدہ ان مخلصین کو تب ہی ہوگا کہ وہ اس پل کو عبور کر کے قرآن کی دنیا میں داخل ہوجائیں ‘ وہ اس جہاں اور منطقے کو چھوڑ کر ایک دوسرے علاقے میں داخل ہوجائیں ‘ اور اپنے عمل اور اپنی جدوجہد کے ذریعے وہ قرآن کی فضا میں داخل ہوجائیں ‘ اور یہ فضا وہ خود پیدا کریں ‘ صرف اس وقت ان کو قرآن کا ذائقہ محسوس ہوگا اور صرف اس وقت ہی وہ محسوس کریں گے کہ اللہ نے انہیں ایک نعمت سے نوازا ہے ۔

یہ سورة اسلامی نظریہ حیات سے بحث کرتی ہے ۔ اس کا موضوع اللہ کی الوہیت اور بندے کی بندگی ہے ۔ یہ سورة اللہ کے بندوں کے سامنے اللہ کا تعارف پیش کرتی ہے کہ اللہ کیا ہے ؟ اس کائنات کی اصلیت کیا ہے ؟ اس کی پشت پر کیا راز ہائے دروں ہیں ؟ یہ انسان کون ہیں ؟ انہیں کون وجود میں لایا ہے ؟ انہیں کس نے پیدا کیا ؟ انہیں رزق کون فراہم کرتا ہے ؟ ان کی کفالت کون کرتا ہے ؟ ان کے معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ ان کے دلوں اور ان کے نقطہ نظر میں تبدیلی کون لاتا ہے ؟ ان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟ ان کی زندگی کو یہاں محدود کیوں رکھا گیا ہے ؟ ان کا انجام کیا ہوگا ؟ یہ زندگی کیا ہے اور اس کی بوقلمونیاں کیا ہیں ؟ اس کرہ ارض پر اسے کس نے پھیلایا ؟ یہ پانی کیا ہے ؟ یہ چشمے ‘ یہ پھل اوپر نیچے ‘ یہ شہاب ثاقب ‘ یہ صبح کی نموداری ‘ یہ رات کی تاریکی ‘ یہ آسمانوں کی گردش ‘ ان کے پیچھے کون ہے ؟ اور ان کے پیچھے کیا راز ہیں ؟ کیا اطلاعات ہیں ؟ یہ اقوام ‘ یہ صدیاں ‘ یہ اقوام ہلاکت سے کیوں دوچار ہوتی ہیں ؟ اور پھر نئے لوگوں کو اوپر لا کر جس آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ان کا انجام ‘ آزمائش اور جزاء وسزا کس طرح وقوع پذیر ہوتی ہے عمل اور مکافات عمل کا یہ کیا چکر ہے ؟

اس طرح یہ سورة قلب انسانی کو لے کر ان تمام ابعادوآفاق تک لے جاتی ہے اور ان تمام نشیب و فراز کی سیر کراتی ہے ۔ لیکن پوری سورة میں قرآن کریم کا مکی انداز برقرار ہے جس کے اسلوب کے بارے میں ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں ۔ مکی اسلوب کے ساتھ ساتھ پورے قرآن کا انداز کلام بھی اس سورة میں اپنے اعلی میعار پر ہے ۔ انداز بحث صرف نظریاتی نہیں ہے اور نہ ہی لاہوتی جدلیات پر مشتمل ہے کہ قارئین کے افکار اور ان کے ذہنوں کو مشغول کیے رکھے ‘ بلکہ سیدھے سادے انداز میں ‘ یہ سورة رب العالمین کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے تاکہ اپنے سچے رب کی بندگی اور غلامی اختیار کریں ۔ ان کا ضمیر اور ان کی روح اللہ کی غلام ہوجائے ۔ ان کی جدوجہد اور انکی تمام مساعی اللہ کی تابعداری میں ہوں ‘ ان کے رسوم اور رواج اللہ کی اطاعت میں ہوں اور ان کی زندگی کی پوری عملی صورت حال اللہ وحدہ کی حاکمیت کے تحت ہو جس کے سوا زمین وآسماں کے اندر کسی کی حاکمیت نہیں ہے ۔

یوں نظر آتا ہے کہ یہ سورة اول سے آخر تک ایک متعین نصب العین کی طرف بڑھ رہی ہے ‘ یہ کہ اللہ ہی خالق ہے ‘ وہی مالک ہے ‘ وہی قدرتوں والا ہے اور وہی بادشاہ اور قہار ہے ۔ وہی پوشیدہ چیزوں اور غیب کا جاننے والا ہے ۔ وہ جس طرح رات اور دن کو گردش دے رہا ہے اسی طرح وہ دلوں اور دماگوں کا بھی پھیرنے والا ہے اس لئے اسی کو تمام لوگوں کی زندگیوں پر حاکم ہونا چاہئے اور لوگوں کی زندگیوں میں امر اور نہی کا اختیار صرف اسے ہونا چاہئے ۔ کوئی حکم کوئی قانون اس سے سوا نہ ہوگا ۔ حلال و حرام کے تعین کا اختیار بھی صرف اسی کو ہے ۔ اس لئے کہ یہ تمام امور اللہ کی الوہیت کے عناصر ترکیبی ہیں ۔ لہذا لوگوں کی زندگیوں میں ان کے بارے میں تصرف صرف اللہ کرسکتا ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے ‘ نہ کوئی رازق ہے ‘ نہ زندہ کرنے والا ہے ‘ نہ مارنے والا ہے ‘ نہ نفع دینے والا ہے ‘ نہ نقصان دینے والا ہے نہ کوئی داتا ہے اور نہ کوئی مانع ہے ۔ غرض نہ اللہ کے سوا کوئی بھی کسی کے لئے یا اپنے نفع ونقصان کا مالک ہو سکتا ہے ‘ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں ۔ اس سورة میں اول سے آخر تک اس مقصد کے لئے دلائل و شواہد پیش کئے گئے ہیں اور یہ دلائل ان مشاہدات ‘ مؤثرات اور قدرتی مواقف کے ذریعے پیش کئے گئے ہیں جو اس کائنات میں موجود ہیں اور فکر ونظر کو مسحور کرنے والے ہیں ۔ ان مناظر فطرت کے اس مطالعے سے دل پر ہر طرف سے اشارات ومؤثرات ہر دروازے اور ہر پہلو سے ہوتے ہیں ۔

وہ سب سے بڑا مسئلہ جس پر یہ سورة زور دے رہی ہے ‘ وہ زمین وآسمانوں کے اندر اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کا مسئلہ ہے ۔ زمین و آسمان کے وسیع دائرے میں اور اس کائنات کے وسیع و عریض میدان میں تصور حاکمیت الہیہ کا مسئلہ ۔ یہ سورة اسی مسئلے کو پیش کرتی ہے لیکن اخلاقی انداز اور بات کی مناسبت یہ ہے کہ جاہلیت کے پیروکار بعض ذیبحوں اور بعض کھانوں کے معاملے میں حلال و حرام کے اختیارات اللہ کے سوا دوسروں کو دیتے تھے ۔ اسی طرح نذر بعض قربانیوں بعض پھلوں اور بعض بچوں کے سلسلے میں جاہلیت کے پرستار اللہ کے سوا دوسروں الہوں کو اختیارات دیتے تھے ۔ اس مناسبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کے اندر نظریہ حاکمیت الہیہ یہاں تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور اس مناسبت کی طرف سورة کی آخری آیات کے اندر اشارے کئے گئے ہیں ۔

(پھر اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ‘ تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت کھاؤ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں ‘ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی ۔ جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے ۔ اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت نہ کھاؤ ‘ ایسا کرنا فسق ہے ۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو گے ۔ (6 : 118۔ 121)

(اور ان لوگوں نے اللہ کے لئے خود اس کی پیدا کی ہوئی کھیتوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے ‘ اور کہتے ہیں یہ اللہ کیلئے ہے بزعم خود ‘ اور یہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے ۔ پھر جو حصہ ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لئے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے کیسے برے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ ۔ اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لئے ان کے شریکوں نے اولاد کے قتل کو خوشنما بنایا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے ‘ لہذا انہیں چھوڑ دو کہ یہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں ۔ کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں ۔ انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے ۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کردی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افتراء کیا ہے ۔ عنقریب اللہ انہیں ان کی افتراء پر دازیوں کا بدلہ دے گا اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کیلئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ‘ لیکن اگر وہ مردہ ہوں تو دونوں اس کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ۔ یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا ۔ یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے ۔ یقینا خسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت اور نادانی کی وجہ سے قتل کیا اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو اللہ پر افتراء پردازی کر کے حرام ٹھہرا لیا ۔ یقینا وہ بھٹک گئے اور ہر گز وہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے ۔ (6 : 136۔ تا 140)

امت مسلمہ کی زندگی میں یہ ایک عملی پہلو تھا ‘ جس کی مناسبت سے اس سورة میں اس عظیم مسئلہ کو لیا گیا ۔ اس دور میں امت مسلمہ کے ماحول پر بھی جاہلیت چھائی ہوئی تھی جس میں قانون سازی اور حلال و حرام کے تعین کے معاملے میں یہ شرکیہ عقائد موجود تھے ۔ ان کی اصلاح کے حوالے سے یہاں اللہ کی الوہیت ‘ اللہ کی حاکمیت اور تمام انسانوں کی بندگی اور عبودیت کے مسائل کو لیا گیا ۔ چناچہ جس طرح تمام مکی قرآن میں اس مسئلے کو لیا گیا ہے ‘ اسی طرح اس سورة میں بھی اس مسئلے کو بڑی تفصیل سے لیا گیا ہے ۔ مدنی آیات میں جہاں بھی حلال و حرام اور حق قانون سازی کا بیان آتا ہے وہاں بھی مسئلہ حاکمیت الہیہ کو لیا جاتا ہے ۔

اس سیاق کلام میں جن موثر ہدایات اور فیصلوں اور قرار دادوں کا سیلاب امنڈتا چلا آرہا ہے اور ان جانوروں ‘ نذروں اور ذبیحوں کے بارے میں اہل شرک کی جو تردید کی جارہی ہے ‘ اسی حوالے سے یہاں اللہ کے مسئلہ الوہیت اور اللہ کے حق قانون سازی کو بھی بیان کیا جا رہا ہے ۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ حلال و حرام کی اس قانون سازی کا تعلق اسلامی عقائد اور اسلامی نظریات کے ساتھ ہے ۔ وہ نظریہ اسلام کا نظریہ حاکمیت الہیہ اور انسانوں کی بندگی اور غلامی کا ہے اور یہ مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ‘ اسلام اور کفر اور اسلام اور جاہلیت کا مسئلہ ہے ۔ ہدایات کے اس سیلاب میں سے ہم یہاں اس سورة کے تعارف میں صرف چند نمونے پیش کریں گے لیکن ان کی مکمل تفصیلات اس وقت آئیں گی جب ہم اس سورة کی آیات پر تفصیلی بحث کریں گے ۔ لیکن اپنے اثرات کے اعتبار سے یہ سیلاب نفس انسان کے اندر اس دین کے مزاج کی حقیقی ماہیت بٹھا دیتا ہے ۔ وہ یہ کہ انسانی زندگی کا چھوٹا مسئلہ ہو یا بڑا ‘ ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے حق حاکمیت کے تحت حل ہونا چاہئے اور اللہ کی حاکمیت اسلامی شریعت کی صورت میں ریکارڈ شدہ ہے ۔ اگر اس طرح نہ ہوگا تو پھر یہ تصور ہوگا ۔ کہ ایسے لوگ یا معاشرہ دین سے خارج ہے ۔ ایک جزوی مسئلے یا معمولی مسئلے کی حد تک انسان دین سے نکل گیا ہے ۔

ہدایات کا یہ کثیر مجموعہ اس بات کا کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ دین انسانی زندگی کے تمام مظاہر سے اور زندگی کے تمام معاملات میں سے انسانوں کی حاکمیت کو ختم کرتا ہے ۔ یہ معاملات اہم ہوں یا غیر اہم ‘ بڑے ہوں یا چھوٹے ‘ ان معاملات کو اس عظیم اصول کے دائرے کے اندر لاتا ہے ۔ یعنی یہ کہ اللہ کی الوہیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پورے کرہ ارض پر حاکم مطلق ہے اور وہ بلاشرکت غیرے اس کائنات کے اوپر متصرف ہے ۔ یہ اصول دین اسلام کے اندر پوری طرح ظاہر اور مجسم ہے ۔

اس سورة میں مویشیوں ‘ پھلوں ‘ نذر ونیاز اور اولاد کے بارے میں دور جاہلیت کی رسومات اور شعائر کے ذکر کے بعد مختلف قسم کے تبصرے بھی کئے گئے ہیں ‘ جن سے اس بات کا اظہار مطلوب ہے کہ یہ رسومات اور شعائر نہایت ہی احمقانہ ‘ نہایت ہی متضاد ہیں ۔ بعض میں یہ کہا گیا ہے کہ انسان کا یہ حق نہیں ہے کہ حلال و حرام کا تعین خود کرے بلکہ یہ کام تو ایک عظیم نظریاتی کام ہے اور حلال و حرام کے تعین میں اللہ کے احکام کی اطاعت ہی درست راستہ اور صحیح طرز عمل ہے ۔ اگر کوئی شخص حلال و حرام کے تعین میں اللہ کے احکام کی اطاعت نہیں کرتا تو وہ دین سے خارج ہے ‘ سابقہ آیات کے بعد ملاحظہ ہو ذرا طرز ادا اور پھر تبصرے :

” وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کئے ۔ کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں ‘ زیتون اور انار کے درخت پیدا کئے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں ۔ کھاؤ اس کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو ‘ جب ان کی فصل کاٹو ‘ اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کئے جن سے سواری وبار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں ۔ کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ یہ آٹھ نرو مادہ ہیں ‘ دوبھیڑ کی قسم سے ‘ دو بکری کی قسم سے اے محمد ﷺ ان سے پوچھو کہ اللہ نے ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ ‘ یا وہ بچے جو بھیڑوں اور بکریوں کے پیٹ میں ہوں ؟ ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتاؤ اگر تم سچے ہو اور اسی طرح دو اونٹ کی قسم سے ہیں اور دو گائے کی قسم سے ۔ پوچھو ‘ ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ یا وہ بچے جو اونٹنی اور گائے کے پیٹ میں ہوں ۔ کیا تم اس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم دیا تھا ؟ “ پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کرکے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی راہنمائی کرے یقینا اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا ۔ اے محمد ﷺ ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو ‘ الا یہ کہ وہ مردار ہو ‘ یابہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو ‘ کہ وہ ناپاک ہے ‘ یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور کی حالت میں بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے ‘ یقینا تمہارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجر اس کے کہ جو ان کی پیتھ یا آنتوں سے لگی ہوئی ہو ‘ یا ہڈی سے لگی رہ جائے ۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی ‘ اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں اب اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو ان سے کہہ دو کہ تمہارے رب کا دامن رحمت وسیع ہے اور مجرموں سے اس کے عذاب کو پھیرا نہیں جاسکتا ۔ یہ مشرک لوگ ضرور کہیں گے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔ “ ایسی ہی باتیں بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزہ انہوں نے چکھ لیا ۔ ان سے کہو ’ ” کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو ؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو ۔ “ پھر کہو ” حقیقت رس حجت تو اللہ کے پاس ہے ‘ بیشک اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۔ “ ان سے کہو ” کہ لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے ۔ “ پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا اور ہر گز ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور جو آخرت کے منکر ہیں اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں ۔ اے محمد ﷺ ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم کیا کیا پابندیاں عائد کی ہیں ۔ ؟

(1) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔

(2) اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔

(3) اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ‘ ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے اور بےشرمی کی باتوں کے قریب نہ جاؤ ۔ خواہ وہ کھلی ‘ یا چھپی ہوں۔

(4) اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ یہ باتیں ہیں جس کی ہدایت تمہیں اس نے کی ہے شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو ۔

(5) اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو ‘ یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے ۔

(6) اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو ‘ ہم ہر شخص پر ذمہ داریوں کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے ۔

(7) اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنی رشتہ داری کا کیوں نہ ہو۔

(8) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ۔۔۔۔۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔

(9) نیز اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے ‘ لہذا اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کردیں گے ۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو ۔ “

یہاں یہ بات نظر آتی ہے کہ مویشیوں ‘ جانوروں اور پھلوں اور بچوں کی نذر ونیاز کی جو رسوم جاہلیت میں مروج تھیں ان کے جواز اور عدم جواز کے ایک بالکل جزوی مسئلے کو بھی عظیم نظریاتی اور فکری مسائل کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔ اس جواز وعدم جواز کو ہدایت اور گمراہی ‘ اسلامی نظام کے اتباع اور شیطانی نظام کے اتباع اور اللہ کی رحمت اور اللہ کی پکڑ کے مسائل کے ساتھ جوڑ دیا گیا جو زندگی کے اہم ترین مسائل ہیں ۔ یہ قرار دیا گیا کہ ان مسائل سے عقیدہ توحید اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو برابر کرنے کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ قرار دیا گیا کہ جو لوگ غیر اللہ کی نذر ونیاز دیتے ہیں وہ اللہ کے صراط مستقیم سے ہٹ گئے ہیں ۔ اس لئے ان مسائل کی اہمیت کے پیش نظر وہی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو ان بلند نظریاتی مسائل کے اظہار کے لئے اختیار کی گئی تھیں ۔

یہ وجہ ہے کہ یہاں اشارات و دلائل کا وہی رنگ اختیار کیا گیا ہے جو قرآن کریم ان مسائل عالیہ کے لئے اختیار کرتا ہے ۔ مسئلہ تخلیق اور مختلف زندہ چیزوں کی اقسام ‘ باغات اور تاکستان ‘ نخلستان اور کھیت ‘ مختلف رنگ اور ذائقے ‘ زیتون ‘ انار ‘ ایک سے ذائقے اور مختلف ذائقے وغیرہ ۔ وہ حقائق بھی لائے گئے جو عقیدہ توحید کے لیے لائے جاتے ہیں اور یہاں مشرکین کے لئے اللہ کے عذاب اور پکڑ کو بھی لایا گیا ہے ۔

یہ تمام مشاہد ومناظر اس سے پہلے بھی اس سورة میں پیش کئے گئے ‘ جب موضوع عقیدہ توحید تھا ۔ اس وقت نذر ونیاز کا مسئلہ زیر بحث نہ تھا ۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ جہاں بات عقیدہ توحید کی ہو اور اللہ کی حاکمیت کا مسئلہ زیر بحث ہو تو قرآن کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے چاہے کوئی جزوی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

آیت 1 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ط یہاں ایک خاص نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ قرآن مجید میں تقریباً سات سات پاروں کے وقفے سے کوئی سورة اَلْحَمْدُ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن کا آغاز اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے ہوا ہے ‘ پھر ساتویں پارے میں سورة الانعام اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ج سے شروع ہو رہی ہے ‘ اس کے بعد پندرھویں پارے میں سورة الکہف کا آغاز اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۔ سے ہو رہا ہے ‘ پھر بائیسویں پارے میں اکٹھی دو سورتیں سورۂ سبا اور سورة فاطر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سے شروع ہوتی ہیں۔ گویا قرآن کا آخری حصہ بھی اس کے اندر شامل کردیا گیا ہے۔ اس طرح تقریباً ایک جیسے وقفوں سے سورتوں کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف سے ہوتا ہے۔ دوسری بات یہاں نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ اس آیت میں خَلَقَ اور جَعَلَ دو ایک جیسے افعال مادّی اور غیر مادّی تخلیق کا فرق واضح کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ آسمان اور زمین چونکہ مادّی حقیقتیں ہیں لہٰذا ان کے لیے لفظ خَلَقَ آیا ہے ‘ لیکن اندھیرا اور اجالا اس طرح کی مادّی چیزیں نہیں ہیں بلکہ اندھیرا تو کوئی چیز یا حقیقت ہے ہی نہیں ‘ کسی جگہ یا کسی وقت میں نور کے نہ ہونے کا نام اندھیرا ہے۔ اس لیے ان کے لیے الگ فعل جَعَلَاستعمال ہوا ہے کہ اس نے ٹھہرا دیے ‘ بنا دیے ‘ نمایاں کردیے اور معلوم ہوگیا کہ یہ اجالا ہے اور یہ اندھیرا ہے۔ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُوْنَ یعنی یَعْدِلُوْنَ بِہٖ شُرَکَاءَ ھُمْکہ ان نام نہاد معبودوں کو اللہ کے برابر کردیتے ہیں ‘ جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ صفات یا حقوق میں شریک سمجھا ہوا ہے ‘ حالانکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ ظلمات اور نور کا بنانے والا بھی تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ لیکن پھر بھی ان لوگوں کے حال پر تعجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہراتے ہیں۔شرک کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی مورتی ہی سامنے رکھ کر اس کو سجدہ کیا جائے ‘ بلکہ اور بہت سی باتیں اور بہت سے نظریات بھی شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر دور میں بھیس بدل بدل کر آتی ہے ‘ چناچہ اسے پہچاننے کے لیے بہت وسعت نظری کی ضرورت ہے۔ مثلاً آج کے دور کا ایک بہت بڑا شرک نظریۂ وطنیت ہے ‘ جسے علامہ اقبال نے سب سے بڑا بت قرار دیا ہے ع ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے ! یہ شرک کی وہ قسم ہے جس سے ہمارے پرانے دور کے علماء بھی واقف نہیں تھے۔ اس لیے کہ اس انداز میں وطنیت کا نظریہ پہلے دنیا میں تھا ہی نہیں۔ شرک کے بارے میں ایک بہت سخت آیت ہم دو دفعہ سورة النساء آیت 48 اور 116 میں پڑھ چکے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج اللہ تعالیٰ اسے ہرگز معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ‘ البتہ اس سے کمتر گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ شرک سے کمتر گناہوں میں سے جو چاہے گا ‘ جس کے لیے چاہے گا ‘ بغیر توبہ کے بھی بخش دے گا ‘ البتہ شرک سے بھی اگر انسان تائب ہوجائے تو یہ بھی معاف ہوسکتا ہے۔ سورة النساء کی اس آیت کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے بات نہیں ہوئی تھی ‘ اس لیے کہ شرک دراصل مدنی سورتوں کا مضمون نہیں ہے۔ شرک اور توحید کے یہ مضامین حوا میم وہ سورتیں جن کا آغاز حٰآ سے ہوتا ہے میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوں گے۔ وہاں توحید عملی اور توحید نظری کے بارے میں بھی بات ہوگی۔ سورة الفرقان سے سورة الاحقاف تک مکی سورتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے ‘ جس میں سورة یٰسٓ‘ سورة فاطر ‘ سورة سبا ‘ سورة صٓ اور حوا میم بھی شامل ہیں۔ سورة یٰسٓاس سلسلے کے اندر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں شامل تمام سورتوں کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔ بہرحال یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ جو حضرات شرک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حقیقت و اقسام شرک کے موضوع پر میری تقاریر سماعت فرمائیں۔ یہ چھ گھنٹوں کی تقاریر ہیں ‘ جو اسی عنوان کے تحت اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں بڑے بڑے جید علماء نے ان تقاریر کو پسند کیا ہے۔

اللہ کی بعض صفات اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کر رہا ہے گویا ہمیں اپنی تعریفوں کا حکم دے رہا ہے، اس کی تعریف جن امور پر ہے ان میں سے ایک زمین و آسمان کی پیدائش بھی ہے دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی ہے اندھیرے کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے لانا نور کی شرافت کی وجہ سے ہے، جیسے فرمان ربانی آیت (عن الیمین و الشمائل) میں اور اس سورت کے آخری حصے کی آیت (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ) 6۔ الانعام :153) میں یہاں بھی راہ راست کو واحد رکھا اور غلط راہوں کو جمع کے لفظ سے بتایا، اللہ ہی قابل حمد ہے، کیونکہ وہی خالق کل ہے مگر پھر بھی کافر لوگ اپنی نادانی سے اس کے شریک ٹھہرا رہے ہیں کبھی بیوی اور اولاد قائم کرتے ہیں کبھی شریک اور ساجھی ثابت کرنے بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے، اس رب نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس کی نسل سے مشرق مغرب میں پھیلا دیا، موت کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، آخرت کے آنے کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، پہلی اجل سے مراد دنیاوی زندگی دوسری اجل سے مراد قبر کی رہائش، گویا پہلی اجل خاص ہے یعنی ہر شخص کی عمر اور دوسری اجل عام ہے یعنی دنیا کی انتہا اور اس کا خاتمہ، ابن عباس اور مجاہد وغیرہ سے مروی ہے کہ قضی اجلا سے مراد مدت دنیا ہے اور اجل مسمی سے مراد عمر انسان ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا استدلال آنے والی آیت آیت (وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى) 6۔ الانعام :60) سے ہو، ابن عباس سے مروی ہے کہ آیت (ثم قضی اجلا) سے مراد نیند ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے، پھر جاگنے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے اور اجل مسمی سے مراد موت ہے یہ قول غریب ہے عندہ سے مراد اس کے علم کا اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہونا ہے جیسے فرمایا آیت (قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ) 7۔ الاعراف :187) یعنی قیامت کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہی ہے، سورة نازعات میں بھی فرمان ہے کہ لوگ تجھ سے قیامت کے صحیح وقت کا حال دریافت کرتے ہیں حالانکہ تجھے اس کا علم کچھ بھی نہیں وہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے، باوجود اتنی پختگی کے اور باوجود کسی قسم کا شک شبہ نہ ہونے کے پھر بھی لوگ قیامت کے آنے نہ آنے میں تردد اور شک کر رہے ہیں اس کے بعد جو ارشاد جناب باری نے فرمایا ہے، اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے، نعوذ باللہ اللہ کی برتر وبالا ذات اس سے بالکل پاک ہے، آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ) 43۔ الزخرف :84) یعنی وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے، یعنی آسمانوں میں جو ہیں، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے، اب اس آیت کا اور جملہ آیت (يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ) 6۔ الانعام :3) خبر ہوجائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ، جانتا ہے۔ پس یعلم متعلق ہوگا فی السموات وفی الارض کا اور تقدیر آیت یوں ہوجائے گی آیت (وھو اللہ یعلم سر کم و جھر کم فی السموات وفی الارض و یعلم ما تکسبون) ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت (وھو اللہ فی السموات) پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ آیت (وفی الارض یعلم سر کم و جھر کم) امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ہے۔

آیت 1 - سورۃ الانعام: (الحمد لله الذي خلق السماوات والأرض وجعل الظلمات والنور ۖ ثم الذين كفروا بربهم يعدلون...) - اردو